HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

انسان سے معاملہ

دنیا کے کاموں میں سب سے مشکل کام انسانوں سے معاملہ کرنا ہے۔ انسان بہت ہی پیچیدہ شخصیت رکھتا ہے۔ یہ مجموعۂ اضداد ہے۔ یہ اصول و ضوابط کی پابندی بھی کرتا ہے اور آرزوؤں اور مفادات کے زور پر تجاوز بھی کر ڈالتا ہے۔ نیک اور صلح جو ہوتے ہوئے بعض اوقات فساد کا رنگ پکڑ لیتا ہے۔ علم او ر فکر کا حامل ہو، تب بھی جہالت کا مرتکب ہوتا ہے۔ جب وہ محبت کر رہا ہوتا ہے، تب بھی بعض اوقات اپنی انا کی حفاظت سے دست بردار ہونا قبول نہیں کرتا اور جب وہ دشمنی پر اتر آتا ہے، تب بھی اخلاقی اصولوں کی پاس داری سے ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ بڑےبڑے آدرش اپناتا ہے اور بعض اوقات ایسے اقدامات کر ڈالتا ہے جو پاتال میں گرنے کی گواہی دیتے ہیں۔ بعض لوگ پستی میں گرے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن کسی مرحلے پر شاہین کے ہم پرواز دکھائی دیتے ہیں۔وہ متفق ہوتا ہے، لیکن اختلاف رکھتے ہوئے اور وہ اختلاف کر رہا ہوتا ہے، لیکن اتفاق چھپاتے ہوئے۔

اخلاق عالیہ انسان کی فطرت ہیں۔ لہٰذا وہ غلط بھی کر رہا ہو تو اس غلطی کا اخلاقی جواز تخلیق کرنے پر مجبور ہے۔ اگرچہ میزان عدل میں اس کی حیثیت پرِ کاہ کی بھی نہ ہو۔شاید اسی طرح کے مظہر کو قرآن مجید نے ’اللہ سے مخادعت‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔یہ چیز صرف مذہب ہی کے حوالے سے مشہود نہیں ہے، تعلقات اور معاملات میں بھی اس کا ظہور ہوتا ہے۔ افراد اپنے اقدامات اور فیصلوں کو اخلاقی جواز سے قابل قبول بناتے ہیں اور اس کے پردے میں ان کی کم زوریاں چھپی رہتی ہیں۔انسان کی انا اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ سادگی سے اپنی خطا اور کم زوری کا اعتراف نہ کرے، بلکہ اسے اپنی توجیہ کے زور پر جائز اور برمحل عمل ثابت کرنے کی کوشش کرے۔

اوپر بیان کردہ تفصیل کسی مجرم کی شخصیت کا بیان نہیں ہے، بلکہ یہ ایک معقول ، شریف اور باوفا آدمی سے پیش آنے والی بعض صورتوں کا تذکرہ ہے۔ مجرمانہ شخصیت سے بھی بعض اوقات خیر کی بات کا تجربہ ہوتا ہے، لیکن اس کی شخصیت کا اصل تعارف بے ایمان، دھوکے باز، چور، ڈاکو، قاتل اور زنا کار جیسے الفاظ ہیں۔ ہم جن افراد کی بات کر رہے ہیں، ان کا اصل تعارف اصحاب خیر کا ہے، لیکن ان سے کبھی کبھی اس کے برعکس جو صادر ہوتا ہے، اس کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔

انسانوں کے باہمی تعلقات میں بھی اسی طرح متضاد عناصر کی جھلک نظر آتی ہے۔ انسانی تعلق رشتے کا بھی ہے اور انسانی تعلق کا سبب نظریہ، مذہب، زبان ، وطن اور نسل وغیرہ بھی بنتے ہیں۔ اصلاً ہر تعلق کا عملی ظہور خیر خواہی، وفا، حمایت، غیرت، ہم آہنگی اور کام آنے کی صورت میں ہوتا ہے،لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عملی زندگی میں تعلق کے یہ مظاہر بہترین رشتوں میں بھی پوری شان سے نظر نہیں آتے۔ہم عام طورپر اس صورت حال کا مشاہدہ کرتے ہیں تو انسان کے بارے میں بری راے قائم کر لیتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انسان بنیادی طور پر اچھا ہے۔ البتہ کچھ اسباب کے تحت وہ تعلق کے بعض معیارات کو بعض اوقات پورا نہیں کر پاتا۔ اس میں یہ صورت بھی ہوتی ہے کہ وہ تو تعلق کے تقاضے اپنی طرف سے پورے کر رہا ہوتا ہے، لیکن شکایت کرنے والے کو کمی لگ رہی ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ ہم نے اوپر اس تضاد کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا ہے۔ان تضادات کی کنہ یہ ہے کہ انسان ایک مخلوق ہے۔ اس کی وجودی بقا اور اس کی شخصی بقا اگر فنا یا زوال کے خطرے سے دوچار ہو تو یہ اس کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔یہ بقا کا مسئلہ اس کی اپنی ذات تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ اس کے تمام مادی، انسانی اور معنوی متعلقین تک پھیلا ہوا ہے۔ حقیقت میں یہیں سے انسان کی آزمایش شروع ہوتی ہے۔اخلاق کی آزمایش، اپنے آدرشوں کے ساتھ وفا کا امتحان، اگر انسان مذہبی ہےتو آخرت کو دنیا پر مقدم رکھنے کی جانچ، کسی مقصد کے لیے فعال(active) ہےتو اس کو نبھانے کی ابتلا۔

انسان جب فیصلہ کرتا ہے تو اس کے پیچھے حسن وقبح، حق وباطل اور مفید و مضر کے معروضی معیارات کارفرما ہوتےہیں۔ اس کے ساتھ اس کے فیصلوں پر اس کی آرزوؤں اور اس کے ذاتی اہداف کا پرتَو بھی ہوتا ہے۔ انسان تعلقات کےایک مکڑی جالے میں دھنسا ہوا ہے، جس کے دھاگوں کو ہم تعصب، محبت، نفرت، حمیت ، وفا اور استقامت سے موسوم کر سکتے ہیں یا ان کو خاندان، دوستی، گروہ ، قبیلہ، فرقہ ، مذہب اور وطن کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ یہ دھاگے بھی انسان کے فیصلوں کے بننے اورٹوٹنے میں اپنا اثر دکھاتے ہیں۔

 ایک طرف یہ پیچیدگی خالق کائنات نے جو امتحان برپا کر رکھا ہےاس کی وسعت، گیرائی اور گہرائی کو واضح کرتی ہے۔ انسان کا دعواے اخلاص، اس کا زعم استقامت، اس کی حاضر باشی، اس کی ایثار کشی اور اس کی پابندی احکام ہر چیز پرکھ کے ترازو میں تل رہی ہے اور اس میں بڑا حصہ انسانوں سے پیش آنے والے اس معاملے کا ہے۔

دوسری طرف انسان کو سبق دیتی ہے کہ وہ دوسرے کے بارے میں راے قائم کرنے سے پہلے یہ دیکھ لے کہ کوئی انسان جب کوئی عمل یا فیصلہ کرتا ہے یا رویہ اختیار کرتا ہے تو اس کے اسباب و محرکات کیا ہوتے ہیں۔ کوئی منفی عمل کسی شخص کے منفی ہونے کی دلیل نہیں ہے، جب تک یہ واضح نہ ہوجائے کہ اس کے محرکات کیا تھے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B