معاذ بن نور
[جناب جاوید احمد غامدی کی ویڈیوز کی ٹرانسکرپشن پر مبنی سوال و جواب]
سوال: قرآن اور سائنس میں بظاہر ٹکراؤ پیدا ہو جائے تو کیا ہمیں اپنے فہم قرآن کی کوئی تاویل نہیں کر لینی چاہیے، جو سائنس کے نتائج کے مطابق ہو، کیونکہ سائنس تو دو اور دو چار کی طرح حقائق کو واضح کر رہی ہے؟
جواب:تاویل کرنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے، البتہ ہم اپنے فہم پر نظر ثانی کریں گے، یعنی اگر کوئی ایسی چیز سامنے آئے گی اور ہم قرآن مجید سے کوئی بات (اس کے خلاف) سمجھے ہوئے ہیں تو دوبارہ قرآن پر غوروفکر کریں گے۔ لیکن غور و فکر کا یہ عمل اسی طرح سے ہوگا، جس طریقے سے اس سے پہلے ہم کرتے رہے ہیں، یعنی لفظ کا مطلب کیا ہے، جملے کی تالیف کیا ہے، سیاق و سباق کیا ہے؟
یعنی سائنسی طور پر کسی چیز کے سامنے آنے کے بعد قرآن مجید پر غور و فکر کا طریقہ تبدیل نہیں ہو جائے گا۔ اس طریقے سے اگر کسی غلطی کی طرف توجہ ہو جاتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کریں گے کہ (سائنس کی تحقیق کی بنیاد پر) یہ چیز سامنے آئی، جس کے نتیجے میں ہمیں دوبارہ غور و فکر کا موقع ملا اور ہمارے فہم میں جو غلطی تھی وہ ہم پر واضح ہوگئی۔
لہٰذا نظر ثانی کرنا اور دوبارہ دیکھنا یہ تو لازم ہے اور ہر موقع پر کرنا چاہیے۔ اس میں صرف سائنس نہیں، کسی جگہ پر کوئی لفظی تحقیق سامنے آجاتی ہے تو اس کو بھی دیکھنا چاہیے۔ کوئی صاحب علم نحو میں کسی تالیف کی طرف توجہ دلا دیتا ہے، اس وقت بھی دیکھیں گے۔ (کسی معاملے میں بھی) جب بھی کوئی نئی تحقیق سامنے آئے گی اگر وہ ہمارے فہم سے متصادم ہے تو ہم اپنے فہم کو ضرور دوبارہ زیر غور لائیں گے۔
تاہم قرآن مجید کی تاویل کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تاویل کا مطلب یہ ہے کہ لفظ، جملے کی تالیف اور سیاق و سباق تو کہیں اور لے جا رہے ہیں، لیکن چونکہ ایک سائنسی چیز سامنے آگئی ہے تو ہم یا لفظ میں تغیر کریں گے یا تالیف (اور سیاق و سباق) کو نظرانداز کرکے بات بنا دیں گے۔ تاویل کے معاملے میں تو ہمیشہ سے میں یہ کہتا ہوں کہ اگر میں اس طرح کی جسارت کبھی کروں تو پھر زمین کا پیٹ میرے لیے بہتر ہے۔
(تاہم اگر کبھی اس نظر ثانی کے باوجود قرآن کسی سائنسی مقدمہ کو قبول کرنے سے انکار کر دے، اگرچہ) اس وقت تک تو (قرآن کے نزول کے) پندرہ صدیوں بعد بھی ہمیں سائنس اور قرآن میں ٹکراؤ کی کوئی صورت حال پیش نہیں آئی، لیکن اگر کبھی یہ پیش آ بھی گئی تو میں (سائنس سے) یہ کہوں گا کہ تمھاری نگاہ اور تمھاری تحقیق غلطی کر سکتی ہے، اللہ کی کتاب میں غلطی نہیں ہو سکتی۔[1]
سوال:کیا سائنس اور فلسفہ کے ساتھ تعلق انسان کو اچھا مومن بننے سے روکتا ہے؟
جواب:یہ بالکل ضروری نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس تو اللہ کی بڑی قیمتی نعمت ہے، اس کے نتیجے میں بڑی سہولتیں انسان کے لیے پیدا ہوئی ہیں۔ تجربات اور مشاہدات نے کیا کچھ انسان کو دیا ہے، کتنی بیماریوں کے علاج دریافت ہوگئے ہیں۔ سرجری بجاے خود ایک بہت بڑی نعمت ہے انسان کے لیے۔ ہم جب پرانے زمانے کے معاملات دیکھتے ہیں تو (یہ سوچ کر) رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ انسان (ماضی میں) ان تکلیفوں کا کیا (حل) کرتا ہوگا۔ اگر آپ غور کر کے دیکھیے تو انسان پر سائنس کے بڑے احسانات ہیں۔
(لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ) انسان بعض اوقات اسی زندگی کو اصل بنا لیتا ہے، اسی میں غلطاں رہتا ہے اور اسی کے تجربات و مشاہدات اس کے وجود کا احاطہ کیے رکھتے ہیں، اس لیے بعض اوقات وہ اس سے بالکل ہی بے نیاز ہو جاتا ہے کہ کوئی موت بھی ہوگی اور اس کے بعد بھی کچھ معاملات ہو سکتے ہیں، یعنی اس رویے کے نتیجے میں بے نیازی اپنی آخری خد تک پیدا ہوجاتی ہے۔
فلسفہ کا معاملہ بھی یہی ہے۔ وہ چونکہ انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ وہ چیزوں کی تحلیل کرے تو اس تحلیل کے نتائج دنیا میں بھی نکلتے ہیں۔ آخر یہ فلسفیانہ افکار ہیں جنھوں نے موجودہ دنیا کو وجود پذیر کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ بہت بڑے فلسفی ہیں جنھوں نے انسانی افکار کی تحلیل کی ہے۔ مذہبی لوگوں نے جو استبداد پیدا کر دیا تھا، اس کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ دنیا میں جمہوریت اور اس طرح کے بہت سے نظام وجود پذیر کرنے میں بڑی مدد کی ہے۔ بہت سے سماجی علوم بہت ترقی یافتہ صورت میں سامنے آئے ہیں۔ تاہم فلسفہ (کے ساتھ تعلق) میں بھی بعض اوقات (انسان کے ہاں) یہ خیال (پیدا) ہوجاتا ہے کہ دنیا کا (بس یہی) مسئلہ تھا، جو ہم نے حل کر لیا ہے۔ اب (ماننے کے لیے اور) کیا چیز (رہ گئی) ہے۔
میرے نزدیک انسان کو ہر علم کو اس کی اصل (بنیاد پر) کھڑے ہو کر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ طے نہیں کر لینا چاہیے کہ آپ کو کسی ایک علم ہی کی بنیاد پر آخری فیصلے صادر کرنے ہیں۔ آپ کے اندر طالب علمانہ رویہ پیدا ہونا چاہیے۔
میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو موجودہ جدید دور، جدید ریاست اور فلسفے و سائنس کی کامیابیوں کو دیکھ کر مذہب کے ساتھ جو رویہ اختیار کرتے ہیں، وہ مذہب کی تضحیک کا رویہ ہوتا ہے۔ ان کو اس کا بھی احساس نہیں ہوتا کہ اس کے ماننے والوں کی کتنی بڑی تعداد ہے۔ وہ مذہب کے ان پہلوؤں کو نمایاں کرنا شروع کر دیتے ہیں جن میں لوگوں نے مذہب کا غلط استعمال کر کے کوئی تخریب پیدا کر دی۔ ان کو مذہب میں خیر و صلاح کے پہلو نظر آنا بند ہو جاتے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ چلیں تو ہم ان کو دکھائیں کہ ہمارے قدیم مدرسوں اور خانقاہوں نے کس درجے کے متقی، پرہیز گار اور انسانیت کا درد رکھنے والے لوگوں کو پیدا کیا ہے، لیکن (مذہبی افکار کی) چند تخریبی صورتوں کو سامنے رکھ کر وہ بعض اوقات ان کی تعمیم شروع کر دیتے ہیں۔
لہٰذا علوم کے بارے میں انسان کا رویہ مثبت ہونا چاہیے اور انسان کو اپنے حدود کو سمجھ کر طالب علم بن کر رہنا چاہیے، یعنی میں ہر چیز کا جائزہ لوں گا اور جن چیزوں کو نہیں مان رہا، ان کے معاملے میں بھی اس جگہ کھڑا ہوں کہ جب تک میرے پاس (کسی علم کے) انکار کے قطعی دلائل نہیں آجاتے، میں اس امکان کو مانتا ہوں کہ پیغمبروں، صوفیا اور سائنس دانوں سمیت ہر کسی کی بات درست ہو سکتی ہے۔ جب تک ان چیزوں کے بارے میں یہ امکان مان کر بات نہ کی جائے، میرے خیال میں طالب علمانہ رویہ پیدا نہیں ہو سکتا۔
یہ طالب علمانہ رویے کوئی ایک ہی علم ضروری نہیں کہ پیدا کرے، یہ تو ہر ہر علم کی ضرورت ہیں۔ مذہبی علم میں بھی انسان نے ایک خاص طرح کے جمود اور ایک خاص دور کے علم کی تقلید کو اپنا کر طالب علمانہ رویوں کا کم و پیش خاتمہ کر دیا۔
اصل چیز یہ نہیں ہے کہ (طالب علمانہ رویے کا خاتمہ) کیا سائنس نے ایسا کیا یا مذہب نے؟ اصل چیز یہ ہے کہ ہمارے اندر جو انسان ہے کیا ہم نے اس انسان کو اس کے (حدود علم سے آشنا کر کے) صحیح خطوط پر استوار کر لیا ہے؟ کیا ہم اپنے علم میں غلطی کے امکان کو تسلیم کرکے دنیا کے ساتھ بات کرنا سیکھ گئے ہیں؟ کیا ہم دوسروں کے افکار کا احترام کرنا سیکھ گئے ہیں؟ کیا ہم نے بات کہنے کے مہذب اسالیب اپنا لیے ہیں؟ اگر یہ ہم سیکھ گئے ہیں تو پھر امن ہی امن ہے۔ اگر ہم نے یہ نہیں سیکھا تو مذہبی ہو کر بھی ہم تخریب کریں گے، فلسفی ہو کر بھی ہم تخریب کریں گے اور سائنس دان ہو کر بھی ہم تخریب کریں گے۔[2]
سوال:کیا مذہب فلسفہ اور سائنس کے ساتھ مقابلے کی حالت میں ہے؟
جواب:مذہب ہمارے اندر رکھے گئے فطری حقائق پر مبنی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کا نام ہے۔ یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی فطرت کے لوازم کو دریافت کر کے خود مذہبی حقائق کو تشکیل دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت آتی ہے ۔ اس ہدایت کے نزول کے لیے وہ خود کسی انسان کا انتخاب کرتے ہیں۔ جیسے آدم کو اللہ نے مبعوث کیا۔ پھر جو فطرت اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دی ہے، اسی فطرت کو ہمیں عقل کی روشنی میں سمجھے جانے کے قابل بنایا۔ اسی فطرت کو بنیاد بنا کر اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت نازل کردی۔
اس لحاظ سے مذہب کی تعلیمات اصلاً خبر پر مبنی ہیں اور وہ خبر انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہوتی ہے۔ انسانی عقل بھی یہ سمجھ لیتی ہے کہ یہ ٹھیک نتائج ہیں، جو ہمارے سامنے نکال کر رکھ دیے گئے ہیں۔ گویا عقل وہاں اس وقت کام کرتی ہے جب خبر اس کو میسر آجاتی ہے۔ اس دائرے میں مذہب کا موضوع انسانوں کو یہ بتانا ہے کہ یہ دنیا جو تمھیں دی گئی ہے، اسی پر زندگی ختم نہیں ہو رہی، اس کے بعد ایک نئی دنیا آنے والی ہے جس میں تمھیں اپنے پروردگار کے سامنے پیش ہونا ہے۔ اسی پیشی کے لیے انسان کو تیار کرنا، دراصل مذہب کا موضوع ہے۔
فلسفہ یہ دیکھے گا کہ انسانی عقل جن نتائج کو اخذ کرتی ہے، اس پورے عمل میں انضباط پیدا کرکے اس کے قاعدے بنائے جائیں اور معروضی اور موضوعی چیزوں کو بنیاد بنا کر انسانی علم کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے۔
سائنس اس دنیا پر اپنی توجہات مرکوز کرے گی، تجربے اور مشاہدے کے حاصلات کو سامنے رکھ کر عقلی استنباط کی طرف جائے گی اور پھر کلیات بنا کر ایجادات میں داخل ہو جائے گی۔
اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو مذہب، فلسفہ اور سائنس میں باہم تعلق بھی ہے، لیکن ان کے دائرے بالکل الگ ہیں اور یہ ان دائروں ہی میں کام کریں تو اس سے خیر و صلاح پیدا ہوتا ہے۔
لہٰذا جو لوگ (مذہب، فلسفہ اور سائنس کے ان دائروں کو خلط کر کے) یہ استدلال کرتے ہیں کہ پیغمبروں نے انسان کو کیا دیا ہے؟ کیا کوئی ایجادات پیش کی ہیں؟ کیا حیاتیاتی حقائق اور معیشت و معاشرت سے متعلق دنیوی مسائل کا کوئی حل پیش کیا ہے؟ یہ لوگ مذہب کا موضوع سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔[3]
ـــــــــــــــــــــــــ