تاریخوں میں لکھا ہے کہ مغل بادشاہ اکبر نے ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ایک نیادین رائج کرنا چاہا۔ اس دین سازی کا محرک، جیسا کہ بالعموم لکھا گیا ہے، سیاسی مصالح تھے۔ اس کے مشمولات کو سامنے رکھیں تو یہ پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے کہ یہ دین الٰہی اخلاقی اقدار اور روحانی اہداف سے مرتب کیا گیا تھا۔ مسلمانوں نے بجا طورپر اس دین کو رد کردیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ دین خود ساختہ تھا اور مسلمان اس دین کو مانتے ہیں جو دین اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے۔
یہ واقعہ چونکہ بادشاہ کی طرف سے ہوا تھا، اس لیے تاریخ کے صفحات پر رقم ہوا ۔ مغل بادشاہوں کی تاریخ پڑھنے والے اس سے واقف ہو جاتے ہیں اور اسے ایک بڑے انحراف کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس طرح کے متعدد انحرافات ہیں جو مسلم مذہبی تاریخ کا حصہ ہیں، لیکن ان کو ان کی لمبی تاریخ کی وجہ سے مان لیا گیا ہے اور ان کے خلاف اور ان کے حق میں گفتگو اب ہمارے معمولات کا حصہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس طرح کے انحرافات کو قبول یا رد کرنے کا معیار کیا ہے؟ اسی سے جڑا ہوا دوسرا سوال یہ ہے کہ ان انحرافات کے محرکات کیا ہیں؟ یہ دوسرا سوال اس وجہ سے اہم ہے کہ ہمارا دین قرآن وسنت سے اخذ کیا جاتا ہے۔ قرآن و سنت کی محکم اساسات کے باوجود یہ انحراف کیوں؟
قرآن مجید میں یہود و نصاریٰ کے انحرافات زیر بحث آئے ہیں۔ اہل عرب کے مشرکانہ عقائد اور مبتدعانہ اعمال کا تذکرہ ہوا ہے۔ قرآن مجید کو پڑھنے سے دو باتیں بالکل واضح ہو جاتی ہیں: ایک یہ کہ یہ انحرافات وحی سے دین اخذ نہ کرنے کا نتیجہ ہیں، یعنی کسی پیغمبر کی تعلیم کے بجاے اپنے خیال سے کوئی عقیدہ و عمل گھڑ لینا۔ اہل شرک سے یہ سوال قرآن میں کئی بار کیا گیا ہے کہ کیا میں نے بتایا ہے کہ فلاں اور فلاں کار خدائی میں شریک ہیں۔ دوسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ انحرافات کا سبب انسان کی تمنائیں ہیں۔انسان کے مذہبی اعمال کا تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تمنائیں صرف دنیوی نہیں ہیں، جو اسے دین حق سے منحرف کر دیتی ہیں، بلکہ یہ دینی تمنائیں بھی ہیں، جو انحرافات کا سبب بنتی ہیں۔
دنیوی تمنائیں: ہمار ی روزی روٹی، ہمارے گھریلو حالات، ہمارے معیار زندگی اور ہماری ترقی، غرض دنیوی زندگی کی فلاح و بہود سے متعلق ہوتی ہیں۔ ہمیں اس کا تجربہ ہوتا ہے اور زندگی کے کئی مواقع پر ہوتا ہے کہ ہماری تدبیر اور کوشش بار آور نہیں ہوتی۔ چنانچہ ہم ایسے راستوں کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں جو تدبیر اور محنت کے اس عمل کو کامیابی سے ہم کنار کر دیں ۔ چنانچہ چلے ، وظیفے، بزرگوں کے مزاروں پر حاضری ، تعویذ اور جھاڑ پھونک وغیرہ سے تعلق قائم ہو جاتا ہے ۔ یہ سب کچھ ہر مذہب میں اس کی اپنی مذہبی کتابوں، مذہبی روایات اور مذہبی شخصیات سے جڑا ہوا ہوتا ہے ۔ اگر ہم قرآن مجید اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کریں تو اس طرح کے کسی طریقے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ لیکن مسلمانوں میں یہ تمام اعمال اسلامی اعمال کی حیثیت سے جاری ہیں۔
دینی تمنائیں: جنت کا حصول ، خدا کی خوشنودی، قرب الٰہی، امور غیب تک رسائی ، تقدیر پر قابو، مستجاب الدعا ہونا وغیرہ۔ دنیوی تمناؤں کی طرح یہ تمنائیں بھی صرف ان طریقوں تک محدود نہیں رہنے دیتیں جو قرآن و سنت سے ہمیں ملتا ہے۔ چنانچہ اس کے لیے بھی عقائد و اعمال کا ایک پورا نظام تخلیق کر لیا جاتا ہے، اور دین ہی کے نام سے اس کو مانا اور اپنایا جاتا ہے۔
سبب خواہ کچھ ہو ، اصل یہ ہے کہ ہمیں اس دین پر عمل کرنا ہے جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا ہے۔ اس کو جاننے کا ذریعہ صرف قرآن و سنت ہیں ۔ جن امور کو قرآن وسنت سے اخذ نہیں کیا گیا، وہ مردود ہیں۔ ہر مسلمان کو یہ طے کرنا لازم ہے کہ جس چیز کو وہ دین سمجھ رہا ہے، وہ قرآن وسنت سے لیا گیا ہے یا نہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ