HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ‘؟ (۴)

روایت ابن عباس کا جائزہ

اب ہم اس مضمون میں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب اس روایت کا جائزہ لیں گے۔لازم ہے کہ حضرت ابن عباس کامختصر سا تعارف ہو جائے۔ حضرت ابن عباس، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس کے صاحب زادے ہیں۔آپ کی ولادت ۳ برس قبل ہجرت ہوئی۔آپ کے والد حضرت عباس  ۸ ہجری میں ایمان سے مشرف ہوئے، اور ہجرت کرکے مدینہ پہنچے۔ ۸ ہجری سے پہلے وہ مکہ ہی میں اپنے والد حضرت عباس کے ساتھ رہے۔ بس آپ کو صحبت نبوی انھی ڈیڑھ دو برسوں میں حاصل رہی۔ آپ کی خالہ سیدہ میمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں شامل ہیں۔

اس روایت کا جائزہ ہم اسی اصول پر لیں گے جس اصول پر پہلے بھی راویوں کے تصرفات پر چند مضامین لکھے ہیں۔آئیے، کسی ایک متن سے اس بحث کا آغاز کرتے ہیں:

عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ﴾.
قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ كَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَهُ وَشَفَتَيْهِ فَيَشْتَدُّ عَلَيْهِ، فَكَانَ ذَلِكَ يُعْرَفُ مِنْهُ، فَأَنْزَلَ اللّٰهُ تَعَالىٰ: ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ﴾ أَخْذَهُ ﴿اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗ إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِكَ وَقُرْآنَهُ فَتَقْرَؤُهُ ﴿فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ قَالَ: أَنْزَلْنَاهُ فَاسْتَمِعْ لَهُ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ أَنْ نُبَيِّنَهُ بِلِسَانِكَ فَكَانَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ أَطْرَقَ فَإِذَا ذَهَبَ قَرَأَهُ كَمَا وَعَدَهُ اللّٰهُ.[21] (مسلم رقم۱۴۷، ۴۴۸)
’’سعید بن جبیر قرآن کی آیت ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ ‘ کے بارے میں ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب وحی نازل ہوتی تو ان چیزوں میں سے جس کی وجہ سے آپ اپنی زبان اور ہونٹ ہلاتے تھے تو وہ آپ پرگراں گزرتی، یہ گرانی آپ پر دکھائی بھی دیتی۔ تو اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ قرآن اخذ کرنے کی جلدی میں زبان کو حرکت نہ دیا کیجیے، اس لیے کہ ’اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗ‘، یعنی یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے آپ کے سینے میں جمع کریں اور پڑھائیں، پھر آپ پڑھاکریں۔ ’فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ‘ کہا: تو جب ہم نازل کریں تو آپ اسے توجہ سے سنا کیجیے۔اس کابیان بھی ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اسے آپ کی زبانی اس کا بیان کریں گے۔ پھر جب جبریل علیہ السلام آتے تو (آپ زبان کو حرکت دینے کے بجاے) سر جھکا لیتے، حضرت جبریل جب چلے جاتے تو پھرآپ پڑھتے، جیسا کہ اللہ نے آپ سے وعدہ لیا تھا۔‘‘

اس متن میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ مثلاً یہ جملہ ’كَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَهُ وَشَفَتَيْهِ فَيَشْتَدُّ عَلَيْهِ‘ نامکمل اور بے محل ہے، یعنی ’مما‘ کا بیان اس جملے میں موجود نہیں، یعنی ان چیزوں میں سے جن کی وجہ سے آپ زبان کو حرکت دیتے تھے .... تو وہ آپ پر گراں گزرتی ؟ لیکن وہ کیا چیزتھی، بتائی نہیں گئی اور آگے بلاتوقف کہہ دیا گیا ہے کہ ’’تو وہ آپ پر گراں گزرتی ‘‘۔ یعنی ہونا یوں چاہیے تھا کہ جس چیز کی وجہ سے آپ زبان کو حرکت دیتے، وہ یہ مشکل تھی یا وہ یہ چیز تھی۔ ایسی کوئی بات آنی چاہیے تھی، وہ نہیں آئی۔

اسی طرح ’اِنَّ عَلَيْنَا اَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِكَ وَقُرْآنَهُ فَتَقْرَؤُهُ‘ اس جملے میں ’وَقُرْآنَهُ‘ بے محل لکھا گیا ہے، جس سے بات خراب ہو گئی ہے۔مضمون کے مطابق بات یوں ہونی چاہیے تھی: ’اِنَّ عَلَيْنَا اَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِكَ فَتَقْرَؤُهُ‘۔لیکن چلیے یہ ذوقی معاملہ ہوسکتا ہے، کیونکہ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم قرآن کو آپ کے دل میں جمع بھی کریں اور دل ہی میں پڑھائیں گے بھی۔تو کیا عجب کہ کوئی ایسا مان لے!

پھر ’فَاِذَا قَرَاْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ قَالَ‘ میں آخری ’قال‘ بھی زائد ہے۔مزید یہ کہ اس کا فاعل کون ہے؟ معلوم نہیں، اللہ تعالیٰ، ابن عباس یا کوئی اور راوی؟

بخاری کے ذیل کے متن میں یہ چیزیں درست ہیں، لیکن ’قال‘ کا معاملہ مزید الجھ گیا ہے۔ پوری عبارت یوں ہے:دیکھیے:

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، قَالَ: سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالىٰ: ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ﴾ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً، وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ - فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَأَنَا أُحَرِّكُهُمَا لَكُمْ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّكُهُمَا، وَقَالَ سَعِيدٌ: أَنَا أُحَرِّكُهُمَا كَمَا رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَرِّكُهُمَا، فَحَرَّكَ شَفَتَيْهِ - فَأَنْزَلَ اللّٰهُ تَعَالىٰ: ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ﴾. قَالَ: جَمْعُهُ لَكَ فِي صَدْرِكَ وَتَقْرَأَهُ: ﴿فَاِذَا قَرَاْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ﴾ قَالَ: فَاسْتَمِعْ لَهُ وَأَنْصِتْ: ﴿ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ تَقْرَأَهُ، فَكَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ اسْتَمَعَ فَإِذَا انْطَلَقَ جِبْرِيلُ قَرَأَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا قَرَأَهُ.(بخاری، رقم ۵)
’’موسیٰ نے بیان کیا کہ سعید بن جبیر قرآن کی آیت ’لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ کے بارے میں ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم وحی کی وجہ سے شدت کا سامنا کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ آ پ ہونٹ ہلایا کرتے تھے۔ ابن عباس نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے لیے ویسے ہی ہلاتا ہوں، جیسے نبی کریم ہلایا کرتے تھے، سعید فرماتے ہیں کہ میں بھی ویسے ہی ہونٹ ہلا رہا ہوں جیسے ابن عباس کو ہلاتے دیکھا، تو پھر انھوں نے ہونٹ ہلائے۔ تو اس موقع پر اللہ نے یہ آیت نازل کی تھی۔ کہا کہ ’اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ کا مطلب ہے کہ اسے آپ کے سینے میں جمع کریں گے تو آپ پڑھیں گے۔ اور ’فَاِذَا قَرَاْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ کا مطلب ہے توجہ سے سنو اور خاموش رہو۔ اور  ’ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ کا مطلب ہے کہ پھر آپ کا پڑھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کے بعد پھر جب جبریل آتے تو آپ توجہ سے سنتے جب وہ چلے جاتے تو آپ اسی طرح پڑھتے جیسے آپ کو پڑھایا گیا ہوتا۔‘‘

بخاری میں صحیح مسلم (رقم ۴۴۸)کے جملے ’كَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَهُ وَشَفَتَيْهِ فَيَشْتَدُّ عَلَيْهِ‘ کی جگہ بہتر عربی والا مکمل جملہ آگیا ہے: ’كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً، وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ‘ (نبی کریم وحی کی وجہ سے شدت کا سامنا کرتے تھے، یہ چیزان چیزوں میں سے تھی جن کی وجہ سے آ پ ہونٹ ہلایا کرتے تھے(بخاری، رقم۵)۔اب جس راوی کو عربی آتی ہو، وہ تو صحیح مسلم والے جملے جیسی سادہ سی غلطی نہیں کرسکتا، سواے اس کے کہ کوئی عجمی اسے روایت کررہا ہو، جیسے بعض علما نے اسے اس خلا کے باوجود من و عن تسلیم کرلیا۔لیکن ایک دوسرا امکان ہے کہ بخاری کا متن روایت فراہم کرنے والوں کو مناسب نہ لگا ہو، اور انھوں نے یہ متن تبدیل کرکے صحیح مسلم والا متن فراہم کیا ہوتاکہ زبان کو حرکت دینے کا سبب وحی کی مشقت نہ رہے، بلکہ اخذ کرنا بنایا جائے۔ چنانچہ مسلم کی عبارت میں ’أخذه‘ کا اضافہ کردیا گیا تاکہ اخذکرنے کو حرکت لسانی کا سبب بنایا جائے۔ مگر شومئی تقدیر کہ متن تبدیل کرنے والے کی عربی کم زور تھی۔ مسلم کے متن میں ’أخذه‘ کا اضافہ یوں ہوا ہے: (’لَا تُحَرِّک بِه لِسَانَک لِتَعْجَلَ بِه أَخْذَہ‘ مسلم رقم ۴۴۸)، جب کہ بخاری، رقم  ۵کے متن میں یہ اضافہ نہیں ہے۔ یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ بخاری یا مسلم کی روایت میں ردو بدل کیا گیا ہے۔بخاری کے متن میں عربیت کی تندرستی، اسے بہتر متن قراردیتی ہے، ا س لیے مسلم کے متن کو عربی کی خرابیوں کی وجہ سے تبدیل شدہ کہنا ممکن ہے۔لیکن یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ بخاری کی بیان کردہ وجہ قرآن کے خلاف ہے، اس لیے کہ قرآن واضح لفظوں میں ’لِتَعْجَلَ بِه‘ کہتا ہے۔واضح رہے کہ مسلم رقم ۴۴۸ کے تحت دو متون آئے ہیں، دوسرے متن میں نہ ’أخذه‘ کا اضافہ ہے اور نہ پہلا جملہ تبدیل کیا گیا ہے، یعنی یہ جملہ: ’يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً، وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ‘۔

مسلم رقم ۴۴۸ کے اس جملے: ’إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِكَ وَقُرْآنَهُ فَتَقْرَؤُهُ‘ کی غلطی بھی بخاری رقم ۵ میں نہیں ہے اور نہ مسلم کے دوسرے متن میں ہے: ’قَالَ: جَمْعُهُ لَكَ فِي صَدْرِكَ وَتَقْرَأَهُ‘۔ بخاری میں دیکھیے کہ ’صَدْرِكَ ‘ کے بعد ’وَقُرْآنَهُ‘ نہیں ہے۔ یہ خطا بھی اسی عربی دان راوی کی ہے۔

قال‘ کا استعمال بخاری اور مسلم، دونوں میں گڑبڑ والا ہے۔دونوں میں مواقع استعمال میں ایک انداز نہیں ہے اور دونوں میں فاعل کو کھولا نہیں گیا۔مواقع استعمال پر ایک انداز نہ ہونے سے میری مراد یہ ہے کہ مثلاً مسلم رقم ۴۴۸ میں آیتوں کے بعد تین جگہ پر تفسیری جملے ہیں، پہلے دو میں ’قال‘ تفسیری جملے سے پہلے نہیں آیا، مگر ایک میں آیا ہے:

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ أَخْذَهُ‘، اس میں تفسیری جملہ ’قال‘ کے بغیر آیا ہے۔

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِكَ وَقُرْآنَهُ فَتَقْرَؤُهُ‘، اس میں بھی تفسیری جملہ ’قال‘ کے بغیر آیا ہے۔

فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ قَالَ: أَنْزَلْنَاهُ فَاسْتَمِعْ لَهُ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ أَنْ نُبَيِّنَهُ بِلِسَانِكَ‘، لیکن اس میں تفسیری جملہ ’قال‘ کے بعدآیا ہے۔

بظاہر یہ ایک فطری امر ہوسکتا ہے، مگر یہ ادراجات کی نشان دہی بھی ہو سکتی ہے۔

بخاری کی روایت میں ’قال‘  کا انداز ادراج دیکھیے:

لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ . قَالَ: جَمْعُهُ لَكَ فِي صَدْرِكَ وَتَقْرَأَهُ‘، اس میں تفسیری جملہ ’قال‘ کے بعدآیا ہے۔

 ’فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ قَالَ: فَاسْتَمِعْ لَهُ وَأَنْصِتْ‘، اس میں بھی تفسیری جملہ ’قال‘ کے بعدآیا ہے۔

ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ تَقْرَأَهُ‘، (بخاری رقم ۵)،لیکن اس میں ’قال‘  کے بغیر۔

انداز استعمال اس قدر اہم نہیں جتنی یہ بات اہم ہے کہ دونوں کتب میں یہ کمی ہے کہ دونوں میں ’قال‘ کا فاعل بیان نہیں ہوتا۔ بخاری میں قرینہ سعید بن جبیر کی طرف لے جاتا ہے، جب کہ مسلم میں حضرت ابن عباس کی طرف، لیکن کسی کانام نہیں لیا گیا، تو ممکن ہے یہ ’قال‘ کسی راوی کے لیے بھی آگیا ہو، ابن عباس اس ’قال‘ کے قائل نہ رہے ہوں۔

لیکن ہم اگر ا ن اقوال کا قائل ابن عباس ہی کو لیں تو اس صورت میں ان دونوں روایتوں میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ راے واضح ہو رہی ہے کہ حرکت لسانی کا سبب اخذ قرآن یا مشقت وحی تھا۔اس بات کا امکان ہے کہ انھوں نے ایک ہی سبب بیان کیا ہو، مگر کسی راوی نے ایک اپنی طرف سے بڑھا دیا یا انھوں نے ہی دونوں بیان کیے ہوں، مگر بعض طرق میں ایک اور بعض میں دوسرا بیان ہو گیا ہو۔لیکن ترمذی نے اپنی روایت میں ایک سبب کا اور اضافہ کردیا ہے اور وہ ہے یاد کرنا:

عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ يُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَهُ يُرِيدُ أَنْ يَحْفَظَهُ، فَأَنْزَلَ اللّٰهُ تَبَارَكَ وَتَعَالیٰ: ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ﴾. (ترمذی، رقم۳۳۲۹۔ احمد، رقم ۱۹۱۰)
’’سعید بن جبیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ جب قرآن مجید نازل ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے زبان ہلایا کرتے تھے کہ اسے یاد کرلیں۔تو تب یہ آیت اتری کہ ’لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ‘۔‘‘

بخاری میں حفظ کے پہلو ہی سے ایک اور لفظ استعمال ہو اہے کہ آپ اس لیے زبان کو حرکت دیتے تھے کہ کہیں قرآن آپ کے ہاتھ سے نہ نکل جائے:

عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، أَنَّهُ سَأَلَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، عَنْ قَوْلِهِ تَعَالىٰ: ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ﴾. قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَانَ يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ، فَقِيلَ لَهُ: ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ﴾ يَخْشَى أَنْ يَنْفَلِتَ مِنْهُ، ﴿اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗ﴾، أَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِكَ وَقُرْآنَهُ، أَنْ تَقْرَأَهُ يَقُولُ: أُنْزِلَ عَلَيْهِ: ﴿فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ﴾ أَنْ نُبَيِّنَهُ عَلَى لِسَانِكَ.(رقم ۴۹۲۸)
’’موسیٰ نے سعید بن جبیر سے ’لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ‘ کے بارے میں پوچھا، انھوں نے کہا کہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ آپ پر جب قرآن نازل کیا جاتا تو آپ اپنے ہونٹ ہلاتے تھے، تو فرمان آیا کہ ’لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ‘۔ آپ یہ اس لیے کرتے تھے کہ کہیں قرآن ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ اس لیے کہا گیا کہ ’اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗ ‘، یعنی ہم قرآن کو آپ کے دل میں جمع کردیں گے اور اس کو پڑھا بھی دیں گے کہ پھر آپ پڑھیں: ’فَاِذَا قَرَاْنٰهُ ‘میں قرآن یہ فرما رہا ہے کہ آپ پر نازل کیا جائے گا، تو پھر آپ اس کی پیروی کریں، ’ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ‘ کا مطلب ہے: ہم آپ کی زبان سے تشریح فرمائیں گے[22]۔‘‘

اب سوال یہ ہے کہ حرکت زبان کے باب میں ذیل کی چار آرا میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اپنی راے کیا تھی؟

۱۔ مسلم، رقم ۴۴۸ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ أَخْذَهُ‘، یعنی وحی کو جلد لینے کے لیے۔

۲۔ بخاری، رقم ۵، ’يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً، وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ‘ وحی کی مشقت سے جلدی نکلنے کے لیے ۔

۳۔ ترمذی، رقم  ۳۳۲۹ ’يُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَهُ يُرِيدُ أَنْ يَحْفَظَهُ‘ تازہ اترنے والا قرآن حفظ کرنے کے لیے۔[23] 

۴۔ بخاری، رقم ۴۹۲۸ ’يَخْشَى أَنْ يَنْفَلِتَ مِنْهُ‘ قرآن کے کھو جانے کے ڈر سے ایسا کرتے تھے۔

اگر اس روایت کے انتشار کو سمیٹنے کی کوشش کی جائے تو ہم پہلی اور دوسری بات کو جمع کرسکتے ہیں۔ تو اس صورت میں یہ بات بنے گی کہ چونکہ وحی کے دوران میں آپ ایک مشقت سے گزرتے تھے تو اس لیے قرآن اخذ کرنے میں جلدی کرتے تھے کہ جو وحی اس وقت اتر رہی ہے، میں اس سے جلد از جلد فارغ ہو جاؤں۔اسی طرح ہم آخری دونوں باتوں کو بھی جمع کرسکتے ہیں کہ دونوں حفظ قرآن کی بات کررہی ہیں، لیکن اصل میں جمع نہیں ہوسکتیں، کیونکہ قرآن ہاتھ سے جاتا رہنا صرف یاد نہ ہونے کے معنی نہیں رکھتا۔لیکن چلیے جمع کیے لیتے ہیں۔ لہٰذا اب ان راویوں کی بات کا مطلب یہ ہوا کہ ابن عباس نے دو وجہیں بتائی ہیں جن کی وجہ سے آپ زبان مبارک کو حرکت دیا کرتے تھے:۱۔وحی سے ہونے والی تکلیف سے نکلنے کے لیے قرآن جلدی لینے کی کوشش۔ ۲۔ قرآن کے ضائع ہو جانےکے ڈر سے جلدی جلدی حفظ کرنے کے لیے۔

اوپر ہم آیات کے تجزیے کے دوران میں یہ بات جان چکے ہیں کہ یہ دونوں باتیں قرآن مجید کی روشنی میں ناقابل قبول ہیں۔لہٰذا یہ روایت اپنے مندرجات کے ساتھ قرآن کی واضح تصریحات کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ بھی ان روایات پر درایت کے پہلو سے مزیدسوالات بھی پیدا ہوتے ہیں:

۱۔ حضرت ابن عباس، ۸ ہجری میں مدینہ تشریف لائے تو وہ گیارہ برس کے تھے۔ ہجرت کے وقت وہ صرف تین برس کےتھے۔ تو انھوں نے نبی کریم کو وحی کے دوران میں زبان ہلاتے کیسے اور کہاں دیکھا ہوگا؟ اگر کوئی کہے کہ مدینہ میں ہجرت کے بعد دیکھا، تو سوال پیدا ہو جائے گا کہ مکہ میں اللہ کے روکنے کے بعد بھی آپ مدنی دور کے آخر تک ایسا کرتے رہے؟اسی طرح اگر ابن عباس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا تو روایات اس کی تصدیق نہیں کرتیں۔ روایات تو مشاہدہ کی بات کرتی ہیں: ’أَنَا أُحَرِّكُهُمَا لَكُمْ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّكُهُمَا‘ (بخاری، رقم ۵)۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جس آدمی نے اس بات کی نسبت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کی ہے، وہ ان کی ولادت، ایمان اور ہجرت کی تاریخوں سے واقف نہیں تھا۔قرآن سے تحریک لسان کا واقعہ ایک ہی دفعہ ہونا ثابت کیا جاسکتا ہے، مگر ابن عباس سے منسوب یہ روایت اسے مسلسل عمل بتارہی ہے، گویا آٹھ ہجری تک ایسا ہوتا رہا۔غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روکے جانے کے بعدبھی دس پندرہ برس یہ کام کرتے رہے(العیاذ باللہ)، جب کہ انھی ستم گر روایات میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ روکے جانے کے بعد آپ کا طرز عمل یہ تھا: ’بَعْدَ ذَلِكَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ اسْتَمَعَ فَإِذَا انْطَلَقَ جِبْرِيلُ قَرَأَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا قَرَأَهُ‘ (بخاری رقم ۵) تو سوال مزید تشویش ناک ہو جاتا ہے کہ ابن عباس نے آپ کو منہ ہلاتے کیسے دیکھا۔

۲۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی کی آمد گرانی کا باعث تھی، یہ بھی جیسا اوپر گزرا، قرآن کے خلاف ہے۔لیکن فرض کیجیے کہ یہ درست ہے، تب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن جبریل لے کر آتے تھے،اس لیے اس میں تکلیف کم ہوتی ہوگی۔ لیکن بات کو سمجھنے کے لیے بخاری کی اس روایت پر نگاہ ڈالنا فائدے سے خالی نہیں ہوگا:

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، أَنَّ الحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ سَأَلَ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، كَيْفَ يَأْتِيكَ الوَحْيُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الجَرَسِ، وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ، فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ، وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِيَ المَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ». قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا: وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الوَحْيُ فِي اليَوْمِ الشَّدِيدِ البَرْدِ، فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا. (رقم ۲)
’’ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : یا رسول اللہ، آپ پر وحی کیسے اترتی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ کبھی وحی مجھ پر گھنٹی کی آواز کی صورت میں آتی ہے۔وحی کی یہ صورت مجھ پرگراں تر ہوتی ہے۔ جب یہ ختم ہوتی ہے تو فرشتے کاکہا میں یاد کرچکا ہوتا ہوں۔ بعض اوقات فرشتہ انسانی صورت میں آکر مجھ سے کلام کرتا ہےتومیں اس کا کہا ہوا یاد کر لیتا ہوں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نےشدید سردی میں آپ کو دیکھا کہ وحی نازل ہوتی، جب رکتی تو آپ کی پیشانی پسینہ پسینہ ہو جاتی۔‘‘

یہ روایت بھی انھی تصورات کی حامل ہے، مثلاً قرآن آپ کو یاد کرنا پڑتا تھا، جو کہ قرآن کی واضح تصریحات کے خلاف ہے۔

اسی طرح ہم نے اوپر یہ واضح کیا ہے کہ وحی آنے میں گھنٹیوں کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے۔ صرف تین طریقے قرآن مجید نے وحی کے بتائے ہیں:

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهٖ مَا يَشَآءُﵧ اِنَّهٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌ.(الشوریٰ  ۴۲: ۵۱)

ان تینوں طریقوں کی مثالیں بھی قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔پہلے طریقے کی مثالیں: ام موسیٰ کو وحی ہوئی تو انھیں کوئی تکلیف نہیں ہوئی (القصص ۲۸:  ۷)۔ حضرت زکریا کو یحییٰ علیہما السلام کی بشارت اللہ تعالیٰ نے دی تو ان کو کچھ بھی نہیں ہوا، بلکہ وہ تو اس قدر اطمینان سے تھے کہ اللہ سے نشانی طلب کرلی کہ اس کی کیا نشانی ہے کہ یہ وحی آپ کی طرف سے آئی ہے یا میرے دل کی تمنا یا وسوسہ تو نہیں ہے(مریم ۱۹: ۲ - ۱۰)۔اگر ان کے لیے بھی ’صلصلة الجرس‘ کااہتمام ہوتا تو نشانی طلب نہ کرتے۔

دوسرے طریقے کی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ٔ طور ہے، جہاں آپ کو نبوت عطا ہوئی۔اس میں حضرت موسیٰ اس مزے سے بے تکلف باتیں کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عصا کا سوال کیا تو وہ اس کی تفصیلات بتانے لگے۔ اگر اس طرح کی تکلیف میں ہوتے جس طرح کی تکلیف اس روایت میں بتائی گئی ہے تو آپ یوں محو گفتگو نہ ہوتے،کیونکہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن جیسی اہم وحی سے جلد فارغ ہونا چاہتے تھے تو یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ حضرت موسیٰ اس تکلیف کے باوجودعصا کے بارے میں بکریاں چرانے اور لاٹھی کا سہارا لینے جیسے عام امور کو مزے مزے سے بیان کرتے جارہے تھے، حالاں کہ واقعہ ٔ  ’لَنْ تَرٰىنِيْ‘ (الاعراف ۷:  ۱۴۳) پر قیاس کہتا ہے کہ حضرت موسیٰ کی یہ وحی زیادہ بھاری ہونی چاہیے، اس لیے کہ وحی کے بجاے اللہ تعالیٰ براہ راست تکلم فرما رہے تھے۔

تیسرے طریقے کی مثالیں بہت ہیں۔مثلاً سیدہ مریم کے لیے بشارت مسیح[24] اور بیٹے کی عطا[25] کے دو الگ الگ واقعات قرآن میں مذکور ہیں۔دونوں میں ان کا رویہ ایسا ہی ہے کہ وہ بالکل نارمل دکھائی دیتی ہیں،بلکہ دوسرا واقعہ جس میں فرشتہ انسانی روپ میں آیا ہے، وہ مقام تو نہایت دل چسپ ہے۔ اس میں سیدہ مریم فرشتے سے لڑرہی ہیں کہ میں تم سے پناہ چاہتی ہوں(مریم۱۹: ۱۸)۔اگر وہ کسی وحی کی کیفیت سے گزرتیں تو یقیناً وہ اس فرشتے کو انسان گمان کرکے پناہ نہ مانگتیں، کیونکہ فرشتوں سے وحی لینے کے ایک تجربہ سے وہ گزر چکی تھیں (آل عمران۳: ۴۵)۔پر ہماری یہ روایت بتاتی ہے کہ آخری نبی پر یہ وحی اس قدر گراں گزرتی تھی کہ سردیوں میں پسینے چھوٹ جاتے تھے۔اب اس روایت کو ماننے کی ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ ہم یایہ مانیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیےقرآن میں مذکور تین طریقوں سے الگ ایک چوتھا طریقہ اپنایا گیا تھا، جو کہ قرآن کے محولہ بالا صریح ارشاد (الشوریٰ ۴۲: ۵۱) کے خلاف ہے یا یہ مانا جائے کہ وحی کا طریقہ تو وہی تھا، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ مریم سے بھی زیادہ نازک اندام تھے کہ آسان ترین طریقۂ وحی بھی برداشت نہ کرپاتے تھے (نعوذ باللہ)۔

اس سے صاف واضح ہے کہ یہ روایت بھی اسی بے اصل شجرسے پھوٹا شاخسانہ ہے۔ بعد ازاں درجۂ حدیث عطا کرنے کے لیے کتب حدیث میں درج کردیاگیا۔ شاید ان روایات میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ آپ کی نبوت کسی سابق نبی کے مشابہ نہیں ہے، آپ پر وحی تکلیف دے کر آتی تو آپ وحی سے جان چراتے۔ آپ کو وحی بغیر اہتمام کے دی جاتی، آپ کو خود ہی یاد کرنا پڑتی۔آپ کو قرآن کے کھو جانے کا ڈر رہتا تھا، اس لیے جھٹ پٹے میں یاد کرنے کی سعی فرماتے۔ایسی ہی ایک روایت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے منسوب کی گئی ہے، اس میں بھی وحی کو ایک کرب ناک عمل بتایا گیا ہے، جس سے آپ کے چہرۂ مبارک کا رنگ بدل جاتا تھا(مسلم، رقم ۲۳۳۴)۔ وہ بھی اسی درایت کی روشنی میں دیکھی جاسکتی ہے۔

۳۔حارث بن ہشام نے یہ سوال پوچھا تو سیدہ عائشہ نے اپنا ایک مشاہدہ بیان کیا۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ وحی بے شمار مواقع پر نازل ہوئی۔ کبھی گھر میں،کبھی بستر میں،کبھی مجلس میں، کبھی نماز میں، کبھی کہیں کبھی کہیں۔حارث بن ہشام کے سوا کسی نے نہ پوچھا، اور سیدہ کے سوا کسی نے نہ دیکھا؟ اتنے طویل عرصے تک ہونے والے ایک عمل کے تو اتنے گواہ ہونے چاہییں تھے کہ یہ بات ہر ہر فرد کو معلوم ہوتی۔ مکہ میں تیرہ برس تک یہ سلسلہ جاری رہا، تو مثلاً ابو لہب تو آپ کاچچا تھا، مکہ کے تیرہ برسوں میں ایک دن بھی یہ اتفاق نہ ہوا کہ وہ وحی اترتے ہوئے آپ کو دیکھ لیتا!سیدہ خدیجہ ہی نے بلا بھیجا ہوتا کہ آکر دیکھو کہ وحی کیسے اترتی ہے۔ قرآن یہ تو کہتا ہے کہ تم اس سے اس بات میں بحث کررہے ہو کہ جو اس نے آنکھوں سے دیکھی ہے(النجم ۵۳ : ۴ - ۱۸)، مگر یہ نہیں کہتا کہ آؤ، اس پر وحی اترتے تم بھی دیکھ لو، کیا کوئی شخص خود پر ایسی حالت طاری کرسکتا ہے!۔ وہ آپ کی نبوت کے ثبوت میں یہ تو دعویٰ کرتا دکھائی دیتا ہے کہوَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰي(النجم۵۳: ۳)، اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آپ پر جن نہیں آتے(الشعراء۲۶:  ۲۱۰، ۲۲۱-۲۲۳)، یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آپ شاعر نہیں ہیں(یٰس ۳۶: ۶۹)، وہ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ جبریل آپ کے دل پر کلام نازل کرتے ہیں (البقرہ ۲: ۹۷)، وہ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ آپ پہلے انبیا کی طرح ہیں(الاحقاف۴۶: ۹)، لیکن ان سب سے زیادہ آسان اور مشاہدہ میں آنے والی بات آپ کی حالت زار تھی، جو نزول وحی کے دوران میں ہوتی تھی۔ اس میں بس اتنا ہی کہنا تھا کہ اس کو دیکھو جب اس پر وحی آتی ہے۔ ظاہر ہے، ایسا کچھ تھا ہی نہیں کہ دیکھنے کو کہا جاتا۔

۴۔مضمون کے پہلے حصے میں ہم آیات کی تحلیل کے دوران میں یہ بات کر آئے ہیں کہ سورۂ نجم (۵۳) میں قرآن کی یہ آیات اس بات کی نفی کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ آپ پر وحی گراں گزرتی تھی: ’مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰي

(۱۱) اور یہ آیات کہ ’مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰي (۱۷) ’لَقَدْ رَاٰي مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰي (۱۸)۔ پسینے چھوٹ جانے تک کی تکلیف دینے والی حالت میں یہ مشاہدات ایسے نہیں ہو سکتے۔ روایات کے مطابق تو سورۂ نجم میں مذکور واقعات میں وحی کافی شدید رہی ہو گی، اس لیے کہ اس میں جبریل علیہ السلام انسانی نہیں، بلکہ اپنی اصل صورت میں ظاہر ہوئے تھے۔

۵۔ ان دونوں روایات میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں صحابہ مومنین متاخرین میں سے ہیں۔ابن عباس رضی اللہ عنہ جو تحریک لسان کی نوعیت متعین کررہے ہیں، وہ آٹھ ہجری میں گیارہ برس کی عمر میں ایمان لائے ہیں۔ جس وقت سورۂ قیامہ اتری ہو گی، شاید اس وقت ان کے عرصۂ حیات کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔ حارث بن ہشام، جو وحی کی کیفیت متعین کررہے ہیں، وہ فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے ہیں۔البتہ سیدہ عائشہ قدیم الایمان ہیں، لیکن وہ کہیں اور وحی کی نوعیت بتاتے دکھائی نہیں دیتیں۔اس روایت میں آپ کی طرف نسبت کردی گئی ہے، وہ اس بات کی ذمہ دار نہیں ہیں۔

۶۔ سورۂ قیامہ اور طٰہٰ کی آیات پر بحث کرتے ہوئے ہم بتا چکے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے چار کے قریب آرا منسوب ہیں، جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ یہ روایات الگ الگ اشخاص نے تراشی ہیں اور محدثین کا جمع کرنا ان کے تفاوت و تضاد اور حقائق کے خلاف ہونے کےمبرہن کرنے کا سبب بن گیا ہے۔

۷۔ حضرت ابن عباس کے نام سے منسوب ان روایات میں سے بعض میں یہ کہا گیا ہے کہ ’جَمْعُهُ لَكَ فِي صَدْرِكَ‘ تو یہ محض ایک تفسیری راے نہیں ہے، کسی قرآن فہمی کی غرض سے یا لفظوں کے اقتضا سے پیدا ہوئی ہو، بلکہ یہ جمع قرآن سے متعلق اس سازش کا حصہ ہے جس میں قرآن عہد نبوی کے بجاے عہد صحابہ میں جمع ہونا بتایا گیا ہے۔سورۂ قیامہ کی یہ آیت، اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قرآن اللہ کے رسول کے ہاتھوں جمع ہوا تھا۔ مگر اس بین ثبوت پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ تفسیر، جو کسی طرح لفظ ’جَمْعُهُ  کے معنی نہیں ہو سکتے، تراشی گئی ہے۔

ان کے علاوہ درایت کے مزید نکات بھی پیش نظر ہیں، مگر بخوف طوالت، اسے یہیں ختم کرتے ہیں۔ ان نکات سے درج ذیل باتیں واضح ہیں:

۱۔ یہ روایات تراشی گئی ہیں، اور ابن عباس رضی اللہ کے نام منسوب کردی گئی ہیں۔

۲۔ ان روایات کی زبان اور انتشار مضمون سے ثابت ہے کہ یہ ایک منبع سے نہیں پھوٹیں۔

۳۔ ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول وحی کے باب میں تمام انبیا سے مختلف دکھایا گیا ہے، جو کسی نبی کے شایان شان نہیں۔

۴۔ وحی کے دوران میں آپ کسی تکلیف سے گزرتے تھے، یہ بات قرآن اور دیگر انبیا کے واقعات سے ٹکراتی ہے۔

ان روایات میں جمع قرآن کے اس عمل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے بعد جمع قرآن کی وہ تمام تاریخ رقم کرنا ممکن ہو سکے جو پہلے اور تیسرے خلیفہ کے عہد کے حوالے سے کتب میں تحریرکی گئی ہے۔

۵۔ ان روایات سے جو تفسیر سامنے آتی ہے، وہ کسی طور قرآن کے الفاظ اور نصوص سے مطابقت نہیں رکھتی۔

اللّٰهم أَرِنَا الحَقَّ حقًّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ وَأَرِنَا البَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ‘۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[21]۔ اس روایت میں سورۂ قیامہ ۷۵ کی آیات بالترتیب ۱۶ سے ۱۹ ہیں۔

[22]۔ اس روایت کے بعد امام بخاری نے ایک باب باندھا ہے، اور اس باب کے عنوان کو بھی ابن عباس سے منسوب کیا ہے: ’بَابُ قَوْلِهِ: فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَرَأْنَاهُ: بَيَّنَّاهُ، فَاتَّبِعْ: اعْمَلْ بِهِ‘۔اپنی کتاب ’’خلق افعال العباد‘‘ میں امام بخاری آیت کے اسی ٹکڑے کے بارے میں ابن عباس ہی کی یہ راے بھی نقل فرماتے ہیں: ’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ: فَاتَّبِعْ مُجْمَلَهُ وَتَفَهَّمْ مَا فِيهِ ‘۔

[23]۔ واضح رہے کہ حفظ کرنے والے متن میں ایک تصرف کی نشان دہی بخاری کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حفظ کرنے کی راے سفیان کی تھی، جو شایدراویوں کی خطاسے بعض طرق میں ابن عباس کی بن گئی: ’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الوَحْيُ حَرَّكَ بِهِ لِسَانَهُ - وَوَصَفَ سُفْيَانُ - يُرِيدُ أَنْ يَحْفَظَهُ فَأَنْزَلَ اللّٰهُ: لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ‘ (بخاری، رقم ۴۹۲۷)، لیکن ممکن ہے کہ یہ بھی ایک تصرف ہی ہو۔

[24]۔ آل عمران۳: ۴۵۔’اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيْحُ عِيْسَي ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيْهًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ‘۔

[25]۔ مریم۱۹: ۱۹۔’قَالَ اِنَّمَا٘ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِيًّا‘۔

B