HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

سرسید احمد خان کا اصول تفسیر: غامدی صاحب کی نظر میں

معاذ بن نور


[جناب جاوید احمد غامدی کی ویڈیوز کی ٹرانسکرپشن پر مبنی سوال و جواب]

سوال: آپ کی آرا کو سرسید کے اصول تفسیر سے جوڑاجاتا ہے۔ سر سید کے مطابق عقل کو قرآن پر ترجیح حاصل ہوگی، دنیا علت و معلول کے تحت چل رہی ہے، لہٰذا جہاں کہیں اس کی خلاف ورزی نظر آئے گی، ہم اس کی تاویل کریں گے۔ اس کے نتیجے میں جنت، جہنم، جن، فرشتوں اور معجزات کے تصورات کی انھوں نے تاویل کی۔ آپ سرسید کے ان تصورات کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب: میں اس پورے نقطۂ نظر کو آخری درجہ کی غلطی سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک یہاں ’عقل‘ کا لفظ ہی غلط استعمال کیا گیا ہے۔ ہم مشاہدات کے اسیر ہوجاتے ہیں، یعنی ایک چیز ہم روزمرہ دیکھتے ہیں، وہ عام حالات میں ہمارے تجربہ میں آتی ہے۔ اس کے بارے میں یہ خیال کرلیا گیا کہ یہ کوئی حتمی ظہور ہے جو ہوگیا ہے، یہ غلطی ہے جس میں بعض اوقات لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں۔

 یعنی انسانوں کا مشاہدہ آج سے دوسو سال پہلے کیا یہی تھا؟ اگر کوئی شخص اُس وقت یہ بیان کرتا کہ ایک ایسا دن بھی آے گا کہ ہم ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے ہوں گے اور ساری دنیا ہماری بات سن رہی ہو گی، بلکہ آسمان کے اوپر کوئی سیاروں میں بیٹھی ہوئی مخلوق ہو تو وہ بھی سن لے گی، اس بات کو کوئی باور نہ کرتا۔ یہ چیز مشاہدے کے تو خلاف تھی، لیکن کیا یہ عقل کے بھی خلاف تھی؟

عقل کا مطلب کیا ہے؟ عقل کا مطلب یہ ہے کہ جو آپ کو شواہد دست یاب ہیں، آپ ان سے استنباط کر کے کسی چیز کو سمجھیں۔ اسی طرح عقل جب کچھ مقدمات یا کچھ محکمات کا تعین کر لیتی ہے تو اس کے لازمی نتائج خواہ وہ مشاہدے میں آرہے ہوں یا نہ آرہے ہوں، وہ عقلی استنباط ہی سمجھے جاتے ہیں۔

یہ استنباط غلط بھی ہو سکتا ہے اور صحیح بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم عقلی عمل تو یہی استنباطی عمل ہے۔ عقلی استدلال اصلاً استنباطی استدلال ہوتا ہے۔

یعنی جب میں یہ مان لیتا ہوں کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے اور اس کی کچھ صفات ہیں تو اس کے بعد اس کے کچھ تقاضے ہوں گے جو پھر عقلی طور پر ماننے ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ (اس طرح) کسی اصل کو مان کر اس کی فروع کا عقل استنباط کرتی ہے اور کچھ فروع کا مشاہدہ کرکے اس سے کسی اصل کا استخراج کرتی ہے۔ (یہی عقل کا کام ہے نہ کہ مشاہدہ کر کے ہر چیز کو ماننے کا تقاضا کرنا، کیونکہ) اگر آپ مجھے سورج دکھا دیں گے تو اس کے لیے تو کسی عقلی استدلال کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا میرے نزدیک یہاں ’عقل‘ کا لفظ ہی غلط استعمال کیا گیا ہے۔

اسی طرح یہ مشاہدے کی چیز ہے کہ یہ کارخانہ علت و معلول کا کارخانہ ہے۔ یہ کارخانہ (ایک عمومی نظم کے ساتھ) اس لیے چل رہا ہے کہ اس پر اعتماد ہی سے ہم انسان بہت سے کام کرتے ہیں۔ اسی اعتماد سے سائنس کا علم پیدا ہوا ہے جس کی بنیاد پر ہم آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرتے ہیں۔ اگر علت و معلول کا یہ معاملہ اس طرح نہ ہوتا تو پھر تو ہم (انسان اس دنیا میں) بالکل سکڑ کر اور سمٹ کر بیٹھ جاتے اور کسی چیز پر اعتماد ممکن ہی نہ رہتا۔ تاہم کیا یہ کارخانہ کائنات کے خالق کو پابند کر کے بیٹھ گیا ہے۔ (یہ کیسے ممکن ہے، کیونکہ) یہ علت و معلول کا قانون تو اس خالق ہی کا بنایا ہوا ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کو بہت پستی میں قیاس کرنا ہے۔ میں اس قیاس کو درست نہیں سمجھتا۔ یہاں مشاہدے کو عقل سمجھ لیا گیا ہے اور علت و معلول کے عمومی عمل کو انسانی زندگی سے اٹھا کر اس کا اطلاق خدا پر بھی کر دیا گیا ہے۔ میں ان چیزوں کو آخری درجے میں غلط سمجھتا ہوں۔


سوال: جنات کے بارے میں ایک جگہ سرسید فرماتے ہیں کہ ان سے مراد وہ پہاڑی اور جنگلی آدمی ہیں جو حضرت سلمان علیہ السلام کے ہاں بیت المقدس بنانے کے لیے کام کرتے تھے۔ اگر جنات کے تصور کے بارے میں سرسید کو لگا کہ وہ خلاف عقل ہے تو اس لفظ ’جن‘ سے پہاڑی آدمی کیسے انھوں نے برآمد کرلیا؟ اس کا طریقۂ کار کیا ہے؟

جواب: پہلے تو اس کی تصحیح کیجیے کہ یہ (تصور جن) خلاف عقل نہیں، خلاف مشاہدہ ہے۔ یعنی (جیسے اوپر عرض کیا کہ) جو اصلی غلطی ہو رہی ہے، وہ یہ ہے۔ اگر میں نے اور آپ نے اور دیگر بہت سے انسانوں نے (ابھی تک) جنوں کا مشاہدہ نہیں کیا تو کیا (ہمارا آج تک کا مشاہدہ ہی) آخری درجہ میں ہمارا (کلی) علم (ثابت ہوگیا) ہے؟ ہمارے مشاہدات تو ایک دہقان، کسان اور جنگل میں رہنے والے انسان سے شروع ہوئے اور آج آفاق کے مشاہدات میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ ہم نے اپنے گردوپیش میں چند جانوروں کو دیکھا اور اب جب ہم دنیا میں نکلے تو اندازہ ہوا کہ مخلوقات کی اصناف کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔ ہم ایسے ایسے جزیروں میں جا پہنچے جہاں پودوں اور جانوروں کی ایسی قسمیں ہیں جن کے بارے میں پہلے نہ کبھی سنا نہ کبھی دیکھا۔ اس وجہ سے یہ مشاہدے کی جسارت ہے جس کو بیان کیا جارہا ہے، جب کہ مشاہدہ اور چیز ہے اور عقل اور چیز ہے۔

عقل کا تو کام ہی یہی ہے کہ وہ محسوس کے مشاہدات سے غیر محسوس کا استنباط کرے۔ عقل کرتی ہی یہ ہے۔ اس لیے جب یہ کہا جاتا ہے کہ جنات یا فرشتوں کا وجود خلاف عقل ہے تو میرے نزدیک اس کا مطلب عقل کو اپنا کام کرنے سے روکنا ہے۔

 چنانچہ جب اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور قرآن کے کتاب اللہ ہونے کو ہم عقلی استدلال سے مان لیتے ہیں تو پھر ہمارے مشاہدات سے ماورا عالم کے مشاہدات کے بارے میں ہمیں اطلاع ملتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ مریخ پر گئی ہوئی گاڑی وہاں کے مشاہدات کے بارے میں کچھ اطلاعات نشر کردے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ہمارے موجود علم کی نفی کرنے والی اطلاعات ہوں، پھر کیا ہم انکار کردیں گے ان اطلاعات کا؟ جو اطلاعات ہمیں قرآن مجید سے ملی ہیں، وہ ایک دوسرے ذریعۂ علم سے ملی ہیں۔ گفتگو اس ذریعۂ علم پر ہوگی کہ وہ قابل اعتماد ہے کہ نہیں۔ اگر آپ اس کو قابل اعتماد سمجھ لیتے ہیں اور عقلی طور پر سمجھ لیتے ہیں تو اس کی اطلاعات کا کیسے انکار کر سکتے ہیں۔ جب سائنسی طور پر یہ بات مجھ پر واضح ہوگئی کہ وہ علم قابل اعتماد ہے جس کے ذریعے سے وہ گاڑی مریخ پر گئی ہے اور وہاں سے اطلاعات نشر کررہی ہے تو اب ان اطلاعات کو کیسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ اب تو وہ جو کچھ بتائے گی، وہ حقیقت ہی ہوگی۔

لہٰذا یہ مقدمہ بھی ایک باطل مقدمہ ہے (کہ فرشتے اور جن کوئی وجود نہیں رکھتے)۔ جب اللہ کی کتاب کسی چیز کو بیان کرتی ہے تو (پھر اس کے خلاف) میرا مشاہدہ، پوری دنیا کا مشاہدہ جو جی چاہے کہتا رہے، بات وہی سچ اور وہی حق ہے جو اللہ کی کتاب نے بیان کر دی ہے۔

 اس لیے اللہ کی کتاب میں دیکھا جائے گا۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ سب سے پہلے یہ دیکھیں گے کہ جو لفظ استعمال کیا گیا ہے عربی زبان میں اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی عربی زبان میں، جس کا علم تواتر اور اجماع کے ساتھ ہمیں منتقل ہوا ہے، اس لفظ کا مفہوم کیا ہے۔ وہ لفظ جس جگہ استعمال ہوا ہے، وہاں جملے کی تالیف کس مفہوم کو قبول کرتی ہے اور سیاق و سباق کس چیز کی تصدیق کرتا ہے۔ بس یہی چیزیں دیکھی جائیں گی۔ اس کے بعد جو اطلاع بھی عربی مبین میں نازل شدہ قرآن میں ہے، وہ آخری درجہ کی صحیح اطلاع ہے۔ اگر کسی جگہ کوئی تردد پیدا ہوگا تو تاویل کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ ہاں یہ ہے کہ ہم اپنے فہم پر نظر ثانی کریں گے اور دیکھیں گے کہ کہیں ہم نے بات سمجھنے میں غلطی تو نہیں کی۔ اس کے سوا کوئی دوسرا طریقہ اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے زمانے میں جن لوگوں نے لفظ کی لسانی تحلیل کو سامنے رکھ کر ان کے معنی متعین کرنے کی کوشش کی، انھوں نے اپنی طرف سے نیا قرآن ایجاد کیا ہے۔ یہ آخری درجے کی گم راہی ہے جس کو ہم نے علم کی دنیا میں دیکھا ہے۔

میرے جلیل القدر استاذ امین احسن اصلاحی کو یہ مسئلہ پیش آیا جب انھوں نے پرانی تفسیروں میں یہ دیکھا کہ مفسرین عام طور پر یہ مانتے ہیں کہ موتی صرف کھارے پانی سے نکلتے ہیں، میٹھے پانی کے موتی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ قرآن مجید نے چونکہ یہ بات کہی ہے ’يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ‘ تو دیگر کچھ مفسرین نے اس چیز کو اپنے مشاہدے کے خلاف پا کر ’مِنْهُمَا‘ کی تاویل کی۔ جب استاذ امام اس جگہ پر پہنچے تو انھوں نے کہا کہ سب لوگ یہ کہتے ہیں، مجھے تو معلوم نہیں ہے کہ موتی کہاں کہاں سے نکلتے ہیں، لیکن اگر موتی بھی میرے سامنے آکر کہیں کہ ہم صرف کھارے پانی سے نکلتے ہیں تو میں ان کی بات ماننے سے انکار کروں گا، کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ وہ دونوں پانیوں سے نکلتے ہیں۔ اسی اذعان اور یقین کے ساتھ قرآن کو پڑھنا چاہیے۔

 (قرآن کی) کوئی چیز (انسان کو) اپنے مشاہدے اور عقلی مقدمات کے خلاف محسوس ہورہی ہو تو اپنے فہم، اپنے مشاہدے اور عقلی مقدمات پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ تاویل کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ تاویل کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات کو آپ نے کچھ عقلی مقدمات کی بنیاد پر اس کے مفہوم سے پھیر دیا۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ مفہوم مجاز ہو یا حقیقت ہو، زبان کے مسلمہ قواعد کی بنیاد پر اسے طے کیا جائے گا اور اسی پر ایمان رکھا جاے گا۔

چنانچہ جو آدمی بھی عربی زبان سے واقف ہے، وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ سلمان علیہ السلام کے معاملے میں جن سے مراد کوئی جنگلی یا پہاڑی آدمی ہے۔ ایسا کسی صورت میں بھی نہیں ہوسکتا۔ عربی زبان اس کو ایک لمحہ کے لیے بھی سننے کے لیے تیار نہیں، قبول کرنا تو دور کی بات ہے۔


سوال: ایک اور آیت کی توجیہ میں سرسید لکھتے ہیں کہ یہ جو موسیٰ علیہ السلام کو کہا گیا کہ پتھر پر آپ اپنا عصا ماریں۔ یہاں ’حجر‘ سے مراد پہاڑ اور ضرب سے مراد چلنا ہے۔ چنانچہ ’اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ‘ کے معنی یہ ہوئے کہ اپنی لاٹھی کے سہارے پہاڑ پر چلو تو جب حضرت موسیٰ پہاڑ پر چلے تو دوسری طرف ان کو چشمے پھوٹتے نظر آئے۔ سرسید چونکہ پتھر سے اس طرح پانی نکلنے کو علت و معلول کے تعلق کے خلاف سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے اس تفسیر کو درست سمجھا۔ اس تفسیر کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟

جواب: قرآن مجید وہاں پر کیا کوئی سائنسی چیز بیان کر رہا ہے جو علت و معلول کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اپنی عنایت بیان فرما رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے پیغمبر کو کہا کہ تم ایسا کرو، جب اس نے کیا تو بارہ چشمے پھوٹ گئے۔

 اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو بہت سے معجزات دیے ہیں۔ سیدنا موسیٰ کے معجزات تو بہت غیر معمولی ہیں۔ انھیں نبوت دی گئی اور انھوں نے نبوت ملتے ہی درخواست کی کہ میں تو فرعون کے پاس جا رہا ہوں، وہ ایک باجبروت بادشاہ ہے، میری بات ہی سننے کے لیے تیار نہیں ہوگا تو میرے پاس کیا سند تقرر ہے، میں کیسے جاؤں گا؟ یعنی بادشاہوں کا معاملہ یہ تو نہیں تھا کہ وہ کوئی مقدمہ چلائیں گے اور آپ وہاں پر کوئی وکیل کر لیں گے۔ وہ تو اپنے دربار میں کھڑے ہوئے یہ کہہ سکتے تھے کہ گردن مار دو تو گردن ماردی جاتی۔ اس لیے جب انھوں نے یہ درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے سند تقرر کے طور پر ان کو معجزات دیے اور ان میں آپ جانتے ہیں کہ یہ معجزہ بھی تھا کہ لٹھیا پھینکو سانپ بن جائے گی۔کیا یہ لٹھیا علت و معلول کے کسی قانون کے تحت سانپ بنتی تھی؟ اس وجہ سے یہاں پر بھی تاویل کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہاں بھی اسی طرح دیکھا جائے گا کہ عربی زبان کی رو سے اس جملے کا مطلب کیا ہے۔’اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ‘ کے جو معنی انھوں نے بیان کیے ہیں، وہ عربی زبان میں ہرگز نہیں ہو سکتے۔

بعض لوگ یہ جسارت کرتے ہیں کہ وہ ایک لفظ کی تشریح کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کس صلہ کے ساتھ کیا معنی دیتا ہے۔ فاعل اور مفعول کے بدل جانے سے اس میں کیا تغیرات ہوتے ہیں؟ تو زبان کے پہلو سے اپروچ کرنے کے بجاے وہ فاعل اور مفعول کو، کسی صلہ کو، کسی استعمال کے محل کو نظرانداز کر کے، کوئی چیز ضرب سے لے لی، کوئی چیز اس کے کسی صلہ سے لے لی، کوئی اس کے کسی متعلق سے لے لی، ان کو ملا کر ایک نئے معنی پیدا کر لیتے ہیں۔ عربی زبان اس سے بالکل واقف نہیں ہے۔

قرآن مجید نے اصرار کے ساتھ یہ کیوں کہا ہے کہ یہ ’بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ‘،یعنی ایک واضح عربی زبان میں ہے اور کہا ہے کہ ’بلسانك‘ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی زبان میں ہے۔ اس زبان میں لفظ کا جو مفہوم، تالیف جملہ کا جو تقاضا اور جو سیاق و سباق کہتا ہے، بس قرآن کے معنی وہی ہیں۔ اس کو سمجھنے میں غلطی لگ سکتی ہے۔ اس لیے میں نے عرض کیا کہ اگر کوئی چیز خلاف مشاہدہ ہے تو آپ اپنے فہم پر نظرثانی کریں گے، لیکن اگر بار بار مراجعت کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کہ قرآن تو یہی کہہ رہا ہے تو پھر مر جائیں گے، پر قرآن ہی کی بات صحیح ہوگی۔


سوال: فکر فراہی اور سرسید کے اصول تفسیر میں کیا فرق ہے؟

جواب: امام فراہی کے ہاں یہ طے ہے کہ عربی زبان اور اس کے اسالیب جس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بولی جاتی تھی، بالکل اسی کو سامنے رکھ کر ہم قرآن مجید کی مراجعت کریں گے۔ ہمارے عقلی مقدمات اور ہمارے مشاہدات میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہوگی جو قرآن پر اثرانداز ہو۔ قرآن مجید سے جو بات سمجھ میں آئے گی، اس کی روشنی میں ان چیزوں کو دیکھا جائے گا۔

سر سید احمد خان مرحوم کی بہت سی قومی خدمات ہیں اور اس لحاظ سے وہ ہمارے قومی رہنماؤں میں نہایت ممتاز شخصیت ہیں۔ اس میں کوئی دورائیں نہیں ہوسکتیں، لیکن قرآن مجید کی تفسیر یا قرآن مجید کے فہم سے متعلق جو کچھ انھوں نے خواہ اصول میں لکھا ہے، خواہ اطلاق میں ہمارے سامنے آیا ہے، وہ بالکل ایک انحراف ہے، اس سے زیادہ کوئی چیز نہیں۔[1]

ـــــــــــــــــــــــــ

۱- https://www۔youtube۔com/watch?v=3pirduBc-gM

B