اپنی کتاب ’’ قرآن وسنت کا باہمی تعلق“ میں سنت کے ذریعے سے قرآن کے حکم کی تنسیخ سے متعلق امام شافعی کے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے ہم نے حسب ذیل نکات کا ذکر کیا ہے:
۱۔ کتاب اللہ اور سنت،دونوں کا منبع ایک ہی چیز، یعنی وحی الہٰی ہے، اس لیے اطاعت واتباع کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
۲۔ قرآن یا حدیث میں کوئی حکم عموم کے اسلوب میں وارد ہو تو وہ تفصیل وتوضیح کا محتمل ہوتا ہے اور اگر متکلم کی طرف سے اس میں کوئی تخصیص کی جائے تو وہ متکلم کی مراد کی وضاحت ہوتی ہے۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بھی وحی پر مبنی ہیں، اس لیے احادیث میں وارد تمام تخصیصات اللہ تعالیٰ ہی کی مراد کی وضاحت کا درجہ رکھتی ہیں۔
۳۔ جن امور میں قرآن نے کوئی حکم بیان کیا ہو، ان میں سنت ہر حال میں قرآن کے تابع اور اس کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے۔ اس لیے سنت، قرآن کے کسی حکم کو منسوخ نہیں کر سکتی اور کتاب اللہ میں وارد کسی حکم کا ناسخ بھی کتاب اللہ ہی میں نازل ہو نا ضروری ہے۔
امام شافعی کے اس موقف کے آخری نکتے، یعنی سنت سے قرآن کی تنسیخ کے عدم جواز سے علماے اصول کی ایک بڑی جماعت نے اختلاف کیا ہے، جس میں خود شافعی روایت کے بڑے اصولیین بھی شامل ہیں۔ ان حضرات کی طرف سے امام صاحب کے موقف پر تنقید کے لیے جو بنیادی اور اہم معارضات پیش کیے گئے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
۱۔ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے کسی حکم کے منسوخ ہونے کا علم وحی سے ہی ہو سکتا ہے۔ قرآن اور سنت چونکہ دونوں وحی پر مبنی ہیں، اس لیے قرآن کے کسی حکم کا ناسخ قرآن میں وارد ہو یا سنت میں، اس سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
۲۔ قرآن کے کسی حکم کی تخصیص سنت میں بیان ہونا اہل علم کے مابین مسلم ہے۔ نسخ بھی تخصیص کے مماثل ہے، کیونکہ دونوں میں مختلف پہلوؤں سے حکم کے دائرۂ عمل کی تحدید واضح کی جاتی ہے۔ چنانچہ جب سنت سے قرآن کی تخصیص کا جواز مسلم ہے تو نسخ کا جواز نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں۔
۳۔ قرآن مجید نے احکام شرعیہ کی تبیین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ بیان ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے، جس میں دوسرے پہلوؤں کے ساتھ ساتھ کسی حکم کے منسوخ ہونے کی وضاحت بھی شامل ہے، اس لیے قرآن کی بیان کردہ ذمہ داری کے تحت سنت، قرآن کے کسی حکم کا منسوخ ہونا بھی بیان کر سکتی ہے۔
۴۔ سنت میں وارد بہت سے احکام کو ان کی نوعیت کے لحاظ سے نسخ ہی قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ ان کی کوئی معقول توجیہ ممکن نہیں۔
ہم نے اپنی کتاب میں واضح کیا ہے کہ ہمارے نقطۂ نظر سے اصول فقہ کی روایت میں نسخ القرآن بالسنۃ کے جواز کا موقف عموماً قبول کر لیے جانے کا اہم ترین سبب مذکورہ استدلالات میں سے چوتھا اور آخری استدلال ہے، جو ایک عملی مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اصولی نوعیت کے استدلالات جو پہلے تین معارضات میں ذکر کیے گئے ہیں، ثانوی طور پر اور بحث ونظر کی ضرورت کے تحت پیدا ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے ہماری کتاب میں چوتھے نکتے کی وضاحت تو کافی تفصیل سے کی گئی ہے، لیکن امام شافعی کے موقف پر اصولی نوعیت کے معارضات پر زیادہ تبصرہ نہیں کیا گیا۔ زیرنظر سطور میں ہماری کوشش ہوگی کہ بحث کے اس پہلو کا بھی جائزہ لے لیا جائے اور مذکورہ اصولی معارضات کا ایک ناقدانہ تجزیہ پیش کر دیا جائے۔
سب سے پہلا اور اہم معارضہ یہ پیش کیا گیا ہے، جسے اصول فقہ کی روایت میں ایک عمومی قبولیت بھی حاصل ہوئی ہے کہ جب قرآن اور سنت، دونوں وحی پر مبنی ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم وحی الٰہی ہی کی روشنی میں شریعت کے احکام بیان فرماتے ہیں تو پھر نسخ کے بیان کے لیے اس اصرار کا کوئی جواز نہیں کہ قرآن میں وارد حکم کا ناسخ بھی قرآن میں ہی نازل ہو۔
امام الحرمین الجوینی نے اس استدلال کی وضاحت یوں کی ہے:
قطع الشافعي جوابه بأن الكتاب لا ينسخ بالسنة وتردد قوله في نسخ السنة بالكتاب والذي اختاره المتكلمون وهو الحق المبين أن نسخ الكتاب بالسنة غير ممتنع والمسألة دائرة على حرف واحد وهو أن الرسول لا يقول من تلقاء نفسه أمرًا وإنما يبلغ ما يؤمر به كيف فرض الأمر ولا امتناع بأن يخبر الرسول الأمة مبلغًا بأن حكم آية يذكرها قد رفع عنكم ويرجع حاصل القول في المسألة إلى أن النسخ لا يقع إلا بأمر اللّٰه تعالىٰ ولا ناسخ إلا اللّٰه والأمر كيف فرض جهات تبليغه للّٰه تعالىٰ فهذا القدر فيه مقنع. (البرہان فی اصول الفقہ ۲ / ۲۵۳)
’’امام شافعی کا موقف اس حوالے سے تو حتمی ہے کہ کتاب اللہ کو سنت سے منسوخ نہیں کیا جاسکتا، جب کہ سنت کو کتاب سے منسوخ کرنے میں ان کا موقف حتمی نہیں ہے۔ متکلمین نے جو موقف اختیار کیا ہے اور وہی واضح طور پر درست موقف ہے، وہ یہ ہے کہ کتاب اللہ کا حکم سنت سے منسوخ ہونے میں کوئی مانع نہیں۔ اس بحث کا مدار ایک ہی نکتے پر ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جانب سے کوئی بات نہیں کہتے، بلکہ جو آپ کو حکم دیا جائے، اسی کا ابلاغ کرتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ اگر امت تک یہ اطلاع پہنچائیں کہ فلاں آیت کا حکم اب باقی نہیں رہا تو اس میں کوئی مانع نہیں۔ حاصل کلام یہی ہے کہ نسخ اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے ہوتا ہے اور اللہ کے سوا کوئی ناسخ نہیں ہو سکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس حکم کے ابلاغ کی کیا صورت اختیار کرتا ہے (اور وہ سنت کے ذریعے سے بھی ہو سکتا ہے)۔ یہی نکتہ اس بحث میں فیصلہ کن ہے۔“
نسخ القرآن بالسنۃ کے جواز کے قائل تمام اصولیین کے ہاں اسی نکتے، یعنی قرآن اور سنت کے مبنی بر وحی ہونے کو بنیاد بنایا گیا ہے، البتہ اس کی تفصیل میں ان کے مابین اہم اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ابن حزم نے سرے سے وحی متلو اور غیر متلو اور متواتر وآحاد کے فرق کو ہی نظر انداز کر دیا اور یہ کہا کہ اللہ نے جو بھی وحی نازل کی ہے، چاہے وہ قرآن میں ہو یا حدیث میں، ایک ہی حیثیت رکھتی ہے اور ان میں فرق بس ظاہری صورت کا ہے، اس لیے احکام کی تعبیر وتشریح کے باب میں یہ امتیاز کرنا ہی سرے سے درست نہیں کہ یہ آیت ہے اور یہ حدیث ہے ۔ یہ دونوں وحی ہیں اور جیسے کتاب اللہ کی آیات ایک دوسرے کو منسوخ کر سکتی ہیں، اسی طرح احادیث بھی آیات کو منسوخ کر سکتی ہیں۔ شافعی اصولیین نے ابن حزم کی طرح آیت اور حدیث کے فرق کو بالکل ختم تو نہیں کیا، لیکن یہ نکتہ انھوں نے بھی قبول کر لیا کہ دونوں چونکہ وحی پر مبنی ہیں، اس لیے تغییر ونسخ کے تعلق سے دونوں کے احکام ایک جیسے ہونے چاہییں۔ حنفی فقہا نے اس میں ایک مزید شرط یہ شامل کی کہ چونکہ قرآن کے حکم میں تبدیلی کا معاملہ ہے، جو بہرحال قطعی الثبوت ہے، اس لیے حدیث کو بھی اس درجے کا ہونا چاہیے کہ اس سے کتاب اللہ کے حکم میں تبدیلی کرتے ہوئے اس کے ثبوت کے حوالے سے مکمل اطمینان ہو۔ چنانچہ وہ اخبار آحاد سے قرآن کے نسخ کا جواز اس صورت میں مانتے ہیں جب حدیث یا تو مشہور ومتواتر ہو یا اس کو اہل علم کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہو ۔
اصولیین کی طرف سے جو معارضہ پیش کیا گیا ہے، وہ اول وہلہ میں قوی دکھائی دیتا ہے اور یہ سوال بظاہر جائز معلوم ہوتا ہے کہ جب امام شافعی کے نزدیک قرآن اور حدیث، دونوں کا ماخذ وحی ہے اور اسی بنیاد پر وہ دونوں کے حجت اور واجب الاتباع ہونے پر اصرار کرتے ہیں ، اور دوسری طرف ان کے نزدیک شریعت میں بعض احکام کا بعض کے لیے ناسخ ہونا بھی مسلم ہے تو پھر سنت کے لیے قرآن کا ناسخ ہونے کا جواز وہ آخر کیوں نہیں مانتے؟ اگر قرآن کی ایک آیت دوسری آیت کو اور ایک حدیث دوسری حدیث کو منسوخ کر سکتی ہے ، کیونکہ دونوں وحی پر مبنی ہیں تو کوئی حدیث قرآن کی کسی آیت کو منسوخ کیوں نہیں کر سکتی، جب کہ حدیث بھی وحی پر مبنی ہوتی ہے؟ بالفاظ دیگر جب دونوں وحی پر مبنی کلام ہیں اور ان دونوں کے بیانات کو ایک ہی متکلم کے اجزاے کلام کے طور پر دیکھنا ضروری ہے اور اجزاے کلام کے باہمی تعلق کی دوسری تمام صورتیں جن کا تعلق تبیین وتوضیح اور تخصیص وغیرہ سے ہے، قرآن اور حدیث کے مابین موجود ہیں تو اس خاص تعلق کے ممنوع ہونے کی کیا وجہ ہے جسے نسخ سے تعبیر کیا جاتا ہے؟
تاہم امام شافعی کے اصولی فریم ورک کو اس کی کلیت میں ملحوظ رکھا جائے تو ان کے موقف پر یہ معارضہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام صاحب کے اصولی موقف میں صرف یہی ایک نکتہ نہیں ہے کہ سنت وحی پر مبنی ہوتی ہے، اس کے ساتھ، بلکہ اس سے پہلے ایک بنیادی نکتہ یہ بھی ہے کہ احکام شرعیہ کے بیان میں اصل اور اساسی ماخذ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور کتاب اللہ میں ہی تمام تکلیفی امور سے متعلق بنیادی رہنمائی موجود ہے۔ امام شافعی کے الفاظ میں:
فليست تنزل في أحد من أهل دين اللّٰه نازلة إلا وفي كتاب اللّٰه الدليل على سبيل الهدى فيها. (الرسالہ ۲۰)
’’اللہ کے دین کو ماننے والوں کو جو بھی مسئلہ درپیش ہو، اللہ کی کتاب میں اس سے متعلق درست راستے کی رہنمائی موجود ہوتی ہے۔“
اس کی تفصیل امام شافعی نے یوں کی ہے کہ جملہ تکلیفی امور سے متعلق کتاب اللہ میں پانچ طریقوں سے انسانوں کو رہنمائی فراہم کی گئی ہے:
پہلا یہ کہ دین کے بنیادی فرائض ، مثلاً نماز اور زکوٰۃ کو اور قطعی محرمات جیسے زنا، شراب اور حرام جانوروں کے گوشت کو تصریحاً ونصاً کتاب اللہ میں بیان کر دیا گیا ہے۔
دوسرا یہ کہ بعض احکام، مثلاً طہارت حاصل کرنے کے لیے وضو کے کچھ پہلو کتاب اللہ میں بیان کر دیے گئے ہیں، جب کہ کچھ دیگر پہلوؤں کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ذریعے سے کر دی گئی ہے۔
تیسرا یہ کہ بعض شرائع، مثلاً نماز، زکوٰۃ اور حج کا مجملاً ذکر کر کے ان کی تفصیلات کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کر دی گئی ہے۔
چوتھا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض قرار دیا گیا ہے ، جس کی رو سے قرآن کی تبیین و تشریح کے علاوہ ان تمام امور میں بھی آپ کے دیے ہوئے احکام کی اتباع لازم ہے، جن کا قرآن مجید نے ذکر نہیں کیا۔
پانچواں یہ کہ کتاب اور سنت میں منصوص امور کے علاوہ باقی معاملات میں اہل ایمان کو مکلف ٹھیرایا گیا ہے کہ وہ قیاس اور اجتہاد کی مدد سے کسی نتیجے تک پہنچیں اور اس پر عمل کریں (الرسالہ ۲۱ - ۳۴)۔
اس بنیادی فریم ورک میں امام شافعی احکام شرعیہ کے بیان میں سنت کا وظیفہ اور اس کا دائرہ بھی متعین کرتے ہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ دین کا بنیادی ماخذ اللہ کی کتاب ہے اور اللہ کا پیغمبر بھی کتاب اللہ کی اتباع کا مکلف ہے ۔ چنانچہ پیغمبر کو بذریعہ وحی کتاب اللہ کے علاوہ جو رہنمائی دی جائے گی، وہ یا تو ان امور سے متعلق ہوگی جن کے بارے میں کتاب اللہ خاموش ہے اور یا کتاب اللہ کے کسی حکم کی توضیح وتفصیل پر مشتمل ہوگی۔ توضیح وتفصیل سے ہٹ کر کتاب اللہ کے حکم کے معارض کوئی حکم بیان کرنا سنت کے وظیفے میں شامل نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی حکم میں تبدیلی کرنی ہے تو اس سے متعلق کتاب اللہ میں ہی وحی نازل کی جائے گی، جس میں اصل حکم نازل ہوا تھا، کیونکہ جب پیغمبر خود کتاب اللہ کی پیروی کا مکلف ہے تو پیغمبر پر کتاب اللہ کے علاوہ جو وحی نازل کی جائے، اس میں بھی یہ التزام ضروری ہے کہ وہ کتاب اللہ کے تابع اور اس کی تشریح و تفصیل کرنے والی ہو، کتاب اللہ کے حکم کو تبدیل کرنے والی نہ ہو۔ بالفاظ دیگر یہ بات تو بالکل بجا ہے کہ جو رہنمائی قرآن میں دی گئی ہے، وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے اور جو قرآن سے باہر دی گئی، وہ بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے، لیکن اللہ نے اپنی کتاب کو دین میں جو حیثیت دی ہے اور پیغمبر پر بھی اس کی اتباع کو لازم قرار دیا ہے، اس کی رو سے یہ ضروری ہے کہ کتاب اللہ سے باہر جو رہنمائی پیغمبر کو دی جائے، وہ بھی کتاب اللہ کے تحت اور اس کے تابع ہو، اس کے مساوی یا اس پر حاکم بن کر اس کے احکام کو تبدیل کرتی ہوئی دکھائی نہ دے۔
امام شافعی فرماتے ہیں:
فإذا کان اللّٰه عزوجل فرض علی نبیه اتباع ما أنزل إلیه وشھد له بالھدی وفرض علی الناس طاعته... فقامت السنة مع کتاب اللّٰه ھذا المقام، لم تکن السنة لتخالف کتاب اللّٰه ولا تکون السنة إلا تبعًا لکتاب اللّٰه بمثل تنزیله أو مبینة معنی ما أراد اللّٰه تعالیٰ، فھي بکل حال متبعة کتاب اللّٰه.(الام ۱/ ۹۷)
’’جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر اللہ کی نازل کردہ وحی کی اتباع کو فرض ٹھیرایا اور اس کے ہدایت ہونے کی گواہی دی ہے اور اپنے بندوں پر بھی اس کی پیروی کو لازم قرار دیا ہے، ... اور سنت کی حیثیت اللہ کی کتاب کے ساتھ یہ ہے، تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ سنت، کتاب اللہ کی مخالفت کرے۔ سنت ہمیشہ اللہ کی کتاب کے مطابق ہی ہوگی، چاہے اس میں اسی حکم کو بیان کیا جائے جو کتاب اللہ میں اترا ہے یا اللہ کی مراد کو واضح کیا جائے۔ بہرحال سنت، کتاب اللہ کے تابع ہی ہوتی ہے۔‘‘
امام شافعی نے اس زاویۂ نظر کی مزید تائید کے لیے قرآن مجید کی متعدد آیات کا حوالہ بھی دیا ہے ، جن میں اللہ کے حکم میں تبدیلی اور نسخ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اللہ کا پیغمبر اپنی طرف سے خدا کے کلام میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔ مثلاً :
قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْ٘ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِيْﵐ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰ٘ي اِلَيَّ. (یونس ۱۰ :۱۵)
’’ تم کہہ دو کہ مجھے یہ حق نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اس کو بدل ڈالوں۔ میں تو بس اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا٘ اَوْ مِثْلِهَا. (البقرہ ۲: ۱۰۶)
’’ہم جو بھی آیت منسوخ کرتے ہیں یا اسے (پیغمبر کو) بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی دوسری آیت لے آتے ہیں۔‘‘
وَاِذَا بَدَّلْنَا٘ اٰيَةً مَّكَانَ اٰيَةٍ. (النحل ۱۶: ۱۰۱)
’’اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت کو تبدیل کرتے ہیں۔‘‘
يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ. (الرعد ۱۳ : ۳۹)
’’اللہ جو چاہتا ہے، مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے، باقی رکھتا ہے۔‘‘
مذکورہ آیات کا حوالہ دینے سے امام صاحب کا مقصود اسی نکتے کو واضح کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی اتباع اور اطاعت کو یقیناً لازم قرار دیا ہے، لیکن بیان احکام میں اپنے کلام اور اپنے پیغمبر کے کلام کو بالکل یکساں قرار دیتے ہوئے ایسا اسلوب اختیار نہیں کیا کہ متبوع اور تابع کا امتیاز ہی ظاہراً ختم ہو جائے ۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے احکام کے نسخ اور تبدیلی کی نسبت خود اپنی طرف کی ہے تو اس سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ کسی منسوخ حکم کا ناسخ بھی اللہ ہی کے کلام میں وارد ہوگا۔
استدلال کے اس زاویے کو امام شافعی کے ناقدین درست طور پر نہیں سمجھ سکے اور مذکورہ نصوص میں تبدیلی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیے جانے کو مطلقاً وحی پر محمول کر لیا، جس میں قرآن سے باہر نازل کی جانے والی وحی بھی شامل ہو جاتی ہے۔ پھر اس پر یہ استدلال متفرع کر لیا گیا کہ وحی متلو اور غیر متلو ، چونکہ دونوں وحی کی اقسام ہیں، اس لیے امام شافعی کا ان آیات سے استنباط بے محل ہے، حالاں کہ امام شافعی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود اپنی وحی کو دو صورتوں میں تقسیم کیا ہے اور ان میں سے ایک صورت، یعنی کتاب اللہ کو اصل اور مرکز اتباع قرار دیا ہے، جس کی پابندی پیغمبر پر بھی لازم کی گئی ہے تو قرآن کے علاوہ وحی کی دوسری صورت کے متعلق یہ التزام بھی کیا ہے کہ اس کا قرآن میں نازل کر دہ وحی کے ساتھ اتباع ہی کا تعلق ہو۔ اس حیثیت میں کتاب اللہ کے حکم کے مختلف پہلوؤں کی توضیح وتبیین تو وحی غیر متلو کا وظیفہ ہو سکتی ہے، لیکن قرآن کے حکم کو تبدیل کر دینا وحی غیر متلو کی اس تابع حیثیت کے خلاف ہے، اس لیے حدیث کتاب اللہ کے کسی حکم کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ ہاں، کتاب اللہ میں ناسخ ومنسوخ احکام کے باہمی تعلق کو سمجھنے میں کوئی اشکال یا خفا ہو تو اس کی وضاحت یقیناً وحی غیر متلو کے دائرے میں آتی ہے۔
مذکورہ تمام توضیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اگر امام شافعی کے استدلال کو دیکھا جائے تو اس کے بنیادی نکتے کی مضبوطی اور ناقدین کے معارضے کی کم زوری واضح طورپر سمجھی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام الحرمین نے اپنے خیال میں جس نکتے کو اس بحث میں قاطع اور فیصلہ کن قرار دیا تھا، وہ اصول فقہ کی روایت میں بحث کا خاتمہ نہیں کر سکا اور جہاں علماے اصول کی ایک بڑی جماعت نسخ القرآن بالسنۃ کی قائل رہی ہے، وہاں کبار اہل علم امام شافعی کے بنیادی نکتے کے وزن کو محسوس کرتے ہوئے اس کی تائید بھی کرتے چلے آ رہے ہیں، جس کی تفصیل درج ذیل مصادر میں دیکھی جا سکتی ہے:
قاضی ابوبکر الباقلانی الشافعی (وفات ۴۰۳ھ) التقریب والإرشاد
ابو الطیب سہل بن محمد الصعلوکی (وفات ۴۰۴ھ) الإبهاج فی شرح المنهاج (تاج الدین السبکی)
ابو اسحاق الاسفرائنی (وفات ۴۱۸ھ) ایضاً
ابو منصور البغدادی (وفات ۴۲۹ھ) ایضاً
الماوردی (وفات ۴۵۰ھ) الحاوي الکبیر
ابو اسحاق الشیرازی الشافعی (وفات ۴۷۶ھ) التبصرة في أصول الفقه
ابو المظفر السمعانی الشافعی (وفات ۴۸۹ھ) قواطع الأدلة في الأصول
علامہ طیبی الشافعی (وفات ۷۴۳ھ) حاشیة الطیبي علی الکشاف
تاج الدین السبکی الشافعی (وفات ۷۷۱ھ) الإبهاج في شرح المنهاج
قاضی ابو یعلیٰ الحنبلی (وفات ۴۵۸ھ) العدة في أصول الفقه
ابن الجوزی (وفات ۵۹۷ھ) نواسخ القرآن
ابن تیمیہ الحنبلی (وفات ۶۵۲ھ) المسودة في أصول الفقه
مرعی بن یوسف الکرمی الحنبلی (وفات ۱۰۳۳ھ) قلائد المرجان في بیان الناسخ والمنسوخ في القرآن
موجودہ دور میں ہندوستان میں فراہی مکتب فکر نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا اور سنت سے قرآن کی تنسیخ کے عدم جواز پر امام شافعی کے نقطۂ نظر کی بھرپور تائید کی ہے۔ جناب جاوید احمد غامدی نے اس حوالے سے معارضین کے بنیادی استدلال کی کم زوری کو مختلف پہلوؤں سے یوں واضح کیا ہے:
’’ قرآن مجید سے واقف ہر صاحب نظر اِس بات کا اعتراف کرے گا کہ وہ منتشر اقوال کی صورت میں روایت بالمعنیٰ کے طریقے پر امت کو منتقل نہیں ہوا ہے۔ خدا کا یہ فرمان ایک مربوط کلام ہے جو ابواب و سور میں تقسیم اور کتاب کی شکل میں مرتب ہے ۔ اِس کی ہر آیت اپنے سابق ولاحق سے متعلق ، اپنے سیاق و سباق میں محدود اور ایک مجموعی نظام میں بندھی ہوئی ہے۔ اِس کی ترتیب خود اِس کے نازل کرنے والے نے قائم کی ہے اور اِس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اُس نے اپنے اوپر لی ہے ۔ یہ قول متواتر کے ذریعے سے امت کو ملا ہے ۔ اِس میں روایت باللفظ کا التزام کیا گیا ہے۔ اِس کی حجت حجت بالغہ اور اِس کے لفظ و معنی کی دلالت قطعی ہے ۔ لفظ ’قرآن‘ کا اطلاق صرف اِسی پر کیا جاتا ہے ۔ کلام الہٰی صرف یہی ہے ۔ اِس کے سوا کوئی اور چیز ، خواہ وہ وحی خفی ہو یا وحی جلی ، نہ کلام الہٰی ہے اور نہ اُسے قرآن قرار دیا جا سکتا ہے ۔ وحی خفی کے ذریعے سے اگر کوئی چیز پیغمبر کو ملتی ہے تو وہ قرآن کا حصہ نہیں بن جاتی ، پیغمبر کی حدیث اور پیغمبر کی سنت ہی کہلاتی ہے ۔
یہ سب وہ ناقابل تردید حقائق ہیں جو نہ حال کے لیے نئے ہیں ، نہ ماضی میں لوگ اِن سے ناواقف تھے اور نہ ’نسخ القرآن بالسنة‘ کے قائل ہمارے اِن بزرگوں کی نگاہوں سے یہ اوجھل رہے ہوں گے۔ لیکن اِسے کیا کہیے کہ اُنھوں نے اِن سب کو نظر انداز کر دیا ۔ متلو اور غیر متلو کا فرق اگر اُن کے نزدیک قابل لحاظ نہ تھا تو یہ سارے امتیازات بھی ایسے معمولی اور ناقابل التفات تھے کہ اِن سے صرف نظر کر کے اُنھوں نے یہ راے قائم کی کہ قرآن مجید اور وحی خفی درحقیقت ایک ہی چیز ہیں ؟ یہ حضرات اِسے عقلاً جائز ٹھیراتے ہیں ، دراں حالیکہ کوئی عاقل اِس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وحی خفی سے وحی جلی کو ، روایت بالمعنی سے روایت باللفظ کو ، خبر مظنون سے حدیث قطعی کو اور رسول کے قول و فعل سے کلام الہٰی کو منسوخ کیا جا سکتا ہے یا اُس کے مدعا میں کوئی تبدیلی کی جا سکتی ہے ۔
مقام افسوس ہے کہ ہمارے اِن بزرگوں نے قرآن کی حقیقت بس اتنی ہی سمجھی کہ وہ وحی کے ذریعے سے نازل ہوا ہے ۔ وہ اگر موجود ہوتے تو ہم اُن کی خدمت میں عرض کرتے کہ وہ قرآن کا مقام خود قرآن ہی سے معلوم کریں ۔ وہ اُنھیں بتائے گا کہ اُس کی حقیقت محض یہی نہیں کہ وہ وحی متلو ہے ۔ وہ تو سلسلۂ وحی کا مہیمن، دین کی برہان قاطع، حق و باطل کا معیار ، خدا اور خدا کے رسولوں کی طرف منسوب ہر چیز کے لیے فرقان اور زمین پر خدا کی میزان ہے ۔’اَللّٰهُ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِيْزَانَ‘ (اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری ، یعنی میزان نازل کی)۔ ہر چیز اب اِسی میزان پر تولی جائے گی ۔ اُس کے لیے کوئی چیز میزان نہیں ہے ۔ ہر وہ شخص جو قرآن کے اِس مقام سے واقف ہے ، بغیر کسی تردد کے مانے گا کہ وحی خفی تو ایک طرف ، اگر کوئی وحی جلی بھی ہوتی تو وہ خدا کی اِس میزان میں کوئی کمی بیشی کرنے کی مجاز نہ تھی ۔ وہ بہرحال تسلیم کرے گا کہ قرآن کو صرف قرآن منسوخ کر سکتا ہے ۔ قرآن پر قرآن سے باہر کی کوئی چیز ، جب تک وہ خود اِس کی اجازت نہ دے ، کسی طرح اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔‘‘ (برہان۵۰ - ۵۲)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ