مذہب جس خدا پر ایمان کی دعوت دیتا ہے، اُس کے مقابل میں وہ لوگ ہمیشہ رہے ہیں جو ہماری اِس کائنات ہی کو انسان کا خالق سمجھتے ہیں۔ اِسے الحاد کہا جاتا ہے۔ سترھویں صدی سے پہلے مذہب اور مذہبی فکر کا سیاسی غلبہ عالمی سطح پر قائم تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد کم و بیش ایک ہزار سال تک یہ غلبہ اِسی طرح قائم رہا۔ الہامی صحائف میں اِس کی مدت یہی بیان ہوئی ہے۔ [1]یہ خدا کے فرستادوں کی پیشین گوئی تھی، لہٰذا حرف بہ حرف پو ری ہوئی، اور اب یہ غلبہ پوری دنیا میں ختم ہو چکا ہے۔ اِس سے جو فضا پیدا ہوئی ہے، اُس میں الحاد کے علم بردار بڑی تعداد میں نمایاں ہوگئے ہیں اور مذہب کے خلاف اپنا مقدمہ پورے یقین واذعان کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ یہ مقدمہ جن اعتراضات کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے، وہ بنیادی طور پر چارہی ہیں۔ اِن کا جواب قرآن نے جس طرح دیا ہے، ہم یہاں اُس کی وضاحت کریں گے:
پہلا اعتراض یہ ہے کہ خدا کا تصور انسان کے فکری ارتقا کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ قرآن جس خدا کا تعارف کراتا ہے، اُس کے کوئی آثار انسان کی ابتدائی تاریخ میں نہیں ملتے۔ اُس کو جہاں سے دیکھیے، شرک کے مظاہر اُس میں ہر جگہ موجود ہیں، مگر توحید کسی جگہ نظر نہیں آتی۔ چنانچہ واقعہ یہی ہے کہ ایک خدا کا تصور اِس تاریخ میں بہ تدریج نمایاں ہوا ہے، اور وہ بھی اُس کے پیش کرنے والوں کے حالات کی رعایت سے کسی جگہ بادشاہ، کسی جگہ غیور شوہر اور کسی جگہ غریبوں کے ہم درد کسی مذہبی رہنما کی حیثیت سے۔ پھر یہی نہیں، مشرکانہ مذاہب کے مراسم عبودیت بھی وہ اِس سفر سے اپنے ساتھ لے کر آیا ہے، اور ہر زمانے میں اِنھی کو اپنے لیے خاص کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اِس کے بعد کس طرح ممکن ہے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے اِس خدا کو کوئی عاقل اپنا خالق و مالک اور معبود ماننے کے لیے تیار ہوجائے؟
اِس اعتراض کے جواب میں عرض ہے کہ ارتقا کا یہ افسانہ محض افسانہ ہی ہے۔ اِس کی کوئی بنیاد حقائق کی دنیا میں تلاش نہیں کی جاسکتی۔ انسان کے مذہبی فکر کی تاریخ سے متعلق جو معلومات اب تک حاصل ہوئی ہیں، اُن کی روسے اِس کو زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار سال تک پیچھے لے جا سکتے ہیں۔ لیکن زمین پر انسان کی عمر بھی کیا یہی ہے؟ اِس سے متعلق جو تحقیقات اب تک ہوئی ہیں، اُن کی روشنی میں اِس کا کم سے کم اندازہ بھی اگر لگایا جائے تو یہ اِس سے ہزاروں سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اِس کے بعد کیا چیز ہے جو قرآن کے اِس بیان کو جھٹلا دے سکتی ہے کہ انسان ابتدا میں ایک ہی مذہب پر تھے۔ اِس کی ہدایت اُنھیں خود اُن کے پروردگار نے دی تھی۔ اُن کے مذہبی فکر میں انحرافات اِس کے بعد کسی زمانے میں داخل ہوئے، جس کے نتیجے میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ شرک اِسی دور کی چیز ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ مذہبی فکر کا سفر شرک سے توحید کی طرف نہیں، بلکہ توحید سے شرک کی طرف ہوا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّا٘ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْاﵧ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيْمَا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ. (یونس ۱۰: ۱۹)
’’حقیقت یہ ہے کہ لوگ ایک ہی امت تھے، اُنھوں نے بعد میں اختلاف کیا، اور اگر تیرے پروردگار کی طرف سے ایک بات[2] پہلے طے نہ کر لی گئی ہوتی تو اِن کے درمیان اُس چیز کا فیصلہ کر دیا جاتا، جس میں یہ اختلاف کر رہے ہیں۔‘‘
پچھلے دو ہزار سال کی تاریخ بھی اِسی حقیقت کی گواہی دیتی ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ اِس تاریخ کی ابتدا خدا کے دو جلیل القدر پیغمبروں ــــــ مسیح اور محمد ــــــ کی طرف سے توحید کی منادی سے ہوئی تھی۔ مگر اِس کے بعد دیکھ لیجیے کہ فلسفہ اور تصوف کی آمیزش نے اُن کی تعلیمات میں کیا کیا انحرافات پیدا کر دیے ہیں، یہاں تک کہ خود مسیح علیہ السلام کے پیرو اُن کو خدا کا بیٹا اور اُن کی ماں کو مادر خدا بنا کر اُن سے دعا و مناجات کرتے نظر آتے ہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں میں بھی ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں، جو احمد کے پردے میں احد کو دیکھتے اور ذوق و مستی کے عالم میں پکار اٹھتے ہیں:
وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر
اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفیٰ ہوکر
اِس کے بعد یہ حقیقت محتاج دلیل نہیں رہتی کہ مراسم عبودیت بھی اصلاً خدا کی طرف سے اور خدا ہی کے لیے مقرر کیے گئے تھے، مگر شرک نے جب اپنے معبود تخلیق کیے تو بعض ترامیم کے ساتھ اُنھی کو اپنے اُن معبودوں کے لیے بھی اختیار کر لیا۔ چنانچہ پیغمبروں کی بعثت ہوئی تو لوگوں سے جو سب سے بڑا مطالبہ اُن کی دعوت میں کیا گیا، وہ یہی تھا کہ لوگو، یہ مراسم عبودیت صرف خدا کے لیے خاص ہیں اور اُسی کے لیے خاص رہنے چاہییں، اِس لیے کہ تنہا وہی تمھارا پروردگار، وہی کائنات کا بادشاہ اور وہی معبود ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔
رہی یہ بات کہ الہامی صحائف میں خدا کا تصور بہ ظاہر متفاوت نظر آتا ہے تو اِس کی وجہ محض سوء فہم ہے۔ یہ صحائف ادب عالیہ کا بہترین نمونہ ہیں۔ لہٰذا ایک ایک مقام پر اِن کی آیات کو اِن کے مرتبین کے تاریخی بیانات سے الگ کر کے دکھایا جا سکتا ہے کہ لوگوں نے کس قلت علم، قلت تدبر اور کس بے ذوقی کے ساتھ اِن کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے، اور اِس طرح اِن کا سارا حسن اپنی تشریحات سے غارت کر دیا ہے۔ اِس کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ: شعر مرابہ مدرسہ کہ برد۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ مذہب کو لوگوں نے جس طرح سمجھا اور اُس کے نتیجے میں جو مذہبی فکر وجود میں آیا ہے، وہ ایک مجمو عۂ تضادات ہے۔ اُس میں نہ خدا کے تصور پر اتفاق ہے، نہ اُس کی صفات اور اُس کے افعال پر، نہ انسان کے ساتھ اُس کے معاملہ کرنے کے طریقے پر، نہ اُس کے احکام و ہدایات پر، نہ انسان سے اُس کے مطالبات پر، نہ انسان اور کائنات کے بارے میں اُس کے مزعومات پر، گویا وہی معاملہ ہے کہ: لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ۔ اِس کے بعد کسی عاقل سے کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اِس مجمو عۂ تضادات کو وہ کسی بھی درجے میں قابل التفات سمجھے گا یا اِس پر ایمان لائے گا؟
اِس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ وجودی حقائق کے ادراک اور اُن سے اخذ و استدلال کی جو صلاحیت انسان کو عطا ہوئی ہے، یہ اختلافات اُس کا لازمی نتیجہ ہیں۔ انسان نے جو کمالات اِس دنیا میں اب تک دکھائے ہیں، وہ سب اِسی صلاحیت کا فیضان ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اِس کے سوء استعمال سے مسائل پیدا ہوئے ہیں، لیکن غور کیجیے تو انسان کا اصلی شرف یہی صلاحیت ہے۔ انسان اِسی سے انسان ہے۔ اُس کے خالق نے اُس کو اِسی طرح بنایا ہے اور آگے بھی اِسی کے ساتھ حیات ابدی کی بشارت دی ہے۔ اِس کے بعد کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ اپنی ہدایت کے فہم میں وحدت پیدا کرنے کے لیے وہ انسان سے یہ صلاحیت سلب کر لے گا؟ ہرگز نہیں، اُس نے صاف فیصلہ سنا دیا ہے کہ ’لَا٘ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ‘،[3] دین کے معاملے میں کسی پر کوئی جبر نہیں کیا گیا اور نہ آیندہ کبھی کیا جائے گا۔
تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انسان کو اِس کے نتیجے میں اختلافات کی بھول بھلیاں میں سرگرداں رہنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ خدا کا دین تو ایک ہی ہے اور اُس کا نام بھی ہمیشہ سے ’’اسلام‘‘ ہی رہا ہے، لیکن اُس کے سمجھنے میں یہ صورت حال جیسے ہی پیدا ہوئی تھی، خدا نے ہر قوم میں اپنے پیغمبر بھیجنا شروع کردیے اور اُن کے ساتھ اپنی کتابیں بھی نازل کر دی تھیں۔ یہ کتابیں حق و باطل میں امتیاز کے لیے میزان اور فرقان کی حیثیت سے نازل کی گئیں تاکہ لوگ اِن کے ذریعے سے اپنے اختلافات کا فیصلہ کر سکیں اور اِس طرح حق کے معاملے میں ٹھیک انصاف پر قائم ہوجائیں۔ ارشاد فرمایا ہے:
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةًﵴ فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَﵣ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ.(البقرہ ۲: ۲۱۳)
’’لوگ ایک ہی امت تھے، پھر (اُن میں اختلاف پیدا ہوا تو) اللہ نے نبی بھیجے، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے اور اُن کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے۔‘‘
اِس سلسلہ کی آخری کتاب قرآن مجید ہے۔ دنیا کے الہامی لٹریچر میں اب تنہا یہی کتاب ہے ، جس کے بارے میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جس طرح دی گئی، بغیر کسی ادنیٰ تغیر کے بالکل اُسی طرح، اُسی زبان میں اور اُسی ترتیب کے ساتھ اِس وقت ہمارے پاس موجود ہے۔ اِس کا یہ تواتر خود ایک معجزہ ہے، اِس لیے کہ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے، جس کو اِس وقت بھی لاکھوں مسلمان ’اَلْحَمْد‘ سے ’وَالنَّاس‘ تک محض حافظے کی مدد سے زبانی سنا سکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پچھلے چودہ سو سال میں اِس کی روایت کا یہ سلسلہ ایک دن کے لیے بھی منقطع نہیں ہوا۔ اِس سے صاف واضح ہے کہ اِس کی حفاظت کا یہ اہتمام خود پروردگار عالم کی طرف سے ہوا ہے۔ اِس کے جن پہلوؤں کی طرف خود قرآن نے جگہ جگہ توجہ دلائی ہے، وہ استاذ امام امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں یہ ہیں:
’’ایک یہ کہ قرآن کے زمانۂ نزول میں اللہ تعالیٰ نے اِس امر کا خاص اہتمام فرمایا کہ قر آن کی وحی میں شیاطین کوئی مداخلت نہ کر سکیں۔ یوں تو اِس نظام کائنات میں یہ مستقل اہتمام ہے کہ شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں نہ سن سکیں، لیکن... نزول قرآن کے زمانے میں یہ اہتمام خاص طور پر تھا کہ شیاطین وحی الٰہی میں کوئی مداخلت نہ کرپائیں تاکہ اُن کو قرآن میں اس کے آگے سے (مِنْۣ بَيْنِ يَدَيْهِ)[4] کچھ گھسانے کا موقع نہ مل سکے۔
دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کام کے لیے اپنے جس فرشتے کو منتخب کیا، اُس کی صفت قرآن میں ’ذِيْ قُوَّةٍ‘ مطاع، قوی، امین اور ’عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ‘ وارد ہوئی ہے۔ یعنی وہ فرشتہ ایسا زور آور ہے کہ ارواح خبیثہ اُس کو مغلوب نہیں کر سکتیں، وہ تمام فرشتوں کا سردار ہے، وہ کوئی چیز بھول نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو امانت اُس کے حوالے کی جاتی ہے، وہ اُس کو بالکل ٹھیک ٹھیک ادا کرتا ہے۔ مجال نہیں ہے کہ اُس میں زیر زبر کا بھی فرق واقع ہو سکے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت مقرب ہے، جو اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے تمام مخلوقات سے برتر ہے ــــــ ظاہر ہے کہ یہ اہتمام بھی اِسی لیے فرمایا گیا ہے کہ قرآن میں اُس کے منبع کی طرف سے کسی باطل کے گھسنے کا امکان باقی نہ رہے۔
تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اِس امانت کو اٹھانے کے لیے جس بشر کو منتخب فرمایا، اول تو وہ ہر پہلو سے خود خیرالخلائق تھا، ثانیاً قرآن کو یاد رکھنے اور اُس کی حفاظت و ترتیب کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے تنہا اُس کے اوپر نہیں ڈالی، بلکہ یہ ذمہ داری اپنے اوپر لی۔ چنانچہ سورۂ قیامہ میں فرمایا ہے: ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ. اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗ. فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ. ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ‘[5]
(اور تم اِس قرآن کو حاصل کرنے کے لیے اپنی زبان کو تیز نہ چلاؤ، ہمارے اوپر ہے اِس کے جمع کرنے اور اِس کے سنانے کی ذمے داری۔ تو جب ہم اِس کو سنا چکیں تو اِس سنانے کی پیروی کرو، پھر ہمارے ذمہ ہے اِس کی وضاحت)۔ روایات سے ثابت ہے کہ جتنا قرآن نازل ہوچکا ہوتا، اُس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقرب صحابہ یاد بھی رکھتے اور ہر رمضان میں حضرت جبریل کے ساتھ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُس کا مذاکرہ بھی فرماتے رہتے تاکہ کسی سہو و نسیان کا اندیشہ نہ رہے، اور یہ مذاکرہ اُس ترتیب کے مطابق ہوتا، جس ترتیب پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کو مرتب کرنا پسند فرمایا۔ یہ بھی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارک کے آخری رمضان میں یہ مذاکرہ دو مرتبہ فرمایا۔ پھر اِسی ترتیب اور اِسی قراءت کے مطابق پورا قرآن ضبط تحریر میں لایا گیا اور بعد میں خلفاے راشدین نے اِس کی نقلیں مملکت کے دوسرے شہروں میں بھجوائیں۔ یہ اہتمام پچھلے صحیفوں میں سے کسی کو بھی حاصل نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ تورات کے متعلق تو یہ علم بھی کسی کو نہیں ہے کہ اُس کے مختلف صحیفے کس زمانے میں اور کن لوگوں کے ہاتھوں مرتب ہوئے۔
چوتھا یہ کہ قرآن اپنی فصاحت الفاظ اور بلاغت معنی کے اعتبار سے معجزہ ہے، جس کے سبب سے کسی غیر کا کلام اُس کے ساتھ پیوند نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام بھی، باوجود یکہ آپ اِس قرآن کے لانے والے اور افصح العرب والعجم ہیں، اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اِس وجہ سے اِس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کسی غیر کا کلام اُس کے ساتھ مخلوط ہوسکے۔ چنانچہ جن مدعیوں نے قرآن کا جواب پیش کرنے کی جسارت کی، اُن کے مزخرفات کے نمونے ادب اور تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ آپ اُن کو قرآن کے مقابل میں رکھ کر موازنہ کر لیجیے، دونوں میں گہر اور پشیز کا فرق نظر آئے گا ــــــ اِس طرح گویا پیچھے سے بھی (وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ)[6] قرآن میں دراندازی کی راہ مسدود کر دی گئی۔
پانچویں یہ کہ قرآن کی حفاظت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی زبان کی حفاظت کا بھی قیامت تک کے لیے وعدہ فرمالیا۔ دوسرے آسمانی صحیفوں میں تو اُن کی اصل زبانیں مٹ جانے کے سبب سے بے شمار تحریفیں ترجموں کی راہ سے داخل ہو گئیں، جن کا سراغ اب ناممکن ہے، لیکن قرآن کی اصل زبان محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گی۔ اِس وجہ سے ترجموں اور تفسیروں کی راہ سے اُس میں کسی باطل کے گھسنے کا امکان نہیں ہے۔ اگر اُس میں کسی باطل کو گھسانے کی کوشش کی جائے گی تو اہل علم اصل پر پرکھ کر اُس کو چھانٹ کر الگ کر سکتے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۷/۱۱۲)
تیسرا اعتراض یہ ہے کہ مذہب جس خدا کو ماننے کی دعوت دیتا ہے، اُس کے رویے نہایت ظالمانہ ہیں۔ وہ بچوں تک کو بیماریوں اور تکلیفوں سے رلا رلا کر مار ڈالتا ہے، لاکھوں اور کروڑوں جانوروں کو روزانہ انسانوں سے ذبح کراتا اور دوسرے جانوروں سے پھڑواتا ہے، وہ کسی قاتل اور ظالم کا ہاتھ نہیں پکڑتا، بلکہ اُنھیں ظلم و عدوان کے مواقع فراہم کرتا ہے، بے شمار مخلوقات محض اِس لیے پیدا کرتا ہے کہ انسان اُنھیں سدھائیں اور اپنا محکوم بنائیں اور اُن کی ایک ایک چیز کو اپنے کام میں لائیں، یہاں تک کہ خود انسانوں کو انسانوں کے خلاف قتل و قتال کی ترغیب دیتا اور اُس پر اجر کے وعدے کرتا ہے۔ پھر یہی نہیں، اُس کی بنائی ہوئی یہ دنیا بھی ہر لحاظ سے کامل نہیں ہے۔ اِس میں زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں، اور یہی نہیں، بعض جگہ نقائص بھی بتائے جاسکتے ہیں۔ اِس کے بعد کیسے مانا جائے کہ وہ کوئی رحمٰن و رحیم اور علیم و حکیم ہستی ہے، جس کا ذہن لامحدود اور قدرت بے پایاں ہے؟
اِس اعتراض کا جواب قرآن نے یہ دیا ہے کہ خدا کی صفات کمال اور صفات جلال و جمال کا ظہور جس دنیا میں اصلاً ہونا ہے، وہ ابھی پردۂ غیب میں ہے اور انسان کو اُسی دنیا کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اِس وقت جو عظیم کائنات اور اُس کی اربوں کہکشانیں، بہ ظاہر بے آب و گیاہ اُس کے سامنے بکھری ہوئی ہیں، یہ سب اُسی دنیا کا سامان تعمیر ہے اور سامان تعمیر ہی کی طرح بے کراں خلا میں بکھیر دیا گیا ہے۔ قرآن نے فرمایا ہے کہ وہ دن اب زیادہ دور نہیں ہے، جب اِسے ایک دوسرے زمین و آسمان میں بدل دیا جائے گا اور سب اللہ واحد و قہار کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے۔[7] اِس کے بعد ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی، جس کی وسعت پوری کائنات کی وسعت ہوگی۔ وہ خدا کی دنیونت اور رحمت و عنایت کی دنیا ہے۔ ہم جس دنیا میں شعور کی آنکھ کھولتے ہیں، یہ اُسی کی تمہید ہے۔ اِسے نہ عدالت کے لیے برپا کیا گیا ہے اور نہ ظہور کمال کے لیے۔ اِس کا مقصد محض ابتلا ہے۔ یہاں تک کہ جن و انس سب عرصۂ امتحان میں ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے:
الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ. (الملک ۶۷: ۲)
’’وہی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور درگذر فرمانے والا بھی۔‘‘
چنانچہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ زندگی موت سے، خوشی غم سے، لذت الم سے، اطمینان اضطراب سے، راحت تکلیف سے اور نعمت اِس دنیا میں کبھی نقمت سے الگ نہیں ہوتی۔ اِنھیں زوجین کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ یہ ماضی کے پچھتاووں اور مستقبل کے اندیشوں کی دنیا ہے۔ انسان کو جو کچھ علم و دانش عطا ہوا ہے، وہ اِسی حقیقت کو سمجھنے کے لیے عطا ہوا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اصل حکمت یہی ہے اور جس نے اِسے پالیا، اُس نے درحقیقت خیر کثیر کا ایک خزانہ پالیا ہے۔[8] اِس لیے کہ اِسی سے انسان اپنے حدود علم کو پہچانتا اور خدا کو مسئول ٹھیرانے کے بجاے اُس کے سامنے اعتراف عجز کے ساتھ اُس کی اسکیم کو سمجھنے کی کوشش کرتا اور ہر لحظہ دست بہ دعا رہتا ہے کہ: ’رَبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا‘[9]، پروردگار، میرا علم زیادہ کر دے۔ علم و فلسفہ کی سب سے بڑی محرومی اِسی حکمت سے محرومی ہے۔ خدا پر یہ اعتراض اِسی سے پیدا ہوتا اور انسان کو ہمیشہ کے لیے اُن ظلمتوں کے حوالے کر دیتا ہے، جن کے آگے پھر کوئی روشنی نہیں ہے۔
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ انسان کے زمانۂ طفولیت میں، ہو سکتا ہے کہ اُس کو مذہب کی ضرورت رہی ہو، لیکن اب وہ عاقل و بالغ ہے، اُس نے تجربے، مشاہدے، استقرا اور استنباط پر مبنی اپنے علم اور اپنی سائنس کے ذریعے سے ہر مشکل کو حل کرنے کی کلید دریافت کرلی ہے۔ وہ اپنے گرد و پیش میں پھیلی ہوئی کائنات کو بھی بڑی حد تک سمجھنے لگا ہے، اور اُس نے معاشرے کی تنظیم اور سیاست و معیشت کی ضرورتوں کے لیے بھی نہایت اعلیٰ اقدار پر مبنی سماجی تشکیلات پیدا کر لیں اور ادارے بنا لیے ہیں، جن کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انسان کا اپنا علم اُن شرائع کے مقابل میں کتنا بلند و برتر ہے، جن کا قلادہ وہ مذہب کے نام پر صدیوں سے اپنی گردن میں ڈالے ہوئے تھا۔ اِس کے بعد کون ہے جو اِن شرائع کو کسی بھی درجے میں قبول کرنے کے لیے تیار ہوگا؟
اس اعتراض کے جواب میں عرض ہے کہ اِس طرح کا تقابل وہی لوگ کر سکتے ہیں، جو مذہب سے ناواقف محض ہوں۔ اِس لیے کہ مذہب کی ہدایت اِن میں سے کسی چیز کے لیے کبھی دی ہی نہیں گئی۔ وہ نہ اِس لیے نازل کیا گیا ہے کہ انسان کو سائنس کے قوانین سمجھائے، نہ اِس لیے کہ اُس کی طبی ضروریات پوری کرے اور نہ اِس لیے کہ معاشرے کی تنظیم اور سیاست و معیشت کی ضرورتوں کے لیے اُس کو سماجی تشکیلات پیدا کرنا اور ادارے بنانا سکھائے۔ چنانچہ انسان نے جو کچھ اِس دنیا میں آکر کیا ہے، وہ انسان ہی کو کرنا تھا۔ اُس کے خالق نے اِس کے لیے اُسے غیر معمولی قوتیں اور صلاحیتیں دے کر پیدا کیا ہے۔ مذہب کا مقصد انسان کے علم و عمل اور اُس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا تزکیہ ہے۔ اُس کے مشمولات میں شریعت کی اصطلاح جن چیزوں کے لیے اختیار کی گئی ہے، وہ عبادات ہیں، تطہیر بدن کے احکام ہیں، تطہیر خور و نوش اور تطہیر اخلاق کی ہدایات ہیں، اور یہ سب چیزیں بھی اصلاً اِس دنیا کے لیے نہیں، بلکہ آخرت کے لیے مطلوب ہیں۔ خدا کا فیصلہ ہے کہ اُس کا فردوس اُنھی لوگوں کے لیے ہے جو اپنا یہ تزکیہ کریں گے۔ اِس سے آگے مذہب کو کسی چیز سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ لہٰذا خدا کی شریعت کو سمجھنا ہے تو اُس کے اِس مقصد اور اِس نصب العین کے لحاظ سے سمجھا جائے گا۔ اُس کی ضرورت کا فیصلہ بھی لازماً اِسی لحاظ سے ہوگا اور دنیا کے علوم و فنون میں اُس کا درجہ اور مرتبہ بھی اِسی رعایت سے متعین کیا جائے گا۔ چنانچہ دیکھیے، فرمایا ہے:
هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ.(الجمعہ ۶۲: ۲)
’’ اُسی نے امیوں کے اندر ایک رسول اُنھی میں سے اٹھایا ہے جو اُس کی آیتیں اُنھیں سناتا ہے اور اُن کا تزکیہ کرتا ہے، اور اِس کے لیے اُنھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس سے پہلے یہ لوگ کھلی گم راہی میں تھے۔‘‘
ـــــــــــــــــــــــــ