بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
وَاذْكُرْ عَبْدَنَا٘ اَيُّوْبَ اِذْ نَادٰي رَبَّهٗ٘ اَنِّيْ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ ٤١ اُرْكُضْ بِرِجْلِكَﵐ هٰذَا مُغْتَسَلٌۣ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ ٤٢ وَوَهَبْنَا لَهٗ٘ اَهْلَهٗ وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَذِكْرٰي لِاُولِي الْاَلْبَابِ ٤٣ وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَلَا تَحْنَثْ اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّهٗ٘ اَوَّابٌ٤٤
اور ہمارے بندے ایوب[159] کو یاد کرو، جب اُس نے اپنے رب سے فریاد کی[160] کہ شیطان نے مجھے سخت دکھ اور آزار میں مبتلا کر رکھا ہے۔[161] ہم نے ہدایت کی کہ اپنا پاؤں زمین پر مارو۔[162] (اُس نے مارا تو ایک چشمہ نکل آیا۔[163] فرمایا): یہ تمھارے نہانے اور پینے کے لیے ٹھنڈا پانی ہے۔ (اِس سے شفا ہوجائے گی۔ پھر) اُس کے اہل و عیال بھی ہم نے اُسے دوبارہ عطا فرمائے اور اُن کے ساتھ اتنے ہی اور بھی،[164] اِس لیے کہ اُس پر اپنی طرف سے رحمت فرمائیں اور اِس لیے کہ عقل والوں کو یاددہانی ہو۔[165] اور فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں سینکوں کا ایک مٹھا لو اور اُس سے اپنے آپ کو مارو اور (اپنے کو سزا دینے کی جو قسم تم نے کھالی تھی،[166] اُس میں) حانث[167] نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اُسے (ہر حال میں) صابرپایا۔ کیا ہی خوب بندہ تھا! کچھ شک نہیں کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا۔[168]۴۱- ۴۴
وَاذْكُرْ عِبٰدَنَا٘ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ اُولِي الْاَيْدِيْ وَالْاَبْصَارِ ٤٥ اِنَّا٘ اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَي الدَّارِ ٤٦ وَاِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْاَخْيَارِ ٤٧
اور ہمارے بندوں، ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب کو یاد کرو، قوت[169] اور بصیرت والے۔ ہم نے اُن کو ایک خاص کام ـــــ اُس گھر[170] کی یاددہانی ـــــ کے لیے منتخب کیا تھا اور یقیناً وہ ہمارے ہاں برگزیدہ اور نیک بندوں میں سے تھے۔ ۴۵- ۴۷
وَاذْكُرْ اِسْمٰعِيْلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ وَكُلٌّ مِّنَ الْاَخْيَارِ ٤٨
اور اسمٰعیل اور یسع[171] اور ذوالکفل [172] کو یاد کرو۔ یہ سب بھی اخیار میں سے تھے۔۴۸
هٰذَا ذِكْرٌ وَاِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍ ٤٩ جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَةً لَّهُمُالْاَبْوَابُ ٥٠ مُتَّكِـِٕيْنَ فِيْهَا يَدْعُوْنَ فِيْهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِيْرَةٍ وَّشَرَابٍ ٥١ وَعِنْدَهُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ اَتْرَابٌ ٥٢ هٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِيَوْمِ الْحِسَابِ ٥٣ اِنَّ هٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهٗ مِنْ نَّفَادٍ ٥٤
یہ یاددہانی ہے۔ (اِس سے یاددہانی حاصل کرو) اور (یاد رکھو کہ) اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے یقیناً بہترین ٹھکانا ہے، ہمیشہ کے باغ جن کے دروازے اُن کے لیے کھلے ہوئے ہوں گے۔[173] وہ اُن میں تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ اُن میں بہت سے میوے اور مشروبات (اپنے خدام سے) طلب کر رہے ہوں گے۔ اُن کے پاس شرمیلی ہم سن، عورتیں ہوں گی ــــ یہ وہ چیز ہے جس کا حساب کے دن کے لیے تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ بے شک، یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ ۴۹- ۵۴
هٰذَا وَاِنَّ لِلطّٰغِيْنَ لَشَرَّ مَاٰبٍ ٥٥ جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ الْمِهَادُ ٥٦ هٰذَا فَلْيَذُوْقُوْهُ حَمِيْمٌ وَّغَسَّاقٌ ٥٧ وَّاٰخَرُ مِنْ شَكْلِهٖ٘ اَزْوَاجٌ ٥٨
ایک طرف یہ اور دوسری طرف سرکشوں کے لیے یقیناً بدترین ٹھکانا ہے، جہنم جس میں وہ جاپڑیں گے۔ سو کیا ہی برا مقام ہے! یہ کھولتا ہوا پانی اور پیپ، اب وہ اِس کو چکھیں اور اِسی قسم کی دوسری چیزیں بھی (اُن کے لیے موجود) ہوں گی۔ ۵۵- ۵۸
هٰذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَكُمْ لَا مَرْحَبًاۣ بِهِمْ اِنَّهُمْ صَالُوا النَّارِ ٥٩ قَالُوْا بَلْ اَنْتُمْ لَا مَرْحَبًاۣ بِكُمْ اَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوْهُ لَنَاﵐ فَبِئْسَ الْقَرَارُ ٦٠ قَالُوْا رَبَّنَا مَنْ قَدَّمَ لَنَا هٰذَا فَزِدْهُ عَذَابًا ضِعْفًا فِي النَّارِ ٦١
(اُنھیں بتایا جائے گا: یہ تمھارے پیرووں کی بھیڑ چلی آ رہی ہے)۔ یہ بھیڑ بھی تمھارے ساتھ ہی داخل ہونے والی ہے۔ فوراً کہیں گے: اِن پر خدا کی مار! یہ تو آگ میں پڑنے والے ہیں۔ پیروجواب دیں گے: بلکہ تم، تم پر خدا کی مار!یہ (جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں)تمھی ہمارے آگے لائے ہو۔[174] سو کیا ہی برا ٹھکانا ہو گا! (اُس وقت) کہیں گے: اے ہمارے رب، یہ جو اِس کو ہمارے آگے لائے ہیں، اِن کو تو اِس (بھڑکتی)آگ میں دونا عذاب دے۔۵۹- ۶۱
وَقَالُوْا مَا لَنَا لَا نَرٰي رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِ ٦٢ اَتَّخَذْنٰهُمْ سِخْرِيًّا اَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْاَبْصَارُ ٦٣ اِنَّ ذٰلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ اَهْلِ النَّارِ ٦٤
(اِس کے بعد ایک دوسرے سے) پوچھیں گے: کیا بات ہے، ہم اُن لوگوں کو یہاں نہیں دیکھ رہے ہیں جن کو ہم بروں میں گنا کرتے تھے؟[175] کیا (اِس لیے کہ) ہم نے یونہی (محض شرارت سے) اُ ن کو مذاق بنا لیا تھا یا (وہ بھی یہاں موجود ہیں اور) اُن سے ہماری نگاہیں چوک رہی ہیں؟ کچھ شک نہیں، اہل دوزخ کی یہ توتکار ایک واقعی بات ہے جو ہو کر رہنی ہے۔ ۶۲- ۶۴
قُلْ اِنَّمَا٘ اَنَا مُنْذِرٌ وَّمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ٦٥ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الْعَزِيْزُ الْغَفَّارُ ٦٦ قُلْ هُوَ نَبَؤٌا عَظِيْمٌ ٦٧ اَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُوْنَ ٦٨
اِن سے کہو،(اے پیغمبر) کہ میں تو صرف ایک خبردار کرنے والا ہوں۔ (اپنے معبودوں کے بل پر تم میرے انذار سے بے پروا ہورہے ہو تو سن لو کہ)اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، یکتا اور سب پر غالب۔ وہی زمین اور آسمانوں اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے، سب کا پروردگار ہے، زبردست اور بخشنے والا۔ کہو کہ جس سے میں خبردار کر رہا ہوں، وہ ایک بڑی خبر [176] ہے اور تم اُس سے اعراض کیے ہوئے ہو۔ ۶۵- ۶۸
مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍۣ بِالْمَلَاِ الْاَعْلٰ٘ي اِذْ يَخْتَصِمُوْنَ ٦٩ اِنْ يُّوْحٰ٘ي اِلَيَّ اِلَّا٘ اَنَّمَا٘ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ ٧٠
مجھے عالم بالا کی کچھ خبر نہ تھی، جب دوزخ کے لوگ وہاں جھگڑ رہے ہوں گے۔[177] (یہ وحی کی باتیں ہیں اور) مجھے یہ وحی صرف اِس لیے کی جاتی ہے کہ میں(خدا کی طرف سے) ایک کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔ ۶۹- ۷۰
اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّيْ خَالِقٌۣ بَشَرًا مِّنْ طِيْنٍ ٧١ فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ ٧٢ فَسَجَدَ الْمَلٰٓئِكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ ٧٣ اِلَّا٘ اِبْلِيْسَ اِسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ ٧٤ قَالَ يٰ٘اِبْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِيْنَ ٧٥ قَالَ اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ ٧٦ قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِيْمٌ ٧٧ وَّاِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِيْ٘ اِلٰي يَوْمِ الدِّيْنِ ٧٨ قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِيْ٘ اِلٰي يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ ٧٩ قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ ٨٠ اِلٰي يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ ٨١ قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ ٨٢ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ ٨٣ قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ ٨٤ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ اَجْمَعِيْنَ ٨٥
(اِن کے انکار کی وجہ بھی وہی ہے ، اے پیغمبر ، جو ابلیس کی تھی)۔ اِنھیں وہ قصہ سناؤ، جب تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے ایک انسان بنانے والا ہوں۔ پھر جب میں اُس کو درست کر لوں اور اُس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اُس کے آگے سجدے میں گر جانا۔ چنانچہ فرشتے ، سب کے سب اکٹھے سجدے میں گر گئے، مگر ابلیس نہیں گرا۔ اُس نے گھمنڈ کیا اور منکروں میں سے ہو گیا۔ پروردگار نے فرمایا:اے ابلیس، تجھے کیا چیز اُس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے؟[178] یہ تونے تکبر کیا یا (اپنے زعم میں) تو کوئی برتر ہستی ہے؟اُس نے جواب دیا: میں اِس سے کہیں بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اِس کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔[179] فرمایا: اچھا تو یہاں سے[180] نکل جا،اِس لیے کہ تو راندۂ درگاہ ہے اور تجھ پر اب جزا کے دن تک میری لعنت ہے۔ اُس نے کہا: پروردگار، پھر مجھے اُس دن تک مہلت دے، جب لوگ اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا: جا، تجھے اُس دن تک کی مہلت ہے جس کا وقت معین ہے۔ اُس نے کہا: پھر مجھے بھی تیری عزت کی قسم، میں اِن سب کو گم راہ کرکے رہوں گا،[181]تیرے اُن بندوں کے سوا جنھیں تو نے اُن میں سے خاص کر لیا ہو۔ فرمایا: تو حق یہ ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں کہ میں تجھ سے اور اُن سب لوگوں سے جہنم کو بھر دوں گا جو اُن میں سے تیری پیروی کریں گے۔[182]۷۱- ۸۵
قُلْ مَا٘ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَا٘ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ ٨٦ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ ٨٧ وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاَهٗ بَعْدَ حِيْنٍ ٨٨
اِن سے کہہ دو، (اے پیغمبر) کہ میں (یہ قرآن سنا رہا ہوں تو)اِس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں اپنے کو بنا کر پیش کرنے والوں میں سے ہوں۔ یہ تو صرف ایک یاددہانی ہے، دنیا والوں کے لیے، اور یقین رکھو کہ جو خبر یہ دے رہا ہے، اُس کی حقیقت تم کو تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہو جائے گی۔ ۸۶- ۸۸
[159]۔ داؤد و سلیمان علیہما السلام کی طرح یہ بھی اسرائیلی پیغمبر تھے جو غالباً نویں صدی قبل مسیح میں کسی وقت ہوئے۔
[160]۔ اِس فریاد کا ایک پس منظر ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’... سفر ایوب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ایوب کو بڑی دولت و حشمت حاصل تھی، لیکن اِس کے باوجود وہ نہایت خدا ترس اور عبادت گزار بندے تھے۔ اُن کی اِس حالت پر شیطان اور اُس کے ایجنٹوں کو بڑا حسد ہوا اور اُنھوں نے اُن کے خلاف یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ اگر ایوب دن رات خدا کی عبادت ہی میں لگے رہتے ہیں تو یہ کیا کمال ہوا، خدا نے جب اتنا مال و اسباب دے رکھا ہے تو عبادت نہ کریں تو اور کیا کریں، ہم تو جب جانیں، جب خدا یہ ساری چیزیں اُن سے چھین لے اور پھر بھی وہ اُس کے عبادت گزار رہیں! بالآخر اللہ تعالیٰ نے ہر چیز سے اُن کو محروم کر دیا۔ نہ اُن کے پاس مال کے قسم کی کوئی چیز باقی رہ گئی اور نہ اولاد و احفاد اور خدم و حشم باقی رہ گئے۔ لیکن وہ اِس عظیم مصیبت سے مایوس نہیں ہوئے، بلکہ اپنے رب کے حضور سجدے میں گر پڑے اور فرمایا کہ میں اپنی ماں کے پیٹ سے ننگا پیدا ہوا تھا اور اب ننگا ہی اپنے رب کے پاس جاؤں گا۔ سفر ایوب میں ہے کہ اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے شیطان سے کہا کہ تو نے میرے بندے کو دیکھ لیا کہ سب کچھ چھن جانے کے بعد بھی وہ میرا ہی ہے۔ اِس پر شیطان نے کہا کہ یہ مال و اولاد کا معاملہ تھا، اِس وجہ سے وہ صبر کرگیا، میں تو جب جانوں، جب تو اُس کو شدید قسم کے جسمانی آزاروں میں مبتلا کرے اور پھر بھی وہ تیرا عبادت گزار رہ جائے! چنانچہ اِس کے بعد وہ ایسے شدید قسم کے جسمانی آزار میں مبتلا ہوئے کہ سفر ایوب میں اِس کی تفصیل پڑھیے تو دل کانپ جاتا ہے۔ لیکن اِس کے بعد اُن کی انابت اللہ کی طرف اور بڑھ گئی اور اِس آزمایش میں بھی اُنھوں نے شیطان کو شکست دے دی۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۵۳۹)
[161]۔ اپنے دکھ اور آزار کو ایوب علیہ السلام نے شیطان کی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ سبب کے پہلو سے ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’ ... بندے کو جو آزمایشیں پیش آتی ہیں، وہ پیش تو اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے آتی ہیں، لیکن اُن کے پیش آنے میں ایک اہم عامل شیطان بھی ہوا کرتا ہے۔ اِس وجہ سے مشیت و قدرت کے پہلو سے وہ خدا کی طرف منسوب ہوتی ہیں اور سبب کے پہلو سے شیطان کی طرف۔ اِسی پہلو سے حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنے دکھ اور آزار کو شیطان کی طرف منسوب کیا۔‘‘ (تدبرقرآن ۶/ ۵۳۹)
[162]۔ یعنی جب اُنھوں نے شیطان کو شکست دے دی تو ہم نے یہ ہدایت فرمائی۔
[163]۔ یہ کوئی مستبعد بات نہیں ہے۔ دریاؤں کے کنارے زمین کی بالائی سطح کو ہاتھ یا پاؤں سے کریدا جائے تو اِس طرح کی سوتیں اکثر پھوٹ پڑتی ہیں۔
[164]۔ سفر ایوب میں اِس کی تفصیل ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:
’’...خداوندنے ایوب کو، جتنا اُس کے پاس پہلے تھا، اُس کا دوچند دیا۔ تب اُس کے سب بھائی اور سب بہنیں اور اُس کے سب اگلے جان پہچان اُس کے پاس آئے اور اُس کے گھر میں اُس کے ساتھ کھانا کھایا ... یوں خداوند نے ایوب کے آخری ایام میں ابتدا کی نسبت زیادہ برکت بخشی اور اُس کے پاس چودہ ہزار بھیڑ بکریاں اور چھ ہزار اونٹ اور ہزار جوڑی بیل اور ہزار گدھیاں ہوگئیں۔ اُس کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں بھی ہوئیں ... اور اِس کے بعد ایوب ایک سو چالیس برس جیتا رہا اور اپنے بیٹے اور پوتے چوتھی پشت تک دیکھے۔‘‘ (۴۲: ۱۰- ۱۶)
[165]۔ یعنی اِس بات کی یاددہانی کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنے بندوں کی وفاداری کو ثابت کرنے کے لیے اُنھیں سخت ترین آزمایشوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ تاہم یہ آزمایشیں ایک حد سے متجاوز نہیں ہوتیں اور جو چیز اِن سے نجات کا باعث بنتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور انابت ہی ہے۔
[166]۔ اِس کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ ابتلا کے زمانے میں کوئی ایسی بات اُن کے منہ سے نکل گئی جو صبر اور انابت الی اللہ کے منافی تھی۔ اِس پر اُنھوں نے قسم کھا لی کہ وہ اپنے آپ کو سزا دیں گے اور اِس کے لیے اتنے کوڑے ماریں گے۔
[167]۔ قسم اگر اللہ کی یا اپنے نفس کی یا دوسروں کی حق تلفی کا باعث بن رہی ہو تو اُسے توڑ دینا ضروری ہے۔ لیکن یہ چونکہ عہد و پیمان پر خدا کی گواہی ہوتی ہے اور عہد و پیمان کا معاملہ دین میں بڑی اہمیت رکھتا ہے، اِس وجہ سے اُن کو یہ ہدایت ہوئی کہ وہ اِس طریقے سے رسمی طور پر اُس کو پورا کر لیں۔ اِس سے اُنھیں کوئی ناروا تکلیف بھی نہیں پہنچے گی اور قسم بھی پوری ہو جائے گی۔ دین میں قسم کا کفارہ اِسی طرح کی صورت حال کے لیے مقرر کیا گیا ہے، مگر ایوب علیہ السلام اُس وقت نہ کوئی مالی کفارہ ادا کرنے کے قابل تھے، نہ جسمانی۔ چنانچہ یہی ایک صورت رہ جاتی تھی جس سے وہ اپنے دل کی تسکین کر سکتے تھے۔ یہ ایک بندۂ مومن کو بے جا اذیت سے بچانے کے لیے خدا کی عنایت تھی۔ اِس سے حرام کو حلال کرنے یا فرائض کو ساقط کرنے یا نیکی کے کسی کام سے بچنے کے لیے حیلے تراشنے کا جواز پیدا کرنے کی جسارت نہیں کرنی چاہیے۔
[168]۔ یہی صفت سلیمان علیہ السلام کے تذکرے میں بھی نمایاں کی گئی ہے۔ اِس سے اُس مقصد کی طرف توجہ ہوتی ہے جو اِن سرگذشتوں کے سنانے سے پیش نظر ہے۔
[169]۔ یہ اُس پدرسرانہ قسم کی سرداری کی طرف اشارہ ہے جو اِن جلیل القدر پیغمبروں کو اپنے لوگوں میں حاصل تھی۔
[170]۔ یعنی آخرت کے گھر کی۔ انبیا علیہم السلام اصلاً اُسی کی منادی کے لیے مبعوث ہوئے۔
[171]۔ اِس سے ملتے جلتے نام کے جن دو پیغمبروں کا ذکر بائیبل میں ہوا ہے، اُن میں سے ’الیشع‘ قرآن کے تلفظ سے قریب تر ہے۔ اِن کا زمانہ ۷۱۳ ق م بتایا جاتا ہے۔ یہ دریاے اردن کے کنارے ایک مقام ابیل محولہ کے رہنے والے تھے۔ دوسرے یسعیاہ ہیں جن کا زمانہ ۶۲۰ ق م بتایا گیا ہے۔
[172]۔ اِن کی سرگذشت حیات پردۂ خفا میں ہے۔ تاہم اتنی بات واضح ہے کہ یہ بھی اُن پیغمبروں میں سے ہیں جن کا امتیازی وصف صبر ہے۔
[173]۔ یعنی پہلے سے کھول دیے جائیں گے، جیسے معزز مہمانوں کے استقبال کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔
[174]۔ اِس فقرے میں مبتدا کا اعادہ بھی ہے اور دو مبتداؤں کے بیچ میں ایک جملۂ معترضہ بھی۔ایک ایک لفظ سے غصہ گویا ابل رہا ہے۔
[175]۔ یعنی اُن لوگوں میں گنا کرتے تھے جو دین آبائی کے دشمن ہیں، ہمارے معبودوں کی توہین کرتے ہیں اور قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں۔
[176]۔ یعنی عذاب اور قیامت کی خبر۔
[177]۔ یہ اُسی توتکار کا حوالہ ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔
[178]۔ یعنی اہتمام کے ساتھ اپنے دست قدرت سے تخلیق کیا ہے۔ یہ اِس لیے فرمایا کہ اپنی تخلیق کے اعتبار سے انسان فی الواقع خدا کا ایک شاہ کار ہے اور بڑے غیر معمولی اوصاف اور صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔
[179]۔ قریش کے لیڈر بھی اِسی طرح کے زعم میں مبتلا تھے۔ چنانچہ وہ کہتے تھے کہ یہ قرآن مکہ اور طائف کے کسی بڑے رئیس پر کیوں نہیں اتارا گیا؟ یہ اِسی بے مایہ شخص پر کیوں اترا ہے؟
[180]۔ آیت میں ’مِنْهَا‘ کا لفظ ہے۔ اِس میں ضمیر کا مرجع وہی جنت ہے جس میں آدم کو رکھا گیا اور اُن کے آگے جنات اور فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا گیا تھا۔
[181]۔ یعنی تیری اُس اسکیم کو ، جہاں تک ممکن ہوا، ناکام بنانے کی کوشش کروں گا جس کے تحت تو نے اپنی جنت کے لیے اولاد آدم کو منتخب کرنے کافیصلہ کیا ہے۔
[182]۔ اِس میں، ظاہر ہے کہ مخاطبین کے لیے تنبیہ ہے کہ اِس آئینے میں وہ بھی اپنا انجام دیکھ لیں۔
کوالالمپور
۲۵/ مئی ۲۰۱۴ء
ـــــــــــــــــــــــــ