HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

زوالِ آدمِ خاکی

ایک انٹرنیشنل اسکول کے ’’اسپورٹس ڈے‘‘ میں شرکت کا موقع ملا۔ اسکول کی طرف سے میرے بچے ابراہیم نے بھی اِس مقابلے میں حصہ لیا ۔اِس پروگرام میں طلبہ کے والدین بھی ناظرین کی حیثیت سے شریک تھے۔ طلبہ جب میدان مقابلہ میں اترے، اُس وقت ایسا محسوس ہورہاتھا جیسے ننھے فرشتے آسمان سے اتر کر اسکول کے وسیع سبزہ زار میں دور تک صف بستہ کھڑے ہوگئے ہوں۔ ’’بچے جنت کے پھول ہیں‘‘ یہ منظر اِس قول کا ایک انتہائی حسین نمونہ پیش کررہا تھا۔

اِن معصوم بچوں کو دیکھ کر دل بھر آیااوربے تابانہ انداز میں زبان پر یہ دعا جاری ہوگئی  ــــــ  خدا یا، ہم بے مایہ وکم زور ہیں ، ہم اِن بچوں کی تربیت کا نازک کام نہیں کرسکتے۔ توقادر مطلق اور ’فعّالٌ لما یرید‘ ہے۔ تو اِن کا تزکیہ و تربیت کر ، تو اِنھیں اپنے سچے بندوں میں شامل فرما ۔

اِس کے بعدطلبہ کے متعلق سوچتے ہوئے یہ خیال آیا کہ کیا طلبہ اور والدین کا معاملہ دو الگ الگ افراد کا معاملہ ہے؟ غورکر نے سے معلوم ہواکہ نہیں، طلبہ اور والدین کی کامیابی اور ناکامی دوالگ الگ افراد کی کامیابی اور ناکامی ہرگز نہیں،دونوں کا معاملہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم جیسا ہے۔دونوں کی کامیابی اور ناکامی گویا ایک ہی فرد کی کامیابی اور ناکامی کے ہم معنی ہے۔

ایک شخص اگر اِس معاملے پر غورکرے تو اِس میں خدا کی دریافت کا ایک عجیب راز چھپا ہوا ہے۔اگر وہ اِس راز کو دریافت کرسکے تو اُ س کے اندر دعا کاایک طوفانی سیلاب امڈ آئے گا۔وہ خدا سے پورے عجز و نیاز کے ساتھ کہے گا کہ خدایا، جب ماں اور بچے کی کامیابی اور ناکامی کا معاملہ ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوسکتا تو پھر تو جو میرا اور تمام ماؤں کا خالق اور مالک ہے، اُس کا معاملہ اپنے اِس بندے سے الگ کیسے ہوگا؟ خدا یا، کیا تودنیا اور آخرت میں ہمار ی ناکامی کا تحمل کرسکتا ہے؟خدایا، کیا جب تیرے فرشتے تیرے اِس بندے کو اُس کی بے عملی اور نافرمانی کے سبب ابدی جہنم کے حوالے کررہے ہوں گے، توکیا تواُس وقت اپنے اِس بندے کے معاملے سے غیر متعلق (indifferent)ہو کر چین سے بیٹھا یہ منظر دیکھتا رہے گا؟ خدا یا، کیا اپنے اِس بندے کو جہنم کے بھڑکتے شعلوں کے درمیان دیکھ کر تو مجھ پر رحم نہیں فرمائے گا؟ خدایا، مجھے جہنم کی پستیوں میں بھٹکتا دیکھ کر تجھے عرش معلیٰ پرچین کس طرح آسکتاہے؟خدایا، تو اپنے اِس بندے کے معاملے میں کس طرح غیرجانب دار ہوسکے گا!؟

اِس طوفانی کیفیت کے دوران میں عجز و نیاز پر مبنی اقبال کے یہ کلمات میری زبان پر جاری ہوگئے:

اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا

مجھے فکر ِجہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا

اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی

خطا کس کی ہے یا رب، لا مکاں تیرا ہے یا میرا

اُسے[1]صبح ِ ازل انکار کی جرأت ہوئی کیوں کر؟

مجھے معلوم کیا، وہ رازداں تیرا ہے یا میرا

محمد بھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا

مگر یہ حرف ِ شیریں ترجماں، تیرا ہے یا میرا

اِسی کوکب[2] کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن

زوالِ آدمِ خاکی، زیاں تیرا ہے یا میرا

(بالِ جبریل)   

جہنم کس کے لیے؟

اِس معاملے پر غور کرتے ہوئے سمجھ میں آیا کہ جہنم کا عذاب صرف اُنھی لوگوں کے لیے مقدر ہے جو خدا کے خلاف سرکشی کا طریقہ اختیار کریں۔جو اپنی کوتاہیوں پر نادم نہ ہوں، بلکہ نخوت اور رعونت میں مبتلا ہوکر سعادت کے بجاے خود اپنے لیے بد بختی کے راستے کا انتخاب کرلیں۔

 قرآن میں اِس اہم ترین حقیقت کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: ’لَا يَصْلٰىهَا٘ اِلَّا الْاَشْقَي‘ (اللیل ۹۲: ۱۵)، یعنی جہنم میں وہی داخل ہو گا جو بڑا ہی بدبخت ہو، جو کھلم کھلا تکذیب اور روگردانی کا طریقہ اختیار کرے۔اِسی حقیقت کوقرآن کے ایک دوسرے مقام پر اِن الفاظ میں بیان کیاگیاہے: ’وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا٘ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ‘ (الاعراف ۷: ۳۶)، یعنی جو لوگ ہماری باتوں کو جھٹلائیں اور کبر ونخوت کے ساتھ اُس سے روگردانی کا طریقہ اختیار کریں، وہی جہنمی ہیں ، اور وہ اِس جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔

 خدا اِس معاملے میں کیاچاہتا ہے، درج ذیل آیت میں اُس پر بہت اچھی طرح روشنی ڈالی گئی ہے: ’مَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ وَكَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِيْمًا‘ (النساء ۴: ۱۴۷)، یعنی خدا کے بندو، اگر تم شکرگزاری کا طریقہ اختیار کرو اور سچے مومن بن کر رہو تو اللہ تمھیں کس لیے عذاب دے گا؟ اللہ تو بڑا قبول کرنے والا اور ہر چیز کاجاننے والا ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی حقیقت کو اِس طرح بیان فرمایاہے:

عن أبي ھریرة، أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم، قال: «کل أمتي یدخلون الجنة إلا من أبی»، قالوا: یا رسول اللّٰه، ومن یأبی؟ قال: «من أطاعني دخل الجنة، ومن عصاني، فقد أبی». (بخاری، رقم  ۷۲۸۰)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میری امت کے تمام لوگ جنت میں جائیں گے ، سواے اُن لوگوں کے جنھوں نے انکار کیا۔ صحابہ نے عرض کیا:  یا رسول اللہ، انکار کون کرے گا؟ فرمایا :جو میری اطاعت کرے گا ، وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا ،اُس نے انکار کیا۔‘‘
عن أبي أمامة الباھلي قال: سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم یقول: «ألا،کلکم یدخل الجنة إلا من شرد علی اللّٰه شِراد البعیر علی أھله».(احمد، رقم  ۲۲۲۶) 
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یاد رکھو، تم میں سے ہر شخص جنت میں داخل ہوگا، سواے اُس آدمی کے جو اللہ کی اطاعت سے اِس طرح بدک کر نکل جائے، جیسے اونٹ اپنے مالک سے بدک جاتا ہے۔‘‘

اِس قول رسول میں ’إلّا مَنْ شَرَدَ علَی اللّٰهِ شِرادَ البعیر‘ کے الفاظ بے حد اہم ہیں۔ یہ الفاظ زیر بحث موضوع سے متعلق ارشاد رسول کی اصل منشا و معنویت کو واضح کررہے ہیں۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے خلاف بدکنے والے اونٹ (جانور)کی طرح بدک کر اُس کے مقابلے میں سرکشی کا طریقہ اختیار کرلیں، یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کی جنت اور رحمت کے بجاے ذلت اور غضب کی راہ کے مسافر بن گئے، اور اِسی ذلت اور خدائی غضب کا دوسرا نام جہنم ہے۔ البتہ، جو اہل ایمان امید اور رَجا کے درمیان زندگی گزاریں، اللہ کی رحمت سے یقینی امید ہے کہ اللہ اُنھیں ضرور معاف فرماکر اپنی بخشش اور اپنی ابدی رحمتوں سے سرفراز کرے گا۔

خدا کا سچا دین انسانوں کے لیے دین رحمت ہے۔ وہ بندوں کے نام خداے رحمٰن اور رحیم کاایک خوب صورت تحفہ ہے، اِلّا یہ کہ آدمی خود دین رحمت کو اپنے لیے دین زحمت بنانے پر کمربستہ ہوجائے ۔ اِسی طرح زندگی کا ہر موقع خدا کی یاد کا ایک موقع (occasion)ہے، بشرطیکہ آدمی اپنے لیے اُس کو خدا کی یاد کے ایک زندہ موقع میں تبدیل کرسکے۔

(۱۵/ دسمبر ۲۰۲۳ء)

ـــــــــــــــــــــــــ

۱۔ ابلیس۔

۲۔ انسان۔


B