[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
ہماری علمی دنیا میں ایک چیز بہت غلط فہمی کا باعث بنتی ہے اور اس میں بہت اختلاف راے پایا جاتا ہے۔ وه غلط فہمی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم اور حوا کو جب جنت میں رکھا اور انھیں ایک چیز کے قریب جانے سے منع کیا تو پھر کیا چیز ان کے جنت سے نکالے جانے کا باعث بنی، کس نے کس کو جنت سے نکلوایا، وہ کون سا پھل تھا جسے اللہ تعالیٰ نے آدم اور حوا کو کھانے سے منع کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی خلاف ورزی کرنے کے نتیجے میں آدم اور حوا کو جنت سے نکالا گیا؟
سورۂ بقرہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو کہا کہ میں زمین میں ایک بااختیار مخلوق بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: آپ زمین میں ایسی مخلوق بنانے والے ہیں جس کو آپ اختیار دیں گے تو وہ زمین میں فساد پیدا کرے گی اور خون ریزی کرے گی۔ اگر انسان کی پیدایش کا مقصد آپ کی حمد وثنا ہے تو وه تو ہم کررہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کوکہا کہ جو باتیں میں جانتا ہوں، تم اس سے ناواقف ہو۔ فرشتوں نے فرماں بردارانہ کہا کہ آپ ہمارے آقا ہیں۔ آپ جو جانتے ہیں، وہ ہم نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم اور حوا کو مٹی اور گارے سے بنا کر فرشتوں اور جنوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجده کریں۔ فرشتوں نے فوراً اطاعت کرتے ہوئے سجدہ کیا، مگر جنوں نے تکبر کیا اور کہا کہ آپ نے ہمیں آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ہمارے لیے ذلت کی بات ہے کہ ہم اپنے سے حقیر مخلوق کو سجده کریں۔
اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے کہا کہ تو میری قربت سے دور ہوجا۔ تیرے لیے مناسب نہیں تھا کہ تو میرا حکم نہ مانتا اور آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کرتا۔
کسی غلطی کی تلافی کا بہترین طریقہ قرآن مجید نےہمیں یہی بتایا ہے کہ اگردانستہ یا نا دانستہ طور پر غلطی ہوجائے تو فوراً معافی مانگ لیں، لیکن ابلیس نے اللہ تعالیٰ سے معافی تو نہ مانگی، البتہ سرکشی اور نافرمانی کرتے ہوئے کہا کہ آپ مجھے قیامت تک مہلت دیں کہ میں تیرے بنائے ہوئے انسان، جس کی وجہ سے آپ نے مجھے خود سے دور کیا اسے ہرطرح سے گم راہ کروں گا اورانھیں دائیں بائیں، آگےپیچھے سے گم راہ کرکے تیری بنائی ہوئی جہنم کو ان سے بھر دوں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جا تو اپنی کوشش کرلے۔ میرے اچھے بندے کبھی تیرے بہکاوے میں نہیں آئیں گے اور ہمیشہ میرے نبیوں کے بتائے ہوئےراستے پر چلیں گے اور میرے انعامات کے حق دار ٹھیریں گے۔
اللہ تعالیٰ نے آدم اور حوا سے کہا کہ تم دونوں اس باغ میں رہو، یہ باغ کسی ( tropical) جگہ پر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہاں رہو اور جو چاہے کھاؤ پیو، لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا، اس درخت کا پھل نہ کھانا اورنہ چھونا، ورنہ تم اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کرو گے۔
اب ہم تھوڑی سی بات اس درخت کے بارے میں کریں گے۔بائیبل میں ہے:
’’اور خداوند خدا نے آدم کو لے کر باغ عدن میں رکھا کہ اس کی باغبانی اور نگہبانی کرے۔اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے، لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا، کیونکہ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا۔‘‘ (پیدایش ۲: ۱۵ - ۱۷)
اور بائیبل میں دوسری جگہ ہے:
’’اور سانپ کل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا چالاک تھا اور اس نے عورت (حوا) سے کہا ’’ کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں۔ پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جاؤ گے۔تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مرو گے، بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھاؤ گے تمھاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔
عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لیے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لیے خوب ہے تو اس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اس نے کھایا۔تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور انھوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے لنگیاں بنائیں۔ اور انھوں نے خداوند خدا کی آوازجوٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا،سنی اور آدم اور اس کی بیوی نے اپنے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا۔تب خداوند خدا نے آدم کو پکارا اور اس سے کہا کہ تو کہاں ہے؟اس نے کہا میں نے باغ میں تیری آواز سنی اور میں ڈرا، کیونکہ میں ننگا تھااور میں نے اپنے آپ کو چھپایا۔اس نے کہا تجھے کس نے بتایا کہ تو ننگا ہے؟ کیا تو نے اس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا۔آدم نے کہا کہ جس عورت کو تو نے میرے ساتھ کیا ہے اس نے مجھے اس درخت کا پھل دیا اور میں نے کھایا۔تب خداوند خدا نے عورت سے کہا کہ تو نے یہ کیا کیا؟عورت نے کہا کہ سانپ نے مجھ کو بہکایا تو میں نے کھایا۔ اور خداوند خدا نے سانپ سے کہا اس لیے کہ تو نے یہ کیاتو سب چوپایوں اور دشتی جانوروں میں ملعون ٹھہرا۔تو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی عمر بھر خاک چاٹے گا۔ اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔وہ تیرے سر کوکچلے گا اور تو اس کی ایڑھی پر کاٹے گا۔پھر اس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے درد حمل کو بہت بڑھاؤں گا۔تو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہوگی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔ اور آدم سے اس نے کہا چونکہ تو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اس درخت کا پھل کھایاجس کی بابت میں نے تجھے حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا اس لیے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی۔مشقت کے ساتھ تو اپنی عمر بھر اس کی پیداوار کھائے گا اور وہ تیرے لیے کانٹے اور اونٹکٹارے اگائے گی اور تو کھیت کی سبزی کھائے گا۔تو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں تو پھر لوٹ نہ جائے اس لیے کہ تو اس سے نکالا گیا ہے، کیونکہ تو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا۔‘‘ (پیدایش ۳: ۱ - ۱۹)
یعنی بائیبل کے مطابق حضرت آدم کو نکالنے والی حوا تھی اور اس غلطی کی سزا کے طور پر اس کو بچہ جنتے وقت شدید درد ہوگی۔
قرآن مجید نے اس درخت کو، جس کے قریب جانے سے اللہ تعالیٰ نے آدم اور حوا کو منع کیا تھا، ’شجرة الخلد‘ کہا ہے، یعنی ہمیشہ رہنے والا درخت، جسے کبھی زوال نہ آئے۔
عام طور پر عیسائی اس کو سیب کا درخت سمجھتے ہیں اور مسلمان اس کو گندم سمجھتے ہیں۔ کتنی مضحکہ خیزبات ہے کہ سیب اور گندم کھانے سے نہ تو ہمیشہ کی زندگی مل سکتی ہے اور نہ ہی یہ ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے آدم اور حوا اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی جسارت کرتے۔آئیں، اب ہم قرآن مجید کے حوالے سے دیکھتے ہیں کہ وه ’شجرة الخلد‘ سے کیا مراد لیتے ہیں اور جنت سے آدم کو کس نے نکلوایا:
وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْ٘ا اِلَّا٘ اِبْلِيْسَ لَمْ يَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ. قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ قَالَ اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ. قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِيْهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِيْنَ. قَالَ اَنْظِرْنِيْ٘ اِلٰي يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ. قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ. قَالَ فَبِمَا٘ اَغْوَيْتَنِيْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ. ثُمَّ لَاٰتِيَنَّهُمْ مِّنْۣ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِيْنَ. قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًا لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِيْنَ. وَيٰ٘اٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ. فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وٗرِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّا٘ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ. وَقَاسَمَهُمَا٘ اِنِّيْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ. فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادٰىهُمَا رَبُّهُمَا٘ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَاَقُلْ لَّكُمَا٘ اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ. قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا٘ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ. قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰي حِيْنٍ. قَالَ فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَفِيْهَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْهَا تُخْرَجُوْنَ. يٰبَنِيْ٘ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوٰي ذٰلِكَ خَيْرٌ ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ. يٰبَنِيْ٘ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ كَمَا٘ اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْاٰتِهِمَا اِنَّهٗ يَرٰىكُمْ هُوَ وَقَبِيْلُهٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَآءَ لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ.(الاعراف ۷: ۱۱ - ۲۷)
’’(تمھاری سرگذشت یہ ہے کہ) ہم نے تمھیں پیدا کیاتھا، پھر تمھاری صورتیں بنائی تھیں، پھر فرشتوں سے کہاتھاکہ آدم کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ۔ سوابلیس کے سوا سب سجدہ ریز ہو گئے۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہوا۔ فرمایا: تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روک دیا، جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا؟ بولا:میں اُس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُس کو مٹی سے۔ فرمایا: اچھا تو یہاں سے اتر، اِس لیے کہ تجھے یہ حق نہیں کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے، سو نکل جا، یقیناً تو ذلیل ہے۔ بولا: مجھے اُس دن تک مہلت دے، جب لوگ اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا: تجھے مہلت ہے۔ بولا: پھر اِس لیے کہ تو نے مجھے گم راہی میں ڈالا ہے، اب میں بھی اولاد آدم کے لیے ضرور تیری سیدھی راہ پر گھات میں بیٹھوں گا۔ پھر اِن کے آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں ، ہر طرف سے ضرور اِن پر تاخت کروں گا اور تو اِن میں سے اکثرکو اپنا شکرگزار نہ پائے گا۔فرمایا:نکل جا یہاں سے، ذلیل اور راندہ ۔ (یاد رکھ کہ)اِن میں سے جو تیری پیروی کریں گے، میں بھی ضرورتم سب سے اکٹھے جہنم کو بھردوں گا۔ (ہم نے آدم سے کہا):اے آدم، تم اور تمھاری بیوی ، دونوں اِس باغ میں رہو اور اِس میں سے جہاں سے چاہو، کھاؤ۔ ہاں، البتہ تم دونوں اِس درخت کے پاس نہ جانا، ورنہ ظالم ٹھیرو گے۔ پھر شیطان نے اُنھیں بہکایا کہ اُن کی شرم گاہوں میں سے جو چیز اُن سے چھپائی گئی تھی، وہ اُن کے لیے کھول دے۔ اُس نے اُن سے کہا: تمھارے رب نے تمھیں اِس درخت سے صرف اِس وجہ سے روکا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تمھیں ہمیشہ کی زندگی حاصل نہ ہو جائے۔ اُس نے قسمیں کھاکر اُن سے کہا کہ میں تمھارا سچا خیرخواہ ہوں۔ اِس طرح فریب دے کر اُس نے دونوں کو رفتہ رفتہ مائل کر لیا۔ پھر جب اُنھوں نے درخت کا پھل چکھا تو اُن کی شرم گاہیں اُن پر کھل گئیں اور وہ اُس باغ کے پتوں سے اپنے جسم ڈھانکنے لگے۔ (اُس وقت) اُن کے پروردگار نے اُنھیں پکارا کہ کیا میں نے تمھیں اِس درخت سے روکا نہیں تھا اور تم سے کہا نہیں تھا کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے؟ دونوں بول اٹھے: پروردگار، ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے، اب اگر تو ہماری مغفرت نہ فرمائے گاا ور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم ضرورنامراد ہو جائیں گے۔ فرمایا: (یہاں سے) اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین پر ٹھیرنا ہے اور وہیں گزر بسر کرنی ہے۔ فرمایا: تم اِسی میں جیو گے ، اِسی میں مرو گے اور اِسی سے نکالے جاؤ گے۔ آدم کے بیٹو، ہم نے تم پر لباس نازل کیاہے جو تمھاری شرم گاہوں کو ڈھانکنے والا بھی ہے اور تمھارے لیے زینت بھی، اور تقویٰ کا لباس، وہ اِس سے بڑھ کر ہے۔ وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے تاکہ لوگ یاددہانی حاصل کریں۔ آدم کے بیٹو، ایسا ہرگز نہ ہو کہ شیطان تمھیں اُسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے، جس طرح اُس نے تمھارے ماں باپ کو اُس باغ سے نکلوا دیا، (جس میں خدا نے اُنھیں ٹھیرایا تھا) ، اُن کا یہی لباس اتروا کر کہ اُن کی شرم گاہیں اُن پر کھول دے۔ (یاد رکھو)، وہ اور اُس کے ساتھی تم کو وہاں سے دیکھتے ہیں، جہاں سے تم اُنھیں نہیں دیکھ سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِن شیطانوں کو ہم نے اُن لوگوں کا رفیق بنا دیا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔‘‘
سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۳۵ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس غلط فہمی کو دور کیا کہ اما ں حوا نے آدم کو جنت سے نکلوایا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قَالَ يٰ٘اٰدَمُ اَنْۣبِئْهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ فَلَمَّا٘ اَنْۣبَاَهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّيْ٘ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ. وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْ٘ا اِلَّا٘ اِبْلِيْسَ اَبٰي وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ. وَقُلْنَا يٰ٘اٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ. فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰي حِيْنٍ. فَتَلَقّٰ٘ي اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ. (البقرہ ۲: ۳۳ - ۳۷)
’’فرمایا :آدم، تم اِن ہستیوں کے نام اِنھیں بتا ؤ ۔ پھر جب اُس نے اُن کا تعارف اُنھیں کرادیا تو فرمایا: میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کے بھید جانتا ہوں اور میں جانتا ہوں جو تم ظاہر کررہے ہو اور جو تم چھپا رہے تھے ۔ اور (ہماری اِس اسکیم میں انسان کے امتحان کو سمجھنے کے لیے) وہ واقعہ بھی اِنھیں سناؤ، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو وہ سب سجدہ ریز ہو گئے، ابلیس کے سوا۔ اُس نے انکارکر دیااور اکڑ بیٹھا اور اِس طرح منکروں میں شامل ہوا ۔ اور ہم نے کہا: اے آدم،تم اور تمھاری بیوی، دونوں اِس باغ میں رہو اور اِس میں سے جہاں سے چاہو، فراغت کے ساتھ کھاؤ۔ ہاں، البتہ تم دونوں اِس درخت کے پاس نہ جانا، ورنہ ظالم ٹھیروگے ۔پھر شیطان نے اُن کو وہاں سے پھسلا دیا اور جس حالت میں وہ تھے، اُس سے اُنھیں نکلوا کر چھوڑا۔ اور ہم نے کہا : (یہاں سے) اتر جاؤ، اب تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین پر ٹھیرنا ہے اور وہیں گزر بسرکرنی ہے۔ پھر آدم نے اپنے پروردگارسے (توبہ کے) چند الفاظ سیکھ لیے (اور اُن کے ذریعے سے توبہ کی) تو اُس پر اُس نے عنایت فرمائی اور اُس کو معاف کر دیا۔ بے شک، وہی بڑامعاف فرمانے والا ہے ، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘
قرآن مجید کی اس آیت سے بالکل واضح ہے کہ حضرت آدم کو حوا نے جنت سے نہیں نکلوایا، بلکہ شیطان نے ان دونوں کو اس پھل کو کھانے پر مجبور کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ تمھیں ہمیشہ کی زندگی ملے۔اس طرح دونوں کو جنت سے نکلوایا اور اس طرح اس نے آدم سے اپناانتقام لیا۔
عربی سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ ’اَخْرَجَ‘ فعل کا فاعل ابلیس اور ’اَخْرَجَهُمَا‘ میں ’هُمَا‘ کی ضمیر تثنیہ ہے، یعنی دو لوگوں کے لیے ہوتی ہے، اور یہ دو سے مراد آدم اور حوا ہیں،یعنی شیطان نے ان دونوں کو بہکایا اور جنت سے نکلوانے کا باعث بنا۔
یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جس کا لوگ خواتین کے خلاف بہت ذلت آمیزاستعمال کرتے ہیں۔اس کا واضح ہونا بہت ضروری تھا۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے ایک یہ بات واضح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہ مان کر غلطی شیطان نے بھی کی اور غلطی آدم اورحوا نے بھی کی، مگر دونوں کے رویے میں یہ فرق ہے کہ شیطان نے غلطی کرکے غرور اور تکبر کا مظاہرہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے معافی نہیں مانگی، لیکن آدم اور حوا غلطی کرکے فوراً نادم ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔ان کے معافی کے الفاظ قرآن میں اس طرح بیان ہوئے ہیں:
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا٘ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ. (الاعراف ۷: ۲۳)
’’دونوں نے کہا کہ اے ہمارے رب، ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اورہم پر رحم نہ کیا تو ہم خسارہ اٹھانے والے بن جائیں گے۔‘‘
آدم اور حوا کے اس رویے سے ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے کہ اگر ہم سے کوئی غلطی دانستہ یا غیر دانستہ ہو جائے تو ہم فوراً معافی مانگ لیں اور اپنی اصلاح کر لیں اور شیطان کی طرح اپنی غلطی پر مصر نہ رہیں، ورنہ شیطان کی طرح ذلیل و رسوا ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار فرمایا ہے کہ معافی مانگ کر اپنی اصلاح کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر واجب کررکھا ہے کہ وہ انھیں ضرور معاف کرے گا۔ جب حضرت یونس اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر چھوڑ کر چلے گئے تو اسی قانون کے تحت اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو معاف کردیا۔ حضرت یونس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بابل اور نینوا کے علاقے میں نبی بنا کر بھیجا۔ انھوں نے اپنی قوم کو شرک کرنے سے اور برے کام کرنے سے منع کیا تو حضرت یونس نے اپنی کوشش کو کافی سمجھا اور اللہ تعالیٰ کی اجازت لیے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے اور کسی دوسری جگہ جانے کے لیے ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ کشتی کو طوفان نے آلیا۔ کشتی میں سوار لوگوں نے کہا کہ طوفان اس لیے آیا ہے کہ کوئی اپنے آقا کو چھوڑ کر آیا ہے۔ہم قرعہ ڈالتے ہیں، جس کا نام نکلے گا، اسے دریا میں پھینک دیں گے تاکہ کشتی بحران سے نکل آئے۔ تین دفعہ قرعہ ڈالا گیا اور تینوں دفعہ حضرت یونس کا نام نکلا۔کشتی والوں نے حضرت یونس کو دریا میں پھینک دیا اوران کو مچھلی نے نگل لیا۔حضرت یونس کو احساس ہوا کہ الله تعالیٰ نے مجھے میرے گناہوں کی سزا دی ہے۔چنانچہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے ان الفاظ میں معافی مانگی:
لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا٘ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ. (الانبیاء ۲۱: ۸۷)
’’اے اللہ، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں اپنی جان پرظلم کرنے والا ہوں۔‘‘
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کردیا اور مچھلی کے پیٹ سے نکال کر واپس ان کے علاقے میں بھیج دیا۔ مطلب یہ ہے کہ غلطی ہو تو فوراً معافی مانگ لینی چاہیے۔
فرعون کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بھر پور نافرمانی کرتا رہا، لیکن جب سمندر میں ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں موسیٰ کے رب پر ایمان لے آیا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں بار بار تمھیں جھنجھوڑ کر تمھیں تمھاری غلطیوں کا احساس دلاتا رہا اور تم نے اپنی اصلاح نہ کی، لیکن تم اب اپنی موت دیکھ کرایمان لانے کا اقرار کررہے ہو۔ موت د یکھ کر ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔توبہ کے قانون پر ان شاء اللہ ہم کسی اگلے مضمون میں لکھیں گے۔
اس بات کے واضح ہوجانے کے بعد کہ حضرت آدم کو اماں حوا نے جنت سے نہیں نکلوایا، بلکہ ان دونوں کو شیطان نے بہکایا تھا اور ورغلا کر جنت سے نکلوانے کا باعث بنا۔ اور جو انسان غلطی کرنے کے فوراً بعد توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر واجب ہے کہ اسے معاف کردے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ’شجرة الخلد‘ سے کیا مراد ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
وَلَقَدْ عَهِدْنَا٘ اِلٰ٘ي اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا. وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْ٘ا اِلَّا٘ اِبْلِيْسَ اَبٰي. فَقُلْنَا يٰ٘اٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰي. اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَلَا تَعْرٰي. وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْهَا وَلَا تَضْحٰي. فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ قَالَ يٰ٘اٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰي. فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصٰ٘ي اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰي. ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدٰي. قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيْعًاۣ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًي فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي. وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰي. قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْ٘ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا. قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰي. وَكَذٰلِكَ نَجْزِيْ مَنْ اَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْۣ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَدُّ وَاَبْقٰي.(طٰہٰ ۲۰: ۱۱۵ - ۱۲۷)
’’(اِس لیے کہ تم جس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو، وہ ایک بھاری ذمہ داری ہے)۔ہم نے اِس سے پہلے آدم پر ایک عہد کی ذمہ داری ڈالی تھی تو وہ بھول گیا تھا اور ہم نے اُس میں ارادے کی پختگی نہیں پائی تھی۔ یاد کرو ، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو وہ سجدہ ریز ہو گئے ، مگر ابلیس نہیں مانا، اُس نے انکار کر دیا ۔ اِس پر ہم نے کہا کہ اے آدم، یہ تمھارا اور تمھاری بیوی کا دشمن ہے تو ایسا نہ ہو کہ یہ تم دونوں کو اِس باغ سے نکلوا دے، پھر تم محروم ہو کر رہ جاؤ۔ یہاں تو تمھیں یہ آسایش ہے کہ نہ اِس میں بھوکے رہتے ہو نہ لباس کی ضرورت ہوتی ہے، نہ تم کو اِس میں پیاس ستاتی ہے نہ دھوپ لگتی ہے۔ لیکن شیطان نے اُس کو ورغلایا۔ اُس نے کہا: آدم، میں تم کو وہ درخت بتاؤں جس میں ہمیشہ کی زندگی ہے اور اُس بادشاہی کا پتا دوں جس پر کبھی زوال نہ آئے گا؟ سو (اُس کی ترغیب سے آدم و حوا)، دونوں نے اُس درخت کا پھل کھا لیا تو اُن کی پردے کی چیزیں اُن پر ظاہر ہو گئیں اور (اُن کو چھپانے کے لیے) وہ دونوں اپنے اوپر اُس باغ کے پتے گانٹھنے لگے۔ اِس طرح آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اورراہ راست سے بھٹک گیا۔ پھراُس کے پروردگار نے اُ س کو برگزیدہ کیا۔ سو اپنی عنایت سے اُس کی توبہ قبول فرمائی اور اُسے راستہ دکھا دیا۔ فرمایا: تم دونوں فریق یہاں سے اتر جاؤ، اکٹھے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن رہوگے۔ پھر میری طرف سے اگر کوئی ہدایت تمھارے پاس آئے تو اُس کی پیروی کرو،اِس لیے کہ جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا، وہ نہ گم راہ ہو گا نہ محروم رہے گا۔ اور جو میری یاددہانی سے منہ موڑے گا تو اُس کے لیے تنگی کی زندگی ہے اور قیامت کے دن ہم اُس کواندھا اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا: پروردگار، تونے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ہے، میں تو آنکھوں والا تھا۔ ارشاد ہو گا: ہماری آیتیں تمھارے پاس آئی تھیں تو تم نے اِسی طرح اُنھیں نظر انداز کر دیا تھا۔ آج تمھیں بھی اُسی طرح نظر انداز کر دیا جائے گا۔ ہم اُن کو جو حد سے گزر گئے اور اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان نہیں لائے، اِسی طرح بدلہ دیں گے۔ اور آخرت کا عذاب تو زیادہ سخت اور زیادہ دیرپا ہے۔‘‘
ان آیات کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے استاذ محترم اپنی تفسیر ’’البیان‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ لفظ ’شَجَرَة‘ یہاں مجازی مفہوم میں ہے اور اِس سے مراد وہی شجرۂ تناسل ہے، جس کا پھل کھانے ہی سے انسان اِس دنیا میں اپنے آپ کو باقی رکھے ہوئے ہے۔ چنانچہ ابلیس نے یہ لالچ دے کر آدم و حوا کو اُس درخت کا پھل کھانے کی ترغیب دی کہ حیات جاوداں اور ابدی بادشاہی کا راز اِسی درخت کے پھل میں ہے، جس سے تمھیں محروم کر دیا گیا ہے۔ اِس کا پھل کھاؤ گے تو باقی رہو گے، ورنہ جلد یا بدیر موت سے دوچار ہو جاؤ گے۔ شیطان کی یہ بات، اگر غور کیجیے تو ایسی غلط بھی نہیں تھی، اِس لیے کہ یہ اِسی درخت کا پھل ہے، جس کے کھانے سے انسان کی زندگی کا تسلسل دنیا میں قائم ہے۔‘‘ (۳/ ۲۶۵)
ان دلائل سے واضح ہے کہ حضرت حوا نے حضرت آدم کو پھل کھانے کے لیے مجبور نہیں کیا، بلکہ شیطان نے مجبور کیا اور دوسری بات یہ کہ اس پھل سے مراد نہ تو سیب کا پھل ہے اور نہ گندم، بلکہ میاں بیوی کا ازواجی تعلق تھا، جس سے نسل انسانی آگے بڑھتی ہے۔اسی وجہ سے اسے ’شجرة الخلد‘ سے بھی تلمیح کیا ہے، کیونکہ اسی سے انسان کا خاندان اور اس کا نام آگے بڑھتا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ