اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا فَاُولٰٓئِكَ اَتُوْبُ عَلَيْهِمْﵐ وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ. (البقرہ ۲: ۱۶۰)
’’البتہ جن لوگوں نے توبہ کر لی اور اصلاح کر لی اور واضح طور پر بیان کر دیا تو ان کی توبہ میں قبول کروں گا۔ میں بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو (تورات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق پیش گوئیوں کو چھپاتے رہے تھے وہ اگر) ... اس حق پوشی کے جرم سے توبہ کر لیں۔ اس توبہ کے ساتھ ’اَصْلَحُوا‘ کی شرط لگائی ہے، جس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ توبہ اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک آدمی اس غلطی کی اصلاح نہ کرے جس کا مرتکب ہو رہا ہے۔ مزید شرط اس کے ساتھ ’بَيَّنُوْا‘ کی لگائی۔ یہ موقع کی مناسبت سے ہے اور سابق الذکر ’اَصْلَحُوا‘ کی وضاحت کر رہی ہے، یعنی آخری نبی سے متعلق تورات کے جن حقائق و بینات کو انھوں نے چھپایا ہے، اس کو ظاہر کریں۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۳۸۸)
اِس آیت کے الفاظ اور اِس کی تفسیر سے درج ذیل نکات ہمارے سامنے آتے ہیں:
۱۔ انسان کی توبہ اُس وقت تک معتبر نہیں ہوتی جب تک وہ اپنی اُس غلطی کی واضح طور پر اصلاح نہ کر لے جس کا وہ مرتکب ہو رہا ہے۔
۲۔ اگر گناہ گار توبہ کے ساتھ اپنی اصلاح بھی کر لیتا ہے تو پھر خدا اُس کے لیے بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَيِّئًا عَسَي اللّٰهُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ. خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ. اَلَمْ يَعْلَمُوْ٘ا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَيَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ. (التوبہ ۹: ۱۰۲- ۱۰۴)
’’اور کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں جنھوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے۔ انھوں نے کچھ نیکیاں اور کچھ بدیاں ساتھ ہی دونوں کمائی ہیں۔ امید ہے کہ اللہ ان پر رحمت کی نظر کرے۔ اللہ غفور و رحیم ہے۔تم ان کے مالوں کا صدقہ قبول کر لو، اس سے تم ان کو پاکیزہ بناؤ گے اور ان کا تزکیہ کرو گے اور ان کے لیے دعا کرو۔ بے شک، تمھاری دعا ان کے لیے سرمایۂ تسکین ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا اور صدقات کی پذیرائی فرماتا ہے اور یہ کہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ ...یہ ان لوگوں کا بیان ہے جو اگرچہ کم زوریوں میں مبتلا رہے تھے اور تبوک کے موقع پر بھی ان سے کم زوری صادر ہو گئی تھی، لیکن ایمان کی رمق ان کے اندر باقی تھی۔ جب اس سورہ نے منافقین کو اچھی طرح جھنجھوڑا اور ان کے علم میں یہ باتیں آئیں تو ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ انھوں نے باتیں بنانے کی کوشش کے بجاے صدق دل سے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا اور نہایت بے چینی کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ڈال دیا۔ روایات میں آتا ہے کہ بعض لوگوں نے یہ تک کیا کہ اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ دیا کہ نہ کچھ کھائیں گے نہ پئیں گے اور نہ اس وقت تک یہاں سے ٹلیں گے جب تک اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے معافی نہ ملے۔ بسا اوقات اپنے گناہوں پر بندے کی شرم ساری اور توبہ کے لیے سچی بے قراری اللہ تعالیٰ کو اس کی نیکی سے بھی زیادہ پسند آتی ہے۔ چنانچہ ان کا اعتراف گناہ اللہ تعالیٰ کو پسند آیا اور ...ان کو قبولیت توبہ کی امید دلا دی گئی۔
... جو چیز ان کے حق میں سفارش بنی ہے ...(وہ یہ تھی) کہ یہ لوگ نفاق ہی پر نہیں پلے اور بڑھے، بلکہ بدیوں کے ساتھ انھوں نے نیکیاں بھی کمائی ہیں۔ نیکی کی راہ پر چلتے چلتے انھوں نے ٹھوکریں بھی کھائیں، لیکن اس طرح نہیں کہ گر کر پھر اٹھنے کا نام ہی نہ لیا ہو، بلکہ گرنے کے بعد اٹھتے اور سنبھلتے بھی رہے ہیں۔ یہی چیز ان کے لیے اعتراف گناہ اور توبہ کا باعث ہوئی ہے، اس وجہ سے یہ نظر انداز کیے جانے کے لائق نہیں، بلکہ اللہ کی نظر عنایت کے سزاوار ہیں۔
... (ان لوگوں سے کہا گیا ) کہ اب تم اپنے عمل سے ثابت کرو کہ تم اپنی توبہ میں راسخ ہو، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان تمھارے رویہ کو دیکھیں گے اور اسی رویہ پر تمھارے باب میں آخری فیصلہ کا انحصار ہے۔
...جن لوگوں کو معافی دے دی گئی، ان کے ساتھ ہی برکت و رحمت کے یہ دونوں دروازے بھی کھول دیے گئے۔ فرمایا کہ ...ان لوگوں کے پیش کردہ صدقات قبول کر لیا کرو، اس لیے کہ اسی سے تم ان کو رذائل سے پاک اور فضائل سے آراستہ کرو گے اور ان کے لیے دعا بھی کرتے رہو، اس لیے کہ تمھاری دعا ہی ہے جو ان کے لیے سرمایۂ سکینت بنے گی۔
... آپ کو یہ ہدایت فرمائی گئی تھی کہ جب انھوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے تو ان کو اپنی تربیت میں ازسرنو لے لو، ساتھ ہی جو چیز ان کی تربیت و اصلاح میں سب سے زیادہ موثر ہو سکتی تھی، اس کی طرف بھی رہنمائی فرما دی۔ اس آیت میں خود ان لوگوں کو توبہ اور انفاق میں سرگرم ہونے پر ابھارا ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ اور ان کے صدقات قبول فرماتا ہے، وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے، تو جو خدا کی رضا اور قرب کے طالب ہوں، انھیں چاہیے کہ وہ خدا کی پسند کے یہ کام زیادہ سے زیادہ کریں۔ اس سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ توبہ اور اصلاح کا کام کوئی وقتی کام نہیں ہے، بلکہ اس میں دوام اور استمرار مطلوب ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۳/ ۶۳۷)
اِس آیت کے الفاظ اور اِس کی تفسیر سے درج ذیل نکات ہمارے سامنے آتے ہیں:
۱۔ انسان سے اگر غلطی ہو جائے تو اُس کے حق میں خدا کا پسندیدہ رویہ یہی ہے کہ وہ اِدھر اُدھر کی باتیں بنانے اور عذر تراشنے کے بجاے صدق دل سے اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور نہایت عاجزی کے ساتھ سچے دل سے خدا سے توبہ و استغفار کرے۔
۲۔ بسا اوقات اپنے گناہوں پر بندے کی شرم ساری اور توبہ کے لیے سچی بے قراری اللہ تعالیٰ کو اس کی نیکی سے بھی زیادہ پسند آتی ہے۔
۳۔ اِسی طرح نیکی کی راہ پر چلتے چلتے انسان جب بھی ٹھوکرکھا جائے تو گرنے کے بعد اُسے لازماً اٹھنا اور سنبھلنا چاہیے اور خدا کی طرف لپک کر اُس سے مغفرت طلب کرنی چاہیے۔ ایسا شخص خدا کے نزدیک نظر انداز کیے جانے کے لائق نہیں ، بلکہ اُس کی نظر عنایت کا سزاوار ہوتا ہے۔
۴۔ ہر گناہ گار کو اپنی توبہ کے بعد اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا لازم ہے کہ وہ اپنی توبہ میں راسخ ہے۔
۵۔ انسان کی تربیت و اصلاح میں سب سے زیادہ موثر کام انفاق میں سرگرم ہونا ہے۔ چنانچہ جو خدا کی رضا اور قرب کا طالب ہو، اُسے چاہیے کہ وہ خدا کی پسند کے کام، خاص کر انفاق زیادہ سے زیادہ کیا کرے۔
۶۔ انسان کے لیے توبہ اور اصلاح کا کام کوئی وقتی کام نہیں ہے، بلکہ اس میں دوام اور استمرار مطلوب ہے۔
وَعَصٰ٘ي اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰي. ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدٰي. (طٰہٰ ۲۰: ۱۲۱ ـ ۱۲۲)
’’آدم نے اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کی تو بھٹک گئے۔ پھر اس کے رب نے اس کو نوازا، اس کی توبہ قبول کی اور اس کو ہدایت بخشی۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’(سورۂ اعراف (۷) آیت ۲۳ میں آدم کے کلمات توبہ کو اِس طرح بیان کیا ہے)
’قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ‘ (انھوں نے دعا کی کہ اے رب، ہم نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم نامراد ہو کے رہ جائیں گے) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم سے جو لغزش ہوئی، وہ اس پر سخت نادم ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ ہے کہ جو بندہ اپنے گناہ پر شرم سار ہوتا ہے، وہ اس کو توبہ و اصلاح کی توفیق بخشتا ہے اور توبہ و اصلاح کے بعد اس کو پہلے سے بھی زیادہ اپنے سے قریب کر لیتا ہے۔ اسی چیز کو یہاں (طٰہٰ۲۰: ۱۲۲ میں) ’اجتباء‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ بڑا ہی خوش بخت ہے وہ انسان جس کو احساس ندامت اور توفیق توبہ کے ساتھ ساتھ رب کریم کی طرف سے توبہ کے کلمات تلقین ہوں۔
... اللہ نے اس کی توبہ قبول کی اور اس پر رحم فرمایا اور اس کو ہدایت دی۔ ’’ہدایت دی‘‘ سے مراد ظاہر ہے کہ آگے کے مراحل کے لیے ہدایت دینا ہے تاکہ آدم اور ان کی ذریت شیطان کے فتنوں کا مقابلہ کر سکے۔‘‘(تدبر قرآن ۵/ ۱۰۰)
اِس آیت کے الفاظ اور اِس کی تفسیر سے درج ذیل نکات ہمارے سامنے آتے ہیں:
۱۔ آدمی سےاگر کوئی لغزش ہو جائے تو اُس کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اس پر سخت نادم ہو۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ ہے کہ جو بندہ اپنے گناہ پر شرم سار ہوتا ہے ، وہ اس کو توبہ و اصلاح کی توفیق بخشتا ہے اور توبہ و اصلاح کے بعد اس کو پہلے سے بھی زیادہ اپنے سے قریب کر لیتا ہے۔
رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ اِنَّا مُؤْمِنُوْنَ. اَنّٰي لَهُمُ الذِّكْرٰي وَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مُّبِيْنٌ. ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌ. اِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِيْلًا اِنَّكُمْ عَآئِدُوْنَ. (الدخان ۴۴: ۱۲ - ۱۵)
’’(وہ پکار اٹھیں گے کہ) ہمارے رب، ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے، ہم ایمان لاتے ہیں۔اب اِن کے لیے نصیحت کہاں! اِن کے پاس تو (ہر چیز کو) کھول کر بیان کر دینے والا رسول آگیا تھا۔اِس پر بھی اِنھوں نے اُس سے منہ موڑا اور کہہ دیا کہ یہ تو ایک سکھایا پڑھایا باؤلا ہے۔ہم کچھ دیر کے لیے یہ عذاب (تم سے) ہٹائے دیتے ہیں، مگر تم لوٹ کر وہی کرو گے جو تم کرتے رہے تھے۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’جو خواہشوں کے بندے ہوتے ہیں، ان کی توبہ عارضی ہوتی ہے، یعنی ہو سکتا ہے کہ ہم تمھاری اس درخواست پر کہ ’ہم سے عذاب ٹال دیا جائے، ہم ایمان لانے والے بن جائیں گے، کچھ وقت کے لیے عذاب ہٹا دیں، لیکن تم پھر اسی راہ پر چلو گے جس پر عذاب سے پہلے چلتے رہے ہو۔ اپنی خواہشوں کے غلاموں کا حال یہی ہوتا ہے کہ جب ان کو کوئی آزمایش پیش آ جاتی ہے تو ناک رگڑ کے توبہ کرتے ہیں، لیکن جب آزمایش گزر جاتی ہے تو اس طرح چل دیتے ہیں گویا نہ کوئی بات پیش آئی، نہ انھوں نے کوئی قول و قرار کیا اور نہ آیندہ اب اس طرح کی بات پیش آئے گی۔‘‘ (تدبر قرآن ۷/ ۲۷۸)
اِس آیت کے الفاظ اور اِس کی تفسیر سے درج ذیل نکات ہمارے سامنے آتے ہیں:
۱۔ جو شخص اپنی خواہش کا غلام ہو، اُس کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب اُس پر کوئی آزمایش آتی ہے تو وہ ناک رگڑ رگڑ کر توبہ کرتا ہے۔
۲۔ لیکن آزمایش گزرنے کے بعد یہ شخص اس طرح چل دیتا ہے ، گویا اُسے کبھی کوئی آزمايش پیش ہی نہیں آئی، نہ اُس نے کبھی کوئی توبہ کی اور نہ آیندہ اُسے کوئی آزمایش پیش ہی آ سکتی ہے۔
اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّهُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُوْنَ. (التوبہ ۹: ۱۲۶)
’’کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک بار یا دو بار آزمایش میں ڈالے جاتے ہیں، پھر بھی نہ تو توبہ کرتے اور نہ یاددہانی ہی حاصل کرتے ہیں۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ ...اوپر والی آیت میں ان لوگوں کے توفیق توبہ سے محروم ہو جانے کی طرف جو اشارہ ہے، یہ اسی کی دلیل ہے کہ یہ لوگ غور کرتے تو انھیں خود اندازہ ہو جاتا کہ ان کی بیماری اب اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ ان کے لیے توبہ کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ چونکہ اپنے ہر بندے پر رحمت کرنا چاہتا ہے، اس وجہ سے اس نے اس دنیا کا نظام اس طرح رکھا ہے کہ ہر شخص، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، سال میں ایک دو بار ضرور کسی نہ کسی ایسی آزمایش میں ڈالا جاتا ہے جو اس کو توبہ اور اصلاح پر ابھارے۔ جو صاحب توفیق ہوتے ہیں، وہ ان آزمایشوں سے سبق حاصل کرتے اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن جو لوگ اپنے اعمال کی پاداش میں توفیق سے محروم ہو جاتے ہیں، وہ ان آزمایشوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ چنانچہ یہ لوگ اب اسی حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ اب کوئی ٹھوکر بھی ان کی آنکھیں کھولنے والی نہیں بنتی۔’ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ‘ میں ان کے دلوں کی قساوت کی طرف اشارہ ہے اور ’وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُوْنَ‘ میں ان کی عقلوں کے کند ہونے کی طرف۔ اس لیے کہ ’توبہ‘ دل کا فعل ہے اور ’تذکر‘ عقل کا۔ گویا ان کے اعمال کی سیاہی نے ان کی ان دونوں ہی چیزوں کو تاریک کر دیا ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۳/ ۶۶۵)
اِس آیت کے الفاظ اور اِس کی تفسیر سے درج ذیل نکات ہمارے سامنے آتے ہیں:
۱۔ انسان اگر اپنی شخصیت اور اپنے اعمال پر غور کرے تو اُسے خود بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اب اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ اس کے لیے توبہ کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔
۲۔ اللہ تعالیٰ چونکہ اپنے ہر بندے پر رحمت کرنا چاہتا ہے، اس وجہ سے اس نے اس دنیا کا نظام اس طرح کا بنا رکھا ہے کہ ہر شخص، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ، سال میں ایک دو بار ضرور کسی نہ کسی ایسی آزمایش میں ڈالا جاتا ہے جو اُس کو توبہ اور اصلاح پر ابھارتی ہے۔
۳۔ صاحب توفیق انسان خدا کی جانب سے آنے والی آزمایشوں سے سبق حاصل کرتا اور ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
۴۔ البتہ جو شخص اپنے اعمال کی پاداش میں توفیق سے محروم ہو جاتا ہے، وہ ان آزمایشوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا، یعنی وہ نہ تو توبہ کرتا ہے اور نہ یاددہانی ہی حاصل کرتا ہے۔
اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۣ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ. اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الضَّآلُّوْنَ. اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِهِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَهَبًا وَّلَوِ افْتَدٰي بِهٖ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ وَّمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ. (آلِ عمران ۳: ۸۹ - ۹۱)
’’البتہ جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لی تو بے شک اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ جن لوگوں نے کفر کیا اپنے ایمان کے بعد اور اپنے کفر میں بڑھتے گئے، ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں ہو گی اور یہی لوگ اصلی گم راہ ہیں۔ بے شک، جن لوگوں نے کفر کیا اور اسی کفر کی حالت میں مر گئے۔ اگر وہ زمین بھر سونا بھی فدیہ میں دیں تو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان کے لیے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ ...وہ لوگ اس عذاب سے بچ جائیں گے جو ان تنبیہات کے بعد توبہ کر کے اپنے حالات کی اصلاح کرلیں گے اور جن حق پوشیوں کے اب تک مجرم ہوئے ہیں، ان کا برملا اظہار و اعلان کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
...یہ ان لوگوں کا بیان ہے جن کی توبہ قبول نہیں ہو گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ان تمام جرائم کا ارتکاب کرکے، جن کا ذکر اوپر ہوا، ایمان کے بعد کفر میں مبتلا ہوئے۔ پھر اس کفر پر ردے کے بعد ردے چڑھاتے چلے گئے۔ جب وقت آخر آیا تو زبان سے توبہ توبہ کر لی، نہ اپنے جرائم کی اصلاح کی، نہ اپنی حق پوشیوں کا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کے سامنے اظہار و اعتراف کیا، نہ اللہ کی راہ میں انفاق اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت و نصرت سے اپنے گناہ دھونے کی کوشش کی، بلکہ جیسا کہ قرآن میں اشارہ ہے، اس غلط آرزو میں مر گئے کہ ’سَيُغْفَرُلَنَا‘ اللہ ہماری ساری غلطیوں کو معاف فر ما دے گا۔ قرآن نے یہاں واضح فرما دیا کہ جو لوگ اس قسم کی طمع خام میں مبتلا ہیں، نہ ان کی یہ توبہ توبہ ہے، نہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی توبہ کو پذیرائی بخشے گا۔
اسی طرح کا معاملہ ان لوگوں کا ہے جو ایمان کے بعد کفر میں مبتلا ہوئے اور اسی حالت کفر میں مر گئے۔ فرمایا کہ اگر اس طرح کے لوگ زمین برابر سونا بھی اپنے آپ کو عذاب الہٰی سے بچانے کے لیے فدیہ میں دیں تو بھی قبول نہیں ہو گا۔ یہ اسلوب بیان محض ان کی نجات کے عدم امکان کی تعبیر کے لیے اختیار کیا گیا، ورنہ آخرت میں نہ کسی کے پاس فدیہ میں دینے کے لیے کچھ ہو گا، نہ آخرت اس قسم کے لین دین کی کوئی جگہ ہے۔’وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ‘ میں ان لوگوں کی اس طمع خام کی نفی ہے جو یہ اپنے بزرگ اسلاف کی شفاعت کی رکھتے تھے۔ فرمایا کہ آخرت میں ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۱۳۸)
اِس آیت کے الفاظ اور اِس کی تفسیر سے درج ذیل نکات ہمارے سامنے آتے ہیں:
۱۔ انسان، خواہ کتنا ہی گناہ گار ہو، وہ اگر خدا کی تنبیہات کے بعد توبہ کر کے اپنے حالات کی اصلاح کر لیتا اور توبہ کے تقاضے پورے کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
۲۔ وہ لوگ جو تمام عمر جرائم کا ارتکاب کرتے رہے ، پھر جب موت کا وقت آ پہنچا تو زبان سے توبہ توبہ کر لی، نہ اپنے جرائم کی اصلاح کی، نہ اپنے گناہ دھونے کی کوشش کی، بلکہ اِس آرزو میں رہے کہ اللہ ہماری ساری غلطیوں کو معاف فر ما دے گا۔ قرآن نے اِن آیات میں واضح طور پر بیان کر دیا ہے کہ جو لوگ اس قسم کی طمع خام میں مبتلا ہیں، نہ ان کی یہ توبہ توبہ ہے اور نہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی توبہ کو پذیرائی بخشے گا۔
۳۔ اسی طرح ان لوگوں کا معاملہ ہے جو ایمان کے بعد کفر میں مبتلا ہوئے اور اسی حالت کفر میں مر گئے۔ ان کی نجات کا بھی کوئی امکان نہیں۔
۴۔ قرآن سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ قیامت کے دن اگر کوئی شخص عذاب الہٰی سے بچنے کے لیے اپنی جان کے فدیے میں خدا کو زمین برابر سونا دینا چاہے گا تو بھی وہ اُس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔
(اِس سے اگلا آرٹیکل توبہ سے متعلق احادیث پر مشتمل ہو گا، ان شاء اللہ)۔
ـــــــــــــــــــــــــ