معاذ بن نور
[جناب جاوید احمد غامدی کی ویڈیوز کی ٹرانسکرپشن پر مبنی سوال و جواب]
سوال: علم کیا چیز ہے؟ اس کے ذرائع کیا ہیں؟
جواب: انسان کے ظاہری اور باطنی حواس کے حاصلات اور عقلی استنباط کے نتائج کا نام علم ہے، یعنی میرے پاس ہے کیا؟ مجھے کچھ حواس دیے گئے ہیں، جو خارج کی دنیا سے میرا تعلق قائم کرتے ہیں اور کچھ حواس دیے گئے ہیں، جو اندر کی دنیا سے میرا تعلق قائم کرتے ہیں، یعنی یہ تو بالکل ایک بدیہی چیز ہے۔ ان (ظاہری اور باطنی حواس) کے حاصلات کو علم کہا جاتا ہے، یعنی میں جب آنکھوں، کانوں اور چھونے سے اس دنیا کے ساتھ متعلق ہوتا ہوں تو میرے حواس اشیا سے مجھے متعلق کرتے ہیں۔میرے باطن میں بھی کچھ حواس ہیں وہاں بھی علم کے کچھ ذخائر پڑے ہوئے ہیں، کچھ چیزیں مجھے دے کر بھیجا گیا ہے، کچھ چیزیں میرے وجود کا لازمہ بن گئی ہیں (اور) جو قالب مجھے دیا گیا ہے، اس کے ساتھ لاحق ہوتی ہیں، ان سب کو میرے باطنی حواس اپنے ادراک کی گرفت میں لے آتے ہیں۔
ان (ظاہری و باطنی حواس کے) حاصلات کا باہمی تعلق جب پیدا ہوتا ہے تو علم وجود میں آجاتا ہے۔ اب میرے پاس وہ بنیاد میسر آجاتی ہے، چونکہ مجھے عقل دی گئی ہے، تو میں اس (حسی) علم سے (عقلی) استنباط کروں گا اور اس استنباط سے پھر کچھ نتائج نکلیں گے۔ تو یہ دونوں چیزیں ہیں جن کو آپ مجموعی حیثیت سے علم کہتے ہیں۔
(اوپر کی) اس (گفتگو) میں میں نے دوسرے سوال کا جواب بھی آپ کو دے دیا ہے کہ علم کے ذرائع کیا ہیں؟ یہی ذرائع ہیں، ان کے علاوہ میرے پاس کوئی دوسرا ذریعۂ علم نہیں ہے، یعنی یا وہ حواس مجھ تک کچھ معلومات پہنچاتے ہیں جن کو ظاہر میں میں بھی دیکھتا ہوں اور آپ بھی دیکھتے ہیں۔ ان حواس کے حاصلات کو ہم تجربہ و مشاہدہ کہتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں سائنسی علم (بھی) اپنا اصل انحصار ان (ظاہری حواس) ہی پر رکھتا ہے، (تاہم) یوں نہیں ہے کہ سائنسی علم محض ان پر مبنی ہوتا ہے، بلکہ اس کا اصل انحصار ان (ظاہری حواس) ہی پر ہے۔
ہمارے باطن میں جو حواس ہیں، وہ بھی ظاہر بات ہے کہ ہمارے اخلاقی وجود کا ہمیں شعور دیتے ہیں، وہ ہماری جمالیاتی حس کا ہمیں شعور دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ خود ہم اپنے باطن کے اندر جو کچھ موجود ہے، اس کا ادراک کرتے ہیں۔ اسی کی بنیاد پر ہمارا وجدان ایک حقیقت بن کر سامنے آتا ہے۔ وہی اس اضطراری علم کو دنیا سے متعلق کرنے کا باعث بنتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دے کر دنیا میں بھیجا ہے۔ تو یہ ہمارا ظاہر و باطن ہے جس میں حواس دیے گئے ہیں اندر بھی اور باہر بھی۔ یعنی حاسۂ اخلاقی ہے تو وہ بھی من جملہ حواس (ہی) ہے۔ اسی طرح باہر کے حواس سے تو ہر آدمی واقف ہے۔
یہ سب کچھ جب میسر آجاتا ہے تو عقل استنباط کرنا شروع کر دیتی ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ اس (حسی علم) سے کوئی اصل وجود میں آگئی ہے تو اس کی فرع نکالنا شروع کردیتی ہے، کوئی فرع وجود میں آگئی ہے تو اس کی اصل کو دریافت کرنا شروع کردیتی ہے۔ جیسے افلاطون نے اس کائنات کے اجزا میں جن چیزوں کا ظہور ہوا ہے، اس سے ایک کلی دریافت کی اور عالم مثال کا تخیل پیدا کرلیا۔ تو ظاہر ہے، یہ کام عقل کر رہی ہے، جو استنباط کا طریقہ ہے۔
یہ استنباط سائنسی علوم میں بھی داخل ہوگیا ہے۔ آپ کے سامنے آپ کے حواس نے کچھ چیزیں رکھ دی ہیں جو آپ نے اس پوری کائنات میں دیکھ لی ہیں۔ (مثلاً) آپ نے کچھ انسان دیکھ لیے، کچھ فوسلز دیکھ لیے اور کچھ بستیاں دریافت کر لیں اور انسان کے اپنے وجود کا تجزیہ کرلیا۔ یہ سب چیزیں جب ہوگئیں تو ان سے استنباط کرکے آپ کہتے ہیں کہ یہ ہوا ہوگا، جس سے نظریات بننا شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کا معاملہ آپ جانتے ہیں خود ہماری کائنات کے بارے میں ہوا ہے، یعنی ہم بگ بینگ کے تصور تک کیسے پہنچے ہیں، جب کہ اس کو ہم دیکھتے نہیں ہیں، وہ ہمارے مشاہدے کی چیز نہیں ہے۔ ہم نے کائنات کو وسیع ہوتے دیکھا ہے اور آج بھی دیکھ سکتے ہیں اور اس (توسیع) سے (بگ بینگ) کا استنباط کرتے ہیں۔
لہٰذا ہمارا علم استنباطی بھی ہوتا ہے اور (علم) براہ راست ہمارے ظاہری اور باطنی حواس کے حاصلات پر مبنی بھی ہوتا ہے۔ اصل علم وہی ہے جو (ظاہری و باطنی حواس سے) پیدا ہوتا ہے اور جو ہمیں دیا گیا ہے، وہ وہی ہمارے (ان حواس کے) حاصلات ہیں۔ استنباطی علم بہرحال پھر اس کے بعد کا عمل ہے اور میں نے یہ عرض کیا کہ استنباطی علم بھی کوئی چھوٹی چیز نہیں ہے۔ وہ بھی ہمارے وجود اور تصورات کا احاطہ کرتا ہے اور ہمارے تمام علوم میں آگے بڑھنے کی بنیاد وہی فراہم کرتا ہے، اس لیے اس (استنباطی علم) سے نظریات بنتے ہیں اور جو کچھ بھی ہم آگے بڑھ کر دریافت کرتے ہیں، اس کے لیے گویا راستہ ہموار ہوجاتا ہے۔[1]
ـــــــــــــــ
سوال: عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ علم کا آغاز لفظ سے ہوتا ہے۔ (علم اور لفظ کے) اس فرق کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: لفظ ابلاغ کا ذریعہ بنتا ہے۔ پیدایش کے بعد ہماری تربیت اس طرح ہوجاتی ہے کہ جیسے جیسے ہمارا شعور بیدار ہوتا ہے، ہم زبان سیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس لیے (انسانی ذہن میں اشیا سے متعلق حواس اور عقلی استنباط پر مبنی) جتنے تصورات بھی بنتے ہیں، وہ لفظ (اور زبان) سے مجرد ہو کر نہیں بن سکتے، بلکہ لفظوں کے ساتھ ہی ہمارے ہاں موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات صحیح ہے کہ خواہ ہمارا ظاہر ہو یا باطن، ہمارے حواس جیسے ہی (خارج میں) اشیا سے اور باطن میں تصورات اور حسیات سے متعلق ہوتے ہیں تو لفظ کے سانچے میں ڈھلے ہوئے گویا چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ (لفظ اور تصورات کے اس تعلق کو قائم رکھنا) ہماری مجبوری ہے، کیونکہ ہم اس (تعلق) کے بغیر کسی چیز کو تصور نہیں کر سکتے۔
اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی جب کسی نادیدہ عالم کا تعارف کرانا چاہتے ہیں تو یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کی کوئی تصویر ہمارے ذہن میں خود بخود آجائے، اللہ تعالیٰ اس تصور کو لفظوں ہی کا پیرہن پہناتے ہیں اور پھر یہ کہتے ہیں کہ میں نے (انسانوں کے لیے ان تصورات کے بیان کے لیے) متشابہات کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ [2]
ـــــــــــــــ
علم کیا ہے؟ علم کے ذرائع کیا ہیں؟
سوال: کیا انبیا کے ہاں وحی اور دنیاوی علم، دونوں کا حصول حواس ہی کے ذریعے سے ہوتا ہے؟ اگر ان دونوں علوم کے مابین یہ ایک قدر مشترک ہے تو پھر وحی اور دنیاوی علم میں کس لحاظ سے فرق وارد ہوتا ہے؟ کیا وحی کے مطالبات کو ماننے کے لیے براہ راست وحی کے تجربے و مشاہدے کا مطالبہ کرنا معقول بات ہے؟
جواب:جیسے میں نے عرض کیا کہ (انسانوں کے ہاں) علم کی بنیاد ہمارے حواس کے حاصلات ہی سے پڑتی ہے، جس کے بعد استنباط کا عمل شروع ہوتا ہے۔ یہ پیغمبر (بھی چونکہ حواس رکھنے والے انسان ہی ہوتے ہیں، اس لیے وحی ان) کے (ہاں بھی) حواس ہی کا حاصل ہوتی ہے۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بات سنی، ایسے ہی جیسے ہم آوازیں سنتے ہیں۔ یہ (ان کے حواس کے لیے) اتنی حقیقی ہوتی ہے کہ اس کی تصویر دیکھنی ہو تو قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ دیکھ لیجیے۔ یعنی رات کی تاریکی میں سفر اور سردی میں ہیں، ایک جگہ آگ نظر آتی ہے تو اس سے استنباط کرتے ہیں کہ یہاں کوئی قافلہ ہوگا جس سے راستہ پوچھ سکوں گا یا پھر کچھ انگارے لا کر تاپ کر سردی کا مقابلہ ہی کیا جا سکے گا۔ یہاں کیا ہوا؟ (حضرت موسیٰ علیہ السلام کو) پہلے حواس کا مشاہدہ ہوا، اس کے بعد اللہ کی طرف سے آواز آتی ہے تو اس آواز کو بھی کون سنتا ہے؟ پیغمبر کے حواس ہی سنتے ہیں۔
یعنی جب میں آپ کی بات سنتا ہوں تو الفاظ کا جامہ پہن کر (آپ کا) علم (مجھے) منتقل ہوتا ہے۔ یہ جس کو وحی کہا جاتا ہے، اس میں بھی یہی ہوتا ہے
یعنی (خدا کی طرف سے وحی کا) علم پیغمبر کو منتقل ہوتا ہے۔چنانچہ قرآن مجید نے واضح کر دیا ہے کہ وحی اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کے ساتھ کلام کی ایک صورت ہے۔
البتہ وحی کو اللہ تعالیٰ نے محدود رکھا ہے، اس لیے پیغمبر کی گواہی اور اس کی شہادت ہی سے یہ کلام ہم تک پہنچتا ہے۔ یعنی پیغمبر کو جو کچھ (وحی کی صورت میں اس کے حواس کے ذریعے سے) حاصل ہوتا ہے، وہ اس کو (دوسروں کے سامنے) بیان فرماتے ہیں۔ اسی طرح بیان فرماتے ہیں، جس طرح ایک سائنس دان اپنے (حواس کے) حاصلات کو بیان کرتا ہے، یعنی سائنس دان کو اپنے تجربات و مشاہدات سے ایک چیز ملتی ہے تو وہ آپ تک پہنچاتا ہے اور پیغمبر کو ملتی ہے تو وہ بھی پہنچاتا ہے۔
چنانچہ ہر انسان کو اس (وحی کے علم) کا تجربہ نہیں ہو سکتا۔ یعنی اگر آپ پیغمبر سے مطالبہ کریں گے کہ آپ پر وحی نازل ہوئی، اس لیے ہم پر بھی نازل ہو جائے تو یہ نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں اختصاص کا طریقہ اختیار کیا ہے، یعنی ( فطری ہدایت ہر انسان کو دے دینے کے بعد پھر) یوں نہیں کیا کہ اپنی (آسمانی) ہدایت پہنچانے کے لیے وہ ہر ایک پر وحی بھیج دے، بلکہ اس کے لیے طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ وہ اپنے بندوں میں سے کچھ کا انتخاب کرتا ہے، یعنی پیغمبروں کے معاملے میں اختصاص ہوتا ہے اور اکتساب کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے وحی کا یہ تجربہ مجھے اور آپ کو کرایا نہیں جا سکتا۔
لہٰذا ہم پھر ( علم ہدایت کے حصول کے لیے) اس چیز کو علمی و عقلی طریقہ سے تجزیہ سے گزارتے ہیں جو پیغمبر پر نازل ہوتی ہے، یعنی اب ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کی جانے والی وحی قرآن مجید کی صورت میں موجود ہے اور جب ہم اس قرآن کو دیکھتے ہیں تو حواس ہی کے ذریعے سے اس میں موجود ہدایت کو اخذ کرتے ہیں۔ وہ ہمارے سامنے اپنے حقائق کو جب پیش کرتا ہے تو استدلال کرتا ہے، جس کے مقدمات وہی ہیں جو ہمارے حواس کے حاصلات ہو سکتے ہیں۔ ان سے استنباط کے طریقے بھی وہی ہیں جو طریقے ہم عقلی استنباط کے لیے دنیا کے دوسرے بہت سے علوم میں اختیار کرتے ہیں۔
تاہم اگر کوئی شخص اس بات پر اصرار کرے کہ مجھے بھی وحی کا تجربہ ہوگا، تب ہی میں مانوں گا تو ( چونکہ حقائق کو ماننے کے لیے یہ ایک غیر معقول مطالبہ ہے، اس لیے) یہ مطالبہ پورا نہیں کیا جا سکتا۔ [3]
ـــــــــــــــــــــــــ
۱- https://youtu۔be/4tMwGmCP9uk?si=Vai8SNKNHvN2A9IZ
۲- https://youtu۔be/4tMwGmCP9uk?si=Vai8SNKNHvN2A9IZ
۳- https://youtu۔be/4tMwGmCP9uk?si=xvNE0w3NvdT2hLZK