علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترتیب و تعلیق: ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
سیدناحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اس طورپر ایک بڑے مظلوم صحابی ہیں کہ ان پر بڑاجھوٹ بولاگیاہے، اوریہ ظلم ان پر ان راویوں نے زیادہ ڈھایاہے جوان کی محبت کا دم بھرتے ہیں۔سیدناعلی کے مناقب بے شمارہیں اورصحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ان کی فضیلت کے اثبات کے لیے ہرگز بھی اباطیل واکاذیب کی ضرورت نہ تھی،مگرحب علی میں مبالغہ کرنے والوں نے ان کے بارے میں منہ بھربھرکے جھوٹ بولاہے جواسلام کے مستندذخیرۂ حدیث تک میں راہ پاگیاہے۔ان ہی میں سے ایک مشہور، مگر موضوع روایت کی تحقیق پیش خدمت ہے۔(غ)
امام احمدبن حنبل فرماتے ہیں :
۱۔حدثنا ابن نمیرثنا الأعمش عن عدي بن ثابت عن زر بن حبیش قال: قال علی رضی اللّٰہ عنه: أنه مما عهد إليّ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم أنه لایبغضني إلا منافق ولا یحبني إلا مؤمن.(مسند احمد، طبع قدیم ہندی، ص ۸۴)
ترجمہ :زِربن حبیش کہتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جوخاص باتیں بتائیں، ان میں یہ بھی تھی کہ مجھ سے نفرت نہیں کر سکتا، مگرکوئی منافق اورمجھ سے محبت نہیں کر سکتا، مگر وہ جومومن ہو۔ (غ)
تراجم :عدی بن ثابت:عدی بن ثابت انصاری شیعوں کی مسجدکا امام اوران کا خاص واعظ تھا۔ابوحاتم فرماتے ہیں:’کان إمام مسجد أهل الشیعة وقاصهم‘۔ یحییٰ بن معین نے کہاہے :شیعی مفرط، (یعنی غالی شیعہ تھا)۔ ابواسحاق جوزجانی کہتے ہیں: ’مائل عن القصد‘ (غلوکارتھا)۔دارقطنی کا قول ہے:’کان غالیًا في التشیع‘ (یعنی غالی شیعہ تھا)۔اس شخص میں یہ بھی مرض تھاکہ آثارموقوفہ کوآثارمرفوعہ بناکربیان کر دیا کرتا تھا۔ شعبہ نے کہاہے: ’کان من الوضاعین‘ (حدیثیں گھڑاکرتاتھا) (ابن حجرالعسقلانی،تہذیب التہذیب حرف العین ص ۱۴۹، المجلد السابع، دارالفکر بیروت الطبعۃ الاولی ۱۹۸۴ء (غ)۔ قوی الحفظ اورصوم و صلاۃ کا پابند تھا، اس لیے بعض حضرات نے اسے ثقہ قراردیاہے، حالاں کہ رافضی ہونااورثقہ ہونامتضادبات ہے۔ اس نے اپنے والدسے اورناناعبداللہ بن یزیدالخطمی سے اوربراء بن عازب وسلیمان بن صردوعبداللہ بن اوفی و زید بن وہب وزِربن حبیش وابوحازم اشجعی ویزیدبن براء بن عازب وابوبردہ بن ابی موسیٰ اشعری و سعید بن جبیر و ابو راشد صاحب عمارسے حدیثیں روایت کی ہیں۔اور اس سے ابواسحاق سبیعی و ابو اسحاق شیبانی و یحییٰ بن سعید انصاری و اعمش و زیدبن ابی انیسہ و حجاج بن ارطاۃ واسماعیل السدی وشعبہ و مسعر و فضیل بن مرزوق و عبد الجبار بن العباس واشعث بن سواروغیرہم نے۔
ثابت اس کا باپ تھا یا دادا، اس کے متعلق اہل علم میں کافی اختلاف ہے۔ابن عبدالبرنے ثابت کوباپ اور عبید بن عازب کواس کا دادابتایاہے۔پس یہ عدی بن ثابت بن عبیدبن عازب ہے اوردیگراہل علم نے ابان کوباپ اور ثابت بن قیس کوداداقراردیاہے۔اوراس کا نام ونسب یوں بتایاہے: عدی بن ابان بن ثابت بن قیس بن الخطیم الانصاری۔پس عدی کا باپ بھی مجہول ہے اوردادابھی۔لہٰذا وہ احادیث جوعدی بن ثابت عن ابیہ عن جدہ کے طریق سے مروی ہیں، غیرثابت ہیں۔برقانی کہتے ہیں کہ میں نے دارقطنی سے اس اسنادکے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا: ’لا یثبت ولا یعرف أبوہ ولا جدہ‘ (یہ سندثابت نہیں کہ اس کا نہ دادا معلوم ہے نہ باپ)۔ عدی بن ثابت نے ۱۱۶ھ میں وفات پائی۔ ’ذکرہ ابن حبان في الثقات وقال: مات في ولایة خالد علی العراق وقال ابن نافع مات ست عشرة ومأة‘ (ابن حجرالعسقلانی،تہذیب التہذیب، ایضاً ص ۱۵۰ ) (ابن حبان نے اس کوکتاب ا لثقات میں ذکرکیاہے اورکہاکہ اس کی وفات اس وقت ہوئی جب عراق پر خالد گورنر تھا۔ ابن نافع نے کہاکہ سنہ ۱۱۰ میں مراہے)۔ عدی کوبہت سے اہل علم نے ثقہ بتایاہے، مگرہم بیان کرچکے ہیں کہ ان توثیق کرنے والوں کواس کی قوت حفظ اورپابندی صوم وصلاۃ سے دھوکا لگا ہے۔ رافضی شخص اور غلو پسند شیعی ہونے کی وجہ سے اس کے ثقہ ہونے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔
۲۔ ’حدثنا وکیع ثنا الأعمش عن عدی بن ثابت عن زِربن حبیش عن علي قال: عهد إليّ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم أنه لا یحبک إلا مؤمن ولا یبغضك إلا منافق‘ (ص ۹۵ ، ص ۱۲۸) مسند احمدبن حنبل(ترجمہ اسی کے مثل ہے جواوپرگزرا)۔
وکیع سے اسی اسنادکے ساتھ امام احمدکے علاوہ واصل بن عبدالاعلیٰ نے بھی واصل سے نسائی نے بہ ایں لفظ: ’عهد إليّ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم أن لا یحبني إلا مؤمن ولا یبغضني إلا منافق‘ (سنن نسائی ج ۲ ص ۲۷۲، طبع ہندی،کتاب الایمان وشرائعہ، باب علامۃ المنافق)۔
۳۔ عبد اللہ بن نمیر و وکیع کے علاوہ ابومعاویہ و یحییٰ بن عیسی ٰالرملی وفضل بن موسیٰ نے بھی اعمش سے اسی اسناد کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے۔ ابومعاویہ :اورعبداللہ بن نمیر و وکیع تینوں سے بواسطہ علی بن محمدابن ماجہ نے :
’عن علي قال عهد إليّ النبي الأمي صلی اللّٰه علیه وسلم أنه لا یحبني إلا مؤمن ولا یبغضني إلا منافق‘ ص ۱۲فضل علی رضی اللہ عنہ)۔ نیز ابومعاویہ و وکیع دونوں سے بواسطہ ابوبکربن ابی شیبہ اورصرف ابومعاویہ سے بواسطہ یحییٰ بن یحییٰ امام مسلم نے بہ ایں لفظ :
’عن زِرقال: قال علي: والذي فلق الحبة وبرأ النسمة أنه لعهد إليّ نبي اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم أن لا یحبني إلا مؤمن ولا یبغضني إلا منافق‘ (فتخ الملہم ۱ / ۲۴۲)’’زِربن حبیش کہتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے دانہ کو پھاڑا اور روح کو پیدا کیا بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جوخاص باتیں بتائیں، ان میں یہ بھی تھی کہ مجھ سے نفرت نہیں کر سکتا، مگر کوئی منافق اورمجھ سے محبت نہیں کر سکتا، مگر وہ جومومن ہو‘‘۔(غ)
یحییٰ الرملی : سے ان کے برادرزادہ عیسیٰ بن عثمان نے ان سے ترمذی نے بعینہٖ مثل ابن ماجہ، مگراس کے آخرمیں یہ اضافہ ہے: ’قال عدي بن ثابت: أنا من القرن الذین دعالهم النبي صلی اللّٰه علیه وسلم‘ ’’عدی بن ثابت نے کہاکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاے خیرفرمائی تھی‘‘(ج ۳ ص ۲۱۵ مناقب علی )۔
فضیل بن موسیٰ: سے بواسطہ یوسف بن عیسیٰ نسائی نے بعینہٖ مثل ابن ماجہ (ج ۲ ص ۲۷۰ کتاب الایمان و علامۃ الایمان ) واضح رہے کہ ترمذی کی روایت میں عدی بن ثابت کا جوقول مذکورہے یعنی ’انا من القرن الذین دعالهم النبي صلی اللّٰه علیه وسلم‘،تو اس کا اس حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس میں کسی دعا کا ذکرنہیں ہے۔ فی الواقع یہ کسی راوی کا یاخودترمذی کا وہم ہے۔عدی بن ثابت کے اس قول کا صحیح مقام وہ روایت ہے جوغدیرخم کے بارہ میں عدی بن ثابت نے حضرت براء بن عازب کی طرف منسوب کی ہے جس کی تخریج ابن ماجہ نے کی ہے اورجس کوہم ص ۲۵۹ (یعنی مسودہ ارشاد الطالب شرح مسند علی ابن ابی طالب کے صفحہ ٔ مذکور پر) درج کرآئے ہیں۔اس میں مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کا ہاتھ پکڑ کر دعا فرمائی تھی: ’اللهم وال من والاه وعاد من عاداہ‘یہ دعامحبان علی کے لیے دعاے خیرہے اوردشمنان علی کے حق میں بددعا۔یہ حدیث بیان کرکے عدی بن ثابت نے کہاکہ میں بھی اسی گروہ میں سے ہوں جن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی تھی، یعنی میں محبان و دوست داران علی میں سے ہوں، اس لیے میں اس دعاے خیرکا مستحق ہوں۔پس اس بات سے قطع نظر کہ یہ فی الواقع خداناترسی کی انتہاہے کہ اس شخص نے خودہی یہ دعاتصنیف کرکے براء بن عازب اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ترازی کی اورخودہی اس کا مستحق بن گیا۔اس کے قول مذکورکا محل یہ ہی ہے نہ کہ وہ روایت جوترمذی نے نقل کی ہے۔
یہ حدیث سنداً غریب اور حقیقتاً موضوع ہے اورغالباً عدی بن ثابت کی گھڑی ہوئی ہے۔غریب اس لیے کہ عدی بن ثابت کے علاوہ زِر بن حبیش سے اورکسی شخص نے اس کی روایت نہیں کی۔نہ زِر بن حبیش کے علاوہ اصحاب علی میں سے کسی اورسے مروی ہے۔اورموضوع اس لیے ہے کہ اس کا مقتضایہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جس کوبھی محبت ہو،وہ مومن ہوگااورجوشخص بھی حضرت علی سے اپنے دل میں بغض رکھتا ہو، وہ منافق ہوگا، حالاں کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔خودحضرت علی کے دورمیں ہزاروں مخلص اورپکے سچے اہل ایمان تھے جن کے دل میں حضرت علی سے نفرت و عداوت بیٹھی ہوئی تھی (گرچہ اس کے اسباب سیاسی تھے اوراس دورمیں باہمی غلط فہمیوں کی جو فضابن گئی تھی وہ تھی)اورکتنے ہی (اپنے دعوے کی حد تک) حضرت علی کوچاہنے والے تھے جونفاق اوراسلام دشمنی میں مبتلاتھے۔اسی طرح حضرت علی کے عہدسے لے کرآج تک بے شمار انسان ایسے گزرے ہیں اوراب بھی ہیں جوحب علی کی وجہ سے ہی ایمان واسلام کے دائرہ سے خارج ہوگئے ہیں۔ بے شک ہرمسلمان کے دل میں دیگر صحابہ ٔکرام کی محبت کی طرح حضرت علی کی محبت بھی ہونی چاہیے لیکن خاص حضرت علی کی محبت ہرگز اس ایمان کا دارومدارنہیں جس کی دعوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم لے کرآئے۔
عدی بن ثابت کی یہ روایت خودحضرت سیدنا علی کی تصریح کے بھی خلاف ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جب لوگوں نے پوچھاکہ ہمیں وہ مخصوص باتیں بتائیے جوصرف آپ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھیں تو انھوں نے سختی سے اس بات کی تردیدکی اورفرمایا: ’ما عهد إليّ رسو ل اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم شیئًا لم یعهدہ إلی الناس‘، یعنی آں جناب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی خاص ایسی بات نہیں بتائی جودوسروں کونہ بتائی ہو۔حالاں کہ عدی بن ثابت کی یہ روایت بتاتی ہے کہ حضرت علی کوبہت سی خاص باتیں بتائی گئی تھیں۔ ازاں جملہ یہ کہ: ’لا یحبک إلا مؤمن ولا یبغضك إلا منافق‘۔
واضح رہے کہ میں ان توجیہات سے بے خبرنہیں ہوں جوحافظ ابن حجروغیرہ نے اس حدیث کے بارہ میں کی ہیں۔ لیکن میں تاویل سے کتے کوبکری بنادینے کا قائل نہیں ہوں۔تاویل و توجیہ کی ضرورت تو جب ہو کہ یہ حدیث صحیح ہو۔اورامام مسلم کا صحیح میں اسے ثبت کردیناان کی ذاتی راے پر مبنی ہے۔جس کا صحیح ہوناضروری نہیں۔ ہوسکتاہے کہ عدی بن ثابت کا رافضی وغالی شیعہ ہوناان کے علم میں نہ آیاہو۔یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے اس حدیث کودرخوراعتنانہیں سمجھااورصحیح میں اسے درج نہیں کیا۔اورنقدحدیث میں یقیناً امام بخاری امام مسلم سے بدرجہا فائق ہیں۔ اس حدیث کے علاوہ بھی اور بھی کئی موضوع حدیثیں امام مسلم درج صحیح کرگزرے ہیں جیساکہ اہل علم کومعلوم ہے۔
دروغ باف واضعین نے اس حدیث کی روایت کی تہمت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہاوابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ پر بھی لگائی ہے۔مناسب ہوگاکہ ان دونوں روایتوں کا بھی مطالعہ کرلیاجائے۔
ترمذی نے کہاہے: ’حدثنا واصل بن عبد الأعلی نا محمد بن فضیل عن عبد اللّٰه بن عبد الرحمٰن أبي نصر عن المساور الحمیری عن أمه قالت: دخلت علي أم سلمة سمعتها تقول: کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم یقول: لا یحب علیًا منافق ولایبغضه مؤمن‘ (ج۲ مناقب علی )عبداللہ بن عبدالرحمٰن یعنی ابونصر نے مساور حمیری سے اور اس سے ابونصر کی ماں نے روایت کی ہے کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس گئی توان کویہ کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے کہ علی سے کوئی منافق محبت نہیں رکھ سکتااورنہ ان سے کوئی مومن بغض رکھ سکتاہے۔
عبداللہ بن عبدالرحمٰن ابو نصر ضبی کوفی نے یہ حدیث المساور الحمیری سے روایت کی ہے اوراس نے اپنی ماں سے۔ یہ مساور حمیری کون تھا، کتب رجال سے اس کا کوئی سراغ نہیں لگتا۔نہ اس کے ثقہ یاغیرثقہ ہونے کا کوئی ذکرہے۔حافظ ابن حجرنے اس مجہول شخص کے متعلق صرف یہ لکھاہے کہ:’قرأت بخط الذهبي أنه منکر‘، یعنی میں نے اس کے بارے میں حافظ ذہبی کی یہ تحریرپڑھی ہے کہ مساورکی یہ حدیث منکرہے۔ (تہذیب التہذیب ص۹۴، المجلد العاشر، دار الفکر بیروت، الطبعۃ الاولی ۱۹۸۴ء (غ )۔ پس ذہبی نے اس شخص کو منکر الحدیث، یعنی غلط بیان و غلط گوشحص قراردیاہے۔پھراس کی والدہ بھی بالکل مجہول ہے مجہول الاسم بھی اور مجہول الحال بھی۔مساورسے صرف یہ دوحدیث مروی ہیں جن کی اس نے اپنی ماں سے ہی روایت کی ہے۔ اور مساور سے ان کی روایت صرف ابونصر ضبی نے کی ہے۔ایک حدیث تو یہی ہے جس کی تخریج صرف ترمذی نے کی ہے۔اورآخرمیں لکھ دیاہے کہ ’ھذاحدیث حسن غریب‘ اورایک یہ کہ جوعورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہراس سے راضی ہوتووہ جنتی ہے۔اس کی تخریج ابن ماجہ وترمذی نے کی ہے۔ظاہرہے کہ جس حدیث کی اسنادایسی مظلم وتاریک ہواس کو حسن قراردیناقطعاً غلط ہے۔
میں کہتاہوں کہ عیاں راچہ بیاں۔یہ مساور حمیری یقیناً کوئی رافضی ہوگااوریہ حدیث اسی کی گھڑی ہوئی ہے۔ اورچونکہ محمدبن فضیل اور ابونصر، دونوں شیعہ تھے اوراگرچہ اہل علم نے روایت حدیث میں ان کی توثیق کی ہے۔مگرفضیلت علی کے باب میں کسی حدیث کا مل جاناخواہ وہ کتنی ہی ساقط وردی کیوں نہ ہوشیعی شخص کے لیے نعمت جلیلہ کا حکم رکھتاہے۔اس لیے ثقہ سے ثقہ شیعی حضرات بھی فضل علی کے بارے میں احتیاط وتورع سے بے بہرہ ہوجاتے تھے،اورجوں ہی کوئی ایسی بات ان کے کان میں پڑتی، اس کی روایت کرڈالتے تھے۔پس اسی عادت کی بناپر ان لوگوں نے اس موضوع حدیث کوروایت کرڈالا۔اللہ تعالیٰ انھیں معاف فرمائے۔محبت میں آدمی اندھا ہو جاتا ہے، ورنہ کون نہیں جانتاکہ محبان علی میں سے بہت سے لوگ قطعاً کفریہ عقائدکے حامل تھے اور ہیں اورمبغضان علی میں سے بہت سے لوگ مومن تھے اورہیں۔
ترمذی ہی فرماتے ہیں: ’حدثنا قتیبه ثنا جعفر بن سلمان عن أبي ہارون العبدي عن أبي سعید الخدري قال: إنا کنا لنعرف المنافقین نحن معشر الأنصار ببغضهم علی بن أبي طالب‘ (ج ۲ ص ۲۱۲)ابوہارون عبدی کذاب نے حضرت ابوسعیدخدری کی طرف منسوب کرکے کہاکہ انھوں نے کہاتھاکہ ہم گروہ انصارمنافقین کویوں پہچان لیتے تھے کہ وہ علی سے بغض رکھتے تھے۔
ترمذی نے اس پر یہ تبصرہ کیاہے: ’هذا حدیث غریب وقد تکلم شعبة في أبي هارون العبدي‘ (یہ حدیث غریب ہے اورشعبہ نے ابوہارون العبدی پر کلام کیاہے )۔ترمذی کا یہ تبصرہ نہایت سطحی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترمذی کواس قسم کی احادیث موضوعہ نقل کرناجائز نہ تھا،الّایہ کہ وہ اس کے وضع کی تصریح کردیتے۔یہ حدیث غریب نہیں قطعاً موضوع ہے، یعنی عمارہ بن جوین عبدی مردودکی تصنیف کردہ ہے۔ یہ نہایت خبیث اورمفتری کذاب رافضی تھا۔نہ صرف شعبہ، بلکہ بہت سے ائمۂ حدیث نے اس کے کذاب ہونے کی شہادت دی ہے۔اس کا کچھ مفصل تذکرہ ہم منتہی الآراب ۲ / ۱۶۲پر کرآئے ہیں(ذیل میں ملاحظہ ہو:غ)۔
عمارہ بن جوین عبدی :ابوہارون عمارہ بن جوین العبدی البصری :نسائی نے اس کے متعلق کہاہے: ’متروك الحدیث لیس بحجة‘ (متروک ہے حجت نہیں )۔ ابواسحاق جوزجانی نے: کذا ب مفتری (بڑا جھوٹا ہے)، شعبہ وحمادبن زیدوابن معین و عثمان بن ابی شیبہ جیسے اعلام نے اُسے کذاب ودروغ باف قراردیاہے۔ابن حبان نے لکھاہے: ’کان یروی عن أبي سعید ما لیس من حدیثه، لا یحل کتب حدیثه الاعلی جهة التعجب‘ (یہ حضرت ابوسعید سے وہ حدیثیں روایت کردیتاہے جوان کی حدیث ہے ہی نہیں، اس کی روایات کو بس تعجب کے طورپر نقل کرناجائز ہے )۔
یہ بالاتفاق ساقط الاعتبارہے۔اس کے پاس گھڑی ہوئی روایات کا ایک پلندہ تھا جس کوحضرت علی کی طرف منسوب کرکے ’هذہ صحیفة الوصی‘ ( یہ رسول اللہ کے وصی یعنی حضرت علی کا صحیفہ ہے ) کہاکرتا۔اس کی خباثت وکذب بیانی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ حافظ ابن حجرنے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں کامل ابن عدی کے حوالہ سے محدث جلیل بہزبن اسدسے نقل کیاہے، وہ کہتے ہیں کہ میں ابوہارون العبدی کے پاس گیااورکہاتم نے حضرت ابوسعیدخدری سے کچھ حدیثیں لکھی ہیں مجھے دکھاؤ۔اس نے ایک کتاب نکالی میں نے اس میں ایک جگہ دیکھا (معاذ اللہ نقل کفر کفر نباشد) ’حدثنا أبو سعید أن عثمان أدخل حفرته وهو کافر باللّٰہ‘ (ہمیں ابوسعیدنے بیان کیاکہ عثمان(غنی)کوقبرمیں داخل کیاگیااوروہ کفرکے مرتکب ہوچکے تھے)۔ میں نے یہ پڑھ کراس سے کہا تمھیں اس کا اقرار ہے،یعنی یہ ٹھیک لکھاہے ؟اس نے اثبا ت میں جواب دیا۔میں اس کی کتاب کو اس کے ہاتھوں میں پٹخ کر چلا آیا (ابن حجرالعسقلانی،تہذیب التہذیب المجلد السابع ص دارالفکر بیروت الطبعۃ الاولی ۱۹۸۴ء ص ۳۶۱ -۳۶۲ (غ)۔
ـــــــــــــــــــــــــ