HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

غلطی کا تعین

اسلامی علوم اور اسلامی فکر نے کئی ادوار دیکھے ہیں۔دین بنیادی طور پر ایمان و عمل سے مرکب ہے، لیکن جب وہ انسان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق ہوتا ہے تو فہم و اطلاق کے بہت سے حل طلب سوالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ابتدائی صدیوں ہی سے تعبیر و تشریح کا عمل شروع ہوا اور اختلاف و اتفاق کے فطری اسباب کے تحت مختلف مکاتب فکر بننے لگے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ماخذ کا مسئلہ نہیں تھا۔ آپ نے جسے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا، وہ دین قرار پایا۔ آپ نے جس کے بارے میں فرما دیا کہ یہ اللہ کی کتاب کی آیات ہیں، وہ کتاب الٰہی کی حیثیت سے ممتاز ہو گیا،لیکن آپ کے بعد قطعی اور ظنی ماخذ اور قرآن او رسنت کے تعلق کے سوالات موضوع بحث بنے اور آج تک قلم و قرطاس کے ہم کنار ہونے کاایک سبب ہیں۔

اس امت کے ہر دور میں ایمانیات کے فہم اور ان کے تقاضوں کے ادراک اور شریعت کے فہم اور اس کے اطلاق کو نئے حالات اور نئے سوالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چنانچہ ہر زمانے میں ایسے اہل علم پیدا ہوئے جنھوں نے ان حالات اور ان سوالات کا مواجہہ کیا۔ ان کے کام کو پذیرائی بھی ملی اور تردید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ سوالات اگر حقیقی ہوں تو وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور خامہ فرسائی کا محرک بنے رہتے ہیں۔

دین کیا ہے؟ یہ سوال مشمولات کے حوالے سے بھی فکر ونظر کے لیے تحریک عمل رہا ہے اور دین کے بحیثیت کل اہداف کے تعین کے تعلق سے بھی نظریہ سازی کا باعث بنا ہے۔ یہ سوال دین کی حکمتوں ا ور مصالح کو طے کرنے میں بھی علمی جدال کی علت رہا ہے۔ اسی طرح دین کےساتھ تعلق کے تقاضوں کے بیان میں بھی آرا کے تفاوت کامبنی بنتا ہے۔

جب بھی کوئی علمی کام ہوتا ہے تو وہ آنے والوں کے لیے کچھ سوالات کو حل کر دیتا ہے اور کچھ اشکال عقدہ کشائی کے منتظر رہتے ہیں۔ یہ صورت معاملہ اصول و مبادی ، قیاس و استنباط اور تعبیر و تشریح، ہر دائرے میں تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔ ہر دور کا اختتام آنے والوں کے لیے فکر و نظر اور نقد و تنقیح کے نئے در بھی کھولتا ہے اور قدم جما کر آگے چلنے کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔

علمی کام الٰہیات میں ہو، شریعت میں ہو، ان کی تفہیم میں ہو، ان کی حکمتوں میں ہو، ان کے مقاصد میں ہو، نفس انسانی کے ان سے تعلق میں ہو ، دنیا میں ان کے کردار کے تعین میں ہو،مسلمانوں کی انفرادی یا اجتماعی ذمہ داریوں کے طے کرنے میں ہو، ان کو ایک کلی کے طور پر دیکھنے میں ہو، غرض دین کے کسی بھی پہلو سے کام ہو، مبناے استدلال نصوص ہیں یا عقلی مقدمات ہیں یاقیاس و استنباط کے قواعد و ضوابط۔

اگر نصوص کی بنیاد پر راے قائم ہوتی ہے تو وہ وہاں بھی لسانی اور منطقی دلائل ہوتے ہیں، جو کسی راے کی بنیاد بنتے ہیں۔ اختلاف کرنے والا یا لسانی دلائل سے اسے ناقابل قبول قرار دے گا یا منطقی دلائل سے۔یہاں یہ بحث بے معنی ہے کہ یہ راے فقہا کے اجماع کے خلاف ہے یا اس سے پہلے یہ راے کیوں قائم نہیں ہوئی یا اس راے کے قائم کرنے میں اسباب باہر سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ باتیں بظاہر دلیل لگتی ہیں، لیکن حقیقتاً یہ دلائل کی مشقت اٹھانے سے فرار اور پراپیگنڈا کے ہتھیار ہیں۔ اصل چیز نصوص ہیں۔ اگر ان سے زیر بحث معنی نہیں نکلتے تو انھیں رد کرنے کے لیے اس طرح کی کم زور باتیں کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑنی چاہیے ۔یہی باتیں قدیم فقہا کے اجماع پر بھی صادق آتی ہیں۔ فقہا ایک زمانے میں علمی کام کر رہے تھے۔ ان کے زمانے کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالات ان کے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہونے کے اتنے ہی امکانات ہیں جتنے آج کے کسی اہل علم کے فکری عمل پر آج کے یہ عوامل ہو سکتے ہیں یا ہوتے ہیں۔ نیت کی پاکیزگی کا سرٹیفیکیٹ نہ ان کے نقطۂ نظر کے حق ہونے کی دلیل میں پیش کیا جا سکتا ہے اور نہ پیش کیا جانا چاہیے۔یہ فقہا جب کام کر رہے تھے تو اپنا تقویٰ دلیل کے طور پر پیش نہیں کرتے تھے، بلکہ اپنا استدلال بیان کرتے تھے، جس کا جائزہ آج بھی لیا جا سکتا ہے اور اسے دلائل ہی کی بنیاد پر قبول بھی کیا جا سکتاہے اور رد بھی۔نئی آرا قائم ہونا کوئی عیب نہیں ہے۔ اس کے اسباب جیسا کہ ہم نے عرض کیا، ماضی کے علمی کام میں موجودحل طلب سوالات بھی ہوتے ہیں یا نئے سماجی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی تغیرات بھی ہوتے ہیں۔ نئی آرا غلط بھی ہوتی ہیں اور درست بھی۔ جو چیز عیب ہے، وہ قرآن و سنت کا انکار ہے۔ ان کے کسی فہم سے اختلاف قرآن وسنت کا انکار نہیں ہے۔ قرآن و سنت کا فہم ہمیشہ سے مرہون دلائل ہے اور دلائل ہی کی بنا پر کسی فہم کی تردید یا تائید ہونی چاہیے۔ یہاں یہ بھی واضح کردوں کہ نصوص کے معانی طے کرنے کا عمل جن تفسیری وسائل سے ہوتا ہے، ان کے تعین اور ان کے باہمی تعلق کا مسئلہ بھی ہمیشہ سے مختلف فیہ رہا ہے۔ یہ وسائل کی بحث سراسر عقلی دلائل پر موقوف ہے۔ چنانچہ نص سے ماخوذ کسی نقطۂ نظر پر تنقید یا تو لفظ و معنی کے تعلق کی نسبت سے ہوگی یا وسائل کی نسبت سے ۔ ان دونوں، یعنی لغت و نحو کے مباحث اور وسائل تفسیر کے مباحث میں خلط مبحث، خطرہ ہے کہ تنقید کو لغو کر دے گا۔

کچھ دینی آرا نصوص کے بجاے عقلی مقدمات پر موقوف ہوتی ہیں۔ یہ عقلی مقدمات اتنے ناقابل تردید ہوتے ہیں کہ الفاظ کی توجیہ پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہاں اختلاف کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ یہ اچھی طرح متعین کرے کہ وہ عقلی مقدمہ کیا ہے اور اس کی بنا کس چیز پر ہے۔ عقلی مقدمات یا تو فطرت میں رکھے گئے شعور کی عطا ہیں یا تجربے اورمشاہد ے کے مسلمات سے پیدا ہوتے ہیں یا ان مقدمات کے منطقی نتائج سے نکلے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب کسی عقلی مقدمےکی غلطی واضح ہو جاتی ہے تو پھر اس پر قائم راے کی غلطی بھی صحیح طور پر متعین ہو جاتی ہے۔ہمارے ہاں تنقید کرنے والے بالعموم غلطی کو صحیح طور پر متعین نہیں کر پاتے ۔ عام طور وہ اس مشکل میں پھنسے ہوتے ہیں کہ ہمارے مانے ہوئے نتائج فکر سے انحراف کیوں ہوا ہے۔ اس طرح کے کسی شخص کی تنقیدی تحریر پڑھ کر یہ شبہ ہوتا ہے کہ اسے اپنے بزرگوں کے استدلال کی بھی خبر نہیں ہے، یہ اس نئے نقطۂ نظر کے استدلال کا تجزیہ کیونکر کر سکتا ہے۔

اسی طرح کچھ دینی آرا قیاس و استنباط کے قواعد سے پیدا ہوتی ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اصل مقدمات تو نصوص اور مسلمات علم و عقل سے ہی لیے جاتے ہیں، لیکن اطلاق و تفصیل کےدائرے کی بعض آرا ان قواعد پر منحصر ہوتی ہیں جو اہل علم نے طے کر رکھے ہیں۔ یہ سرتاسر عقلی عمل ہے۔ ان کی بنا تجربے ، مشاہدے، رواج اور اسی طرح منطقی نتائج پر ہوتی ہے۔ بعض اوقات اس دائرے کی آرا فتویٰ پر مبنی فتوی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب اس دائرے کی آرا سے اختلاف کیا جائے گاتو یہ دیکھنا ہوگا کہ کسی راے کی بنا کیا ہے۔ اگر غلطی بنا میں ہے تو وہ زیر بحث آنی چاہیے اور استنباط و استدلال میں ہے تو اسے موضوع بننا چاہیے۔

دین کے حوالے سے ایک بڑا موضوع دین کو ایک کل کے طور پر دیکھنے کا ہے۔ یہ شریعت کے پہلو سے بھی دیکھا گیا ہے،جیسا کہ مقاصد شریعت کا مبحث ہماری علمی روایت کا حصہ ہے۔ یہ تعلق باللہ کی نسبت سے بھی دیکھا گیا ہے، جیسا کہ احسان اور تزکیۂ نفس کے عنوان سے لکھی گئی کتابیں اس کی شاہد ہیں۔ مسلمانوں کے عالمی مشن کے حوالے سے بھی دیکھا گیا ہے،جیسا کہ خلافت کے حوالے سے لکھے گئے دفاتر ہر کتب خانے کا حصہ ہیں۔ ان آرا کے حق میں قرآن و حدیث کے نصوص بھی پیش کیے جاتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے معالم بھی۔ ان آرا کے بننے میں مسلمانوں کے مجموعی حالات کا کردار بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال غلط و صحیح کا تعین کرنے کی بنیادیں یہاں بھی وہی ہیں یا نصوص کا تعین درست نہیں یا ان سے اخذ مطلب غلط ہوا ہےیا اس سارے فکری عمل کا سبب باہر ہے اور اصلاً راے پہلے قائم کر لی گئی ہے اور اسے دین سے منسوب کر دیا گیا ہے۔کسی بھی علمی مبحث کی غلطی تبھی غلطی قرار پائے گی جب استدلال کی غلطی مشخص ہو گی۔

دور حاضر میں ہمارے فکری جدال کا ایک باعث مغرب کی فکری یلغار ہے۔ مغرب ہمارے فکری ، عملی اور نفسیاتی تمام حوالوں سے تغیر وتبدل کا باعث ہے۔ اس نے ہمارے سیاسی، سماجی، معاشی ، خاندانی ، تعلیمی یہاں تک کہ تمام مذہبی ڈھانچوں کو جبراً تبدیل کر دیا ہے۔ ہم پچھلے دو سو سال سے ان تمام تبدیلیوں کے رد و قبول کے مسئلے سے دوچار ہیں۔کہیں ہم ان کے مقابلے میں اسلام کی نئی تفہیم پیش کرتے ہیں، کہیں ہم ان تبدیلیوں ہی کو اسلامیانے کے عمل میں مصروف نظر آتے ہیں اور کہیں ہم گوشہ گیر ہو کر نام نہاد روایت کو سینے سے لگا کر مطمئن ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غرض یہ کہ یہ تغیر بہر صورت ہمیں تبدیل کرنے کے درپے ہے۔

اس حوالے سے بھی نقد و نظر کا معرکہ برپا ہے۔ یہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ دین کو اس کی اصل صورت میں سمجھا جائےاور اس کی روشنی میں تمام انحرافات کو متعین کرکے ان کی تردید کا استدلال مرتب کیا جائے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B