HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

یہود کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں خبر دینا

ترجمہ و تحقیق:محمد رفیع مفتی/ محسن ممتاز

 

ــــــ ۱  ــــــ

عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ شَيْخٍ، مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ قَالَ:1 هَلْ تَدْرِي مَا كَانَ عَلَامَةُ إِسْلَامِ ثَعْلَبَةَ بْنِ سُعْنَةَ وَأُسَيْدِ بْنِ سُعْنَةَ وَأَسَدِ بْنِ عُبَيْدٍ؟ نَفَرٌ مِنْ بَنِي ذُهْلٍ،۲ لَيْسُوا مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ، وَلَا بَنِي نَضِيرٍ، [كانوا فوق ذلك ]. 3 ...أَتَوْا بَنِي قُرَيْظَةَ كَانُوا مَعَهُمْ فِي جَاهِلِيَّتِهِمْ، ثُمَّ كَانُوا سَادَتَهُمْ فِي الْإِسْلَامِ، قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَإِنَّ رَجُلًا مِنْ يَهُودِ أَهْلِ الشَّامِ يُقَالُ لَهُ: ابْنُ الْهَيَّبَانِ، قَدِمَ عَلَيْنَا قَبْلَ الْإِسْلَامِ بِسَنَوَاتٍ، فَحَلَّ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، وَاللّٰهِ مَا رَأَيْنَا رَجُلًا قَطُّ يُصَلِّي الْخَمْسَ أَفْضَلَ مِنْهُ، فَأَقَامَ عِنْدَنَا، فَكُنَّا إِذَا قَحَطَ الْمَطَرُ قُلْنَا لَهُ: يَا ابْنَ الْهَيَّبَانِ، قُمْ، فَاسْتَسْقِ لَنَا، فَيَقُولُ: لَا، وَاللّٰهِ حَتَّى تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ مُخْرِجِكُمْ صَدَقَةً، فَيَقُولُونَ: كَمْ؟ فَيَقُولُ: صَاعًا تَمْرًا أَوْ مُدًّا۴ مِنْ شَعِيرٍ عَنْ كُلِّ إِنْسَانٍ، قَالَ: فَنُخْرِجُهَا، فَيَخْرُجُ بِنَا إِلَى ظَاهَرِ حَرَّتِنَا، فَيَسْتَسْقِي لَنَا، فَوَاللّٰهِ مَا يَبْرَحُ مِنْ مَجْلِسِهِ، حَتَّى يَمُرَّ السَّحَابُ السَّرَاحُ سَائِلَةً، وَنُسْقَى بِهِ،۵ فَفَعَلَ ذَلِكَ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ وَلَا ثَلَاثًا، ثُمَّ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، فَلَمَّا عَرَفَ أَنَّهُ مَيِّتٌ قَالَ: يَامَعْشَرَ يَهُودَ، مَا تَرَوْنَهُ أَخْرَجَنِي مِنْ أَرْضِ الْخَمْرِ وَالْخَمِيرِ إِلَى أَرْضِ الْجُوعِ وَالْبُؤْسِ؟ قَالَ: قُلْنَا: اَللّٰهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنِّي قَدِمْتُ إِلَى هَذَا الْبَلَدِ لِتَوَكُّفِ خُرُوجِ نَبِيٍّ قَدْ أَظَلَّ زَمَانُهُ، هَذِهِ الْبَلْدَةُ مُهَاجَرُهُ، فَكُنْتُ أَرْجُو أَنْ يُبْعَثَ فَأَتَّبِعَهُ، وَقَدْ أَظَلَّكُمْ زَمَانُهُ، فَلَا يَسْبِقَنَّكُمْ إِلَيْهِ يَا مَعَاشِرَ الْيَهُودِ، أَحَدٌ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ بِسَفْكِ الدِّمَاءِ، وَسَبْيِ الذَّرَارِي وَالنِّسَاءِ مِمَّنْ خَالَفَهُ، فَلَا يَمْنَعْكُمْ ذَلِكَ مِنْهُ، فَلَمَّا بُعِثَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَاصَرَ بَنِي قُرَيْظَةَ قَالَ هَؤُلَاءِ الْفِتْيَةُ، وَكَانُوا شَبَابًا أَحْدَاثًا: يَا بَنِي قُرَيْظَةَ، وَاللّٰهِ، إِنَّهُ لَلنَّبِيُّ الَّذِي عَهِدَ إِلَيْكُمُ ابْنُ الْهَيَّبَانِ، فَقَالُوا: لَيْسَ بِهِ، قَالُوا: بَلَى، وَاللّٰهِ إِنَّهُ لَهُوَ بِصِفَتِهِ، وَنَزَلُوا وَأَسْلَمُوا، فَأَحْرَزُوا دِمَاءَهُمْ، وَأَمْوَالَهُمْ، وَأَهْلِيهِمْ.

_________

 عاصم بن عمر سے روایت ہے ، وہ بنو قریظہ کے ایک سن رسیدہ آدمی سے بیان کرتے ہیں کہ اُس نے مجھ سے پوچھا: کیا تم ثعلبہ بن سعنہ ، اُسید بن سعنہ اور اسد بن عبید کے اسلام لانے کی وجہ جانتے ہو؟یہ نہ بنو قریظہ میں سے تھے اور نہ بنو نضیر میں سے، بلکہ اوپر سے متعلق تھے اور اِن کا نسب بنی ذہل سے تھا۔یہ دور جاہلیت میں بنو قریظہ کے پاس آئے اور اُنھی کے ساتھ رہنے لگے تھے، پھر جب اسلام کا زمانہ آیا تو یہی اُن کے پیش رو ٹھیرے۔

راوی (عاصم) کہتے ہیں : میں نے جواب دیا کہ نہیں، میں اِن باتوں سے واقف نہیں ہوں۔ اِس پر اُس بوڑھے شخص نے بتایا کہ شام کے علاقے کا ایک یہودی، جو ابن الہیَّبان کہلاتا تھا، زمانۂ اسلام سے کچھ سال پہلے ہمارے پاس ( یثرب میں ) آکے ٹھیر اتھا۔ بخدا، پانچ نمازیں اُس سے بہتر پڑھنے والا کوئی آدمی ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۱۔ وہ ہمارے ساتھ ہی رہا۔

(ہمارے ہاں ) جب کبھی بارش رک جایا کرتی تو ہم اُس سے کہتے : اے ابن الہیبان، آپ اُٹھیں اور ہمارے لیے بارش کی دعا کریں۔ وہ کہتا : نہیں، بخدا، بارش کی دعا کے لیے نکلنے سے پہلے کچھ صدقہ لازماً کرو۔ لوگ پوچھتے کہ کتنا صدقہ کریں تو وہ کہتا : ہر آدمی کی طرف سے ایک صاع کھجور یا ایک مد جو ۔ اس بوڑھے آدمی نے بتایا: چنانچہ ہم وہ صدقہ کیا کرتے تھے۔ پھر وہ ہمیں میدان میں لے جاتا اور ہمارے لیے بارش کی دعا کرتا۲۔ خدا کی قسم ، وہ اپنی اُس مجلس سے اٹھا بھی نہ ہوتا کہ جل تھل کرتے بادل امڈ آتے اور ہمیں سیراب کر جاتے۔ اُس نے ایك دو بار نہیں، کئی بار ایسا ہی کیا، حتیٰ کہ اُس کی موت کا وقت آگیا۔

چنانچہ اُسے جب محسوس ہوا کہ وہ قریب المرگ ہے تو اُس نے کہا : یہود کے لوگو ، تمھارا کیا خیال ہے کہ مجھے رزق فراواں کی سر زمین سے اِس افلاس زدہ علاقے کی طرف کیا چیز لائی تھی؟ راوی کہتے ہیں : ہم نے کہا کہ خدا ہی جانتا ہے۔ اُس نے کہا کہ اِس علاقے میں عنقریب ایک نبی ظاہر ہونے والا ہے۔ یہ شہر اُس کی ہجرت گاہ ہو گا۔ میں امید کرتا تھا کہ وہ (میری زندگی ہی میں ) مبعوث ہوا تو میں اُس کی اتباع کروں گا۳۔

اُس کا زمانہ اب تم سے قریب ہی ہے۔ سو یہود کے لوگو ، اُس پر ایمان لانے میں تم پر ہرگز کوئی سبقت نہ کرنے پائے۔ بے شک ، وہ اپنے مخالفین کا خون بہانے اور اُن کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنانے کا حکم لے کر آئے گا۴۔ چنانچہ (دھیان رکھنا) کہیں یہ بات تمھیں اُس پر ایمان لانے سے روک نہ دے۔۵

پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ، اور (ایک موقع پر ) آپ نے بنو قریظہ کا محاصرہ کیا تو اِن نوجوانوں نے کہا  ــــــ  یہ اُس وقت نو عمر لڑکے تھے ــــــ   اے بنو قریظہ، بخدا، یہ وہی نبی ہے جس (پر ایمان لانے) کا اقرار تم سے ابن الہیبان نے لیا تھا۔ اُنھوں نے کہا : نہیں، یہ وہ نہیں ہے، اس پر وہ ( نوجوان چیخ کر) بولے : کیوں نہیں، بخدا، یہ اپنی صفات کے لحاظ سے بالکل وہی ہیں ۔ (جب وہ نہیں مانے تو) یہ نوجوان ( قلعے سے ) نیچے اتر ے اور اسلام لے آئے ، لہٰذا اِنھوں نے اپنے جان و مال اور اپنے اہل خانہ کو بچالیا۔

 _________

۱۔ اِس سے واضح ہے کہ زمانۂ رسالت کے یہودی شب و روز کی پانچ نمازوں سے واقف تھے اور اُن میں سے بعض یہ نمازیں اُسی طرح پڑھتے بھی تھے، جس طرح مسلمان اب صدیوں سے پڑھ رہے ہیں۔

۲۔ یہ بعینہٖ وہی نماز ہے، جسے ہمارے ہاں ’’نماز استسقا‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۳۔ قرآن نے اِسی بنا پر فرمایا ہے کہ قرآن اور قرآن کے لانے والے کو اہل کتاب اُسی طرح پہچانتے تھے، جس طرح کوئی مہجور باپ اپنے بیٹے کو پہچانتا ہے۔

۴۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین پر اُس عذاب کی نوعیت کیا ہو گی، جو اہل کتاب میں سے آپ کے مخالفین پر آپ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد آئے گا؟ یہ اُس کا بیان ہے۔

۵۔ اِس لیے کہ یہی وہ چیز تھی، جو لوگوں کے لیے مزلۂ قدم ہوتی اور وہ جزا و سزا کے اِس خدائی فیصلے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل خیال کر کے اِس کے بارے میں بدگمان ہو سکتے تھے۔


متن کے حواشی

ا۔ اس روایت کا متن دلائل النبوۃ، ابونعیم اصبہانی ، رقم ۴۲ سے لیا گیا ہے۔ اس کے تنہا راوی عاصم بن عمر بن قتادہ ہیں۔ اس کا ایک ہی متابع ہے، جو سیرۃ ابن اسحاق۲/۶۵میں دیکھا جا سکتا ہے۔

۲۔ یہاں ’بَنِي ذُهْلٍ ‘ کے الفاظ راوی کی غلطی ہے، اصل الفاظ ’بَنِي هَدلٍ ‘ ہیں جیسا کہ اسد الغابہ، ابن اثیر ۱ / ۲۸۸ میں اِن تینوں افراد کے قبیلے کے بارے میں واضح ہے۔

۳۔ ثعلبہ بن سعنہ، اسید بن سعنہ اور اسد بن عبید، یہ تینوں افراد بنو ہدل کی ایک جماعت تھے، جو بنوقریظہ اور بنو نضیر کے چچیرے بھائی تھے۔ ملاحظہ ہو: سیرۃ ابن ہشام ۲/۲۳۸۔

۴۔ سیرت ابن اسحاق۲/۶۵میں اس جگہ ’مدًا‘، کے بجاے ’مدین‘ ’’دومد“ کے الفاظ منقول ہیں۔

۵ ۔ سیرت ابن اسحاق۲/۶۵ہی میں اس جگہ ’حَتَّى يَمُرَّ السَّحَابُ السَّرَاحُ سَائِلَةً، وَنُسْقَى بِهِ‘ کے بجاے ’حَتَّى تَمُرَّ الشَّعَابُ‘ ”یہاں تک کہ وادیاں بہ نکلتیں“ کے الفاظ آئے ہیں۔


ــــــ۲  ــــــ

عَنْ سَلَمَةَ بْنِ سَلَامَةَ بْنِ وَقْشٍ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ بَدْرٍ، قَالَ:1 كَانَ لَنَا جَارٌ مِنْ يَهُودَ فِي بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ قَالَ: فَخَرَجَ عَلَيْنَا يَوْمًا مِنْ بَيْتِهِ قَبْلَ مَبْعَثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَسِيرٍ، فَوَقَفَ عَلَى مَجْلِسِ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، قَالَ سَلَمَةُ: وَأَنَا يَوْمَئِذٍ أَحْدَثُ مَنْ فِيهِ سِنًّا، عَلَيَّ بُرْدَةٌ مُضْطَجِعًا فِيهَا بِفِنَاءِ أَهْلِي، فَذَكَرَ الْبَعْثَ، وَالْقِيَامَةَ، وَالْحِسَابَ، وَالْمِيزَانَ، وَالْجَنَّةَ، وَالنَّارَ، فَقَالَ: ذَلِكَ لِقَوْمٍ أَهْلِ شِرْكٍ أَصْحَابِ أَوْثَانٍ۲، لَا يَرَوْنَ أَنَّ بَعْثًا كَائِنٌ بَعْدَ الْمَوْتِ، فَقَالُوا لَهُ: وَيْحَكَ يَا فُلَانُ۳، تَرَى هَذَا كَائِنًا؟ إِنَّ النَّاسَ يُبْعَثُونَ بَعْدَ مَوْتِهِمْ إِلَى دَارٍ فِيهَا جَنَّةٌ وَنَارٌ، يُجْزَوْنَ فِيهَا بِأَعْمَالِهِمْ، قَالَ: نَعَمْ، وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ لَوَدَّ أَنَّ لَهُ بِحَظِّهِ مِنْ تِلْكَ النَّارِ أَعْظَمَ تَنُّورٍ فِي الدُّنْيَا، يُحَمُّونَهُ ثُمَّ يُدْخِلُونَهُ إِيَّاهُ فَيُطْبَقُ بِهِ عَلَيْهِ وَأَنْ يَنْجُوَ مِنْ تِلْكَ النَّارِ غَدًا، قَالُوا لَهُ: وَيْحَكَ وَمَا آيَةُ ذَلِكَ؟ قَالَ: نَبِيٌّ يُبْعَثُ مِنْ نَحْوِ هَذِهِ الْبِلَادِ وَأَشَارَ بِيَدِهِ نَحْوَ مَكَّةَ وَالْيَمَنِ۴، قَالُوا: وَمَتَى تَرَاهُ؟ قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيَّ وَأَنَا مِنْ أَحْدَثِهِمْ سِنًّا، فَقَالَ: إِنْ يَسْتَنْفِدْ هَذَا الْغُلَامُ عُمُرَهُ يُدْرِكْهُ، قَالَ سَلَمَةُ: فَوَاللّٰهِ مَا ذَهَبَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ حَتَّى بَعَثَ اللّٰهُ تَعَالىٰ رَسُولَهُ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ حَيٌّ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، فَآمَنَّا بِهِ وَكَفَرَ بِهِ بَغْيًا وَحَسَدًا، فَقُلْنَا: وَيْلَكَ يَا فُلَانُ، أَلَسْتَ بِالَّذِي قُلْتَ لَنَا فِيهِ مَا قُلْتَ؟ قَالَ: بَلَى. وَلَيْسَ بِهِ.

 _________

سید نا سلمہ بن سلامہ بن وقش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، یہ اصحاب بدر میں سے ہیں، کہتے ہیں کہ بنو عبد الاشہل ( کے محلے ) میں ایک یہودی ہمارا پڑوسی تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے کچھ ہی عرصہ پہلے وہ ایک روز اپنے گھر سے نکلا اور (ہمارے لوگوں)، بنو عبد الاشہل کی مجلس کے پاس رک گیا  ــــــ   سلمہ کہتے ہیں کہ میں اُس مجلس کے لوگوں میں سب سے کم عمر تھا اور اپنے گھر کے صحن میں چادر اوڑھ کر لیٹا ہوا تھا  ــــــ   پھر اُس نے موت کے بعد زندگی ، قیامت،  اعمال کے حساب کتاب، میزان اور جنت و جہنم کا تذکرہ کیا۔ یہ باتیں وہ مشرک اور بت پرست لوگوں سے کہہ رہا تھا، جو موت کے بعد زندگی کے قائل نہیں تھے ۔ اُنھوں نے یہ باتیں سنیں تو اُس سے کہا: اے فلاں، تیر ابھلا ہو، کیا تو سمجھتا ہے کہ یہ سب ہو گا کہ لوگ موت کے بعد ایک ایسی دنیا میں اٹھائے جائیں گے، جس میں جنت ہو گی، جہنم ہو گی اور وہاں وہ اپنے اعمال کا بدلہ پائیں گے؟ اُس نے کہا: ہاں، اُس ذات کی قسم، جس کی قسم کھائی جاتی ہے، میں تو پسند کرتا ہوں کہ (آخرت کی ) اُس آگ میں سے مجھے ملنے والے حصے کے بجاے ، اِس دنیا ہی میں میرے لیے ایک بڑا تنور د ہکا یا جائے، پھر مجھے اُس میں ڈال کر اوپر سے بند کر دیا جائے اور میں کل جہنم کی اُس آگ سے نجات پا جاؤں۔ لوگوں نے پوچھا: تیر ابھلا ہو ، ( یہ بتاؤ کہ ) اُس کی علامت کیا ہو گی؟ اُس نے بتایا (کہ اُس کی علامت ) ایک نبی ہے جو اِن علاقوں سے مبعوث ہو گاا، اور اپنے ہاتھ سے مکہ اور یمن کی طرف اشارہ کیا۔ لوگوں نے پوچھا: اُس کی بعثت کب ہو گی ؟ سلمہ بن سلامہ کہتے ہیں : اُس نے (مجمعے میں) مجھے دیکھا، میں اُن میں سب سے چھوٹا تھا، اور کہنے لگا: اگر اِس لڑکے نے اپنی پوری عمر گزاری تو یہ اُس کو دیکھ لے گا۲۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ پھر جلد ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کر دیا، اور وہ یہودی بھی اُس وقت زندہ تھا۔ ہم تو اُن پر ایمان لے آئے ، لیکن اُس نے اپنی سرکشی اور حسد کی وجہ سے آپ کا انکار کر دیا۔ اِس پر ہم نے اُس سے پوچھا: تیرا ناس ہو، کیا اِن کے حوالے سے خود تمھی نے ہم سے نہیں کہا تھا؟ اُس نے کہا: کیوں نہیں، (میں نے کہا تھا جو کہا تھا)، لیکن یہ (شخص) وہ (نبی) نہیں ہے۔

 _________

۱۔ مطلب یہ ہے کہ ایک پیغمبر آکر اِس کی منادی کرے گا۔ یہ آخری منادی ہو گی۔ اِس کے بعد قیامت ہی کا انتظار کیا جائے گا۔ اُس کے اور قیامت کے درمیان پھر کوئی دوسری نبوت نہیں ہے۔

۲۔ اِس سے واضح ہے کہ اُس زمانے میں یہود کے علما جانتے تھے کہ آخری پیغمبر کی بعثت اب زیادہ دور نہیں ہے۔


متن کے حواشی

ا۔ اس روایت کا متن مسند احمد ، رقم ۱۵۸۴۱ سے لیا گیا ہے ، اس کے تنہا راوی بدری صحابی سلمہ بن سلامہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ اِس کے متابعات درج ذیل کتب میں منقول ہیں :

سیرۃ ابن ہشام ۱/۲۱۲۔ تاریخ کبیر، بخاری، رقم ۱۳۵۔ مستدرک حاکم ، رقم ۵۷۶۴۔ دلائل النبوۃ، بیہقی، رقم  ۴۱۳۔

۲۔ مستدرک حاکم، رقم ۵۷۶۴ میں ’فَقَالَ: ذَلِكَ لِقَوْمٍ أَهْلِ شِرْكٍ أَصْحَابِ أَوْثَانٍ‘ کے بجاے ’فَقَالَ ذَلِكَ فِي أَهْلِ يَثْرِبَ، وَالْقَوْمُ أَصْحَابُ أَوْثَانِ‘ ”اس نے یہ باتیں اہل یثرب کے بارے میں کی تھیں ، جب کہ یہ لوگ بت پرست تھے۔“ کے الفاظ آئے ہیں۔

۳۔ دلائل النبوۃ، بیہقی ، رقم ۴۱۳ میں ’ وَيْحَكَ يَا فُلَانُ‘ کے بجاے ’وَيْلَكَ يَا فُلَانُ‘ ” اے فلاں تو ہلاک ہو“ کے الفاظ منقول ہیں۔

۴۔  مستدرک حاکم ، رقم ۵۷۶۴ میں ’وَ أَشَارَ بِيَدِهِ نَحْوَ مَكَّةَ وَالْيَمَنِ‘ کے بجاے ’وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى مَكَّةَ‘ ” اور اپنے ہاتھ سے مکہ کی جانب اشارہ کیا“ کے الفاظ ہیں۔


ــــــ۳  ــــــ

عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَشْيَاخٍ مِنْهُمْ قَالُوا: 1 فِينَا وَاللّٰهِ وَفِيهِمْ، يَعْنِي فِي الْأَنْصَارِ وَفِي الْيَهُودِ الَّذِينَ كَانُوا جِيرَانَهُمْ، نَزَلَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ، يَعْنِي ﴿وَلَمَّا جَآءَهُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْﶈ وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا﴾۲، قَالُوا: كُنَّا قَدْ عَلَوْنَاهُمْ دَهْرًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَنَحْنُ أَهْلُ الشِّرْكِ، وَهُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ، ‌فَكَانُوا ‌يَقُولُونَ: ‌إِنَّ ‌نَبِيًّا ‌الْآنَ ‌مَبْعَثُهُ ‌قَدْ ‌أَظَلَّ ‌زَمَانُهُ، ‌يَقْتُلُكُمْ ‌قَتْلَ ‌عَادٍ ‌وَإِرَمَ. فَلَمَّا بَعَثَ اللّٰهُ تَعَالىٰ ذِكْرُهُ رَسُولَهُ مِنْ قُرَيْشٍ وَاتَّبَعْنَاهُ كَفَرُوا بِهِ. يَقُولُ اللّٰهُ: ﴿فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ﴾...۳.

 _________

عاصم بن عمر بن قتادہ انصاری اپنے قبیلے کے بزرگ صحابہ سے روایت کرتے ہیں ، وہ بتاتے تھے : بخدا، یہ آیت ہم انصار کے لوگوں اور ہمارے اِن یہودی پڑوسیوں ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ ’وَلَمَّا جَآءَهُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا‘، ’’اور جب اللہ کی طرف سے ایک کتاب اِن کے پاس آئی، اُن پیشین گوئیوں کی تصدیق میں جو اِن کے ہاں موجود ہیں، اور اِس سے پہلے یہ (اُسی کے حوالے سے) اپنے دین کا انکار کرنے والوں کے خلاف فتح کی دعائیں مانگ رہے تھے“۔

انصار کے بزرگ بتاتے تھے کہ ہم زمانۂ جاہلیت میں ان پر غالب ہوا کرتے تھے ، گو (اُس وقت) ہم مشرک تھے اور یہ اہل کتاب، (اپنی اِس مغلوبی کو دیکھ کر) اُس وقت ہم سے کہا کرتے تھے: اب ایک نبی کو مبعوث ہونا ہے ، بس اُس کا دور آنے ہی والا ہے۔ وہ تم (مشرکوں) کو عاد اور ارم کی طرح قتل کرے گا۱۔ پھر جب اللہ نے  ــــــ   اُس کا ذکر بلند ہو   ــــــ   اپنے رسول کو قریش میں سے مبعوث کیا تو ہم نے اُن کی پیروی کی، لیکن اِنھوں نے آپ کا انکار کر دیا۔ اللہ تعالیٰ (اِسی حوالے سے) فرماتا ہے: ’’پھر جب وہ چیز اِن کے پاس آئی، جسے خوب پہچانے ہوئے تھے تو یہ اُس کے منکر ہوگئے‘‘...۔

 _________

ا۔ اِس سے واضح ہے کہ قرآن نے پیغمبروں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد جزا و سزا کے جو واقعات بیان کیے ہیں، اُس زمانے کے یہود بھی اُن سے خوب واقف تھے اور مشرکین بھی۔


متن کے حواشی

ا۔ اس روایت کا متن تفسیر طبری ، رقم ۱۵۱۹ سے لیا گیا ہے ، اس کے تنہار اوی عاصم بن عمر بن قتادہ ہیں۔ اِس کا ایک ہی متابع ہے، جو دلائل النبوۃ، رقم ۴۰۹ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

۲۔ البقرہ ۲: ۸۹۔

۳۔ البقرہ ۲: ۸۹۔


ــــــ۴  ــــــ

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ: 1 حَارَبَتِ النَّضِيرُ وَقُرَيْظَةُ، فَأَجْلَى بَنِي النَّضِيرِ، وَأَقَرَّ قُرَيْظَةَ وَمَنَّ عَلَيْهِمْ، حَتَّى حَارَبَتْ قُرَيْظَةُ، فَقَتَلَ رِجَالَهُمْ، وَقَسَمَ نِسَاءَهُمْ وَأَوْلَادَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بَيْنَ المُسْلِمِينَ إِلَّا بَعْضَهُمْ لَحِقُوا بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَآمَنَهُمْ وَأَسْلَمُوا، وَأَجْلَى يَهُودَ المَدِينَةِ كُلَّهُمْ: بَنِي قَيْنُقَاعٍ، وَهُمْ رَهْطُ عَبْدِ اللّٰه بْنِ سَلَامٍ، وَيَهُودَ بَنِي حَارِثَةَ، وَكُلَّ يَهُودِ المَدِينَةِ.

 _________

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، وہ بیان کرتے ہیں : (ایک موقع پر ) بنو نضیر اور بنو قریظہ نے (نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے معاہدہ کے باوجود) جنگ کی تو آپ نے بنو نضیر کو جلا وطن کر دیا اور بنو قریظہ پر احسان کرتے ہوئے ، اُنھیں مدینے ہی میں رہنے دیا۔ حتیٰ کہ بنو قریظہ نے پھر جنگ کر ڈالی تو آپ نے اُن کے مردوں کو قتل کر دیا اور اُن کی عورتوں، بچوں اور اُن کے اموال کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔ بنو قریظہ کے بعض افراد، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے تو آپ نے اُنھیں پناہ دی اور اُنھوں نے اسلام قبول کر لیا۱۔ تاہم مدینہ کے تمام یہودیوں: عبد اللہ بن سلام کے قبیلے بنوقینقاع، بنو حارثہ کے یہود ، غرض مدینہ کے سبھی یہودیوں کو آپ نے بالآخر جلا وطن کر دیا۔

 _________

۱۔ یعنی اُسی شہادت کی بنا پر اسلام قبول کر لیا، جس کا ذکر پیچھے روایتوں میں ہوا ہے۔


متن کے حواشی

ا۔ اس روایت کا متن صحیح بخاری، رقم ۴۰۲۸ سے لیا گیا ہے۔ اس کے تنہا راوی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ اس کے متابعات درج ذیل کتب میں دیکھے جا سکتے ہیں:

مصنف عبدالرزاق ، رقم ۹۹۸۸۔ مسند احمد، رقم ۶۳۶۷۔صحیح مسلم ، رقم ۱۷۶۶ ۔ سنن ابی داؤد، رقم ۳۰۰۵۔ مسند بزار، رقم ۵۹۲۳ ۔ المنتقی، ابن جارود، رقم ۱۱۰۰۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم ۶۷۰۲، ۶۷۰۴۔ الاوسط، ابن منذر ، رقم ۶۶۹۳ ۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۲۸۵۳، ۱۸۰۲۱۔دلائل النبوة، بیہقی۳/ ۱۸۳۔


المصادر والمراجع

ابن أبي حاتم عبد الرحمٰن الرازي. (1427هـ/2006م). العلل. ط1. تحقيق: فريق من الباحثين بإشراف وعناية د/سعد بن عبد الله الحميد و د/ خالد بن عبد الرحمٰن الجريسي. الرياض: مطابع الحميضي.

ابن أبي حاتم عبد الرحمٰن الحنظلي. (1271هـ/1952م). الجرح والتعديل. ط1. حيدر آباد الدكن. الهند: طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية. بيروت: دار إحياء التراث العربي.

ابن أبي عاصم أحمد بن عمرو الشيباني. (۱٤۱۱هـ/۱۹۹۱م). الآحاد والمثاني. ط۱. تحقيق: د.باسم فيصل أحمد الجوابرة. الرياض: دار الراية.

ابن الجارود،أبو محمد عبد الله النيسابوري. (۱٤۰۸ه/۱۹۸۸م). المنتقى من السنن المسندة. ط۱. تحقيق:عبد الله عمر البارودي. بيروت:مؤسسة الكتاب الثقافية.

ابن حبان محمد بن حبان. (1420هـ/2000م). المجروحين من المحدثين. ط1. تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفى. دار السميعي.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1406هـ/1986م). لسان الميزان. ط3. تحقيق: دائرة المعرف النظامية الهند. بيروت: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1417هـ/1997م). تحرير تقريب التهذيب. ط1. تاليف: الدكتور بشار عواد معروف، الشيخ شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزيع.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1403هـ/1983م). طبقات المدلسين. ط1. تحقيق: د. عاصم بن عبدالله القريوتي. عمان: مكتبة المنار.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1404هـ/1984م). النكت على كتاب ابن الصلاح. ط1. تحقيق: ربيع بن هادي المدخلي. المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية.

ابن رجب عبد الرحمٰن السَلامي. (1407هـ/1987م). شرح علل الترمذي. ط1. تحقيق: الدكتور همام عبد الرحيم سعيد. الأردن: مكتبة المنار (الزرقاء).

ابن عدي عبد الله بن عدي الجرجاني. (1418هـ/1997م). الكامل في ضعفاء الرجال. ط1. تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود، علي محمد معوض. بيروت: الكتب العلمية.

ابن الکيال ابو البركات محمد بن احمد. (1420هـ/1999م). الکواکب النيرات. ط2. تحقيق: عبد القيوم عبد رب النبي. مكة مكرمة: المكتبة الإمدادية.

ابن المِبرَد يوسف بن حسن الحنبلي. (1413هـ/1992م). بحر الدم فيمن تكلم فيه الإمام أحمد بمدح أو ذم. ط1. تحقيق وتعليق: الدكتورة روحية عبد الرحمٰن السويفي. لبنان، بيروت: دار الكتب العلمية.

ابن المديني علي بن عبد الله السعدي. (1980م). العلل. ط2. تحقيق: محمد مصطفى الأعظمي. بيروت: المكتب الإسلامي.

ابن معين يحيى بن معين البغدادي. (1399هـ/1979م). تاريخ ابن معين. ط1. تحقيق: د. أحمد محمد نور سيف. مكة المكرمة: مركز البحث العلمي وإحياء التراث الإسلامي.

ابن المندر، ابو بكر محمد بن ابراهيم. (1431هـ/2010م). الأوسط من السنن والإجماع والاختلاف. ط2. مراجعة و تعليق: احمد بن سلیمان. تحقيق: یاسر بن كمال. الناشر: دار الفلاح. مصر.

ابن هشام عبد الملك بن هشام. (1375هـ/1955م) السيرة النبوية. ط2. تحقيق: مصطفى السقا وإبراهيم الأبياري وعبد الحفيظ الشلبي. شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي.

أبو اسحاق الحويني. (1433هـ/2012م). نثل النبال بمعجم الرجال. ط1. جمعه ورتبه: أبو عمرو أحمد بن عطية الوكيل. مصر: دار ابن عباس.

أبو داود سليمان بن الأشعث السَّجِسْتاني. (1403هـ/1983م). سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل. ط1. تحقيق: محمد علي قاسم العمري. المدينة المنورة: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية.

أبو عوانة يعقوب بن إسحٰق. (۱٤۱۹هـ/۱۹۹۸م). المستخرج. ط۱. تحقيق: أيمن بن عارف الدمشقي. بيروت: دار المعرفة.

الآجُرِّيُّ محمد بن الحسين. (۱٤۲۰هـ/۱۹۹۹م). الشريعة. ط۲. تحقيق: الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي. الرياض: دار الوطن.

أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (۱٤۲۱هـ/۲۰۰۱م). المسند. ط۱. تحقيق: شعيب الأرنؤوط، وعادل مرشد، وآخرون. بيروت: مؤسسة الرسالة.

أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (1422هـ/2001م). العلل و معرفة الرجال. ط2. تحقيق و تخريج: د وصي الله بن محمد عباس. الرياض: دار الخاني فرقد فريد الخاني.

البخاري محمد بن إسمٰعيل الجعفي. (2009م). التاريخ الكبير. تحقيق: السيد هاشم الندوي. بيروت: دار الفكر.

البخاري محمد بن إسمٰعيل الجعفي. (1397هـ/1977م). التاريخ الأوسط. ط1. حلب. القاهرة: دار الوعي مكتبة دار التراث.

البخاري محمد بن إسمٰعيل.(۱٤۲۲هـ). الجامع الصحيح. ط۱. تحقيق: زهير الناصر. بيروت: دار طوق النجاة.

البزار أحمد بن عمرو. (۲۰۰۹م). مسند البزار. ط۱. تحقيق: محفوظ الرحمٰن زين الله، وعادل بن سعد، وصبري عبد الخالق الشافعي. المدينة المنورة: مکتبة العلوم والحکم.

البیهقي أحمد بن الحسین. (1414هـ/1994م).

السنن الکبری. ط۱. تحقیق: محمد عبد القادر عطاء. مکة المکرمة: مکتبة دار الباز.

البيهقي أحمد بن الحسين. (۱٤۰5هـ). دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة. ط۱. بيروت: دار الكتب العلمية.

الحاكم محمد بن عبد الله المعروف بابن البيع. (۱٤۱۱ هـ/۱۹۹۰م). المستدرك على الصحيحين. ط۱. تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا. بيروت: دار الكتب العلمية.

خالد الرباط سيد عزت عيد. (1430هـ/2009م). الجامع لعلوم الإمام أحمد (الأدب والزهد). ط1. مصر: دار الفلاح للبحث العلمي وتحقيق التراث.

الدارقطني علي بن عمر. (1405هـ/1985م). العلل الواردة في الأحاديث النبوية. ط1. تحقيق وتخريج: محفوظ الرحمٰن زين الله السلفي. الرياض: دار طيبة.

الذهبي محمد بن أحمد. (1413هـ/1992م). الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة. ط1. تعليق: امام برهان الدين أبي الوفاء إبراهيم بن محمد. جدة: دار القبلة للثقافة الاسلامية، مؤسسة علوم القرآن.

الذهبي محمد بن أحمد. (1387هـ/1967م). ديوان الضعفاء والمتروكين. ط2. تحقيق: حماد بن محمد الأنصاري. مكة: مكتبة النهضة الحديثة.

سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1988م). الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط. ط1. تحقيق: علاء الدين علي رضا. القاهرة: دار الحديث.

سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1986م). التبيين لأسماء المدلسين. ط1. تحقيق: يحيى شفيق حسن. بيروت: دار الكتب العلمية.

سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1407هـ/1987م). الكشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث. ط1. المحقق: صبحي السامرائي. بيروت: عالم الكتب، مكتبة النهضة العربية.

الطبري محمد بن جرير. (1420هـ/2000م). جامع البيان في تأويل القرآن. ط1. تحقيق: احمد محمد شاكر. بیروت: مؤسسة الرسالة.

الطبراني سليمان بن أحمد. (1415هـ/1994م). المعجم الكبير. ط1. تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفي. القاهرة: مكتبة ابن تيمية.

عبد الرزاق بن همام الحميري. (1403هـ). المصنف. ط2. تحقيق: حبيب الرحمٰن الأعظمي. الهند: المجلس العلمي.

العجلي أحمد بن عبد الله. (1405هـ/1985م). معرفة الثقات. ط1. تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي. المدينة المنورة: مكتبة الدار.

محمد بن إسحاق المدنی. (1398هـ/1978م). سيرة ابن إسحاق (كتاب السير والمغازي). ط1. تحقيق: سهيل زكار. بيروت: دار الفكر.

مسلم بن الحجاج النيسابوري. (د.ت). الجامع الصحيح. د.ط. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار إحياء التراث العربي.

مغلطاي علاء الدين بن قليج. (1422هـ/2001م). إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال. ط1. تحقيق: أبو عبد الرحمٰن عادل بن محمد، أبو محمد أسامة بن إبراهيم. القاهرة: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر.

ـــــــــــــــــــــــــ

B