ایک ’مذہبی‘ اجتماع میں، گفتگو کے دوران میں ہم نے یہ سوال کیا کہ اگر ایک شخص خداے واحد کو نہ مانے تو اُسے آپ کیا کہیں گے؟ لوگوں نے کہا: کافر۔ہم نے عرض کیا: اِسی طرح اگر ایک شخص خداے واحد کے ساتھ دوسرے خداؤں کو بھی مانے تو ایسے شخص کو آپ کیا کہیں گے؟ لوگوں نے کہا:مشرک۔
یہ ایک سادہ تقابل ہے، جس سے آپ بہ آسانی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ کفر وشرک کا ظاہرہ کیا ہے اور ’’ کافر‘‘ اور ’’مشرک‘‘کون لوگ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کفر اورشرک اصلاً ایک کردار کا نام ہے، نہ کہ معروف مفہوم کے اعتبار سے، محض کسی قوم کانام ۔مجنونانہ دنیا پرستی اور ایک خدا کے ساتھ نفس اور اُس کے علائق سے والہانہ وابستگی ہی وہ مظاہر ہیں جنھیں خدا اور رسول نے کفر اور شرک قرار دیاہے۔
کفر اگرناشکری اور سرکشی ہے تو شرک یہ ہے کہ آدمی ایک خدا کے ساتھ دوسری چیزوں کو اپنا خدا اور اپنا اولین کنسرن (concern) بنا لے۔ وہ اُن سے اُسی طرح کا والہانہ تعلق[*] قائم کرلے جو صرف خداوند ذوالجلال سے مطلوب ہے۔ مثلاً دنیا، حب ِدنیا، نفس پرستی، پیری و ملائی وسلطانی، دولت و ثروت، جاہ و حشمت، جلال و جمال، عہدہ و منصب، خاندان، جایداد، بینک بیلنس اوراِسی طرح ’هل من مزيد‘ (more and more) کے دیگرمادی اورزوال یافتہ ’مذہبی‘ مظاہر۔ یہ مظاہر جس قوم اور فرد میں جتنا زیادہ پائے جائیں گے، اتنا ہی زیادہ اُن کے درمیان اِس کفر اور شرک کا ظاہرہ بھی موجود ہوگا۔
موجودہ زمانے میں دوسرے ’مذہبی‘ گروہوں کی طرح،خود مسلمانوں کے درمیان دنیا پرستی، مادیت، ریا و نفسانیت اورزوال یافتہ ’مذہبیت‘کے یہ مظاہر اکثر اوقات دوسروں سے کم نظر نہیں آتے۔ دنیا اور حب دنیا کی مجنونانہ دوڑ میں وہ کسی قوم سے پیچھے نہیں۔ اُن کے درمیان بھی صبر و قناعت اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کا وہی مزاج پیدا ہوگیا ہے جودوسرے گروہوں کے درمیان پایا جاتاہے۔
رمضان دنیا پرستی اور نفس کی اِس آلایش سے اپنے آپ کو پاک کرنے کا بہترین موقع ہے۔ یہ تزکیہ اور نفسانی ترغیبات سے بلند طرزِ زندگی اختیار کرنے کی ایک سالانہ درس گاہ ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اِس ماہ صیام کو اپنے لیے تقویٰ کی تربیت کا مہینا بناسکیں۔
(ہبلی، کرناٹک،۲۱/ مارچ ۲۰۲۳ء)
ـــــــــــــــــــــــــ
[*] البقرہ ۲: ۱۶۵۔