۱۳ھ:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فتنۂ ارتداد بھڑک اٹھا اور مدعیان نبوت نے پھر سر اٹھایا۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان دونوں فتنوں کا قلع قمع کر کے سکون بحال کر دیا تو یمن کے دوسرے حکام کے ساتھ حضرت ابوموسیٰ اشعری بھی اپنے منصب پر بحال ہو گئے۔ حضرت ابوبکر کی ابتداے خلافت میں وہ یمن کے شہروں مارب، زبید اور رمع کے عامل کے فرائض انجام دیتے رہے۔
۱۵ھ:حضرت مغیرہ بن شعبہ نے نہر تیری اور دست میسان کے باشندگان سے معاہدۂ صلح کیا۔ بعد میں و ہ عہد سے پھر گئے توحضرت ابوموسیٰ نے انھیں زیر کیا(تاریخ خلیفہ ۱۳۱ ) ۔
۱۷ھ:گورنر بصرہ حضرت مغیرہ بن شعبہ پر زنا کی تہمت لگی تو خلیفۂ دوم حضرت عمر نے انھیں معزول کرنے کے بعدحضرت ابوموسیٰ اشعری کو بصرہ کا گورنر بنایا۔ انھوں نے اپنے فرمان میں لکھا:میں ایسی سرزمین کی طرف حاکم بنا کر بھیج رہا ہوں جہاں شیطان نے انڈے دیے ہیں اور ان میں سے چوزے بھی نکل آئے ہیں ۔ تم سنت نبوی کی پیروی کرنااور منحرف نہ ہوجانا۔ اصحاب رسول کی ایک تعداد کا تعاون حاصل کرنا، وہ اس امت میں نمک کے مانند ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوموسیٰ نے انتیس صحابہ کو ساتھ لیا، ان میں حضرت انس بن مالک اور حضرت عمران بن حصین شامل تھے۔ حضرت عمر نے اہل بصرہ کولکھا:میں نے ابوموسیٰ کو تمھارا امیر بنا کر بھیجا ہے تاکہ تمھارے کم زور کو طاقت ور سے حق دلائے اور تمھارے ساتھ مل کر دشمن سے جنگ کرے۔ حضرت مغیرہ نے جاتے وقت حضرت ابوموسیٰ کو طائف کی پروردہ لونڈی عقیلہ ہدیہ کی۔ حضرت عمر نے حضرت مغیرہ کے خلاف گواہی دینے والوں پرجن میں حضرت ابوبکرہ بھی شامل تھے، جرح کی اور ان کی گواہی ثابت نہ ہونے پر حد قذف جاری کی۔
اسی سال حضرت عمر نے حضرت ابوموسیٰ کو بصرہ سے ہٹا کر کوفہ کی گورنری سونپی، پھر واپس بصرہ بھیج دیا۔ انھوں نے ہدایت کی کہ وہ بصرہ کی آخری عمل داری تک پہنچ جائیں اور تاحکم ثانی وہیں مقیم رہیں ۔
۱۷ھ(:طبری، ابن جوزی، ابن اثیر، ابن کثیر)۔ ۲۰ھ( :ذہبی) ایرانی بادشاہ یزدگرد مرو میں تھا۔ اس نے تمام ایرانیوں کو مسلمانوں کے خلاف متحد ہونے کے لیے انگیخت کیا۔ اہل اہواز اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو گئے۔ حضرت عمر کو اطلاع ملی تو انھوں نے گورنرکوفہ حضرت سعد بن ابی وقاص کو حضرت نعمان بن مقرن کی قیادت میں اور گورنر بصرہ حضرت ابوموسیٰ اشعری کو حضرت سہل بن عدی کی سربراہی میں افواج بھیجنے کی ہدایت کی۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت عمار بن یاسر نے حلوان سے حضرت جریر بن عبداللہ کو بھیجا، پھر خود مدینہ سے فوج لے کر آئے۔ ایرانی سپہ سالار ہرمزان نے حضرت نعمان کی فوج کو اربک کے مقام پر روک لیا، لیکن سخت جنگ کے بعد شکست کھائی اور فرار ہو کر شوستر (عربی: تستر) پہنچ گیا۔ اب تمام اسلامی افواج بھی خوزستان کے صدر مقام شوستر میں جمع ہوگئیں ، حضرت ابوسبرہ بن ابورہم مشترکہ فوج کے قائد تھے۔ حضرت عمر نے حضرت ابوموسیٰ کو ایک نیا لشکر لے کر خود وہاں پہنچنے کی ہدایت کی۔ اہل شوستر قلعہ بند ہو گئے، کئی ماہ تک ان کا محاصرہ جاری رہا، اس دوران میں انھوں نے باہر نکل کر اسّی حملے کیے۔ مسلمان فوجیوں نے فصیل شہر پھلانگنے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ محاصرے نے اٹھارہ ماہ تک طول کھینچا۔ آخر کار سینبہ نامی ایک ایرانی نے ایک تیرمیں یہ تحریر پرو کر حضرت ابوموسیٰ کے لشکر میں پھینکی: مجھے پناہ دے دیں تو میں آپ کو شہر میں داخل ہونے کا راستہ بتا دیتا ہوں ۔ اس نے شہر کا پانی خارج ہونے کے را ستے سے اندر داخل ہونے کا مشورہ دیا۔ دو سری روایت کے مطابق اس نے کہا:جس نہری راستے کے ذریعے سے دریاے دجیل سے شہر کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے، وہاں سے شہر میں گھسا جا سکتا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ نے حضرت مجزاہ بن ثور کی قیادت میں چالیس کمانڈو اور دوسو جو ان بھیجے۔ ظلمت شب میں انھوں نے پہرے داروں کو قتل کر کے فصیل پر قبضہ کر لیا۔ دروازے کھل گئے او رجیش اسلامی اندر داخل ہوگیا۔ ہرمزان نے اپنے آپ کو حوالے کرنے کے لیے شرط لگائی کہ عمر خود اس کے بارے میں فیصلہ کریں ۔ حضرت ابوموسیٰ نے خمس مدینہ بھیجا، ان کے حکم پر حضرت انس بن مالک اور احنف بن قیس ہرمزان کو باندھ کر حضرت عمر کی خدمت میں لے گئے، بارہ عجمی بھی ساتھ تھے۔ حضرت عمر نے ہدایت کی کہ اس کی تعظیم کرو او راچھے لباس میں مدینہ لانا۔ حضرت انس بن مالک کہتے ہیں :شوسترکی فتح کے وقت ہم فجر کی نماز ادا نہ کرسکے۔ فتح مکمل ہونے کے بعد ہم نے ابوموسیٰ کی امامت میں دن چڑھے یہ نماز پڑھی۔ مجھے دنیا و ما فیہا کی خوشیوں نے اس نمازسے بڑھ کر مسرت نہیں دی(بخاری، الصلاة عند مناھضة الحصون ولقاء العدو)۔
۱۷ھ:حضرت ابوسبرہ بن ابورہم شوستر کے شکست خوردوں کا تعاقب کرتے ہوئے سوس پہنچے اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت نعمان بن مقرن اور حضرت ابو موسیٰ اشعری بھی ان کے ساتھ تھے۔ اہل سوس کو جنگ جلولا میں شکست کی خبر ملی اور معلوم ہوا کہ شاہ یزدگرد شکست کھا کر اصطخر چلا گیا ہے تو انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری سے صلح کی درخواست کی۔ ان کے سپہ سالار سیا ہ نے سرداروں سے مشورہ کر کے شیرویہ اور دس جرنیلوں کو حضرت ابوموسیٰ کے پاس بھیجا۔ انھوں نے کہا:ہم اس شرط پر اسلام قبول کرتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ مل کر اہل عجم سے جنگ کریں گے اور اگر اہل عرب میں سے کوئی ہمارے ساتھ جنگ کرے تو آپ ہماری مدد کریں گے۔ حضرت ابوموسیٰ نے کہا:تمھیں وہ حقوق حاصل ہوں گے جو ہمیں حاصل ہیں اور تمھارے فرائض وہی ہوں گے جو ہمارے ہیں ۔ انھوں نے جواب دیا:ہم اس پر راضی نہیں ۔ حضرت ابوموسیٰ نے حضرت عمر کو خط لکھا تو انھوں نے ان کے مطالبات ماننے کا مشورہ دیا۔ معاہدہ تحریر کرنے کے بعد وہ سوس کے محاصرے میں شریک ہوئے۔ ان میں سرگرمی اور جوش وخروش نہ دیکھ کرحضرت ابوموسیٰ نے اعتراض کیا تو سیاہ نے کہا:ہم اس مذہب میں تمھاری طرح نہیں ، تم نے ہمیں بڑے عطیات بھی نہیں دیے۔ حضرت عمر نے مشورہ دیا :ان کی بہادری کے مطابق وظائف مقرر کرو۔ ان کے سو افراد کو دو دوہزار اوران چھ افراد کو اڑھائی اڑھائی ہزار کے عطیات جاری کرو:سیاہ، خسرو، شہریار، شہرویہ، شیرویہ اور افرودین۔ ایک روایت کے مطابق سیاہ نے عجمی لباس پہن کر کپڑوں پر خون لگایااور شہر کے دروازے کے آگے لیٹ گیا۔ ایرانیوں نے اپنا آدمی دیکھ کر دروازہ کھولا تو تمام مسلمان اندر داخل ہو گئے۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت نعمان کی سپاہ میں شامل صاف بن صیاد نے حالت غضب میں شہر کے دروازے پر لات ماری اور چلا کر کہا:کھل جا تو دروازہ کھل گیا۔
ہتھیار ڈالنے کے وقت دہقان سوس نے حضرت ابوموسیٰ سے اپنے سو اہل خانہ کی جان بخشی کا وعدہ لیا تھا، شومئی قسمت کہ اپنا نام لینے کا اسے خیال نہ رہا۔ حضرت ابو موسیٰ نے اس کی گردن اڑانے کا حکم دے دیا۔ شہر فتح کرنے کے بعدمعلوم ہوا، یہاں پر اﷲ کے نبی حضرت دانیال کی قبرہے۔ ان کا جسد کھلا نظر آتا ہے، ان کے گھٹنے سرسے ملے ہوئے ہیں ۔ لوگ ان سے بارش کی دعائیں مانگتے ہیں ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے حضرت عمر کو مطلع کیا کہ میت کے ساتھ ایک مصحف اور ایک گھڑا بھی ہے، جس میں کچھ چربی، درہم اور ایک انگوٹھی پڑی ہے حضرت عمر نے جثہ ٔمبارک کی تکفین و تدفین کرکے قبر بند کرنے کا حکم دیا۔ مصحف اور کچھ چربی مدینہ بھیجنے اورباقی چربی اور درہم مسلمانوں میں تقسیم کرنے کو کہا۔ انگوٹھی کے بارے میں لکھا کہ وہ ہم نے تمھیں دے دی، اسے مہر کے طور پر استعمال کرو۔ حضرت دانیال کی قبر آج بھی موجود ہے، انیسویں صدی میں اس پر مزار تعمیر کیا گیا۔ دوسری روایت کے مطابق ان کی جائے تدفین کو مخفی رکھا گیا او ر حضرت ابوموسیٰ کے سوااسے کوئی نہ جانتا تھا۔
حضرت عمر نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو بصرہ لوٹنے کی ہدایت کی، اس طرح انھیں تیسری بار بصرہ کی حکومت ملی۔
۱۷ھ:(۱۸ھ:ابن اسحاق)فلسطین کی بستی عمواس میں طاعون پھیلا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری نے راے دی:اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تم اس بستی سے چلے جاؤ اور اپنے ملک کے کھلے اور صاف مقام میں رہو تاآنکہ یہ وبا ختم ہو جائے۔ البتہ یہ گمان نہ کرنا چاہیے کہ اگر انسان یہاں نہ ہوتا تو اسے یہ بیماری نہ لگتی۔ حضرت عمر نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح کو ہدایت کی کہ مسلمانوں کو طاعون کی سرزمین سے دور لے جاؤ۔ انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو بلا کرکہا:مسلمانوں کے لیے ٹھکانا ڈھونڈو۔ اس اثنا میں حضرت ابو عبیدہ اور ان کی اہلیہ طاعون کا شکار ہوگئے اور حضرت ابو موسیٰ فوج کو جابیہ لے آئے۔ ابن اثیر کہتے ہیں : حضرت ابوموسیٰ اس وقت بصرہ میں تھے۔
۱۷ھ:(ابن اسحاق:۱۹ھ):گورنرکوفہ حضرت سعد بن ابی وقاص نے حضر ت عیاض بن غنم کوالجزیرہ کی مہم پربھیجا اور حضرت ابوموسیٰ اشعری اور اپنے بیٹے حضرت عمر بن سعد کو ان کے ساتھ روانہ کیا۔ حضرت عیاض نے حضرت ابوموسیٰ کو نصیبین بھیجا، پھر خود وہاں پہنچے اور دونوں نے نصیبین اور حران فتح کیے۔ ابن اثیر کہتے ہیں :حضرت عیاض نے دارا فتح کیا، جب کہ ابن جوزی حضرت سعد کو فاتح قرار دیتے ہیں ۔
حضرت عیاض کی وفات کے بعد حضرت عمر نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کوراس عین بھیجا۔
۱۸ھ:حضرت ابو موسیٰ اشعری نے سرق، رامہرمز، رہا اور سمیساط کے شہر فتح کیے۔ شہرک کے قتل ہو نے کے بعد کمانڈر برتیان توجان میں قلعہ بند ہو گیا تو حضرت ابوموسیٰ نے ایک سال تک اس کا محاصرہ کیا۔ حضرت عمر نے اسے نکل کر کہیں اور چلے جانے کا اختیار دیا تو وہ اصطخر چلا گیا۔
۱۸ھ: مدینہ میں اس سال قحط پڑا تو ہر طرف خاک اڑتی نظر آتی، اس لیے اسے خاک(رمادہ) اڑنے والا سال کہا گیا۔ حضرت عمر بن خطاب نے گورنر حضرت ابو موسیٰ کو خط لکھا کہ بھوک کی وجہ سے عرب ہلاک ہو رہے ہیں ، غلہ بھیجو۔ حضرت ابوموسیٰ نے غلہ بھیجا اور خط لکھا:امیر المومنین، اگر مناسب سمجھیں تو مختلف شہروں کے لوگوں کو ہدایت کریں کہ ایک دن باہر نکل کر جمع ہوں اور بارش کی دعا کریں ۔ حضرت عمر نے یہ ہدایت لکھ بھیجی۔ حضرت ابوموسیٰ بھی نکلے، بارش کی دعا کی اور نماز نہ پڑھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز استسقا اور دعاے استسقا، دونوں ثابت ہیں ۔ جب بھی بارش ہوتی تو حضرت ابوموسیٰ بار ش میں کھڑے ہو کر نہاتے۔
۲۱ھ: حضرت عمر نے ایرانی فوجوں کا ہر جگہ تعاقب کرنے اور شاہ ایران کوایران سے نکالنے کا فیصلہ کیا،کیونکہ وہ ہر سال نئی جنگ کی تیاری کرتا تھا۔ انھوں نے امیرکوفہ حضرت عمار بن یاسر کو اصفہان جانے اور حضرت ابوموسیٰ اشعری کو ان کی معاونت کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن ورقا ہراول دستے پر مامور ہوئے۔ اصفہان کے ایک ضلع میں گھمسان کی جنگ ہوئی، ایرانی فوج کے بوڑھے سردار شہربراز جاذویہ نے دعوت مبارزت دی تو حضرت عبداللہ بن ورقا نے آگے بڑھ کر اسے جہنم رسید کیا۔ اس کے بعد حاکم ضلع استندارنے صلح کرلی۔ اب اسلامی فوج جی ّ کے مقام پر پہنچی، یہ وہی قصبہ ہے جہاں حضرت سلمان فارسی پیدا ہوئے تھے۔ شاہ اصفہان فاذوسفان نے دوبدو مقابلے کے لیے کہا، لیکن پھر جزیہ ادا کر کے صلح کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ تیس شہریوں نے جزیہ ادا کرنے کے بجاے کرمان جانے کوترجیح دی۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری صلح ہوجانے کے بعد جیّ پہنچے تھے۔ معاہدۂ صلح لکھا گیا تو انھوں نے حضرت عبداللہ بن ورقا اور عصمت بن عبداللہ کے ساتھ گواہی ثبت کی۔ جنگ اصفہان میں ایک صحابی حضرت حممہ نے دعا کی: اے اللہ، میں تیری راہ میں شہید ہونا چاہتا ہوں ، اگر میں سچا ہوں تو مجھے عزم عطا کر، میں اس سفر میں واپس نہ لوٹوں ۔ وہ شہید ہو گئے تو حضرت ابوموسیٰ نے کھڑے ہو کر خطاب کیا: سنو، ہم نے اپنے نبی کے جوارشادات سنے اور جو ہمارا علم بتاتا ہے، حممہ شہید ہیں ۔
۲۱ھ: سیدنا عمر کو بہت تجسس تھا، ایرانی مسلمانوں سے کیے ہوئے معاہدات کا پاس کیوں نہیں کرتے؟بار بار ان کی طرف سے عہد شکنی کیوں ہوتی ہے؟احنف بن قیس نے کہا: آپ نے ہمیں ملک ایران میں مزید پیش قدمی سے روک رکھا ہے، جب کہ ایرانی بادشاہ یزدگرد اپنی قوم میں موجود ہے اور انھیں ہمارے خلاف اکساتا رہتا ہے۔ آپ اجازت دیں ، ہم آگے بڑھ کر اس کا رہا سہا اقتدار بھی ختم کر ڈالیں ۔ ایرانیوں کو کسی جانب سے امید نہ رہے گی تب ہی ان کا جوش مزاحمت سرد پڑے گا۔ ادھر نہاوندمیں اکٹھے ہونے والے ایرانی سردارجو اپنی پے در پے شکستوں کے اسباب پر غور کر رہے تھے، اس نتیجے پر پہنچے کہ ایران کی مرکزی حاکمیت کم زورہونے سے اس کی افواج بھی کم زورپڑ گئی ہیں ۔ سب نے مل کر یزدگرد کودعوت دی کہ وہ ایران کی شاہی روایات کا امین ہونے کی وجہ سے اپنی ا فواج کی قیادت خودکرے۔ اس نے ایران کے گوشے گوشے میں موجود فوجی قوت نہاوند منتقل کرنے کی ہدایت کی۔ اس طرح فیرزان کی قیادت میں پندرہ لاکھ کی فوج نہاوند میں اکٹھی ہو گئی۔ اب خلیفۂ ثانی کے لیے ممکن نہ تھا کہ پیش قدمی سے گریزکرنے کی پالیسی بر قرار رکھتے، انھوں نے فتوحات عجم کو وسعت دینے کا فیصلہ کر لیا۔
حضرت عمر نے نماز پڑھانے کے بعد لوگوں سے مشورہ کیا: کیا میں خودقیادت کرتے ہوئے اسلامی فوج عراق لے جاؤں ؟ حضرت علی نے کہا: آپ نے اسلامی سلطنت کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے۔ عجمی آپ کو میدان جنگ میں پا کرختم کرنے کی کوشش کریں گے، اگر یہ لڑی بکھرگئی تو دوبارہ کبھی اکٹھی نہ ہوسکے گی۔ آپ اہل کوفہ کو خط لکھیں ، وہ اس مہم میں شریک ہوں اور اہل بصرہ ان کے ساتھ تعاون کریں ۔ مز ید مشاورت کے بعدحضرت نعمان بن مقرّن کو کمانڈرمقرر کرنے کا فیصلہ ہوا۔ حضرت عمر نے انھیں فوج لے کر ماہ کی طرف جانے کا حکم دیا۔ انھوں نے حضرت عبداﷲ بن عتبان کو خط لکھا کہ ماہ میں نعمان کے ساتھ جا ملیں اوران کی مشترکہ فوج نہاوند کو کوچ کرے۔ امیر المومنین نے حضرت نعمان کی شہادت کی صورت میں حضرت حذیفہ بن یمان اور ان کے بعدحضرت نُعیم بن مقرّن کو کمان لینے کا حکم دیا۔ انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ، سلمی بن قین اور حرملہ بن ریطہ کو ہدایت بھیجی کہ فیرزان کو کمک پہنچنے میں رکاوٹ پیدا کریں اور بصرہ کی افواج لے کر آئیں ۔ معرکۂ نہاوند میں مسلمانوں کو عظیم الشان فتح حاصل ہوئی، جسے فتح الفتوح کہا جاتا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری جنگ نہاوند میں مصرو ف اسلامی فوج کومدد فراہم کرنے کے بعد دینور پہنچے۔ پانچ دن کے قیام کے دوران میں انھوں نے جزیہ ادا کرنے کی شرط پر وہاں کے باشندگان سے صلح کی، پھر اسی طرح اہل سیروان سے صلح نامہ تحریرکیا۔ انھوں نے حضرت سائب بن اقرع کو صیمرہ بھیجا، جنھوں نے مہرجان قذق سے انھی شرائط پر صلح کی۔
۲۱ھ:اس سال حضرت ابوموسیٰ اشعری نے قم اور قاشان فتح کیے(ابن کثیر)۔
۲۲ھ(۶۳۴ء):کوفہ کے لوگوں نے اپنے گورنر حضرت عمار بن یاسر پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تو حضرت عمر نے انھیں مدینہ طلب کیا۔ حضرت عمار کے ساتھ جانے والے کوفہ کے وفد نے بھی ان کے طرز حکومت پر تنقید کی۔ حضرت عمر نے حضرت عمار کو معزول کرنے کے بعد اہل کوفہ سے مشورہ لیا:تم کسے حاکم بنانا چاہتے ہو؟ انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کا نام لیا۔ حضرت عمر نے ان کی تقرری کر دی، وہ ایک سال اس عہدے پر فائز رہے، لیکن اہل کوفہ نے ان کے خلاف بھی شکایتیں کرنا شروع کر دیں کہ ان کاغلام تجارت کرتا ہے تو حضرت عمر نے انھیں ہٹا کر واپس بصرہ کی گورنری پر فائز کردیااور حضرت مغیرہ بن شعبہ کو کوفہ کا گورنر بنا دیا۔
۲۲ھ:حضرت ابوموسیٰ یا حضرت سائب بن اقرع نے ماہ دینار فتح کیا۔
۲۳ھ(طبری، ابن جوزی، ابن اثیر، ابن کثیر)۔ ۲۱ھ(ذہبی):اس سال حضرت عثمان بن ابوالعاص نے اصطخر فتح کیا، لیکن خلافت فاروقی کے آخری زمانے میں ایرانی کمانڈر شہرک نے بغاوت کر دی۔ حضر ت عثمان بن ابوالعاص دوبارہ آئے، شہرک کو موت کے گھاٹ اتا رکر بغاوت فروکی اور حضرت عمر کو خط لکھا:میرے اور کوفہ کے بیچ کھلا راستہ ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ دشمن وہاں سے در آئے گا، ایسا ہی خط حاکم کوفہ نے بھی لکھا۔ تب حضرت عمر نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کی قیادت میں سات سو کی سپاہ متعین کی اور اسے بصرہ میں مقیم رکھا۔
۲۳ھ:اسلامی فوجیں ایران میں برسر پیکار تھیں کہ خوزستان کے دوسرے دارالسلطنت اہواز کے مقام بیروذمیں کردوں اوردیگر ایرانیوں کا ایک بڑا لشکر جمع ہو گیا۔ حضرت عمر نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو وہاں پہنچنے کی ہدایت کی۔ نہر تیری اورمناذر کے درمیان ان کا دشمنوں سے مقابلہ ہوا۔ حضرت مہاجر بن زیاد جاں فشانی سے لڑتے ہوئے شہید ہو ئے۔ بھاری جانی نقصان اٹھا کر دشمن محصور ہو گیا تو حضرت ابوموسیٰ نے حضرت مہاجر کے بھائی حضرت ربیع بن زیاد کو کمانڈر مقررکیا اور اصفہان چلے آئے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری نے بیروذکی فتح کے بعد مال غنیمت اورجنگی قیدیوں کو اکٹھا کیا اور فتح کی خبر مدینہ بھیجنے کے لیے ایک وفد تیار کیا۔ اتنے میں قبیلہ عنزہ کا ایک شخص ضبہ بن محصن آیا اور کہا:میرا نام وفد میں لکھ لیں ۔ حضرت ابوموسیٰ نے کہا:ہم نے تم سے زیادہ حق دار افراد شامل کیے ہیں ۔ وہ ناراض ہو کرشکایت کرنے حضرت عمر کے پاس پہنچ گیا اور حسب ذیل شکایتیں پیش کیں: ۱۔ حضرت ابو موسیٰ نے اسیران جنگ میں سے ساٹھ رئیس زادے چھانٹ کر اپنے لیے رکھے ہیں ۔ ۲۔ انھوں نے ناپنے کے دو پیمانے رکھے ہیں ۔ ۳۔ انھوں نے عنان حکومت زیاد بن سمیہ کے سپرد کردی ہے اور وہی سیاہ و سپید کا مالک ہے۔ ۴۔ انھوں نے شاعر حطیہ کو ایک ہزار انعام دیا ہے۔ وہ اپنی لونڈی عقیلہ کو دن میں دو پیالے بھر کر عمد ہ غذائیں بہم پہنچاتے ہیں ۔
حضرت عمر نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو بلا کر تفتیش کی توانھوں نے عنزی کے الزاموں کا جواب دیتے ہوئے بتایا: ساٹھ غلاموں کا زرفدیہ مقرر تھا جو مسلمانوں میں تقسیم کیا گیا۔ ناپنے کا ایک قفیز میرے اہل وعیال کے لیے ہے اور دوسرا مسلمانوں میں رزق تقسیم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ زیاد بن سمیہ شریف او رعقل مند ہے، اس لیے میں نے اپنے کام اس کے سپرد کیے۔ شاعر حطیہ کا میں نے اپنے ذاتی مال سے منہ بند کیا تاکہ وہ مجھے گالی نہ دینے پائے۔ لونڈی عقیلہ کی خوش خوراکی کا انھوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ حضرت عمر نے حضرت ابوموسیٰ کومعمولی فہمایش کے بعد بری قراردیا اور اپنے منصب پر واپس بھیج دیا۔
۲۳ھ:حضرت ابو موسیٰ اشعری حضرت عمر کے حکم پرفوج لے کراصفہان پہنچے اورلوگوں کواسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ وہ نہ مانے تو جزیہ ادا کر کے صلح کرنے کی پیشکش کی۔ اہل اصفہان نے صلح کر لی، مگر اگلے روز مکر گئے۔ تب حضرت ابو موسیٰ نے حملہ کر دیا اورجلد فتح پالی۔ حضرت عمر نے ان کو اصفہان کی عمل داری بھی دی۔ اس سال حضرت ابوموسیٰ اشعری بصرہ کے گورنر رہے۔ انھیں گورنری سے ہٹایا گیا توان کے پاس صرف چھ سو درہم تھے جو ان کے اہل وعیال کو ملنے والا وظیفہ تھا۔
حضرت عمر نے حضرت ابوموسیٰ کو جاگیر دی۔
عرب فوجیوں کو عجم کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو حضرت عمر کے حکم پر دجلہ و فرات کے ڈیلٹا میں بصرہ کا نیا شہر بسایا گیا۔ حضرت عمر نے شہر کا نقشہ خود تجویز کیا، جب کچی اینٹوں کے سات محلے بن گئے تو انھوں نے حضرت عتبہ بن غزوان کو شہریوں کی پانی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے دریاے فرات سے بصرہ تک نہر بنانے کا حکم دیا۔ پھر جب انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو شہر کا پہلا گورنر مقرر کیا تو انھیں دریاے د جلہ سے دوسری نہر بصرہ تک لانے کی ہدایت کی۔ حضرت ابو موسیٰ نے خود مستعد ہو کرچھ میل لمبی نہر کھدوائی جو نہر ابوموسیٰ کے نام سے مشہور ہے۔ عہد اموی میں ان دونوں نہروں کی سیرابی سے بنجر زمین کا ایک بڑا رقبہ شاداب ہو گیا۔
حضرت عمر کی شہادت کے وقت حضرت ابوموسیٰ اشعری بصرہ میں نماز پڑھانے پر مامور تھے۔ حضرت عمر نے اپنی وصیت میں لکھاکہ کسی عامل کو ایک سال سے زیادہ برقرار نہ رکھا جائے، تاہم حضرت ابوموسیٰ چا ر سال عامل رہے(احمد، رقم ۱۹۴۹۰)۔
حضرت ابو موسیٰ شام میں تھے کہ حضر ت عمر نے انھیں بلا بھیجا اور کہا:میں نے تمھیں ایک خیر کے لیے بلایاہے کہ تم میری خواہش کو اپنی خواہش پر ترجیح دو۔ تمھاری خواہش اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تمھیں بصرہ بھیجوں اورتم وہاں کے لوگوں کو اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کی تعلیم دو اور ان کے دشمنوں سے جہاد کر کے مال غنیمت ان میں تقسیم کرو۔ حسن بصری کہتے ہیں :حضرت ابوموسیٰ نے بصرہ والوں کو اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کی تعلیم دی اور ان کے دشمنوں سے جہاد کر کے مال غنیمت ان میں تقسیم کیا:واللہ، بصرہ والوں کے حق میں حضرت ابوموسیٰ سے بہتر شہ سوار نہیں آیا(مستدرک حاکم، رقم ۵۹۶۲)۔ حضرت ابو موسیٰ بصرہ کی مسجدمیں بیٹھ جاتے اور اپنے سامنے لوگوں کی صفیں بنوا کر قرآن مجید پڑھاتے۔ لو گ ایسے منہمک ہوتے کہ رفع حاجات بھی بھول جاتے۔
حضرت عمر نے حضرت ابوموسیٰ کو نصیحت کی:قضا بڑا فریضہ ہے۔ کم زور کواپنے عدل سے ما یوس نہ ہونے دینا، طاقت ور کو اپنے اختیار سے فائدہ نہ اٹھانے دینا۔ مدعی کو مہلت دینا کہ وہ اپنی گواہی پیش کر سکے۔ جس مسلمان پر کوئی حد نہ لگی ہو یا وہ جھوٹی گواہی کا مرتکب نہ ہو ا ہو تو اسے عادل سمجھنا۔ ملتے جلتے قضیوں میں قیاس کرنا۔ صلح بہتر ہے، بشرطیکہ وہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہ کردے۔ کوئی فیصلہ کرنے کے بعد اس کی غلطی واضح ہوجائے تو حق کو اختیار کرنے سے نہ ہچکچانا۔ غصہ نہ کرنا، صبر سے کام لینا اور لوگوں کو ایذا نہ دینا۔ قضاسے بڑا اجر و ثواب کمایا جا سکتا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری نے حضرت عمر کی اہلیہ حضرت عاتکہ بنت زید کوتحفے میں ایک غالیچہ بھیجا۔ حضرت عمر نے پوچھا:یہ کہاں سے آیا؟حضرت عمر نے غالیچہ اہلیہ کے سر پر دے مارا، حتیٰ کہ سر سے دھول اڑنے لگی، پھر پکارے:ابوموسیٰ کو پکڑ کر لاؤ۔ انھیں کھینچ کر لایا گیاتو کہا: تمھیں کیسے ہمت ہوئی کہ میری بیویوں کو تحائف دو۔ غالیچہ ان کے سر پر مار کر کہا: لے جاؤ، ہمیں اس کی حاجت نہیں ۔
ایک بارحضرت ابو موسیٰ نے حضرت عمر کوخط لکھا: کاتب نے ’من ابی موسٰی‘ کے بجاے ’من ابوموسٰی‘ لکھ دیا۔ حضرت عمر نے جواب دیا:کاتب کو ایک درہ لگاؤ اور اس کی جگہ نیا کاتب رکھ لو۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری نے حضرت عمر کو لکھا:آپ کی طرف سے جو خط آتے ہیں ، ان کے وقت تحریر اور تاریخ کا پتا نہیں چلتا۔ حضرت عمر نے صحابہ سے مشورہ کیا تو کسی نے کہا: بعثت نبوی سے تاریخ شروع کر لیں ، کسی نے آپ کی وفات سے کیلنڈر شروع کرنے کا مشورہ دیا، لیکن حضرت عمر نے کہا:میں ہجرت نبوی سے اسلامی سال کا آغاز کروں گا، کیونکہ ہجرت نے حق و باطل میں تمیز کر دی۔
عہد فاروقی میں حضرت ابوموسیٰ عمرے کا احرام کھول کر حج تمتع کرنے کا فتویٰ دیا کرتے تھے، لیکن جب ایک شخص نے انھیں یہ کہہ کر منع کیا کہ عمر نے اس بارے میں نئی راے اختیارکر لی ہے تو انھوں نے اعلان کیا: لوگو، تامل کرو، امیر المومنین آنے والے ہیں ، ان کی پیروی کرو۔ حضرت عمر نے کہا:اگر ہم کتاب اللہ پر عمل کریں تو وہ ہمیں حج وعمرہ مکمل کرنے کا حکم دیتی ہے اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کریں تو آپ نے بھی ہدی ذبح ہونے تک احرام نہ کھولا تھا۔ اگر تمتع کی اجازت دے دی جائے تو تمام مسلمان حج کرنے آئیں گے تو تازہ غسل کرنے کی وجہ سے ان کے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو گا (بخاری، رقم ۱۵۵۹۔ مسلم، رقم ۲۹۶۱۔ نسائی، رقم ۲۷۴۳۔ ابن ماجہ، رقم ۲۹۷۹۔ احمد، رقم ۱۹۶۷۱)۔
۲۴ھ:حضرت عثمان نے خلافت سنبھالنے کے بعد حضرت ابوموسیٰ اشعری کو بصرہ کی گورنری پر برقرار رکھا۔ وہ نماز پڑھاتے اور قاضی کے فرائض انجام دیتے۔ جب وہ کسی معرکے پر جاتے تو حضرت عمران بن حصین یا زیاد بن سمیہ کو اپنا قائم مقام مقرر کرتے۔ حضرت عثمان نے حضرت ابوموسیٰ کوبصرہ کے قاضی کی ذمہ داریاں بھی سونپیں ۔
۲۴ھ:اہل رے نے حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت سوید بن مقرن کے ساتھ کیے ہوئے معاہدۂ صلح کی خلاف ورزی کی تو حضرت ابوموسیٰ اشعری (دوسری روایت: حضرت قرظہ بن کعب)نے رے کو دوبارہ زیرکیا(ابن کثیر)۔
۲۷ھ:حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت عثمان بن ابوالعاص نے ارّجان اور دارابحرد کے باشندگان سے جزیہ وصول کرنے کی شرط پر معاہدات صلح کیے۔
۲۹ھ:چارسال (دوسری روایت:تین سال) بصرہ کی گورنری کرنے کے بعد حضرت عثمان نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو ہٹا کرعبداللہ بن عامر کو بصرہ کا حاکم مقرر کیا۔ غیلان بن خرشہ ضبی نے ان سے کہا تھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی جوان نہیں ، یہ بوڑھے ابوموسیٰ کب تک بصرہ کے حاکم رہیں گے؟ عبداللہ بن عامر حضرت عثمان کے ماموں زاد تھے اور ان کی عمر پچیس سال تھی۔ حضرت ابوموسیٰ نے کہا:تمھارے اوپر قریش کا ایک نوجوان آیا ہے، جس کی مائیں ، پھوپھیاں اور خالائیں بڑے حسب نسب والی ہیں ۔ مال کے ذریعے سے تم پر ایسے ویسے حکم لگائے گا۔ حضرت ابوموسیٰ چالیس خچروں پر گھر کا ساز و سامان لاد کر محل سے نکلے تو لوگوں نے ان کی باگ تھام لی اور کہا:یہ فالتو سامان ہمیں اٹھوا دیں اور خود پیدل چلیں، جیسے ہمیں پیدل جہاد کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ انھوں نے اپنا کوڑا گھمایا تو لوگوں نے راستہ دیا۔
۳۴ھ:بنوہمدان کے یزید بن قیس ارحبی نے جمل، صفین اور نہروان کی جنگوں میں حضرت علی کا ساتھ دیا تھا۔ حضرت علی نے اسے رے، ہمدان اور اصفہان کا گورنر بھی مقرر کیا تھا۔ ۳۴ھ میں وہ کوفہ کی مسجدمیں بیٹھ گیا اور حضرت عثمان کی حکومت کے خلاف سازشیں کرنے لگا۔ حضرت قعقاع نے اس کی گرفت کی تو بولا:ہم سعید بن العاص کو کوفہ کی گورنری سے ہٹانا چاہتے ہیں ۔ حضرت سعید بن العاص حضرت عثمان سے ملاقات کرکے مدینہ سے واپس آئے تو اشتر کی سپاہ نے انھیں کوفہ میں داخل نہ ہونے دیا۔ یزید بن قیس عارضی امیر بنا،پھر حضرت عثمان نے اہل کوفہ کا مطالبہ مانتے ہوئے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو کوفہ کا گورنر مقرر کردیا۔ حضرت ابوموسیٰ نے کوفہ پہنچ کر خطاب کیا:لوگو، اپنی جماعت سے جڑے رہو، اطاعت کر و، جلدبازی نہ کرو اور صبر سے کام لو۔ انھوں نے حاضرین سے حضرت عثمان کے لیے سمع وطاعت کا عہدلیا۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ