[جناب جاوید احمد غامدی کی تحریروں، آڈیوز اور ویڈیوز سے اخذ و استفادہ پر مبنی مختصر سوال و جواب]
سوال: کیا غیرمسلموں کے ساتھ یا ان کے برتن میں کھایا پیا جا سکتا ہے؟
جواب:غیرمسلموں کے ساتھ یا ان کے برتن میں کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کوئی اچھوت نہیں بنایا ہے۔ ہم دنیا میں انسان، بھائی اور آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھا اور پی سکتے ہیں۔ البتہ کچھ چیزوں کو حرام کیا گیا ہے۔ وہ چیزیں مسلمانوں کے دسترخوان پر بھی حرام ہیں اور غیرمسلموں کے دسترخوان پر بھی حرام ہیں۔ آدمی کو خواہ مخواہ اس شک میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ غیرمسلم کون سی چیز پیش کر رہے ہیں یا وہ اس میں کون سی چیز استعمال کر رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ آپ نے کہیں دعوت پر جانا ہے تو ان کو بتا دیں کہ ہمارے ہاں یہ چیزیں حرام ہیں یا ان چیزوں کو منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ حرام و حلال کا معاملہ بالکل واضح ہے، اس کا کسی مسلمان یا غیرمسلم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر آپ کے لیے سؤر کھانا ممنوع قرار دیا گیا ہے تو وہ کسی کے بھی دسترخوان پر ہو گا، وہ ممنوع ہی ہو گا۔ اس کا کسی مسلمان یا غیرمسلم سے تعلق نہیں ہے۔
اسی طرح ذبیحہ کا معاملہ ہے۔ ایک مسلمان اگر اس کے آداب کی پیروی نہیں کرتا تو اس کو بھی نہیں کھایا جاسکتا۔ غیرمسلموں کے بارے میں جہاں ہمیں معلوم ہے کہ وہ فلاں چیز کی پیروی نہیں کرتے تو ظاہر ہے کہ ہم وہ نہیں کھا سکتے۔ اس وجہ سے اس کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ یہ غیرمسلم کا کھانا ہے، بلکہ بنیاد یہ ہے کہ کیا وہ کھانا اللہ تعالیٰ کے قانون اور قاعدے کے مطابق بنا ہے؟ وہ قانون، قاعدے اور حرمت وحلت کے آداب ہمیں بتا دیے گئے ہیں، اور وہ واضح احکام ہیں، یعنی ذبح اور جانوروں کے بارے میں ایک قاعدہ بتاتے ہوئے ایک عمومی ہدایت دے دی گئی ہے کہ طیبات تمھارے لیے حلال ہیں اور خبائث، یعنی بری چیزیں حرام ہیں۔[1]
___________
۱-https://ghamidi.com/videos/eating-and-drinking-with-non-muslims-2082