حضرت ابوموسیٰ اشعری ہجرت سے انیس سال قبل(۶۰۲ء میں )یمن کے شہر زبید میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبداللہ تھا، قیس بن سلیمان (سلیم:ابن سعد، ابن عبدالبر) ان کے والد اورحضا ر بن حرب پردادا تھے۔ جماہر بن اشعر بارھویں ، بانی قبیلہ اشعر (اصل نام : نبت )بن اددحضرت ابو موسیٰ کے تیرھویں اورکہلان بن سبا انیسویں جد تھے۔ قبیلہ مذحج کے بانی مالک بن اددا شعر بن ادد کے بھائی تھے۔ ابن اسحٰق نے حمیر بن سبا کے بھائی اشعر بن سبا کو ان کا جد بتایا ہے۔ ان کا سلسلۂ نسب بائیسویں پشت پر یعرب بن قحطان سے جاملتا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعر قبیلہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اشعری اور اپنے جد اعلیٰ قحطان کی نسبت سے قحطانی کہلاتے ہیں ۔ ذہبی نے ان کی نسبت تمیمی بھی بتائی ہے، جو کسی طور درست نہیں ۔ ان کی والدہ حضرت ظبیہ بنت انس (طیبہ بنت وہب: ابن اثیر)عک قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں ، مشرف بہ ایمان ہوئیں اور مدینہ میں وفات پائی۔ ابن حزم نے حضرت ابوموسیٰ کے چار بھائی ابو رہم، ابراہیم، عامرابوبردہ اور مجری بتائے ہیں (جمہرۃ انساب العرب ۳۹۷)۔
واقدی کی روایت کے مطابق زمانۂ جاہلیت میں حضرت ابوموسیٰ اشعری اپنے بھائیوں اور اہل قبیلہ کی ایک جماعت کے ساتھ مکہ آئے اورحضرت ابواحیحہ سعید بن العاص کے حلیف بن گئے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے حبشہ ہجرت کی او ر فتح خیبر کے تین دن بعدحبشہ سے مدینہ پہنچے۔ ابن اسحٰق کہتے ہیں کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری بنو عبد شمس کے عتبہ بن ربیعہ کی اولاد کے حلیف تھے۔ ابن اسحٰق اورواقدی نے حضرت ابوموسیٰ کو مہاجرین حبشہ میں شمار نہیں کیا۔
کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری حضرت سعید بن العاص سے حلف و پیمان کرنے کے بعد مکہ سے اپنے وطن واپس لوٹ گئے اورحبشہ ہجرت نہ کی۔ ۷ھ میں وہ اپنے بھائیوں ، اشعر قبیلے کے پچاس اور قبیلہ عک کے دو افراد کے ساتھ اس وقت مدینہ پہنچے جب حبشہ سے حضرت جعفر بن ابوطالب کی آمد ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعریوں کی آمد سے پہلے فرمایا:تمھارے ہاں وہ قومیں آرہی ہیں جوتم سے زیادہ نرم دل ہیں ۔ اشعری مدینہ کے قریب پہنچے تو یہ شعر پڑھ رہے تھے:
غدًا نلقی الأحبة محمدًا وحزبه
’’کل ہم دوستوں سے ملیں گے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم او ران کے اصحاب سے۔‘‘
ان سب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کیااور اسلام قبول کر کے آپ کی بیعت کی۔ یہ مصافحہ کرنے والے پہلے لوگ تھے(احمد، رقم ۱۲۵۸۲)۔ آپ کا ارشاد ہے: اشعریوں کا کسی غزوہ میں زاد راہ ختم ہونے لگتا ہے یا مدینہ میں ان کے اہل و عیال کی خوراک کم پڑ جاتی ہے تو وہ موجود تمام غلہ ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں اور ایک برتن (پیمانے) کے ذریعے سے آپس میں برابر بانٹ لیتے ہیں ۔ سو وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں (بخاری، رقم ۲۴۸۶۔ مسلم، رقم ۶۴۰۸)۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر ملی تو وہ اپنے دو بڑے بھائیوں حضرت ابوبردہ، حضرت ابورہم اور پچاس دیگر اشعریوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے مکہ جانے والی کشتی پر سوار ہوئے۔ دوسری روایت میں حضرت ابوعامر بن قیس اورحضرت محمد بن قیس دو بھائیوں کے ناموں کاا ضافہ کیا گیا ہے۔ خودوہ روایت کرتے ہیں :ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر ملی تو ہم یمن میں تھے۔ ہم ایک کشتی میں سوار ہوئے تو اس نے ہمیں حبشہ میں نجاشی کے پاس پہنچا دیا۔ (یہاں ہماری ملاقات جعفر بن ابوطالب اور دوسرے مہاجرین سے ہوئی۔ جعفر نے بتایا کہ آپ نے انھیں حبشہ ہجرت کرنے اور یہاں قیام کرنے کا حکم دیا ہے، اس لیے آپ بھی ہمارے ساتھ ٹھیر جائیں ۔ چنانچہ ہم اشعری مہاجرین کے ساتھ حبشہ میں مقیم رہے )ہماری ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت ہوئی جب آپ نے خیبر فتح کیا۔
ابوعمرکہتے ہیں :درست بات یہ ہے کہ حضرت ابوموسیٰ مکہ آئے، اسلام قبول کیا، بنوعبدشمس سے مخالفت کی اور اپنے وطن لوٹ گئے۔ ان کی دعوت پر پچاس اشعری حلقۂ بگوش اسلام ہو گئے تووہ انھیں مکہ لانے کے لیے کشتی پرسوار ہوئے، لیکن سمندری ہوا نے ان کی کشتی ملک نجاشی حبشہ پہنچا دی۔ وہاں وہ ایک مدت قیام کرنے کے بعد حضرت جعفر بن ابوطالب کے ساتھ دوکشتیوں ، سفینۂ جعفر اور سفینۂاشعریین میں سوار ہو کر غزوۂ خیبر کے وقت مدینہ پہنچے۔
حضرت عمر نے جب مہاجرۂ حبشہ حضرت اسماء بنت عمیس کے بارے میں تبصرہ کیا کہ یہ حبشیہ اور سمندر پار رہنے والی ہیں تو وہ غصے میں آ گئیں اور کہا:واللہ، میں کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی، جب تک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکرنہ کردوں ۔ آپ نے فرمایا: عمر کا مجھ پر تم سے زیادہ حق نہیں ۔ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے تو ایک ہجرت کی، تم کشتی والوں نے دو ہجرتیں کیں ، ایک نجاشی کی طرف اور ایک میری طرف۔ حضرت اسماء بتاتی ہیں کہ ابو موسیٰ اشعری اور کشتیوں میں میرے ہم سفر مہاجرین حبشہ میرے پاس جمع ہوتے اور مجھ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں پوچھتے۔ دنیا میں اس سے بڑھ کر انھیں کوئی خوشی ہوئی تھی نہ ان کے دلوں میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فرمان سے زیادہ کسی شے کی وقعت تھی (بخاری، رقم ۴۲۳۰- ۴۲۳۱۔ مسلم، رقم ۲۵۰۳۔ احمد، رقم ۱۹۵۲۴۔ مستدرک حاکم، رقم ۶۴۰۹۔ دلائل النبوۃ ۴/۲۴۵)۔ ابوموسیٰ مجھ سے یہ فرمان نبوی بار بارسنتے۔
۷ھ میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ میں رہ جانے والے مہاجرین کو واپس لانے کے لیے حضرت عمرو بن امیہ ضمری کو بھیجا اور نجاشی نے ان کے سفر کے لیے دو کشتیاں فراہم کیں تو ایک کشتی میں حضرت جعفر بن ابوطالب اوردیگرمہاجرین اور دوسری میں حضرت ابوموسیٰ اپنے پچاس ہم قبیلہ اشعریوں کے ساتھ سوار ہوئے۔ مہاجرین بحیرۂ احمر (بحیرۂ قلزم) میں سفرکرنے کے بعد بولا کے ساحل پراترے اور اونٹوں پرسوار ہو کر مدینہ پہنچے۔ تب خیبر فتح ہو چکا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابھی خیبر میں تھے۔ یہ غزوات میں ان کی پہلی حاضری تھی۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے مہاجرین کومال غنیمت میں سے حصہ عطا کیا۔ کشتی کے مسافروں کے علاوہ آپ نے جنگ میں شرکت نہ کرنے والے کسی شخص کو ما ل غنیمت نہ دیا(احمد، رقم ۱۹۶۳۵)۔
حضرت ابوموسیٰ اور حبشہ سے آنے والے اشعریوں نے مدینہ کی وادی بقیع بطحان میں قیام کیا۔ ہر روز باری باری کچھ لوگ عشاء کی نما ز پڑھنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوتے۔ ایک دن حضرت ابوموسیٰ اور ان کے ساتھی مدینہ پہنچے۔ آپ کسی اہم کام میں مصروف تھے۔ آدھی رات ہو گئی تو آپ نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائے۔ جماعت مکمل ہونے کے بعد فرمایا:اطمینان سے بیٹھو، میں تمھیں خوش خبری سناتا ہوں :اللہ کا تم پر احسان ہے کہ تمھارے علاوہ کوئی شخص اس وقت نماز ادا نہیں کر رہا۔ آپ کا ارشاد سن کر حضرت ابوموسیٰ اور ان کے ساتھی خوش خوش لوٹے(بخاری، رقم ۵۶۷۔ مسلم، رقم ۱۴۵۱)۔
۷ھ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خیبرسے واپسی پرایک وادی میں سے گزرے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری اورآپ کے ہم سفردوسرے اصحاب کسی گھاٹی پر چڑھتے توبلند آواز میں ’لا إلٰه إلا اللّٰه واللّٰه أكبر‘ کاورد کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لوگو، رک جاؤ، تم ایسے خدا کو نہیں پکاررہے جو بہرا اور غائب ہے، وہ تمھارے ساتھ ہے، سمیع و قریب ہے (بخاری، رقم ۲۹۹۲۔ احمد، رقم ۱۹۵۲۰)۔ پھر آپ نے آواز دی: او عبداللہ بن قیس، حضرت ابوموسیٰ نے کہا: لبیک یا رسول اللہ، فرمایا:میں تمھیں جنت کے خزانوں میں سے ایک کلمہ نہ بتا دوں ؟ حضرت ابوموسیٰ نے کہا:کیوں نہیں ، یا رسول اللہ، میرے ماں باپ آپ پر فداہوں ۔ فرمایا: ’لاحول ولا قوة إلا باللّٰه‘ (بخاری، رقم ۴۰۹۔ مسلم، رقم ۶۸۶۲۔ ابوداؤد، رقم ۱۵۲۶۔ ترمذی، رقم ۳۳۷۴۔ ابن ماجہ، رقم ۳۸۲۴۔ احمد، رقم ۱۹۵۷۵)۔
۴ھ(محرم۵ھ:واقدی۔ ربیع الاول۷ھ:بخاری):ایک نجدی مدینہ کے بازار میں اپنا سامان فروخت کرنے آیا تو اس نے بتایاکہ بنوغطفان کی شاخیں بنومحارب اور بنوثعلبہ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہی ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سن کر چار سو مسلمانوں کی فوج تیار کی اور حضرت ابوذرغفاری کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر فرما کرنجد کا رخ کیا۔ چھ اصحاب کے لیے ایک اونٹ تھا، جس پر وہ باری باری سوار ہوتے۔ کوہ ذات الرقاع کی حدود میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ دشمن نے آپ کی آمد کی خبر سن کر اپنی عورتیں نیچے چھوڑی ہیں اور خود پہاڑوں پر مورچہ بندہو گیا ہے۔ اس غزوہ میں کوئی جنگ نہ ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دن وہاں ٹھیر کر مدینہ لوٹ آئے۔ اس اثنا میں نماز کا وقت ہوتا تو اندیشہ ہوتا کہ دشمن مورچوں سے اتر کر حملہ نہ کردے۔ چنانچہ آپ نے صلوٰۃ الخوف ادا فرمائی۔ غزوۂ ذات الرقاع کی ایک وجۂ تسمیہ یہ ہے کہ پہاڑی اور پتھریلی زمین پر پیدل چلنے کی وجہ سے صحابہ کے پاؤں زخمی ہو گئے اور ناخن جھڑ گئے تھے اور انھوں نے پاؤں پر چیتھڑے باندھ رکھے تھے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے اس غزوہ میں شرکت کی۔ ہجرت کے چوتھے اور پانچویں سال وہ حبشہ میں تھے، اس لیے زیادہ تر اہل مغازی نے اس سن وقوع کو درست نہیں مانا۔ امام بخاری نے غزوۂ ذات الرقاع کا زمانۂ وقوع ۷ھ جنگ خیبر کے بعد متعین کیا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اس غزوہ کا ذکرکرنے سے گریز کرتے، کیونکہ وہ اپنے عمل کا اشتہار نہ چاہتے تھے(مسلم، رقم ۴۶۹۹)۔
۸ھ(۶۳۰ء):جنگ حنین میں شکست کے بعد کفار طائف اور نخلہ کی طرف فرار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا پیچھا کرنے کے لیے حضرت ابوعامر عبید بن سلیم اشعری کی قیادت میں ایک سریہ روانہ کیا، ان کے بھتیجے حضرت ابوموسیٰ اشعری بھی ساتھ تھے۔ درید بن صمہ کی سربراہی میں بنوہوازن کا ایک گروہ طائف کے راستے میں واقع اوطاس میں قلعہ بند ہو گیا تھا۔ حضرت ابوعامراشعری نے اوطاس پہنچ کر محاصرہ کرلیا۔ نو سورماؤں کو دوبدو مقابلے میں قتل کرنے کے بعد انھوں نے سلمہ بن دریدپر حملہ کیا، لیکن اس نے پلٹ کر انھیں شہید کردیا اور علم ان سے چھین لیا۔ بخاری کی روایت میں وضاحت کی گئی ہے کہ ان کے گھٹنے میں بنوجشم کے ایک شخص کا پھینکا ہوا تیر پیوست ہو گیا۔ حضرت ابوموسیٰ نے پوچھا:چچا، آپ کو یہ تیر کس نے مارا؟ انھوں نے اشارے سے بتایاتو حضرت ابوموسیٰ نے حملہ آورکو جا لیا۔ وہ دوڑا تو انھوں نے پکار کر کہا: تجھے شرم نہیں آتی، تو ثابت قدم نہیں رہے گا۔ ان جملوں سے اسے غیرت آئی اور وہ پلٹ کر تلوار چلانے لگا۔ پھرحضرت ابوموسیٰ نے سبقت کی اور دو وار کر کے ا سے جہنم رسید کر دیا۔ واپس آ کر انھوں نے چچا کو بتایا تو انھوں نے پیوست تیر نکالنے کو کہا۔ زخم سے سیال بہ نکلا۔ حضرت ابو عامر نے کہا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کہنااور درخواست کرنا: میرے لیے مغفرت کی دعا کریں ۔ یہ کہہ کر حضرت ابوموسیٰ اشعری کو سالار مقرر کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں ان کی شہادت ہو گئی۔ حضرت ابوموسیٰ بنوہوازن کو شکست دے کر خدمت رسالت میں پہنچے اور سریہ کے واقعات بتانے کے ساتھ حضرت ابوعامر کی درخواست پیش کی۔ آپ نے پانی منگوایااور وضو کرنے کے بعد ہاتھ بلند کرکے دعافرمائی: اے اللہ، عبید ابوعامر کی مغفرت کر دے، روز محشراسے اکثر لوگوں سے بلند مقام عطا کرنا۔ حضرت ابوموسیٰ نے عرض کیا:میرے لیے بھی مغفرت کی دعا کر دیں ۔ آپ نے دعا فرمائی:اے اللہ، عبداللہ بن قیس کے گناہ بخش دے اور روز قیامت اس کو عمدہ گھر میں داخل کرنا (بخاری، رقم ۴۳۲۳۔ مسلم، رقم ۶۴۰۶۔ احمد، رقم ۱۹۵۶۷)۔ بلاذری نے حضرت ابوعامر کے قاتل کانام سلمہ بن سمادری (یا سمادیر)بتایا ہے، یہ وہی سلمہ بن درید ہے جو اپنی ماں سمادری کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
۸ھ:حضرت ابوموسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں : ہم (حصار طائف کے بعد)مکہ و مدینہ کے مابین جعرانہ کے مقام پر تھے کہ ایک بدو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیااور کہا: آپ میرے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورانہ کر یں گے؟آپ نے فرمایا: تیرے لیے بشارت ہے۔ اس نے کہا:آپ نے مجھے کئی بار فرمایا ہے :خوش ہو جاؤ۔ اس پر آپ غصہ میں آگئے اور حضرت ابوموسیٰ اور حضرت بلال کی طرف رخ کر کے فرمایا: اس دیہاتی نے تو بشارت کو مسترد کر دیا ہے، تم دونوں قبول کر لو۔ دونوں اصحاب نے کہا:ہم نے قبول کی۔ آپ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا، اپنے دونوں ہاتھ اور منہ اس میں دھوئے اور کلی بھی کی۔ پھر فرمایا: تم دونوں اس میں سے کچھ نوش کر لو، اپنے مونہوں اور اپنے سینوں پر بھی ڈال لو اور خوش ہو جاؤ۔ دونوں نے پیالہ پکڑ کر تعمیل ارشاد کیا تو پس پردہ حضرت ام سلمہ پکاریں :کچھ پانی اپنی ماں کے لیے بھی چھوڑ دینا۔ چنانچہ انھوں نے بقیہ پانی حضرت ام سلمہ کو دے دیا (بخاری، رقم ۴۳۲۳۔ مسلم، رقم ۶۴۰۵) ۔
۹ھ:غزوۂ تبوک کے موقع پرحضرت ابوموسیٰ اپنے کچھ اشعری ساتھیوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جنگ پر جانے کے لیے سواریوں کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا: واللہ، میں سواریاں فراہم نہ کر سکوں گا، میرے پاس تمھیں سواری دینے کے لیے کچھ نہیں ۔ اسی اثنا میں آپ کے پاس غنیمت کے اونٹ آئے تو آپ نے پوچھا:اشعری لوگ کہاں ہیں ؟( حضرت بلال نے منادی کی تو حضرت ابوموسیٰ خدمت رسالت میں دوبارہ پہنچے تو ) آپ نے انھیں سفید کوہانوں والے پانچ اونٹ دینے کا حکم دیا۔ اونٹ لے کر انھوں نے سوچا :ہمیں کوئی برکت حاصل نہ ہو گی، اس لیے واپس پلٹے اور عرض کیا:آپ نے حلفاً کہا تھا کہ ہمیں سواریاں نہ دیں گے، کیا آپ کو یاد نہیں رہا؟آپ نے فرمایا :تمھیں یہ سواریاں میں نے نہیں دیں، بلکہ اللہ نے دی ہیں ۔ واللہ، میں کوئی قسم نہیں کھاتا، مگر جب اس کے علاوہ بہتر صورت پاتاہوں تو قسم کھول کر اسی کو انجام دیتا ہوں (بخاری، رقم ۳۱۳۳۔ مسلم، رقم ۴۲۶۳۔ نسائی، رقم ۳۸۱۱۔ ابن ماجہ، رقم ۲۱۰۷۔ احمد، رقم ۱۹۵۵۸)۔
۱۰ھ:حجۃ الوداع سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن او رحضرموت کو کئی رقبوں میں بانٹ کر ہر حصے کا الگ عامل مقر ر فرمایا۔ حضرت شہر بن باذام، حضرت عامر بن شہرہمدانی، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت خالد بن سعید، حضرت طاہر بن ابوہالہ، حضرت یعلیٰ بن امیہ اور حضرت عمرو بن حزم (حرام: ابن کثیر) یمن کے عامل تھے۔ ابن جوزی نے حضرت طاہر بن ابوہالہ کا نام نہیں لکھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ ا شعری کو یمن کے زیریں صوبے اور ساحلی علاقوں کا گورنر مقرر کیا۔ یمن کا شہر مارب بھی حضرت ابو موسیٰ کی عمل داری میں تھا ۔ حضرت معاذ بن جبل دوسرے صوبے اقصاے یمن کے نبوی عامل تھے۔ آپ کی وفات تک وہ اسی عہدے پر فائز رہے، پھر مدینہ آگئے اورفتوحات شام میں حصہ لیا۔ خلیفہ بن خیاط نے حضرت ابوموسیٰ کو زبید، رمع، عدن اور ساحل کانبوی عامل بتایا ہے (تاریخ خلیفہ۹۷)۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل کو یمن روانہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی:آسانیاں پیدا کرنا، دشواریوں میں مبتلانہ کرنا اور خوش خبری دینا، نفرت نہ دلانا۔ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینا۔ دونوں اپنے اپنے علاقے کا دورہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب آتے تو ملاقات اور سلام دعا کرتے۔ ایک ملاقات میں حضرت معاذ نے پوچھا:عبداللہ، آپ قرآن کس طرح پڑھتے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا:میں تھوڑا تھوڑا ہر وقت پڑھتارہتا ہوں ۔ اب حضرت ابوموسیٰ نے سوال کیا: معاذ، تو آپ کیسے تلاوت کرتے ہیں ؟انھوں نے بتایا:میں رات کی ابتدا میں سوجاتا ہوں اور اپنی نیند کا ایک حصہ پورا کر کے اٹھ بیٹھتا ہوں اوراس قدر تلاوت کر لیتا ہوں جو اللہ نے میرے نصیب میں لکھی ہوتی ہے۔ اس طرح میں اپنی نیند اور قیام، دونوں میں ثواب کا امیدوار رہتا ہوں (بخاری، رقم ۴۳۴۱)۔ حضرت ابوموسیٰ نے عرض کیا: یا نبی اللہ، ہمارے علاقے یمن میں جو سے مزرنامی اورشہد سے بتع نامی شرابیں بنائی جاتی ہیں، ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ہر نشہ آورشے حرام ہے (بخاری، رقم ۴۳۴۳۔ مسلم، رقم ۵۲۱۶۔ نسائی، رقم ۵۶۰۷۔ احمد، رقم ۱۹۵۹۸)۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری کا قیام زبید (پرانا نام:الحسیب)کے شہر میں رہا جو اشعریوں کا مسکن اوران کا اپنا وطن تھا، اس لیے انھوں نے اپنے فرائض منصبی کامیابی کے ساتھ سر انجام دیے۔ انھوں نے وہاں مسجد الاشاعرہ تعمیر کرائی۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر یمن میں تھے۔ حجۃ الوداع کے لیے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے توحجون اور مسجد حرام کے مابین واقع وادی بطحا میں آپ سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے دریافت فرمایا: تم نے کس نیت سے احرام باندھا ہے؟جواب دیا:میں نے احرام باندھتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم والی نیت کی تھی۔ پوچھا: کیا تمھارے پاس ہدی (قربانی کا جانور)ہے؟بتایا:نہیں ۔ فرمایا:خوب، بیت اﷲ کا طواف کرو اور سعی بین الصفا والمروہ کر کے احرام کھول دو۔ اس طرح انھوں نے حج کو فسخ کر کے عمرہ بنالیا اور متمتع ہو گئے۔ پھر وہ اپنی قوم بنوقیس کی ایک عورت کے پاس گئے تو اس نے ان کی کنگھی کی اور سر دھویا (بخاری، رقم ۴۳۴۶۔ مسلم، رقم ۲۹۵۷۔ نسائی، رقم ۲۷۴۳۔ احمد، رقم ۱۹۵۰۵)۔
۱۱ھ:حضرت ابو موسیٰ اشعری حج سے فارغ ہو کر یمن واپس آئے، لیکن یہاں اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کر کے شورش پھیلا رکھی تھی۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقررہ عامل حضرت شہر بن باذام کو قتل کر کے صنعا پر قبضہ کر لیا۔ حضرت معاذ بن جبل بھاگ کر حضرت ابوموسیٰ اشعری کے پاس مارب میں چلے گئے، پھر حضرت معاذ نے سکون اور حضرت ابوموسیٰ نے سکاسک میں پناہ لی۔ اس طرح یمن پر اسود کا قبضہ ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمال میں سے صرف حضرت طاہر بن ابوہالہ رہ گئے، جو عک پر متعین تھے۔ اسود عنسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں حضرت فیروزدیلمی نے قتل کیا۔ اس کی سرکوبی کی خبر لے کر قاصد مدینہ پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما چکے تھے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ