HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

توبہ (۲)

آیت ۱

اَلَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا٘ اِنَّنَا٘ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ. اَلصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْمُنْفِقِيْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِيْنَ بِالْاَسْحَارِ. (آل عمران۳: ۱۶- ۱۷)
’’(اللہ اپنے اُن بندوں کی خبر رکھنے والا ہے)، جو یہ دعا کرتے رہتے ہیں، اے ہمارے پروردگار، ہم ایمان لائے پس تو ہمارے گناہوں کو بخش اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ جو صابر، راست باز، فرماں بردار، راہ خدا میں خرچ کرنے والے اور اوقات سحر میں مغفرت چاہنے والے ہیں۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ  اِس كی تفسیر كرتے ہوئے لكھتے ہیں:

’’’استغفار‘ کے معنی ہیں: اللہ تعالیٰ سے تضرع و زاری[1] کہ وہ اپنے بندے کی کوتاہیوں، گناہوں اور جرموں پر پردہ ڈالے۔ یہ تضرع اس حیا اور خوف کا نتیجہ ہے جو بندے کے دل میں اپنے پروردگار کے بے پایاں احسانات و انعامات کے احساس اور اس کے عدل و انتقام کے تصور سے پیدا ہوتی ہے۔  اس کے ساتھ وقت سحر کی قید لگی ہوئی ہے جس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ یہ وقت قبولیت استغفار کے لیے سب سے زیادہ موزوں، ریا کی آفتوں سے سب سے زیادہ محفوظ ، دل جمعی اور آیات الٰہی میں تفکر و تدبر کے لیے سب سے زیادہ سازگار ہے ۔ ...یہ رب کریم کا عظیم احسان ہے کہ اس نے استغفار کی ہدایت کے ساتھ ساتھ استغفار کی قبولیت کے لیے سب سے زیادہ سازگار وقت کا بھی خود ہی پتا دے دیا۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۴۴)

اِس آیت كے الفاظ اور اِس كی تفسیر سے درج ذیل نكات ہمارے سامنے آتے ہیں:

۱۔ ’استغفار‘ کے معنی بندے كا اپنی کوتاہیوں، گناہوں اور جرموں پر اللہ تعالیٰ سے گریہ و فریاد كرتے ہوئے بخشش طلب كرنا ہے۔

۲۔ خدا كے احسانات و انعامات اُس كے ساتھ تعلق و محبت كا جو گہرا احساس پیدا كرتے ہیں، اُس كی بنا پر انسان اپنی نافرمانی پر خدا سے شرم و حیا محسوس كرتا ہے، پھر اِس كے ساتھ خداے عادل كے عدل و انتقام کا تصوراُس میں خدا كے ڈر كو جنم دیتا ہے۔ 

۳۔ چنانچہ خدا سے یہ حیا اور خوف اپنی غلطیوں اور كوتاہیوں پر انسان میں اُس كے حضور میں گریہ وفریاد كا باعث بنتے ہیں۔

۴۔ خدا كے نزدیك اِس گریہ و فریاد كا بہترین وقت وقت سحر ہے۔چنانچہ یہی قبولیت استغفار كا موزوں ترین وقت ہے۔

آیت ۲

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْﵴ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا . (نوح۷۱: ۱۰)
’’(اُنھیں سمجھاتے ہوئے) میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگ لو۔ بے شک، وہ بڑا معاف کر دینے والا ہے۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس كی تفسیر میں لكھتے ہیں:

’’مطلب یہ ہے کہ تمھارا استغفار تمھارے رب کی رحمت کو جوش میں لائے گا اور وہ تمھیں رزق کی فراوانی اور مال و اولاد کی کثرت سے بہرہ مند کرے گا۔ 
...سب چیزوں کا مالک اللہ ہی ہے اور اس کی رحمت توبہ و استغفار سے حاصل ہوتی ہے۔ تم یہ کام کرو اور پھر دیکھو کہ کس طرح اس کی رحمت کی گھٹائیں امنڈ امنڈ کر آتیں اور تم پر برستی ہیں!
...سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے افادات سے ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ نماز استسقا میں صرف استغفار پر کفایت فرمائی، دعا میں بارش کا کوئی ذکر نہیں آیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ امیرالمومنین، آپ نے دعا میں بارش کا تو کوئی ذکر کیا ہی نہیں! امیر المومنین نے انھی آیات کی روشنی میں لوگوں کو بتایا کہ خدا کی رحمت کی کلید استغفار ہے اور یہ کام ہم نے کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ استغفار ہی جالب رحمت بنے گا۔ ہماری ضرورت اور احتیاج کو ہمارا رب خود ہم سے بہتر جانتا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۸/ ۵۹۷)

اِس آیت كے الفاظ اور اِس كی تفسیر سے درج ذیل نكات ہمارے سامنے آتے ہیں:

۱۔ ہمارا اور سب چیزوں کا مالك اللہ تعالیٰ ہی ہے، اور اس کی رحمت توبہ و استغفار سے حاصل ہوتی ہے۔

۲۔ انسان كا استغفار كرنا اللہ رب العزت كی رحمت کو جوش میں لاتا ہے۔

۳۔ خدا جب انسان پر رحمت كا اراده كرتا ہے تو پھر دراصل اُسے اِس كی ضرورت نہیں ہوتی كہ انسان خدا كو یہ بتائے كہ مجھے كیا چاہیے۔

آیت ۳

كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ. وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ.(الذاریات۵۱: ۱۷- ۱۸)
’’ راتوں میں بہت کم سوتے تھے۔ اوراُن کے آخری وقتوں میں (اپنے پروردگار سے) مغفرت مانگتے تھے۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس كی تفسیر میں لكھتے ہیں:

’’قرآن اور حدیث، دونوں سے ثابت ہے کہ استغفار کے لیے سب سے زیادہ سازگار وقت آخر شب اور سحر کا وقت ہے۔ اس وقت، جیسا کہ مشہور حدیث قدسی سے ثابت ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت استغفار کرنے والوں کے انتظار میں ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت سے فائدہ اٹھانے کا حوصلہ صرف طالب صادق ہی کر سکتے ہیں۔ ہر بوالہوس یہ حوصلہ نہیں کر سکتا کہ رات رکوع و سجود میں گزارے۔ پھر صبح کو مغفرت کا سائل بن کر اپنے رب کے دروازے پر حاضر ہو۔ اللہ کے جو بندے یہ حوصلہ دکھاتے ہیں، ان کا یہ حوصلہ ہی ان کے اخلاص کا ضامن ہوتا ہے، اس وجہ سے اللہ کی رحمت ان کی طرف ضرور متوجہ ہوتی ہے۔ اصل جالب رحمت تو بندے کا خلوص ہے۔ جب یہ چیز موجود ہے تو اللہ تعالیٰ کے پاس فضل و رحمت کی کیا کمی ہے!‘‘ (تدبر قرآن ۷/ ۵۹۳)

اِس آیت كے الفاظ اور اِس كی تفسیر سے درج ذیل نكات ہمارے سامنے آتے ہیں:

۱۔ درج بالا آیت كی طرح اِس آیت سے بھی یہی حقیقت سامنے آتی ہے كہ استغفار کے لیے سب سے زیادہ سازگار وقت آخر شب اور سحر کا وقت ہے، كیونكہ اِس وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت استغفار کرنے والوں کے انتظار میں ہوتی ہے۔

۲۔ یہ انسان كی بڑی خوش بختی ہو گی كہ وه رات تو رکوع و سجود میں گزارے اور پھر بوقت سحر مغفرت کا سائل بن کر اپنے رب کے دروازے پر حاضر ہو۔

آیت ۴

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا٘ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَﵣ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَاﵐ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ. (البقرہ ۲: ۱۲۸)
’’پروردگار، اور ہم دونوں کو تو اپنا فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد سے بھی اپنی ایک فرماں بردار امت اٹھا اور ہم کو ہماری عبادت کے طریقے بتا اور ہم پرعنایت کی نظر فرما۔ اِس میں شبہ نہیں کہ تو ہی بڑاعنایت کرنے والا (اور اپنے بندوں پر) رحم فرمانے والا ہے۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس كی تفسیر میں لكھتے ہیں:

’’ ...توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے اور متوجہ ہونے کے ہیں۔ اس کا صلہ جب ’علٰي‘ کے ساتھ آتا ہے تو یہ ... اس بات پر دلیل ہوتا ہے کہ اس کے اندر رحم کا مضمون پوشیدہ ہے۔ رحم کے اس پوشیدہ مضمون کو یہاں ’اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ‘ کہہ کر کھول بھی دیا ہے۔ بندہ جب اپنے رب کی طرف خشیت کے ساتھ رجوع کرتا ہے تو رب رحیم رحمت کے ساتھ بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۳۳۹)

اِس آیت كے الفاظ اور اِس كی تفسیر سے درج ذیل نكات ہمارے سامنے آتے ہیں:

۱۔ توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے اور متوجہ ہونے کے ہیں۔

۲۔ بندہ جب اپنے رب کی طرف خشیت کے ساتھ رجوع کرتا ہے تو رب رحیم رحمت کے ساتھ بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

آیت ۵

وَيَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِﵧ قُلْ هُوَ اَذًيﶈ فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِي الْمَحِيْضِﶈ وَلَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰي يَطْهُرْنَﵐ فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُﵧ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ. (البقرہ ۲: ۲۲۲)
’’اور (نکاح کا ذکر ہوا ہے تو) وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ (عورتوں کے) حیض کا کیا حکم ہے؟ کہہ دو، یہ ایک طرح کی نجاست ہے۔ چنانچہ حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ خون سے پاک نہ ہو جائیں، اُن کے قریب نہ جاؤ۔ پھر جب وہ نہا کر پاکیزگی حاصل کر لیں تو اُن سے ملاقات کرو، جہاں سے اللہ نے تمھیں (اُس کا) حکم دیا ہے۔ یقیناً اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو توبہ کرنے والے ہوں اور اُن کو جو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہوں۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس كی تفسیر میں لكھتے ہیں:

’’ ...توبہ اور تطہر کی حقیقت پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ توبہ اپنے باطن کو گناہوں سے پاک کرنے کا نام ہے اور تطہر اپنے ظاہر کو نجاستوں اور گندگیوں سے پاک کرنا ہے۔ اس اعتبار سے ان دونوں کی حقیقت ایک ہوئی اور مومن کی یہ دونوں خصلتیں اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ ان سے محروم ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۲۶)

اِس آیت كے الفاظ اور اِس كی تفسیر سے درج ذیل نكات ہمارے سامنے آتے ہیں:

۱۔ توبہ كے عمل سے انسان اپنے باطن کو گناہوں سے پاک کرتا ہے ۔

۲۔ اور تطہر كے عمل سے انسان اپنے ظاہر كو نجاستوں اور گندگیوں سے پاک کرتا ہے ۔

۳۔ توبہ اور تطہر ،دونوں کی حقیقت پاكیزگی ہے اور انھیں اختیار كر كے انسان دراصل اپنے ظاہر و باطن، دونوں كو پاكیزه بناتا ہے۔

۴۔ مومن کی دونوں خصلتیں ، یعنی توبہ اور تطہر اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں ۔

۵۔ جو لوگ توبہ اور تطہر كی خصلت سے عاری ہوتے ہیں، وه اللہ تعالیٰ كے نزدیک مبغوض ہیں۔ 

آیت ۶

وَهُوَ الَّذِيْ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَيَعْفُوْا عَنِ السَّيِّاٰتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ. (الشوریٰ ۴۲: ۲۵)
’’(یہ لوگ اُس کی طرف بڑھیں کہ) وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور اُن کی برائیوں سے درگذر فرماتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لكھتے ہیں:

’’یہ ان (مخاطب) لوگوں کو توبہ اور اصلاح کی ترغیب ہے کہ اب بھی موقع باقی ہے کہ تم چاہو تو توبہ و اصلاح کر کے اپنے کو خدا کے غضب سے بچا سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی مہربان اور اپنے بندوں کے گناہوں سے درگذر فرمانے والا ہے، ورنہ یاد رکھو کہ جو تم کر رہے ہو، اس سے وہ اچھی طرح واقف ہے۔ اپنا کوئی جرم بھی اس سے چھپا نہ سکو گے۔
... اہل ایمان کی روش اور ان کے انجام کو ان کے سامنے رکھا ہے کہ جس طرح انھوں نے اس دعوت پر لبیک کہنے کی توفیق پائی اور اس کے صلہ میں ان پر دنیا و آخرت میں مزید افضال ہوں گے، اسی طرح یہ لوگ بھی چاہیں تو ان افضال کے سزاوار بن سکتے ہیں، ورنہ یاد رکھیں کہ کفار کے لیے خدا کے ہاں سخت عذاب ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۷/ ۱۶۸)

اِس آیت كے الفاظ اور اِس كی تفسیر سے درج ذیل نكات ہمارے سامنے آتے ہیں:

۱۔ انسان جب تك زنده ہو، اُس كے لیے توبہ كرنے اور اپنی اصلاح كرنے كا موقع ہوتا ہے۔

۲۔  اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے اور وه اُن کے گناہوں سے درگذر فرمانے والا ہے۔

۳۔ اللہ تعالیٰ انسان كے تمام اعمال سے واقف ہوتا ہے۔ انسان قیامت كے دن اُس سے اپنا كوئی عمل چھپا نہیں سكے گا۔

۴۔ آخرت میں خدا كے فرماں بردار انعامات كے حق دار قرار پائیں گے اور سركش و نافرمان عذاب سے دوچار ہوں گے۔

۵۔ چنانچہ انسان كو چاہیے كہ وه اپنی زندگی میں توبہ و اصلاح كا موقع ہرگز نہ گنوائے اور خدا كے حضور میں سچی توبہ كرے۔

آیت ۷

وَعَلَي الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْاﵧ حَتّٰ٘ي اِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوْ٘ا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّا٘ اِلَيْهِﵧ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوْبُوْاﵧ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ.(التوبہ ۹: ۱۱۸)
’’اور ان تینوں پر بھی رحمت کی نگاہ کی جن کا معاملہ اٹھا رکھا گیا تھا، یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی اور ان کی جانیں ضیق میں پڑ گئیں اور انھوں نے اندازہ کر لیا کہ خدا سے خدا کے سوا کہیں مفر نہیں۔ پھر اللہ نے ان پر عنایت کی نظر کی تاکہ وہ توبہ کریں۔ بے شک، اللہ ہی ہے جو توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس كی تفسیر میں لكھتے ہیں:

’’ ...توبہ کی ابتدا اصلاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ وہی پہلے بندے کے دل میں رجوع الی اللہ کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ پھر جب بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوبارہ اس پر رحمت کی نظر فرماتا اور اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ اگر اس کے اندر ایمان ہو تو ہر گناہ پر اس کا دل کڑھتا اور آزردہ ہوتا ہے اور ایک احساس ندامت کے ساتھ اس کے اندر اپنے رب کی طرف رجوع ہونے کا جذبہ ابھرتا ہے۔ اگر آدمی اپنے اس جذبے کے مطابق عمل کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل اور زبان پر وہ الفاظ اور کلمات بھی جاری فرما دیتا ہے جو اس کو پسند ہیں اور جن کو وہ شرف قبولیت بخشتا ہے۔ اس سے محروم صرف وہ بدقسمت لوگ رہتے ہیں جن کا ضمیر کند اور جن کا ایمان مردہ ہو جایا کرتا ہے۔ ایسے لوگ خدا سے بے پروا ہو جایا کرتے ہیں، جس کی سزا ان کو یہ ملتی ہے کہ خدا بھی ان سے بے پروا ہو جاتا ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۳/ ۶۶۰)

اِس آیت كے الفاظ اور اِس كی تفسیر سے درج ذیل نكات ہمارے سامنے آتے ہیں:

۱۔ توبہ كی ابتدا اللہ تعالیٰ كی طرف سے ہوتی ہے، یعنی خدا پہلے بندے سے توبہ كرانے كا اراده كرتا ہے ، چنانچہ وه اُس میں توبہ كا شعور ،  اُس كی ضرورت و اہمیت اور جذبہ پیدا كرتا ہے اور پھر اُسے اِس كی توفیق بھی دیتا ہے۔ گناه كے بعد بندے پر یہ خدا كی پہلی رحمت ہوتی ہے۔

۲۔ صاحب ایمان فطری طور پر اپنے گناه پر آزرده ہوتا اور كڑھتا ہے اور اِس كے نتیجے میں وه احساس ندامت كے ساتھ خدا كی طرف رجوع كرتا ہے۔

۳۔ پھر خدا كی طرف سے انسان پر مزید رحمت یہ ہوتی ہے كہ وه اُسے توبہ كے لیے شرف قبولیت پانے والے الفاظ بخشتا ہے۔

۴۔ اور اِس كے بعد خدا اُس پر دوسری رحمت كرتے ہوئے اُس كی توبہ قبول فرماتا ہے۔

۵۔ البتہ جن کا ضمیر کند ہو، ایمان مردہ ہو اور وه خدا سے بے پروا ہوں ، اُن كو خدا كی طرف سے یہ سزا ملتی ہے کہ خدا بھی ان سے بے پروا ہو جاتا ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

[1] ۔تضرع :الله تعالیٰ كے سامنے عاجزی سے گڑگڑانا ۔زاری : رونا ، گریہ و بُكا، آه و فریاد۔

B