HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : کوکب شہزاد

غیر مسلم اور زکوٰۃ اور قربانی کا گوشت

سوال: کیا غیر مسلموں کو زکوٰة اور قربانی کا گوشت دیا جا سکتا ہے؟

جواب: اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔اس کا موضوع پوری انسانیت ہے۔اسلام کے پانچ ارکان ہیں: توحید، نماز، روزہ ، حج اور زکوٰة ۔ لیکن بیش تر جگہوں پر نماز اور زکوٰة کا ذکر ہی آیا ہے،کیونکہ یہی دو چیزیں باقی دین کو بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ سورۂ توبہ (۹: ۵) میں ہے کہ جو لوگ نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ ان سے کسی اور چیز کا مطالبہ نہ کرو۔

کسی بھی اسلامی ملک میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی رہتے ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ زکوٰة صرف مسلمانوں کو دی جاسکتی ہے ،غیر مسلم اگر ضرورت مند ہوں تو انھیں صدقہ اور خیرات ہی دیے جائیں گے اور زکوٰة پرصرف مسلمان ضرورت مند لوگوں کا حق ہے، لیکن پورے قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی زکوٰة کے مستحقین کا ذکر آیا ہے، اس میں مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔سوسائٹی کے تمام لوگوں کو زکوٰة کا حق دار ٹهیرایا گیا ہے۔ سورۂ توبہ میں ہے:

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِﵧ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِﵧ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ. (۹: ۶۰)
’’(اِنھیں بتا دو کہ) صدقات تو درحقیقت فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن کے لیے جو اُن کے نظم پر مامور ہوں، اور اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہے۔ نیز اِس لیے کہ گردنوں کے چھڑانے میں اور تاوان زدوں کے سنبھالنے میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں کی بہبود کے لیے خرچ کیے جائیں۔ یہ اللہ کا مقرر کردہ فریضہ ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔‘‘

اس آیت میں ’صدقہ‘ کا لفظ ہر طرح کے انفاق کے لیے استعمال کیا گیا ہے، اور زکوٰة اور صدقات کا جن لوگوں کو مستحق قرار دیا گیا ہے، وہ سوسائٹی کے فقرا، مساکین، زکوٰة کے شعبے میں کام کرنے والے لوگوں کی تنخواہیں اور ان لوگوں کو دینا جن کی دل جوئی مطلوب ہو، غلاموں کو آزاد کرنے کے لیے، مقروض لوگوں کے قرضے اتارنے کے لیے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے اور مسافروں کے لیے خرچ کی جاسکتی ہے اور ان مستحقین میں اللہ تعالیٰ نے کہیں مسلم اور غیر مسلم کی شرط نہیں لگائی۔ پورا قرآن مجید اس سے خالی ہے کہ اس میں کہا گیا ہو کہ زکوٰة کے حق دار صرف مسلمان ہیں۔

حضرت عمر نے تو اپنے دور حکومت میں تالیف قلب کے ضمن میں سرحدوں پر بیٹھے ہوئے غیر مسلوں کو زکوٰة دی تاکہ ان کی دل جوئی ہوسکے اور وہ اسلام دشمن طاقتوں سے نہ جا ملیں ۔

یہ غلط فہمی ایک روایت کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔

ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا حکمران بنا کر بھیجنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل کو چند نصیحتیں کیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت معاذ بن جبل کی یہ گفتگو روایت میں اس طرح بیان ہوئی ہے :

عن بن عَبَّاسٍ رضي اللّٰه عنهما قال: قال رسول اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم لِمُعَاذِ بن جَبَلٍ حين بَعَثَهُ إلى الْيَمَنِ: «إِنَّكَ سَتَأْتِي قَوْمًا من أَهْلِ الْكِتَابِ فإذا جِئْتَهُمْ فَادْعُهُمْ إلى أَنْ يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إلا اللّٰه وَأَنَّ مُحَمَّدًا رسول اللّٰهِ فَإِنْ هُمْ أطاعوا لك بِذَلِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللّٰهِ قد فَرَضَ عليهم خَمْسَ صَلَوَاتٍ في كل يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَإِنْ هُمْ أطاعوا لك بِذَلِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللّٰهِ قد فَرَضَ عليهم صَدَقَةً تُؤْخَذُ من أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ على فُقَرَائِهِمْ فَإِنْ هُمْ أطاعوا لك بِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فإنه ليس بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللّٰهِ حِجَابٌ».(بخاری، رقم ۴۰۹۰)
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجتے وقت فرمایا کہ بےشک، تم اہل کتاب کی ایک قوم کی طرف جاؤ گے ۔تم جب ان کے پاس جاؤ تو ان سے کہنا کہ تم گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اگر وہ تمھاری اطاعت کر لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دن اور رات میں تم پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ اس پر بھی تمھاری اطاعت کرلیں تو ان کو بتاناکہ اللہ تعالیٰ نے تم پر زکوٰة فرض کی ہے، جو تمھارے امیروں سے لی جائے گی اور تمھارے ضرورت مندوں میں تقسیم کی جائے گی۔اگر وہ اس پر بھی تمھاری اطاعت کرلیں تو اس بات سے بچو کہ تم ان کا بہترین مال چن لو۔اور مظلوم کی آہ سے بچو۔بے شک، اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان پردہ نہیں ۔‘‘

یہاں غلط فہمی کا باعث روایت کے یہ الفاظ بنے ہیں:’تُؤْخَذُ من أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ على فُقَرَائِهِمْ فَإِنْ هُمْ أطاعوا لك بِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فإنه ليس بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللّٰهِ حِجَابٌ ‘۔

 اس روایت میں دونوں جگہ پر ’ھم‘ کا مرجع مسلمانوں کو لیا گیاہے، جب کہ یہاں پر مخا طب سوسائٹی کے لوگ ہیں جن میں مسلمان بھی ہیں اور غیر مسلم بھی ۔اس روایت میں یہ بیان کیا ہے کہ سوسائٹی کے امیروں سے زکوٰة لی جائے گی اور سوسائٹی کے فقرا کی طرف لو ٹا دی جائے گی۔ضمیر کا مرجع غلط متعین کرنے کی وجہ سے یہ راے بنی کہ زکوٰة صرف مسلمانوں کو دی جاسکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ اس کائنات کا بادشاہ ہے اور دنیا کے بارے میں اس کا قانون ہے کہ یہاں اس کی نعمتیں ہر ایک کو دی جائیں گی، البتہ آخرت کا وعدہ صرف متقین کے لیے ہے۔

قرآن مجید میں سورۂ بقرہ میں حضرت ابراہیم اور اللہ تعالیٰ کا مکالمہ بڑے خوب صورت طریقے سے بیان ہوا ہے اور اس سے اس دنیا کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون پوری طرح واضح ہوجاتا ہے اور ہم پر زکوٰة کی تقسیم میں مسلم اور غیر مسلم کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کا منشا بھی واضح ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّي وَعَهِدْنَا٘ اِلٰ٘ي اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّآئِفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ. وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِيْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّهٗ٘ اِلٰي عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ.(البقرہ ۲: ۱۲۵ - ۱۲۶)
’’اور یاد کرو ، جب ہم نے (سرزمین عرب میں) اِس بیت الحرام کو لوگوں کا مرجع اور اُن کے لیے پناہ کی جگہ قرار دیا اورحکم دیا کہ ابراہیم کی اِس قیام گاہ میں نماز کی ایک جگہ بناؤ اور ابراہیم و اسمٰعیل کو اِس بات کا پابند کیا کہ میرے اِس گھر کو اُن لوگوں کے لیے پاک رکھو جو (اِس میں) طواف کرنے، اعتکاف کرنے اور رکوع و سجود کرنے کے لیے آئیں۔ اور یاد کرو ، جب ابراہیم نے دعا کی کہ اے پروردگار ، اِس شہر کو امن کا شہر بنا دے اور اِس کے لوگوں میں سے جو اللہ اور قیامت کو ماننے والے ہوں، اُنھیں پیداوار کی روزی عطا فرما۔ (اللہ نے) فرمایا: اور جو منکر ہیں ، (اِن چیزوں سے) چند روز کے لیے فائدہ اٹھانے کی مہلت تو میں اُنھیں بھی دوں گا، پھر اُن کو دوزخ کے عذاب میں پکڑ بلاؤں گا اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔‘‘

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو ہر امتحان میں کامیاب ہونے پر انھیں دنیا کا امام بنانے کی خوش خبری دی اور جب حضرت ابراہیم نے اپنی اولاد کی امامت کے بارے میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ امامت کی اس ذمہ داری کا وعدہ صالحین کے بارے میں ہے، گم راہ لوگوں کے بارے میں میرا یہ وعدہ نہیں ہے، البتہ دنیا کا رزق میں سب کو دوں گا ۔کافروں اور نافرمانوں کو اور مسلمانوں کو بھی دوں گا، البتہ گم راہ لوگوں کو میں آخرت میں زبردست عذاب کی طرف گھسیٹوں گا ۔آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

اللہ تعالیٰ کی یہ دنیا سب کے لیے ہے، کیونکہ یہ دنیا دارالامتحان ہے ۔اس کی یہ نعمتیں سب کے لیے ہیں۔ سورج کی یہ روشنی سب کے لیے ہے۔چاند کی یہ ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی سب کو دکھائی دیتی ہے ۔ستارے سب کے لیے چمکتے ہیں اور صحراؤں اور سمندروں میں سفر کرنے والوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ سبزہ، اناج، پھل، پھول، دریا ، پہاڑ، وادیاں اور ٹھنڈی ہوائیں سب کے لیے چلتی ہیں۔چاہے ایمان والے ہوں یا نہ ہوں ۔البتہ آخرت کی ابدی نعمتیں اور بادشاہت صرف اس امتحان میں پاس ہونے والوں کے لیے ہوں گی۔

اللہ تعالیٰ جب اپنی مخلوق پر اپنا کرم کرنے والا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں اس مخلوق سے اس پروردگار کی نعمتیں چھیننے والے؟

اب آئیں، ہم منطقی انداز میں بات کرتے ہیں۔اگر آپ کے گھر میں ایک ملازم ہے، جو کہ مسلمان نہیں۔ اس کا بچہ اچانک سخت بیمار ہوگیا ہے ۔اس کو اس کے علاج کے لیے پیسے چاہییں اور آپ کے پاس صرف زکوٰة کے پیسے رکھے ہوئے ہیں تو کیا آپ اس بچے کی زندگی بچانے کے لیے صرف زکوٰة کے پیسے اس لیے نہیں دیں گے کہ وہ غیر مسلم ہے یا عیسائی ہے؟

اسی طرح ہم ایک اور بات کی بھی تصحیح کرنا چاہتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثر یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ ہم عید الاضحیٰ پر جو قربانی کرتے ہیں، اس کا گوشت بھی غیر مسلموں کو نہیں دیا جاسکتا۔ ہمارے ہاں گھروں میں کام کرنے والوں کی اکثریت عیسائیوں کی ہوتی ہے اور کتنی غیر اخلاقی بات لگتی ہے کہ ان کے سامنے ہم سب لوگوں کو گوشت دیں اور گھر میں خود بھی پکا کرکھائیں، لیکن ان کو گوشت نہ دیں، جب کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) کا کھانا خود بھی کھا سکتے ہیں اور اپنا کھانا ان کو دے سکتے ہیں۔اس وقت کے معاشی حالات میں نچلے طبقے کے لیے گوشت کھانا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے اور قربانی کے موقع پر ہم ان مستحقین کو گوشت کھلا سکتے ہیں ۔اس موقع پر ان کے سامنے خود تو گوشت کھانا اور انھیں محروم رکھناکسی طرح بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث نہیں بن سکتا۔اگر ہم دنیا میں اسلام پھیلانا چاہتے ہیں اور لوگوں کو انسانیت کا درس دینا چاہتے ہیں تو ان لوگوں کے درمیان مروت، بھائی چارہ، عفوو در گذر اور ہر موقع پر ان کے کام آنے کا رویہ اختیار کرنا ہوگا۔کسی موقع پر خود کو برتر ظاہر کرنا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا انتہائی نامناسب بات ہے۔کوئی کتنا افضل ہے اور کوئی کتنا کم تر ہے، اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کو کرنے دیجیے اور آپ اپنا کام کیجیے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B