HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ‘؟ (۳)

نظائر قرآنی

سورۂ قیامہ کی ان آیات کی تفسیر میں سورۂ طٰہٰ کی آیت ’وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰ٘ي اِلَيْكَ وَحْيُهٗ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا‘ (۲۰: ۱۱۴)سے بھی مفسرین نے مدد لی ہے، بلکہ اس کے برعکس ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت کی روشنی میں سورۂ قیامہ اور سورۂ طٰہٰ کی آیات کو سمجھا گیا ہے، یعنی دونوں کو ایک روایت کی روشنی میں سمجھا گیا ہے۔لہٰذا ضروری ہے کہ اس آیت کو بھی سمجھا جائے۔یہ جس مقام پر آئی ہے، اس کا قریبی (immediate) مضمون چند آیات پر مشتمل ہے:

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا وَّصَرَّفْنَا فِيْهِ مِنَ الْوَعِيْدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ اَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا. فَتَعٰلَي اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّﵐ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰ٘ي اِلَيْكَ وَحْيُهٗﵟ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا. وَلَقَدْ عَهِدْنَا٘ اِلٰ٘ي اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا.(۲۰: ۱۱۳ - ۱۱۵)

وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ‘ كے معنی

اس کےمعنی یہ بتائے گئے ہیں: جب تک آپ پر قرآن بیان نہ کردیا جائے آپ اسے کسی کو نہیں سنائیں گے (ابن عباس اورمجاہد طبری)۔ جب تک آپ پر قرآن مکمل نہ کردیا جائے آپ اسے کسی کو نہیں سنائیں گے (ابن جریج، طبری)۔جب تک اس کا بیان مکمل نہ کردیا جائے آپ اس کی تلاوت نہیں کریں گے (قتادہ، طبری)۔ جب جبریل وحی لاتے ہیں تو وہ سہج کام کرتے ہیں تاکہ آپ کو اچھی طرح سنالیں اور سمجھا لیں، اس کے بعد آپ اسے یاد کیا کریں، آپ جبریل سے قراءت میں منازعت نہ کیا کریں(زمخشری)۔

اوپر کے اقوال سے واضح ہے کہ سورۂ قیامہ کے اثر میں یہاں پر ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ کے مضمون کو مقدر مانا گیا ہے، حالاں کہ یہاں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس لیے ’لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ‘ میں ’الْقُرْاٰنِ‘ کو قرآن مجید کے بجاے قراءت کے معنی میں لے لیا گیا ہے،یعنی آپ قراءت میں جلدی نہ کریں۔اوپر ہم واضح کرچکے ہیں کہ ’عجل به ‘میں صرف دو مفہوم ہیں: ایک یہ کہ وقت سے پہلے کوئی چیز طلب کرنا یا کرگزرنا، دوسرے تیز رفتاری سے کوئی کام کردینا۔ اب قرآن کے مصدری اور اسمی، دونوں اعتبار سے دونوں مفاہیم کو لیں تو یہ تراجم بنیں گے: وقت سے پہلے تلاوت طلب نہ کیجیے، تیزی سے تلاوت مت کیجیے، وقت سے پہلے تلاوت مت کیجیے۔قرآن کو کتاب کے معنی میں لے کرترجمہ کریں تو یوں ہوگا: وقت سے پہلے قرآن کا اترنا طلب نہ کیجیے، تیزی سے قرآن طلب نہ کیجیے،تیزی سے قرآن مجید نہ کریں، وقت سے پہلے قرآن نہ کیجیے۔ان معانی میں سے چار مفاہیم، اگر جملہ سیاق و سباق سے الگ کرلیا جائے تو لسانی اعتبار سے ان کا متحمل ہو سکتا ہے:

۱۔ سرعت سے تلاوت مت کیجیے۔

۲۔وقت سے پہلے تلاوت نہ کیجیے۔

۳۔ وقت سے پہلے قرآن کا اترنا طلب نہ کیجیے۔

۴۔ تیزی سے قرآن طلب نہ کیجیے۔

اب ان معانی کو باقی جملے کے ساتھ رکھیں تو دیکھیے کہ دونوں جملے کس مفہوم کو قبول کرتے ہیں:

۱۔ اس کی وحی مکمل ہونے سے پہلے تیزی سے تلاوت مت کیجیے،۔

۲۔ اس کی وحی مکمل ہونے سے پہلے تلاوت نہ کیجیے۔

۳۔ اس کی وحی مکمل ہونے سے پہلے قرآن کا اترنا طلب نہ کیجیے۔

۴۔ اس کی وحی مکمل ہونے سے پہلے تیزی سے قرآن طلب نہ کیجیے۔

پہلے معنی :’’تیز ی وسرعت سے تلاوت کرنا‘‘ دل کو نہیں لگتے، اس لیے کہ تلاوت میں سرعت سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا ہوگی۔ مثلاً تیز رفتار سے کلام کو دہرانا؟ یاد کرنا تو مسئلہ نہیں تھا تو پھر تیزی سےدہرانا بے مقصد و بے معنی ہے۔اگر رقت یا قرآن کی اثر پذیری سے ایسا ہوتا تھا کہ ادھر وحی نازل ہوئی اور ادھر آپ اسے دہرانے لگتے تو سرعت اس کے لیے بھی کوئی پہلو نہیں رکھتی۔

دوسرے معنی :’’ وقت سے پہلے تلاوت ‘‘بھی دل کو لگتے نہیں ہیں، خواہ تلاوت کرنے کے معنی دوسروں کو سنانے کے لیے جائیں یا خود یاد کرنے کے لیے دہرانے کے۔پہلی بات اس لیے کہ یہ ممکن نہیں کہ وقت سے پہلے تلاوت کر لی جائے، اس لیے کہ قرآن اترے گا تو تلاوت ہوگی۔دوسرے یہ کہ جبریل وحی اتار رہے ہوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سنانے نکل جائیں، اور اگر محض لوگوں کو جلد از جلد سنانے کی تمنا دل میں اٹھتی ہو تو اول تو یہ محمود جذبہ ہے اور ثانیاً یہ کہ اس سے روکنے کے لیے یہ الفاظ مناسب نہیں ہیں۔رہا یاد کرنے کے لیے تلاوت تو یہ ہم سورۂ قیامہ کی آیت میں بات کرچکے ہیں کہ یاد کرنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو احتیاج نہیں تھی۔ یہ معنی بھی کچھ جچتے نہیں کہ آپ ہر آیت کے اترتے ہی بلا توقف تلاوت شروع کردیتے تھے۔

تیسرے معنی: ’’وقت سے پہلے قرآن کے اترنے کی طلب‘‘ نظائر قرآنی اور دعوت قرآن کے مہمات سے تعلق رکھتے محسوس ہوتے ہیں، بلکہ اس کے بعد کا ’وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا‘ والا جملہ بھی اس کی تائید کرتا معلوم ہوتا ہے۔قرآن کے جلد جلد اترنے کی طلب کو علم کی طلب میں سمو دیا گیا ہے۔البتہ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ سورۂ قیامہ میں آپ کو قرآن طلب کرنے سے روک دیا گیا تھا، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اس حکم کی خلاف ورزی کریں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ وہاں قرآن کی طلب سے نہیں روکا گیا تھا، بلکہ عجلت بالقرآن کے لیے زبان کی حرکت سے روکا گیا تھا، یعنی آپ کو روکاگیا تھا کہ آپ قرآن جلد ازجلد پورا نازل کرنے کا مطالبہ نہ کریں۔تو یہاں اس کی کوئی نشان دہی نہیں ہے کہ آپ نے اس کی خلاف ورزی کی ہو۔دوسری بات یہ ہے کہ سورۂ طٰہٰ میں اسلوب کلام تعلیم وتذکیر کا ہے، کسی کیے گئے عمل پر نقد و تنبیہ کا نہیں ہے۔یہ ویسا ہی اسلوب ہے جس میں آپ کو نصیحت کی گئی ہے کہ آپ صبر سے کام لیں گے اور خدا کے فیصلے سے پہلے کوئی اقدام نہیں کریں گے، جب کہ یہ معلوم ہو کہ ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ اللہ کی اجازت کے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ کر جانے لگے ہوں۔ تو گویا سورۂ طٰہٰ میں ’وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ‘ کا حکم سورۂ قیامہ والے حکم کی یاددہانی تھی، جس میں قصۂ آدم سے نصیحت کو مؤثر کیا گیا ہے، جیسے خدا کے فیصلے کے انتظار کے حکم کو قرآن میں باربار دہرایا گیا ہے[16]، اور ایک مقام پر اسے قصۂ یونس سے مؤکد کیا گیا ہے[17]۔ایسا کرنے سے کہیں، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاددہانی پیش نظر ہوتی [18]اور کہیں درحدیث دیگراں قریش کو تنبیہ ہوتی تھی[19]۔

چوتھے معنی:’’ تیزی سے قرآن طلب کرنا‘‘ کہ طلب قرآن کا مطالبہ تیزی سے کیا جائے، گو جملہ تحمل کرتا ہے، لیکن اوپر سورۂ قیامہ میں ٹھیک یہی بات تھی، جس سے آپ کو روک دیا گیا تھا۔اس لیے اس کا امکان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کم ہی ہے کہ منع کرنے کے باوجود زبان کو ہلا ہلا کر قرآن جلد طلب کریں،اس لیے یاددہانی بھی اسی بات کی ہو تی ہےجس کا خدشہ ہو، حرکت زبان ایسی بات بھی نہیں تھی کہ جس کے دوبارہ ظہور کا امکان ہو، جب کہ قرآن کے جلد اترنے کی تمنا کا نہ صرف امکان تھا، بلکہ دعوت وتبلیغ کی قدم بہ قدم ناگزیر ضرورت تھی۔ دوسرے یہ کہ ’وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا‘ والے جملے سے صاف ظاہر ہے کہ طلب قرآن کی عجلت ہی زیر بحث ہے، نہ کہ زبان کو تیز تیز حرکت دے کر طلب قرآن والی صورت زیر بحث ہے۔

مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰ٘ي اِلَيْكَ وَحْيُهٗ‘کے معنی

اس میں اصل سوال اتنا ہے کہ یہ پورے قرآن سے متعلق ہے یا کہ سورۂ طٰہٰ کی آیات جو اتر رہی تھیں، ان سے متعلق ہے؟آئیے، اس سوال کا جواب قدیم مفسرین سے لیتے ہیں۔

آپ قرآن کی تلاوت نہ کیا کریں جب تک جبریل آپ تک وحی پہنچا نہ لیں(جلالین)۔ جب تک آپ پر قرآن بیان نہ کردیا جائے آپ اسے کسی کو نہیں سنائیں گے(ابن عباس اورمجاہد طبری)۔ جب تک آپ پر قرآن مکمل نہ کردیا جائے آپ اسے کسی کو نہیں سنائیں گے(ابن جریج، طبری)۔جب تک اس کا بیان مکمل نہ کردیا جائے آپ اس کی تلاوت نہیں کریں گے(قتادہ، طبری)۔ جب جبریل وحی لاتے ہیں، تو وہ سہج کام کرتے ہیں تاکہ آپ کو اچھی طرح سنالیں اور سمجھا لیں، اس کے بعد آپ اسے یاد کیا کریں، آپ جبریل سے قراءت میں مسابقت نہ کیا کریں(زمخشری)۔

یہ تمام آرا، صاف ظاہر ہے کہ وقتی وحی کے حوالے سے بات کررہی ہیں یا یوں کہیے کہ یہ حکم دیا جارہا ہے کہ جب بھی وحی نازل ہو تو آپ اسے نہ تلاوت کریں گے،نہ کسی اور کو سنائیں گے اور نہ یاد کرنے کے لیے دہرائیں گے جب تک کہ اترنے والی وحی مکمل نہ ہو جائے۔اوپر ہم بات کرچکے ہیں کہ یہ قابل فہم بات نہیں کہ وحی کے مکمل ہونے سے پہلے ہی آپ دوسروں کو سنانے لگیں، یہ فطرت کے خلاف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی شخصیت بات پوری ہونے سے پہلے دوسروں کو سنانے کے لیے اٹھ جائے۔ اسی طرح یاد کرنے کی آپ کو ضرورت نہیں تھی۔لہٰذا یہ تمام تفاسیر قرآن سے نہیں، بلکہ ان روایات سے پھوٹی ہیں جن میں خود سے سوچ لیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور نزول وحی کا معاملہ کیا تھا۔سچ تو یہ ہے کہ ابن عباس سے منسوب ایک تفسیر سے یہ سب تفاسیر پھوٹی ہیں، جس میں نصوص قرآن کا خیال نہیں رکھا گیا۔

اس آیت کا صاف اور سادہ مطلب صرف اتنا ہے کہ قرآن مجید نے اپنی رفتار سے نازل ہونا ہے۔جب اس کی وحی کی تکمیل ہونی ہے، قرآن اسی وقت پورا ہوگا، آپ اس سے پہلے اسے جلدی نہیں پاسکتے۔

عجلت بالقرآن کی ضرورت

اس کی چند وجوہات ذیل میں عرض کی جاتی ہیں:

۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو گراں قدر ذمہ داری سونپی گئی تھی، اس کے لیے ہر نئی صورت حال یا مراحل میں آپ کو ہدایات کی ضرورت ہوتی تھی۔ مثلاً :

o  آپ پر ایک گراں بار ذمہ داری عائد ہونے کو ہے: ’اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيْلًا (المزمل ۷۳: ۵)۔

o  آپ کو پیش آمد دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے آگاہی، اور تسلی: ’وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ وَكَفٰي بِرَبِّكَ هَادِيًا وَّنَصِيْرًا (الفرقان ۲۵: ۳۱)۔

o  آپ کے انذار کی اسکیم الہٰی کا بیان، اور اس کی تکمیل کے مظاہر کی نشان دہی: ’وَاِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ. اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا وَاللّٰهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖﵧ وَهُوَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ  (الرعد ۱۳: ۴۰ - ۴۱)۔

o  آپ کو ہجرت جیسے عملی اقدام کا حکم، اور اس کے بعد نکلنے والےنتائج کی نشان دہی: ’وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا. وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُﵧ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا‘ (بنی اسرائیل۱۷: ۸۰ - ۸۱)

o  مکہ میں گھرے ہوئے مومنین کی مدد کا حکم: ’وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا٘ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّاﵖ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا‘ (النساء۴: ۷۵)۔وغیرہ

۲۔ قرآن کا زیادہ سے زیادہ نزول آپ کی انذار کی ذمہ داری ادا کرنےمیں ایک ناگزیز ضرورت تھی۔یہ معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم تھا کہ قرآن کے ذریعے سے انذار کریں گے[20]۔اس لیے انذار کو آگے بڑھانے کے لیے ہر روز نئی وحی کی ضرورت ہوتی تھی۔

۳۔ جب کوئی ایسا واقعہ وقوع پذیر ہوتا جس سے کوئی غلط فہمی پیدا ہوتی اور اس سے ہونے والی فضا سے مسلمانوں کو نکالنے کے لیے ہدایت الٰہی کی ضرورت ہوتی :

o  مثلاً رومیوں کی شکست اور ایرانیوں کی فتح کے واقعے پر الٰہی توجیہ: ’غُلِبَتِ الرُّوْمُ. فِيْ٘ اَدْنَي الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْۣ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ. فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْۣ بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ. بِنَصْرِ اللّٰهِ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَآءُﵧ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ‘ (الروم ۳۰: ۲-  ۵)۔

o  مثلاً احد پر تبصرہ: ’وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ. اِذْ هَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا وَاللّٰهُ وَلِيُّهُمَاﵧ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ. وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ. اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ اَلَنْ يَّكْفِيَكُمْ اَنْ يُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُنْزَلِيْنَ. بَلٰ٘ي اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَيَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ هٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُسَوِّمِيْنَ‘ (آل عمران۳: ۱۲۱ - ۱۲۵)۔وغیرہ

۴۔ اسی طرح بہت سے سوالات اور اعتراضات فضا میں موجود ہوتے تھے، جن پر اللہ کے رد عمل کی بہت اہمیت ہوتی تھی تاکہ مسلمانوں کو صحیح زاویۂ نگاہ عطا ہو۔

o  مثلاً عذاب کے مطالبہ پر عذاب نازل نہ کیے جانے کی توجیہ: ’وَلَوْ يُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ اِلَيْهِمْ اَجَلُهُمْ فَنَذَرُ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ‘ (یونس ۱۰: ۱۱)۔

o  مثلاً خدا کے قول فیصل کی سبقت کا اصول: ’وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّا٘ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيْمَا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ. وَيَقُوْلُوْنَ لَوْلَا٘ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَقُلْ اِنَّمَا الْغَيْبُ لِلّٰهِ فَانْتَظِرُوْا اِنِّيْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِيْنَ (یونس ۱۰: ۱۹ - ۲۰)۔

o  اللہ کے فیصلہ کردینے کے مطالبہ کا رد، قرآنی دعوت کے لیے بے حسی: ’هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا٘ اَنْ يَّاْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰٓئِكَةُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ وَاِلَي اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ (البقرہ۲: ۲۱۰)۔ وغیرہ

۵۔ بعض مطالبات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زچ کیا جارہا ہوتا تھا، اس میں لوگوں کو روکنے کے لیے خدا کی رہنمائی نازل ہونا ضروری ہوتا تھا۔ مثلاً:

o  فرشتوں کے اترنے کا مطالبہ: ’وَقَالُوْا لَوْلَا٘ اُنْزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُوْنَ (الانعام۶: ۸)۔

o  قرآن کے نجماً نجماً اترنے پر اعتراض کامواجہہ: ’وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَي النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۱۰۶)۔

o  آپ کی دعوت کو مسلسل جھٹلانے پر آپ کی پریشانی کا ازالہ، مثلاً: ’فَقَدْ كَذَّبُوْا فَسَيَاْتِيْهِمْ اَنْۣبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ (الشعراء۲۶: ۶)۔ وغیرہ

۶۔ بہت سے فتنے شر پسند پیدا کردیتے تھے جن کے لیے خدا کی طرف سے مداخلت ضروری ہو جاتی تھی۔

o  مثلاً واقعۂ افک میں اللہ کا فیصلہ: ’اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْﵧ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْﵧ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِيْ تَوَلّٰي كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ. لَوْلَا٘ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَّقَالُوْا هٰذَا٘ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ. لَوْلَا جَآءُوْ عَلَيْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاِذْ لَمْ يَاْتُوْا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓئِكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ. وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِيْ مَا٘ اَفَضْتُمْ فِيْهِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ. اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَهٗ هَيِّنًا وَّهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمٌ. وَلَوْلَا٘ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا يَكُوْنُ لَنَا٘ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ (النور ۲۴: ۱۱ - ۱۶)

o  مثلاً مدینہ میں شرپسندوں نے جب سنسنی پھیلا رکھی تھی: ’لَئِنْ لَّمْ يَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِي الْمَدِيْنَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُوْنَكَ فِيْهَا٘ اِلَّا قَلِيْلًا‘ (الاحزاب۳۳: ۶۰)۔وغیرہ

۷۔ ان ضرورتوں کے علاوہ ایک اعتراض قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر یہ بھی تھا کہ قرآن یک بارگی کیوں نازل نہیں ہو جاتا۔ ظاہر ہے کہ اس اعتراض میں یہ باتیں مقدر  implied تھیں کہ شاید یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موقع بہ موقع راتوں کو جاگ کر تصنیف کرتے یا کوئی اور تصنیف کرکے آپ کو سکھا جاتا ہے۔ یہ اللہ کا کلام نہیں، بلکہ خود تراشیدہ ہے۔کفار کا یہ مطالبہ قرآن مجید میں یوں بیان ہوا ہے: ’وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً كَذٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا‘(الفرقان ۲۵: ۳۲)

یہ وہ چند پہلو ہیں جن سے ہر کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ ہر وقت یہ ضرورت موجود رہتی تھی کہ قرآن مجید فوری طور پر نازل ہو جائے، اس لیے قرآن کی یہ نصیحت کی تکرار یا تاکید بے وجہ نہیں تھی: ’وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰ٘ي اِلَيْكَ وَحْيُهٗ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا‘ کہ قرآن تو اپنے وقت پر اترے گا، لیکن اس کی ضرورت جب محسوس ہو، آپ یہ دعا کیا کریں کہ ’رَبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا‘۔

خلاصہ

قرآن کی جلد جلد آمد کئی پہلوؤں سے مطلوب تھی۔اس لیے آپ نے ایک دفعہ سورۂ قیامہ کی وحی کے نزول کے دوران میں خود بول کرقرآن کے جلد نازل کیے جانے کا مطالبہ کیا کہ مزید قرآن نازل کیا جائے۔آپ کو ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔ آپ کا یہ مطالبہ ایک سچے نبی کا محمود مطالبہ تھا، اس لیے آپ کو روکنے کے بعد قرآن سے متعلق آپ کو آگاہ کیا گیا کہ قرآ ن مجید کے اترنے، جمع ہونے اور قراءت کرنے اور حسب موقع اسے بیان کرنے کا کام صرف اللہ تعالیٰ کا ہے، آپ کو اس ضمن میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ان امور میں آپ کو طلب کی حاجت ہے۔یہ کام ہمارے ہیں اور ہم کر کے رہیں گے۔اس لیے آپ کو ارشاد ہوا کہ آپ قرآن کو جلد از جلد پانے کے مطالبہ میں زبان کو زحمت حرکت نہ دیجیے،ہم قرآن کی جمع و تالیف بھی کریں گے، اسے(نقاط و اعراب کے لحاظ سے ) پڑھ کر بتائیں گے بھی۔جب ہم پڑھا چکیں تو آپ اسی پڑھنے (اعراب و نقاط) کی پیروی کریں گے۔ صرف یہی نہیں مزید یہ بھی جان لیجیے کہ ہم حسب موقع جتنا اور جہاں چاہیے ہوگا، قرآن کو بیان بھی کریں گے۔ یہ سب تردد آپ کے نہیں ہیں۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۱۶۔ مثلاًدیکھیے سورۂ یونس (۱۰) کی یہ آیت: وَاتَّبِعْ مَا يُوْحٰ٘ي اِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتّٰي يَحْكُمَ اللّٰهُ وَهُوَ خَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ (۱۰۹)۔

۱۷۔ مثلاً دیکھیےسورۂ قلم (۶۸) کی یہ آیات: ’فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ اِذْ نَادٰي وَهُوَ مَكْظُوْمٌ. لَوْلَا٘ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآءِ وَهُوَ مَذْمُوْمٌ ‘(۴۸ - ۴۹)۔

۱۸۔ مثلاً دیکھیے سورۂ طور (۵۲) کی یہ آیت: ’وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَقُوْمُ‘(۴۸)۔

۱۹ ۔ مثلاً دیکھیے سورۂ دہر (۷۶) کی یہ آیت: ’فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا‘(۲۴)۔

۲۰ ۔ مثلاً، سورۂ انعام میں ارشاد ہے: ’وَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ‘ (۶: ۱۹)، یا مثلاً: ’اِنَّمَا٘ اُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْيِ‘ (الانبیاء۲۱: ۴۵)وغیرہ۔

B