[جناب جاوید احمد غامدی کی تحریروں، آڈیوز اور ویڈیوز سے اخذ و استفادہ پر مبنی مختصر سوال و جواب]
سوال: فقہ اور شریعت میں کیا فرق ہے؟
جواب:شریعت اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا قانون ہے۔ عربی زبان میں قانون کو شریعت کہا جاتا ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز مشروع کی گئی ہے یا اس کو قانون کی صورت دے دی گئی ہے تو یہی لفظ ’شریعت‘ اختیار کیا جاتا ہے۔ شریعت اور قانون، دونوں ہم معنی لفظ ہیں۔ ایک عربی زبان کا لفظ ہے اور دوسرا ہمارے ہاں زیادہ رائج ہے۔ ’قانون‘ بھی عربی زبان ہی کا ایک لفظ ہے۔ چنانچہ ’شریعت‘ کا لفظ اصل میں قانون کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے مراد وہ قانون ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ ہمیں جو دین دیا گیا ہے، اس کے دو حصے ہیں:
ایک حصے کا تعلق ایمان اور اخلاق سے ہے۔ یہ اصل دین ہے اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کن چیزوں کو ماننا چاہیے اور ہمیں اپنے اخلاق کو کس شکل میں تربیت دینی چاہیے، اپنا تزکیہ کیسے کرنا چاہیے اور پاکیزہ کیسے رہنا چاہیے۔
اس کا کچھ حصہ ایسا ہے جس کو قانون کی شکل دے دی گئی ہے۔ اس کو شریعت کہا جاتا ہے۔ یہ اللہ کا حکم ہے اور اللہ کے حکم کی حیثیت سے جب ہم نے اللہ اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا تو اس کی پیروی کی جائے گی۔
فقہ یہ ہے کہ جن معاملات میں شریعت یا اللہ تعالیٰ نے کوئی قانون نہیں دیا، اس میں ہم اپنی عقل سے کوئی قانون بناتے ہیں۔ اسے ’اجتہاد‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جو بڑے بڑے مجتہدین پیدا ہوئے، انھوں نے جس طریقے سے بہت سی چیزوں کو سمجھا یا جن معاملات میں شریعت کا کوئی قانون نہیں ہے، ان میں قانون سازی کی یا شریعت پر عمل میں کوئی مشکل پیش آئی اور اس میں انھوں نے کسی سوال کا جواب دیا تو اس مجموعے کو ’فقہ‘ کہتے ہیں۔ یہ انسانی کام ہے۔ اس کو انسانی کام ہی کی حیثیت سے دیکھا جائے گا۔ اس میں کوئی بات معقول ہو گی تو اسے قبول کیا جائے گا اور اگر معقول نہیں ہو گی تو اس کو زیر بحث لایا جائے گا، اس لیے کہ انسانوں کے کاموں میں تبدیلیاں بھی آتی رہتی ہیں اور اس میں غلطیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔
لہٰذا شریعت اللہ تعالیٰ کا قانون ہے اور فقہ انسانی اجتہادات ہیں۔[1]
سوال: اسلام میں فقہ کی حیثیت کیا ہے؟
جواب: فقہ اصل میں ہمارا قانون ہے۔ جب مسلمانوں کی سلطنت قائم ہو گئی تو ہر ریاست کی طرح اس کے لیے بھی ایک قانون کی ضرورت تھی۔ یہ خالصتاً دنیوی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم قاعدے اور قانون بناتے ہیں۔ جب آپ دنیا میں نظم ریاست قائم کریں گے تو سب سے بڑی ضرورت یہ ہو گی کہ آپ اپنے لیے کوئی نظام بنائیں اور اس کے لیے قواعد و ضوابط متعین کریں۔ وہ قاعدے جب متعین کیے جائیں گے تو ہر موقع پر یہ دیکھا جائے گا کہ اس میں دین نے کوئی مداخلت کی ہےیا کوئی ہدایت دی ہے؟ جب دین کی مداخلت کو سامنے رکھ کر قاعدے بنائے جائیں گے تو ظاہر ہے کہ اس پر دین کا اثر محسوس ہو گا، لیکن وہ وہی ضرورت ہے جو انھوں نے پوری کی ہے اور اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہمارا فقہی نظام بنا ہے۔
یہ انسانی کام ہے اور انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ہمارے بازار کس طرح کام کریں گے، خریدو فروخت کیسے ہو گی اور معاہدات کیسے لکھے جائیں گے؟ یہ قاعدے صرف ہم نہیں، بلکہ پوری دنیا بنا رہی ہے۔ اس وقت بھی آپ کسی بینک میں اپنا اکاؤنٹ کھولیں تو آپ کو متعدد معاہدات پر دستخط کرنے پڑتے ہیں۔ بعض اوقات ہم اعتماد کرتے ہوئے ان کو پڑھتے بھی نہیں۔ ان کے ذریعے سے گاڑی لینے کے معاہدات دس دس صفحات کے ہوتے ہیں اور اس کی شقوں کو پڑھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ہسپتال اور امیگریشن کی مختلف دستاویزات پر آپ کو دستخط کرنے پڑتے ہیں ۔ ہر جگہ آپ کو یہ قاعدے اور ضابطے ملیں گے۔ یہ قاعدے زندگی کے ہر معاملے میں بنانے پڑتے ہیں۔
چنانچہ لوگ فقہ کو اصل میں پورا کا پورا دین سمجھ لیتے ہیں۔ ہم مسلمانوں نے دین کی روشنی میں بوقت ضرورت اپنی مارکیٹوں، اپنے حکمرانوں اور بین الاقوامی معاملات کے لیے یہ قاعدے، ضابطے اورقوانین بنائے ہیں۔ یہ سب قاعدے آج بھی ہماری ضرورت ہیں۔ ان کو جب بھی بنایا جائے گا، دین ہی کی روشنی میں بنایا جائے گا۔ جس طرح ہم کوئی سیاسی نظام بنائیں تو دیکھتے ہیں کہ اس میں دین مداخلت کر چکا ہے کہ تمھارے نظم کی بنیاد لوگوں کی راے پر ہونی چاہیے:
وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰي بَيْنَهُمْ.(الشوریٰ۴۲: ۳۸)
’’اور ان کا نظام ان کے باہمی مشورے پر مبنی ہے۔‘‘
اب لوگوں کی راے کو سامنے رکھیں گے تو ایک اور نظام بنے گا، لیکن مثال کے طور پر دین نے ہمیں اس کا پابند نہ کیا ہوتا تو ہم آزاد تھے، چاہے تو ہم قوت کی بنیاد پر فیصلے کا کوئی نظام بنا لیتے، چاہے تو لوگوں کی راے پر بنا لیتے اور چاہے تو کوئی اور کام کرتے۔ اس میں پھر لوگوں کے فائدے کو سامنے رکھ کر علم و عقل کے مسلمات کی بنیاد پر گفتگو ہوتی ہے۔ دین نے زندگی کے ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی ہدایت دی ہے؛ کسی جگہ اصولی ہدایت دی ہے اور کسی جگہ اطلاقی ہدایت۔
آپ جانتے ہیں کہ یہ صرف چار پانچ معاملات ہیں جن میں دین نے مداخلت کی ہے۔ ان میں سے معیشت یا سیاست کی بعض چیزوں کے بارے میں ہدایت دی گئی ہے، ان کو سامنے رکھا جائے گا اور ان کے دلائل بھی دیے جا سکتے ہیں، لیکن یہ سب ہدایات بھی درحقیقت اس تزکیے کو سامنے رکھ کر دی گئی ہیں کہ تمھاری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں آلودگی نہیں آنی چاہیے۔ جیسے ہم اپنے ملک کا دستور بناتے ہیں تو اس کے بعد ہمیں یک بہ یک پتا چلتا ہے کہ اقوام متحدہ کی صورت میں ایک عالمی نظام قائم کر دیا گیا ہے اور اس میں ایک بنیادی حقوق کا چارٹر ہے۔ اب وہ بنیادی حقوق کا چارٹر ہر جگہ داخل کرنا پڑتا ہے یا اس کے بارے میں بتانا پڑتا ہے کہ کیا ہم ان کی پابندی کریں گے؟ بالکل آپ اسلام کی مداخلت کو ایسے ہی سمجھیے کہ اس نے اوپر سے کچھ چیزوں کے بارے میں کچھ کہہ دیا ہے کہ اخلاقی تقاضا ہے کہ یہ چیزیں ایسے ہونی چاہییں، لہٰذا ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کو سامنے رکھیں گے اور اس کی روشنی میں اپنے لیے نظام بنائیں گے۔[2]
سوال: علم فقہ کیسے وجود میں آیا اور اس کی اہمیت و مقصد کیا ہے؟
جواب: فقہ کے دو حصے ہیں: ایک حصہ وہ ہے جس میں فقہا دین کا فہم بیان کرتے ہیں، یعنی انھوں نے دین کو جس طرح سمجھا، بیان کر دیا۔ اس وجہ سے دین کا فہم جو کچھ بھی ہو، وہ تو بیان ہو گا۔ ہر انسان جب بیان کرے گا تو اپنا فہم ہی بیان کرے گا۔ اس نے قرآن و سنت کو کس طرح سمجھا، اس نے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے کسی روایت کو قبول کیا ہے تو اس کو کیسے سمجھا ہے۔ فقہ کا بہت بڑا حصہ وہ ہے جس میں اطلاقی اجتہادات کیے گئے ہیں، یعنی جو دین ہمیں دیا گیا ہے، اس میں کچھ امور اصول کی نوعیت کے ہیں، کچھ قواعد عامہ کی نوعیت کے اور کچھ باقاعدہ جزوی احکام کی صورت میں ہیں۔
چنانچہ یہ جو دین دیا گیا ہے، اس کو اب انسانوں سے متعلق ہونا ہے؛ جب یہ انسانوں سے متعلق ہوتا ہے تو بے شمار معاملات زیر بحث آ جاتے ہیں جو فرد کی زندگی ، معاشرے اور بعض اوقات ریاست اور ریاستوں کے مابین تعلقات سے متعلق ہوتے ہیں۔فقہ ان سب معاملات کا احاطہ کرتی ہے۔ وہ اصل میں اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں بننے والا قانون ہے۔ ایک قانون وہ ہے جو اللہ کے دین کا حصہ ہے، جس کو ہم ’شریعت‘ کہتے ہیں اور ایک قانون وہ ہے جو شریعت کے احکام کو سوسائٹی اور افراد سے متعلق کرتے وقت بن جاتا ہے۔ وہ ہر زمانےمیں بنے گا۔ لہٰذا یہ جو بہت بڑا حصہ ہے، ظاہر ہے کہ یہ خالص انسانی کاوش ہوتی ہے۔ اس میں اجتہادی امور ہیں اور ان کو قرآن و سنت سے الگ کرنا ضروری ہے۔ اس سے مقصود اس کی نفی نہیں ہے۔ان میں بھی ایسی بہت سی چیزیں قیمتی اور بہت سی قابل تنقید بھی ہیں، لیکن دین کو بیان کرتے وقت ان ساری چیزوں کو الگ کر دینا چاہیے، اس لیے کہ ہمارے ہاں یہ طریقہ ہے کہ ہم ان کو عام طور پر ایک ہی جگہ رکھ کر بیان کرتے ہیں۔ اس سے اصل دین میں اور اس طرح کے انسانی علوم میں ایسا اختلاط واقع ہوتا ہے کہ بڑی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان سب چیزوں کو دین سے الگ کر دینے کا مطلب پاک کر دینا نہیں، بلکہ ’آمیزش‘ ہے۔ دین بالکل الگ، بالکل متعین، جیسے کہ قرآن و سنت میں ہے، اسی طرح پیش کرنا چاہیے۔ اس میں بھی انسانی فہم کی غلطی کا امکان ہے، لیکن کوشش یہی کرنی چاہیے۔ اس سے نہ کسی چیز کی تردید مقصود ہے، نہ کسی چیز کو غلط قرار دینا مقصود ہے۔ یہ علوم، خواہ وہ فلسفہ ہو، کلام ہو یا فقہ، اپنے میرٹ پر دیکھے جائیں گے۔ ان میں سے جو چیز انسانیت کے لیے اچھی ہے اور قرآن و سنت کے مطابق ہے تو قبول کی جائے گی اور جو نہیں ہے، نہیں قبول کی جائے گی۔ اس سے دین کی تطہیر پیش نظر ہے تاکہ وہ ہر آمیزش سے الگ ہو کر سامنے آ جائے۔[3]
سوال: اسلامی فقہ سے استفادے کا درست طریقہ کیا ہے؟
جواب: فقہ کے معاملے میں جہاں جہاں اس رشتے کو برقرار رکھا گیا ہے، مثلاً مصر یا سعودی عرب میں تو بہت سے معاملات میں وہاں بہتری آئی ہے، لیکن بعض جگہوں پر اس میں جمود کا طریقہ اختیار کیا گیا، یعنی یہ خیال نہیں کیا گیا کہ یہ انسانوں کا کام ہے اور اس کو مذہبی تقدس دے دیا گیا ہے۔ اس میں بھی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ ان دونوں سے اجتناب کرنا چاہیے تھا۔ ہماری فقہ انسانی کام ہے اور بڑا قیمتی ذخیرہ ہے۔ اس میں، ظاہر ہے کہ بڑی ذہانتیں صرف ہوئی ہیں۔ ہم اس سے ابتدا کر رہے ہیں، جب کہ دنیا میں بہت کچھ ہو چکا ہے۔ دنیا نے پچھلے تین چار سو سال میں بہت کچھ کیا ہے، وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ ہم ان دونوں کے درمیان ایک تعلق بھی پیدا کریں گے اور پھر اپنی میراث کو سامنے رکھ کر اپنے لیے راستے بھی نکالیں گے۔ صحیح رویہ یہ ہوتا، لیکن یہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیا۔ بعض جگہوں پر جمود نے مسائل پیدا کر دیے اور بعض جگہوں پر اس سے رشتہ منقطع کر کے بعینہٖ جو کچھ باہر سے آیا تھا، اس کو قبول کر لینے کی وجہ سے مسائل پیدا ہو گئے۔
اعتدال کا اور صحیح راستہ یہ تھا کہ اس رشتے کو قائم رکھتے ہوئے ہم جدید سے یا جو کچھ دنیا نے پیدا کیا تھا، اس سے استفادہ کرتے۔ یہی صحیح راستہ ہے اور دنیا میں ہر جگہ یہی اختیار کرنا چاہیے۔ یہ کوئی مذہبی بحث نہیں ہے، مذہب تو مداخلت کر کے بعض چیزوں کی اصلاح کرے گا اور باقی میں آپ کو چھوڑ دے گا۔ آپ نے جو کچھ سمجھا اور جانا ہے، وہیں سے ابتدا کر لیں۔[4]
سوال: کیا فقہی آرا پر انحصار دینی علوم میں جمود کا باعث ہے؟
جواب: جو آدمی ان پر انحصار کرنا چاہتا ہے، ضرور کرے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر آدمی یہ کام کرے۔ اگر کوئی یہ کام کرتا ہے تو اس پر طعن و تشنیع کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو لوگ آپ پر ایمان لائے، کیا ان میں ضعیف مسلمان نہیں تھے اور قرآن میں ان ضعفا پر تبصرے نہیں کیے گئے؟ وہ ایمان کے لحاظ سے بڑے مضبوط تھے، مگر ان میں سب ابوبکر وعمر اور عثمان و علی تو نہیں تھے۔یعنی ان میں بھی ہر طرح کے لوگ تھے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید تو خود مدینے کے اندر منافقین کی سازشوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔ اسی طرح ان کے قریبی دور کے لوگوں کے مابین اختلافات بھی ہوئے اور جنگیں بھی ہوئیں۔ پھر تو یہ کسی طرح بھی نہیں ہونا چاہیے تھا، اس لیے یہ ایک بے معنی منطق ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
دین کا علم ہو یا کسی اور علم وفن کا معاملہ، وہ ایک بہتے ہوئے دریا کی طرح ہوتا ہے۔ اس میں نئے نئے پہلو سامنے آتے رہتے ہیں۔ کوئی بھی آدمی اگر اس میں کوئی بات کرتا ہے تو اس کی بات کو دلیل کی بنیاد پر دیکھنا چاہیے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اتنے طویل عرصے سے تو کسی نے یہ بات نہیں کی، لیکن دین کے حوالے سے کوئی بات کہنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ جو شخص کچھ کہنے کی جسارت کرتا ہے، اس کی پگڑی پونجی غائب ہو جاتی ہے۔ سب سے پہلے تو آپ یہ درس دیتے ہیں کہ آپ کو یہ بات کرنے کا حق ہی نہیں ہے ۔ ظاہر ہے کہ لوگ اس بات سے ڈرتے ہیں۔ کون آدمی ہے جو اس کے نتیجے میں طعن و تشنیع کا مورد بن جائے گا۔ اس لیے اس معاملے میں حوصلہ افزائی (encourage) کیجیے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ بہت بڑی غلطی کر دے گا۔ اگر اچھا ماحول پیدا کریں، حوصلہ افزائی کریں اور نئی تحقیق سامنے آئے تو آپ خراج تحسین پیش کریں۔ ہو سکتا ہے کہ ایسی بہت سی نئی باتیں سامنے آئیں جن سے آپ استدلال کی کم زوری کی وجہ سے اتفاق نہ کریں، لیکن اس کے نتیجے میں کچھ نئے سوالات، زاویے اور سوچنے کے نئے طریقے سامنے آئیں گے۔
علم میں جب تک آپ غلط بات کے لیے بھی ایک اچھی فضا نہیں پیدا کریں گے کہ وہ کہی جائے، بیان کی جائے، تجزیے سے گزرے، اور آدمی کی بات کو بغیر طعن و تشنیع ، تکفیر و تفسیق اور تذلیل کے علمی طریقے سے سنا جائے اور اس کی غلطی اس پر واضح کی جائے تو اسی طرح کا جمود ہو گا، جس طرح کا ہم اس وقت مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جو آدمی ہمت کرے، وہ اپنی جان، مال، آبرو اور تعلق کو بھی خطرے میں ڈالے؛ سب مل کر اس کو گم راہ قرار دے کر امت سے نکالنے کی سعی بھی کریں تو اس کا حوصلہ پھر کون کرے گا۔
مغرب میں وہی فضا پیدا کی گئی ہے۔ یونیورسٹیوں، اکیڈیمیز اور علمی حلقوں میں ہر چیز کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ان میں پی ایچ ڈی کے لیول پر تحقیقات پائی جاتی ہیں۔ یہ تحقیقات ان اساتذہ کی ہیں جن کو کسی فن میں ایک مقام حاصل ہے۔ ان کو تنقید کے ذریعے سے ادھیڑ کر رکھا جا سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کو قدر افزائی سے دیکھا گیا ہے۔ اس پہلو سے نہیں کہ ان کی بات درست ہے، بلکہ اس پہلو سے کہ انھوں نے علم کی خدمت کرنے کی کوشش کی ہے۔
جو بڑا آدمی بھی علم کی خدمت کرنے کی کوشش کرے گا، وہ غلط نتائج تک بھی پہنچے گا ؛ جب وہ پہنچنے کا راستہ طے کر رہا ہو گا تو بہت سی چیزوں کو نمایاں کر دے گا اور بہت سے نئے سوالات سامنے لے آئے گا۔ یہ فضا ناگزیر ہے۔ ہمارے ہاں جو اس کے لیے فضا پیدا کر دی گئی ہے، اس میں علم آگے بڑھ نہیں سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ دین میں بھی جمود میں مبتلا ہوں گے اور دنیا کے معاملات میں بھی پستی میں اتریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ دینی علوم میں اس طرح کے جمود کو روا رکھا جائے اور اس کے اثرات باقی علوم پر نہ پڑیں۔ رویے اسی طرح تشکیل پاتے ہیں۔
ہمارے ہاں علم کی قدر افزائی اور کسی نئی تحقیق کے خیرمقدم کا رویہ ہی نہیں ہے۔ اس کو دیکھنے کے لیے لوگ اسی عزت و احترام سے آگے نہیں بڑھتے جس کی روایت ہمارے ہاں ڈالنی چاہیے۔ یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں تو وہ ان کے خلاف لابی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ دسیوں ایسی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ وہ لوگ جو ذرا بہتر طریقے سے سوچنے اور اپنی بات کہنے والے تھے، ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا۔ کیا کسی مدرسے میں آدمی مجموعی مدرسے کی فکر سے اختلاف کر کے جی سکتا ہے؟ ہماری یونیورسٹیوں میں جو عام طور پر لابیز کام کر رہی ہوتی ہیں، اس سے ہٹ کر کوئی بات کی جا سکتی ہے؟ اس طرح کی فضا میں آپ یہ خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں علم پیدا ہو جائے گا اور تحقیق میں کوئی ندرت پیدا ہو جائے گی۔
اسلام جو مسلمان کی حیثیت سے ہماری شناخت ہے ، اس کے علوم کے بارے میں ہمارا حال یہ ہو گا تو باقی چیزوں پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔ کوئی آدمی عافیت کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو کرے، لیکن علم یہ چاہتا ہے کہ ہر چیز کا اس کی بنیاد سے جائزہ لیا جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ سائنس کو پڑھ رہے ہوں اور اس سے پہلے نیوٹن نے ایک قصر بنا دیا ہے تو اس کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ یہی معاملہ دین کا بھی ہے، یعنی دین کو چیلنج نہیں کیا جا رہا ہوتا۔ دین تو نام ہے قرآن کا۔ دین نام ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور سنت کا۔ دین زیر بحث نہیں ہوتا، زیر بحث انسانوں کا فہم ہے اور وہ سارے مل کر بھی غلطی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا دین کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
کیا یہ واقعہ نہیں کہ ہمارے سامنے پوری مسیحی ملت ہے۔ سینٹ پال(St. Paul)، سینٹ آگسٹائن (St. Augustine) اور سینٹ تھامس ایکویناس (St. Thomas Aquinas ) کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں۔ یہ پوپ بہت پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی الوہیت اور کفارے کے عقیدے والی اس غلطی پر متنبہ نہ ہو سکے جس پر قرآن مجید متنبہ کر رہا ہے ۔ اتنی واضح دلیلیں نہ صرف قرآن ، بلکہ خود انجیل میں موجود ہیں کہ اگر آدمی اس روایت سے نکل جائے تو ان کے اندر سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جو کھڑے ہو کر گواہی دیں کہ سینٹ پال ، سینٹ اگسٹائن اور سینٹ ایکویناس نے یہاں یہ غلطی کی تھی، ان کے استدلال میں یہ خرابی ہے اور کیتھولک مسیحیت کی یہ بنیادیں ٹھیک نہیں ہیں۔
آپ نے جب کسی ثانوی ماخذ پر ایک مرتبہ اس کی بنیاد رکھ دی تو پھر سارے لوگ وہی تسبیح پڑھتے رہیں گے تو یہ کون سی تعلیم دی جا رہی ہے۔ جن لوگوں میں حوصلہ نہیں ہے، انھیں بات کرنے کے لیے کوئی نہیں کہتا۔ ان کے لیے صحیح یہی ہے کہ وہ جس زندگی میں جی رہے ہیں، جیتے رہیں۔ لہٰذا اس میں وہ فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس میں علم کا استقبال کیا جائے، اگرچہ اس کے نتائج سے آپ کو اتفاق نہ ہو۔[5]
___________
۱-https://ghamidi.com/videos/what-is-the-difference-between-fiqh-and-shariah-3836
۲-https://ghamidi.com/videos/questions-of-modern-mind-on-islam-6729
۳-https://www.youtube.com/watch?v=4d2wqnCfERo
۴-https://ghamidi.com/videos/questions-of-modern-mind-on-islam-6729