HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : شاہد رضا

نبی ﷺ کے بعد مسلم حکومتیں

حدیث سیل

ترجمہ و تدوین: شاہد رضا


عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا تَسْأَلُونِي فَإِنَّ النَّاسَ كَانُوا يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ، إِنَّ اللّٰهَ بَعَثَ نَبِيَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ فَدَعَا النَّاسَ مِنَ الْكُفْرِ إِلَى الْإِيمَانِ وَمِنَ الضَّلَالَةِ إِلَى الْهُدَى فَاسْتَجَابَ مَنِ اسْتَجَابَ فَحَيَّ مِنْ الْحَقِّ مَا كَانَ مَيْتًا وَمَاتَ مِنْ الْبَاطِلِ مَا كَانَ حَيًّا، ثُمَّ ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ فَكَانَتِ الْخِلَافَةُ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ.

  حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اے لوگو، تم مجھ سے چیزوں کے بارے میں کیوں نہیں پوچھتے؟ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھی باتوں کے بارے میں سوال کرتے تھے،  جب کہ میں آپ سے برائی کے بارے میں پوچھتا تھا،  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کو  مبعوث کیا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کفر سے نکال کر ایمان کی طرف  اور گم راہی سے نکال کر ہدایت کی طرف بلایا۔ جنھوں نے آپ  کی پکار پر لبیک کہا، انھوں نے  لبیک کہا اور اس طرح جو لوگ باطل کے اندھیروں میں مر چکے تھے،  ان کو حق کے ساتھ نئی زندگی دی گئی اور جو زندہ تھے،  ان کو باطل کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پھر اس کے بعد نبوت ختم  ہو گئی اور پھر نبوت کی طرز پر حکومت قائم ہو گئی ۔

متون

یہ روایت احمد، رقم۲۳۴۷۹ میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے۔

احمد، رقم ۱۸۴۳۰ میں یہ روایت قدرے مختلف الفاظ میں روایت کی گئی ہے۔ اس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

تكون النبوة فيكم ما شاء اللّٰه أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة فتكون ما شاء اللّٰه أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء اللّٰه أن يرفعها، ثم تكون ملكًا عاضًا فيكون ما شاء اللّٰه أن يكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون ملكًا جبرية فتكون ما شاء اللّٰه أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة، ثم سكت.
’’نبوت تم میں اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ اس کو باقی رکھنے کا فیصلہ کرے گا ،  پھر جب اللہ اسے ختم کرنے کا فیصلہ کرے گا تو اسے ختم کر دے گا۔ پھر نبوت کے بعد نبوت کی طرز پر ایک حکومت ہو گی اور وہ اس وقت تک موجود رہے گی جب تک خدا اس کے وجود کا فیصلہ کرے گا، پھر جب اسے ختم کرنے کا فیصلہ کرے گا تو اسے ختم کر دے گا۔ پھر ایک سلطنت ہوگی، جس میں لوگوں کو آزمایشوں اور فتنوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک خدا اس کے وجود کا فیصلہ کرے گا، پھر وہ اسے ہٹا دے گا، جب وہ اسے ہٹانے کا فیصلہ کرے گا۔ اس کے بعد ایک جابرانہ بادشاہت ہوگی اور جب تک خدا اس کے وجود کا فیصلہ کرے گا تب تک وہ قائم رہے گی، پھر وہ اسے ہٹا دے گا، جب وہ اسے ہٹانے کا فیصلہ کرے گا۔ اس کے بعد ایک بار پھر نبوت کی طرز پر حکمرانی ہو گی۔ یہ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔‘‘

یہ روایت حذیفہ بن الیمان ، النعمان بن بشیر ، حبیب بن سالم ، داؤد بن ابراہیم الواسطی اور سلیمان بن داؤد الطیالسی کی سند سے روایت کی گئی ہے۔

بخاری اپنی کتاب ’’التاریخ الکبیر‘‘ (۲/ ۳۱۸) میں لکھتے ہیں کہ ’فيه النظر‘، یعنی  انھیں حبیب بن سالم کی روایات پر کچھ تحفظات ہیں۔ ابو احمد بن عدی کہتے ہیں کہ حبیب بن سالم کی روایات کے متن میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، البتہ وہ جن راویوں  کے ذریعے سے  روایت کرتے  ہیں، ان کے سلسلۂ سند کو خلط ملط کر دیتے ہیں ۔ ماہرین کے ایسے تبصروں کے پیش نظر اس روایت کی صداقت کے بارے میں قطعی طور پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔

بیہقی، رقم  ۱۶۴۰۷ میں یہ روایت قدرے مختلف الفاظ میں روایت کی گئی ہے۔ اس روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إن اللّٰه بدأ هذا الأمر نبوة ورحمة وكائنًا خلافة ورحمة وكائنًا ملكًا عضوضًا وكائنًا عتوة وجبرية وفسادًا في الأمة يستحلون الفروج والخمور والحرير وينصرون على ذالك ويرزقون أبدًا حتى يلقوا اللّٰه عز وجل.
’’خدا نے (تمھارے ) اس نظم کا آغاز نبوت اور اپنی عظیم رحمت سے کیا۔ پھر اس کے بعد ایک عظیم حکمرانی اور بڑی رحمت ہو گی۔ پھر ایک سلطنت ہوگی جس میں لوگ آزمایشوں اور فتنوں کا شکار ہوں گے۔ پھر مسلمانوں میں ایک جابرانہ بادشاہت اور ایک بڑا فساد برپا ہو جائے گا، لوگ بد اخلاقی، نشہ اور ریشم، (یعنی عیاشی) میں غرق ہو جائیں گے۔ بہرحال ان کی اس حالت میں بھی ان کی مدد کی جائے گی اور ان کو اللہ تعالیٰ سے ملنے تک ہمیشہ رزق مہیا کیا جائے گا۔‘‘

یہ روایت ابو عبیدہ بن الجراح  اور  معاذ بن جبل، ابو ثعلبہ الخشنی ، عبد الرحمٰن بن سابط ، لیث بن ابو سَلیم یاسُلیم، جریر ابن حازم ، ابو داؤد اور یونس بن حَبیب یا حُبیب، عبد اللہ ابن جعفر اور ابوبکر ابن فورک کی سند سے مروی ہے۔ ان راویوں میں لیث بن ابو سلیم پر اس کی کم زور یادداشت کی وجہ سے سخت تنقید کی گئی ہے، اس لیےکہ وہ روایات کو خلط ملط کر دیتا تھا۔ اس کی کم زور یادداشت کے پیش نظر لیث کی روایتیں عام طور پر قابل قبول نہیں ہوتیں۔

ابویعلیٰ، رقم ۸۷۳ میں انھی الفاظ میں روایت کی گئی ہے۔ تاہم اسی طرح کی سند سے روایت ہونے کی وجہ سے اس میں اسی طرح کا ضعف پایا جاتا ہے، جیساکہ اوپر بیان ہوا ہے۔

سنن الدارمی، رقم ۲۱۰۱ میں یہ روایت قدرے مختلف الفاظ میں مروی ہوئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:

أول دينكم نبوة ورحمة، ثم ملك ورحمة، ثم ملك أعفر، ثم ملك وجبروت يستحل فيها الخمر والحرير.
’’تمھارے دین کی ابتدا نبوت اور رحمت سے ہوئی، پھر ایک بے کار بادشاہی ہوگی، پھر ایک جابرانہ بادشاہت ہوگی، جس میں لوگ نشہ اور ریشم، (یعنی شاہانہ زندگی) کو اپنے لیے حلال کر لیں گے۔‘‘

یہ روایت ابو ثعلبہ الخشنی سے مکحول کے ذریعے سے منقول ہوئی ہے۔ تاہم راویوں کی زندگی کے ماہرین کا خیال ہے کہ مکحول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر ان اصحاب سے ملاقات نہیں کی تھی جن سے اس نے اپنی روایتیں منسوب کی ہیں۔ کتاب ’’جامع التحصیل‘‘ (۱/ ۲۸۵) میں خاص طور پر یہ بیان ہوا ہے کہ غالباً مکحول نے اپنی روایت ابو ثعلبہ الخشنی سے براہ راست سننے کے بغیر منسوب کی ہے۔ اس روایت کے سلسلۂ سند میں اس انقطاع کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت ناقابل اعتبار ہو جاتی ہے۔

ترمذی، رقم ۲۲۲۶ میں روایت ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

الخلافة في أمتي ثلاثون سنة، ثم ملك بعد ذالك.
’’میری امت میں تیس سال تک ایک اچھی حکومت رہے گی۔ پھر اس کے بعد بادشاہت ہوگی۔‘‘

اس روایت کو درج کرنے کے بعد ترمذی نے خود اسے ’حسن‘قرار دیا ہے، جو کہ صحیح کے درجے سے کم ہے۔ ترمذی نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ روایت صرف سعید بن جمحان سے مروی ہے۔ سعید بن جمحان کے بارے میں فن رواۃ کے علما میں ملی جلی راے پائی جاتی ہے۔ بعض اسے قابل اعتبار سمجھتے ہیں، جب کہ بعض نہیں سمجھتے (دیکھیے: المحلیٰ۹/۱۸۵۔ مجمع الزوائد۱۰/  ۱۷۲۔ عون المعبود ۱۰/ ۱۶۳۔  الکاشف۱/ ۴۳۳ اور میزان الاعتدال۳/ ۱۹۳)۔ سعید بن جمحان سے مروی یہ روایت بعض اختلافات کے ساتھ ابن حبان ، رقم ۶۶۵۷ ، ۶۹۴۳؛ ابو داؤد، رقم ۴۶۴۶ ، ۴۶۴۷؛ نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۸۱۵۵ اور احمد ، رقم ۲۱۹۶۹، ۲۱۹۷۳ اور ۲۱۹۷۸ میں بھی روایت کی گئی ہے ۔

 ابوداؤد، رقم ۴۶۳۵ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ:

خلافة نبوة، ثم يؤتي اللّٰه الملك من يشاء.
’’ایک پیغمبرانہ حکمرانی ہوگی اور پھر خدا جسے چاہے گا، حکمرانی عطا فرمائے گا ۔‘‘

یہ روایت احمد، رقم ۲۰۴۶۳، ۲۰۵۲۲ ، ۲۰۵۲۴اور مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۰۴۸۲ میں بھی روایت کی گئی ہے۔

یہ روایت ایک ایسے سلسلۂ سند کے ذریعےسے نقل کی گئی ہے جس میں علی ابن زید ابن جدعان بھی شامل ہیں۔علی ابن زید کو ایک ضعیف راوی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جھوٹے اقوال کی نسبت کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب روایات کی سند کو تبدیل کرنے کا بھی الزام لگایا جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: الضعفاء الکبیر۳/   ۲۲۹اور تذکرۃ الحفاظ ۱/ ۱۴۰۔

مذکورہ بالا تجزیے سے واضح ہوتا ہے کہ اس روایت کے راویوں کی کوئی ایک قابل اعتماد سند بھی موجود نہیں ہے، جس کے ذریعے سے  اس روایت کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر سکیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول قرار دینا درست معلوم نہیں ہوتا ۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B