اس کے معنی، اوپر کی گفتگو سے واضح ہے کہ درج ذیل لیے گئے ہیں:
پڑھنے میں جلدی کرنا، یعنی کہا گیا کہ قرآن کو جلدی جلدی پڑھنے میں زبان کو نہ ہلائیے۔ان آیات میں موجود مضمون سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔ مثلاً جمع ، قراءت اور بیان تینوں کاموں سے جلدی جلدی پڑھنے کا کوئی تعلق نہیں ہے، سواے اس کے ضائع ہونے کا امکان مانا جائے کہ آپ اس ڈر سے قرآن کو جلدی جلدی پڑھنے لگتے کہ کہیں بھول نہ جاؤں۔ اوپر ہم یہ واضح کرآئے ہیں کہ اس کی ضرورت وحی کے معاملے میں نہیں تھی۔
دوسرے یہ معنی ممکن ہیں کہ اترتی ہوئی وحی کو آپ جلد جلد حاصل کرنے کے لیے جلدی سے سنا دیتے تھے ، اس پر بھی ہم اوپر بات کرآئے ہیں۔
تیسرے معنی یہ ہیں کہ وحی اترتے وقت آپ کو چونکہ ایک نوعیت کی تکلیف میں سے گزرنا پڑتا تھا تو آپ اس کے لیے جلدی کرتے تھے،یعنی یہ کہ آپ جبریل علیہ السلام کو کہتے تھے کہ جلدی جلدی وحی اتاریے تاکہ میری یہ تکلیف جاتی رہے۔یہ بھی جیسا کہ ہم لکھ آئے ہیں کہ اگلے مضمون سے میل نہیں کھاتا، اور قرآن کے دیگر نظائرسے ٹکراتا ہے۔
ہمارے خیال میں اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ یہ مطالبہ کررہے تھے کہ جو قرآن نجماً نجماً نازل ہو رہا ہے ، وہ جلد جلد نازل ہوتا رہے۔یہی وہ بات ہے جس سے اگلا سارا مضمون مناسبت رکھتا ہے اور قرآن مجید کے دیگر نظائر تائید کرتےنظرآتےہیں۔
اب اگلا مسئلہ یہ ہے کہ ’اِنَّ عَلَيْنَا ‘ کا محل کیا ہے؟ یہ الفاظ اور جملوں کے دروبست سے یہ واضح ہے کہ قرآن کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مطالبہ تھا، اس کے پیش نظر یہ جواب دیا گیا ہے۔ اب اس کا امکان ہے کہ آگے تینوں باتیں جو کہی گئی ہیں: ’جَمْعَهٗ‘، ’قُرْاٰنَهٗ‘ اور ’ بَيَانَهٗ ‘، وہ سب کی سب آپ کے مطالبہ کا حصہ تھیں یا ان میں سے کوئی ایک؟اس بات کا بھی امکان ہے کہ ان تینوں میں سے براہ راست کوئی نہ ہو، لیکن آپ کا مطالبہ جو بھی تھا، وہ ان تین کاموں سے از خود پوراہو جائے۔ جیسے اس مثال میں دیکھیے:
کوئی بیٹا اپنی شادی کی جلدی کے لیے ماں سے کہے کہ آپ کل فلاں کے گھر جائیے، اور میرے لیے رشتہ ديكھيے۔ ماں آگے سے جواب دے کہ یہ باتیں نہ کرو، یہ ہمارا کام ہے کہ ہم سب اسباب مہیا کریں،تمھار ی شادی کرائیں، تو جب ہم شادی کرادیں تو تم اسے نبھاؤ گے، اگر ماں یہاں رک جائے تو تب بھی بچے کو پورا جواب ہو گیا ہے، لیکن بیٹے کے مطالبہ والی بات کو شامل کرتے ہوئے وہ یہ کہے کہ پھر یہ بھی ہمارا کام ہے کہ کہیں رشتہ دیکھنے جائیں۔ تو یہ ٹھیک ایسی مثال بن جائے گی جیسی سورۂ قیامہ میں ہے۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل ضرورت یہ تھی کہ ہر ہر موقع پر قرآن کی رہنمائی آپ کو زیادہ سے زیادہ حاصل رہے اور آپ کے مخاطبین کو بر سر موقع آیات سنائی جاتی رہیں۔ اسی غرض سے آپ کی تمنا ہوتی تھی کہ قرآن جلد از جلد اترے۔ گویا اللہ نے جو تین کام یہاں اپنے بتائے ہیں، ان میں سے آخری کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عجلت بالقرآن سے متعلق تھا۔اس کی دلیل یہاں ’ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا‘ کا استعمال ہے۔ ’ثُمَّ‘ کےبغیر مثلاً ’وَاِنَّ عَلَيْنَا‘ آتا تو سادہ عطف معطوف کا مفہوم ہوتا۔ ’ثُمَّ‘ اگر محض عطف کے معنی میں لیا جائے تو بے محل ہے۔ اس صورت میں یہ یا تو غیر ضروری وناگوار کام کے معنی دے گا یا اس اضافی کام کےجو پہلے پروگرام کا حصہ نہیں تھا۔یہ ’ثُمَّ‘ ایک طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طلب کو address کرنے کے لیے ہےتو دوسری طرف تردید مطالبہ کا مفہوم رکھتا ہے۔ جیسے اوپر والی مثال میں ’’ پھر یہ بھی ہمارا کام ہے کہ کہیں رشتہ دیکھنے جائیں‘‘ میں ہے، یعنی یہ بھی ہمارا ذمہ ہے، تم تردد نہ کرو۔گویا آپ کو یہ فرمایا گیا کہ آپ قرآن کو جلد لینے کے لیے زبان نہ ہلائیں، قرآن کو جمع ہم کریں گے، اورپڑھائیں گے بھی ہم اور پھر اسے بیان بھی ہم ہی کریں گے۔یہ تینوں کام آپ کے نہیں ہیں۔
اس طرح کے مواقع پر ’عَلَيْنَا‘ دو معنی میں آتا ہے، ایک ’فرضٌ على‘[10]، ’كتابٌ علی‘[11]، ’وعدٌ علی‘[12]، ’حتمٌ علی‘[13] یا ’حقٌّ علَی‘[14] کے معنی میں، یعنی فرض ہے، لازم ہے، حق عائد ہوتا ہے، وغیرہ کے معنی میں، جیسے کہ سورۂ لیل کی اس آیت میں آیا ہے:
’اِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدٰي‘ (۹۲: ۱۲)، یعنی ہمارے اوپر یہ حق قائم ہوتا ہے کہ ہم سمجھا دیں، یاہدایت پہنچادیں۔ دوسرے یہ ’’اس کا کام ‘‘کے معنی میں آتا ہے،یعنی یہ چیز اس کے سپرد ہے، یہ اس کے کرنے کا کام ہے۔یہ معنی اس کے اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب یہ تقابل میں آئے۔ جس طرح یہ اس آیت میں آیا ہے : ’فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ‘ (الرعد۱۳: ۴۰)، یعنی یہ ہمارا کام ہے کہ ان کا حساب کتاب کریں، آپ کا کام صرف بات پہنچا دینا ہے۔ سورۂ قیامہ میں یہ اسی دوسرے مفہوم میں ہے، یعنی قرآن کا بیان ہمارا کام ہے آپ کا نہیں، یہ تقابل یہاں ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ‘ والے مضمون سے پیدا ہوا ہے کہ قرآن کے عجلت سے اترنے یا نہ اترنے کا فیصلہ کرنا ہمارا کام ہے۔
’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ ‘ کے معنی طے کرنے کے لیے ’لِتَعْجَلَ بِهٖ‘ کا جملۂ معللہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اسی کی روشنی میں ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ ‘ کے معنی طے ہونے چاہییں۔ اس لیے کہ زبان کو حرکت دینے کا عمل ’لِتَعْجَلَ بِهٖ‘ کے مقصد سے ہورہا ہے کہ قرآن جلد حاصل کیا جائے۔اب واضح ہے کہ جلدی جلدی پڑھنے کا قرآن جلد لینے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔صرف ایک مفروضہ ہے، جس پر یہ تعلق جوڑا گیا ہے۔ وہ مفروضہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد کرنے کے لیے جلد جلد پڑھتے تھے تاکہ جتنی جلدی یاد ہوجائے اتنی جلدی اگلا کلام اتر آئے،لیکن یہ بات محض قیاسی ہے۔قرآن کے خلاف بھی ہے، اس لیے کہ سورۂ اعلیٰ، جو محققین کے خیال میں سورۂ قیامہ سے پہلے اتری تھی، میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ آپ کو قرآن پڑھایا جائے گا تو آپ بھولیں گے نہیں۔ اسی طرح یہ بھی قرآن میں بتا دیا گیا ہے کہ جب جبریل علیہ السلام وحی لاتے تو وہ دل پر اترتی تھی، جس میں یقیناً یاد کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اور ابن عباس سے منسوب روایات کے خلاف بھی ہے، جس میں ایسا کرنے سے روک دیا گیا ہے، اگر وحی اترنے کا طریقہ یہی تھا تو روکا کیوں گیا۔ اور اگراب طریقہ تبدیل ہور ہا تھا تو پرانے طریقے کو چھوڑنے کی اطلاع کے بغیر ان الفاظ میں روکنا بے محل ہے۔ ان آیات کی تفسیر کے سوا دیگر کسی ذریعے سے یہ کہیں معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کو کبھی دوران وحی قرآن یاد کرتے ہوئے سنا گیا ہو۔اس تفسیر میں بھی یہ کوئی مرفوع بات نہیں ہے۔ مفسرین کی اپنی راے ہے۔ اس لیے اب ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ ‘ کو اگر ہم ’لِتَعْجَلَ بِهٖ‘ کی روشنی میں متعین کریں تو وہ یہ ہے کہ آپ بول کر، یعنی verballyخدا سے قرآن کے مزید اترنے کا مطالبہ کررہے تھے، جس سے آپ کو ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ ‘ کے الفاظ سے روک دیا گیا تھا۔
اس کے سوا کوئی اور معنی مراد لینا کلام، سیاق و سباق اورنظائر قرآنی کے خلاف ہے۔ اس روشنی میں آیت کے یہ معنی واضح ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے نزول وحی کے وقت بول بول کر مطالبہ کررہے تھے کہ مزید قرآن نازل کیا جائے، شاید بہ تکرار یہ مطالبہ ہو رہا تھا۔یعنی وحی کی بر موقع تنزیل محض دل کی تمنا نہیں تھی، بلکہ وہ زبان پر بھی جاری ہو گئی تھی۔
’اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ ‘اس کا جمع کرنا ہمارا ذمہ ہے۔ حضرت ابن عباس سے منسوب ایک تفسیر کی بنا پر اس کے معنی اکثر مفسرین نے دل میں حفظ کرادینے کے لیے ہیں(تفسیر ابن عباس)۔طبری میں انھی کی راے یہ بھی وارد ہے کہ ہم قرآن کو آپ کے لیے جمع کریں گے۔ ضحاک کی تفسیر یہ ہے کہ ہم اسے تمھارے لیے جمع کریں گے، اس طرح کہ دل میں نقش کردیں گے(طبری)۔ قرآن کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے(قتادہ بحوالہ طبری)۔ دل میں جمع کرنا(زمخشری)۔نبی کریم کے دل میں تالیف قرآن(تفسیر ابن عطیہ)۔
’جَمْعَهٗ‘ کے معنی یاد کرانے کے معنی میں لینے کی وجہ غالباً ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ ‘ کے یہ معنی لینا ہیں کہ آپ زبان اس لیے حرکت دیتے کہ بھو ل نہ جائیں یا یاد کرنے کے لیے آپ ایسا کرتے تھے۔نبی کریم کو قرآن یاد کرنے پر ہم اوپر تفصیل سے بات کرچکے ہیں۔ ’جَمْعَهٗ‘ کے معنی جن لوگوں نے جمع کرنا یا تالیف کرنا لیے ہیں، انھی کی تفسیر الفاظ اور شواہد قرآنی سے مطابقت رکھتی ہے۔بعض مفسرین نے پھر ’جَمْعَهٗ‘ کا ظرف بھی متعین کیا ہے: ’اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ في صدرك‘۔یعنی آپ کے دل میں جمع کیا جائے گا۔بعض نے ’في صدرك‘ کے بجاے ’لك‘ کا ظرف کھولا ہے: ’اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ لك‘۔ دوسری راے تو اس لیے ہے کہ آپ جلدی کررہے تھے، اس لیے آپ کی تسلی کے لیے یہ ضروری تھا۔ لیکن ’في صدرك‘ کا اضافہ لسانی نہیں تفسیری ہے، یعنی یہاں کلام کا مضمون یا بنت اس کا تقاضا نہیں کرتی۔اس تفسیری اضافہ کی ایک وجہ ’فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ‘ ہے، اور دوسری اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت موسیٰ کی طرح آپ پر لکھی ہوئی کتاب تو اتری نہیں تھی، لہٰذا فطری امر ہے کہ پھر جمع کرنے کا کام دل ہی میں ہوا ہوگا۔حالاں کہ کلام میں جس طرح ’في صدرك‘ کا اضافہ ہو سکتا ہے، اسی طرح ’بيدك‘ کا اضافہ بھی ہو سکتا ہے، یعنی ہم آپ کے ہاتھوں سے جمع قرآن کریں گے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ اضافہ کیا جائے، لیکن یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس تفسیری پیمانے پر ’في صدرك‘ یا ’لك ‘ کا اضافہ کیا گیا ہے،اسی بنا پر عرضۂ اخیرہ کی روایتوں کی روشنی میں ’بيدك‘ کا تفسیری اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
’جَمْعَهٗ‘ کا لفظی تقاضا ہے کہ اسے تالیف یا یکجاکرنے کے معنی میں لیا جائے، خواہ دل میں خواہ تحریر میں، یاد کرانا اس کے معنی نہیں ہیں۔اس طرح کتاب کے جمع کرنے میں ’جَمَع‘کے کئی پہلو ہوسکتے ہیں، مثلاً بکھرے ہوئے اجزاکو یکجا کرنا، تالیف کرنا، ترتیب دینا، ضم کرنا، ملانا، وغیرہ۔یاد کرانا، لفظوں کی تاویل تو ہوسکتی ہے، لیکن یہ لفظ کے معنی نہیں ہیں۔اس لیے ان مفسرین کی تفسیر بطرز تاویل بعیدممکن تو ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ اس تفسیر کے باوجود ’جمع‘کے یہ معنی عربی میں نہیں آئے۔ مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ ’جمعتُ القرآنَ‘ تو کوئی بھی یہ نہیں سمجھے گا کہ میں نے قرآن یاد کرلیا ہے۔ جن مفسرین نے اس کے معنی حفاظت قرآن کے لیے ہیں، تو یہ بھی ’جَمْعَهٗ‘ کے معنی تو نہیں ہیں، البتہ دور کا مقدر و مقتضی ہو سکتے ہیں، لیکن ’جَمَع‘ اس پہلو سے ’ادَّخر‘ کے مفہوم میں، یعنی بچا رکھنے کے معنی میں آتا ہے کہ کل کام آئے، ظاہر ہے کہ ’جمع القرآن‘ کا یہ مضمون نہیں ہے۔ قرآن مجید میں جہاں بھی مال جمع کرکے بچا رکھنے کا مضمون آیا ہے، وہاں ’جمع‘کے بعد کوئی دوسرا لفظ لایا گیا ہے کہ جس سے محفوظ کرنے کے معنی ادا ہوں۔ ’جمع‘ میں یہ معنی موجود نہیں تھے، مثلاً ’وَجَمَعَ فَاَوْعٰي‘ (المعارج ۷۰: ۱۸) اور ’الَّذِيْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَهٗ‘ (الہمزہ ۱۰۴ : ۲ )۔اس لیے جمع قرآن کے مضمون میں مناسب معنی بس یہی ہیں: بکھرے ہوئے کو یکجا کرنا، تالیف کرنا، ترتیب دینا۔
اب آیت میں ترتیب دینا معنی نہ بھی لیے جائیں، صرف جمع کرنے اور تالیف کرنے کے بھی لیے جائیں تو بس یہی کافی ہیں،اس لیے کہ جس صورت میں بھی قرآن جمع ہو گا، وہی مرتب سمجھا جائے گا۔اب رہ گیا یہ سوال کہ جمع کہاں ہوا، سینے میں کہ اوراق میں؟ تو اس سے بھی فرق نہیں پڑتا، اس لیے کہ پہلی صورت سینے ہی میں جمع کی ہے۔ اسی سے تحریری صورت وجود میں آئی۔یہی صورت روایات سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ ہر سال اترے ہوئے قرآن کو جبریل علیہ السلام دہرانے آتے اور یہ سلسلہ عرضۂ اخیرہ پر پورے قرآن کی جمع و ترتیب پر ختم ہوا،لیکن آگے جا کر ان دونوں کے مابین ہم ترجیح بھی قائم کریں گے کہ یہ دل میں جمع کیا گیا تھا کہ اوراق میں۔
اس کے معنی میں بھی اختلاف ہوا ہے، جس کی اصل وجہ پچھلی آیات کی تفسیر اور مرویات ہی ہیں۔مثلاً جب ’جَمْعَه‘ کے معنی دل میں جمع کرنے کے لیے جائیں تو پھر سوال پیدا ہو گا کہ ’قُرْاٰنَهٗ‘ کے معنی کیا ہوں گے، تو اس کے معنی یہ لیے گئے کہ آپ اسے ہمارے جمع کرنے کے بعد پڑھیں گے۔ یا ہم جمع کرائیں گے اور اس کے بعد آپ کو پڑھائیں گے، پھر آپ نہیں بھولیں گے (یہ دونوں تفسیریں طبری میں حضرت ابن عباس سے منسوب ہیں)۔ جبریل جیسے پڑھیں گے، ویسے ہی محفوظ کردیا جائے گا(تفسیر ابن عباس)۔آپ کے دل میں ثبت کردیں گے(ضحاک بحوالہ طبری)۔ کچھ لوگوں نے اس کے معنی تالیف کے لیے ہیں(قتادہ بحوالہ طبری، امام بخاری[15])۔ ہم آپ کی زبان پر اس کی قراءت ثبت کردیں گے(زمخشری)۔
بلاشبہ ’قُرْآنَ‘ اشیا کے ساتھ آئے تو تالیف کے معنی میں آسکتا ہے،لیکن کتاب کے ساتھ یہ پڑھنے کے معنی میں معروف ہےاور یہاں سباق میں ’جمعه‘ کے ہونے کی وجہ سے اسے تالیف کے معنی میں لینا درست نہیں ہوگا،سواے اس کے کہ جمع کا ایک پہلو ’جمعه‘ میں، اور کوئی دوسرا پہلو ’قرآنه‘ سے مراد لیا جائے۔قرآن میں ’قرأ‘ پڑھنے ہی کے معنی میں آیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ’قُرْاٰنَهُ‘ سے قراءت مراد ہے یا کچھ اور؟قراءت اگر فن قراءت جس میں لحن اور طرز و اداسے پڑھا جاتا ہے مراد نہ ہو، تو قراءت دراصل پڑھنا اور پڑھنا درحقیقت قراءت ہی ہے،یعنی جب کوئی کسی آیت کو پڑھے گا تو اس کی قراءت ہی کرے گا۔تو پڑھنا اور قراءت اس سیاق میں ہم معنی ہیں۔سبع قراءت کا معاملہ بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان میں قرآن کی آیات کو مختلف طریقے پر پڑھا جاتا ہے۔مثلاً ’مَالِکِ یوم الدین‘ اور ’مَلِك یوم الدین‘ پڑھنے ہی میں فرق ہے، پھر اسی پڑھنے کو بصورت رسم، حروف میں رقم کرکے اعراب و حرکات سے تلفظ اور نحوی محل مقرر کیا گیا۔ توجب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’قُرْاٰنَهُ‘ بھی ہماری ذمہ داری ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جمع شدہ قرآن کو پڑھا بھی جائے گا، یعنی اس کے الفاظ کا تلفظ اور اعراب بول کر ادا کیے جائیں گے۔ اعراب والی زبان میں یہ لازم ہے، اس لیے کہ اس سے نہ صرف الفاظ کا نحوی محل تبدیل ہو جاتا ہے، بالخصوص جب رسم الخط میں حروف علت اور نقاط کا رسم میں ثبت و امحا کا امکان ہوتو قراءت سےلفظ بھی بدل جاتا ہے۔جیسے ’مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ‘ کو یوں بھی لکھا جاسکتا ہے: ’ملكِ يَوْمِ الدِّينِ‘۔ اس صورت میں ’ملك‘ کو ’مٰلك‘،’مَلِك‘،’مَلَك‘ اور ’مُلك‘ وغیرہ پڑھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح نقطوں کے بغیر لکھنے کی صورت میں مثلاً ’ىعلم‘ کو ’يعلم‘، ’تعلم‘ اور ’نعلم‘ بھی پڑھا جاسکتا ہےلام مشدد غیر مشدد بھی۔لہٰذا ایسے رسم الخط کے لیے متکلم کے لیے اپنے کلام کی صحت ابلاغ کے لیے قراءت یاپڑھنا لازم تھااور یہی بات اس آیت میں کہی گئی ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دل میں ثبت کرنا، کتاب میں ثبت کرنے کے جیسا نہیں ہے،یعنی جب مجھے کوئی چیز زبانی یاد ہوگی تو وہ قراءت کے ساتھ ہی یاد ہوگی۔ دل میں جمع کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ دل میں تحریر کردیا گیا تھا، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کے اوراق کو پلٹ پلٹ کر پڑھنا تھا۔دل میں جمع کرنے کا مطلب حفظ ہی ہو سکتا ہے، اورواضح ہے کہ حفظ مع القراءۃ ہی ہوتا ہے۔لہٰذا، اگر جمع میں معنی حفظ کے ہیں تو ’قُرْآنَهُ‘ کے معنی قراءت کے نہیں ہو سکتے، اس لیے جمع کو اپنے اصل معنی میں لینا ہوگا،یعنی جمع کرنے کے معنی میں، اور جمع کرنا بھی دل سے باہر ہونا چاہیے، اس لیے کہ دل میں جمع کرنا قراءت کو شامل ہے۔ لہٰذا، ’وَقُرْآنَهُ‘ کے قرینے سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ ’جَمْعَهٗ‘ سے مراد کتابی شکل میں لے آنا ہے۔کتابی شکل ہی وہ صورت ہے، جس میں عربی زبان کی رعایت سے پڑھ کرسنانا یا قراءت کا مقرر کیا جانا بھی ضروری ہے، تاکہ متکلم کی طرف سے الفاظ اور ان کے اعرابی محل جملوں میں واضح کردیے جائیں۔
اور اگر ’جَمْعَهٗ‘ کو عربیت کے خلاف حفظ کے معنی میں لینا ہی ہو تو پھر لازم ہے کہ ’قُرْاٰنَهُ‘ کو ایسے معنی میں لیا جائے جس میں پڑھنے پڑھانے کا مفہوم نہ ہو۔ اس لیے کہ حفظ میں یہ شامل ہی ہے۔ اسی طرح ’وَقُرْآنَهُ‘ کی وہ تفسیر بھی بے محل ہوگی جس میں اس کے معنی تالیف کے لیے گئے ہیں، اس لیے کہ کسی کتاب کا حفظ اس کی تالیف کے بغیر ممکن نہیں ہے، کیونکہ آیات کے یاد کرانے کی کوئی نہ کوئی ترتیب تو ہو گی ہی۔
جب جبریل آپ کے سامنے پڑھ دیں تو ان کے مطابق آپ پڑھیے(تفسیر ابن عباس)۔جب ہم جبریل کی قراءت کے ذریعے سے پڑھیں تو آپ توجہ سے سنیے، چنانچہ نبی کریم پہلے سنتے تھے، پھر پڑھتے تھے (جلالین)۔ جب ہم نازل کریں تو آپ خاموشی سے سنا کریں(ابن عباس بحوالہ طبری)۔ طبری ہی نے ابن عباس سے ایک اور تفسیر روایت کی ہے کہ جب آپ پر قرآن تلاوت کیا جائے تو اس کے احکام کی پیروی کریں۔ آیت کے آخری جملے ’فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ‘ کے معنی قتادہ اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہیں کہ احکام حلال وحرام کی پیروی کی جائے(طبری)۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جبریل کی قراءت کو اپنی قراءت قرار دیا ہے(زمخشری)۔
ہم پیچھے یہ بات واضح کرآئے ہیں کہ یہ قراءت کرنا پڑھنے میں الفاظ اوراعراب و حرکات کا تعین ہے۔اس لیے لازم ہے کہ اس کے معنی بھی قراءت کی پیروی ہی لیے جائیں۔ہم اوپر یہ بات بھی کر آئے ہیں کہ یہ اترتی ہوئی وحی کی بات نہیں ہورہی، بلکہ پورے قرآن مجید کی بات ہورہی ہے،اس لیے پورے قرآن کی جو قراءت جبریل جمع قرآن کے وقت سکھائیں گے، وہی اپنائی جائے گی۔
مفسرین نے اس کے مختلف معنی لیے ہیں۔اس سے مراد ہے کہ حلال حرام اور امر ونہی کو بیان کیا جائے گا(تفسیر ابن عباس)۔ حلال حرام کو بیان کیا جائے گا اور طاعت و معصیت کو(قتادہ، طبری)۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے آپ کی زبان سے بیان کریں گے(ابن عباس، طبری)۔اگر کہیں معنی میں اشکال ہوا تو توضیح کردی جائے گی (زمخشری)۔
پہلی تینوں تفاسیر، اس وقت ممکن تھیں، جب ’بيان‘ کا مفعول بہ محذوف ہوتا،لیکن یہاں مفعول بہ حذف نہیں ہے۔’بَيَانَهُ‘ میں ’ه‘ قرآن کی طرف راجع ہے اور قرآن ہی ’بيان‘ کا مفعول بہ ہے،یعنی قرآن ہی جمع ہوگا، قرآن ہی کی قراءت ہوگی اور قرآن ہی کا بیان ہوگا۔مذکورہ تفسیروں میں سے زمخشری کی تفسیر ہی یہاں ممکن ہے، لیکن وہ بھی قرآنی تصریحات کے خلاف ہے۔اس راے کے قائل مفسرین کو ان آیات سے غلط فہمی ہوئی ہے، جن میں یہ کہا گیا ہے کہ ’كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْآيَاتِ‘۔اس سے انھوں نے یہ مراد لی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کی توضیح و تشریح کی ہے،حالاں کہ یہ آیت دس سے زیادہ دفعہ قرآن میں آئی ہے، لیکن کہیں بھی کسی آیت کی تشریح یا کسی اشکال کے ازالہ کے لیے نہیں ہے۔ جس مقام پر کسی حکم سے پیدا ہونے والے ایک سوال سامنے آنے کے بعد توضیح کی گئی ہے، وہاں آیات کا لفظ ہی نہیں آیا: ’يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اَنْ تَضِلُّوْا وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ‘ (النساء۴: ۱۷۶)۔یعنی یہ بھی کسی آیت کی تفسیر و بیان نہیں ہے،بلکہ یہاں آیت میں مسکوت عنہ حکم کے بارے میں الٰہی فیصلہ مانگا گیا تھا، جس کو الفاظ الٰہی میں بیان کردیا گیا۔ اسی لیے یہاں اس ’يُبَيِّنُ‘ کی وجہ ’اَنْ تَضِلُّوْا‘ بتائی گئی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ یہاں ’يَسْتَفْتُوْنَكَ‘ (النساء۴: ۱۷۶) کے الفاظ آئے ہیں۔جس میں کسی کی راے طلب کرنے کے معنی ہوتے ہیں، توضیح و تشریح کے نہیں۔مطلب یہ کہ اللہ نے اپنا فیصلہ بتا دیا تا کہ تم اس معاملے میں بھٹک نہ جاؤ۔غرض قرآن میں ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے، جس کی تشریح و توضیح قرآن میں کی گئی ہو کہ آیت کے معنی میں اشکال ہو، اور اس اشکال کا ازالہ کیا گیا ہو۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے ان مثالوں پر غور کیجیے۔ کیا ہم بتا سکتے ہیں کہ یہ کن آیتوں کی توضیح و تفسیر ہے:
يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِﵧ قُلْ فِيْهِمَا٘ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِﵟ وَاِثْمُهُمَا٘ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَاﵧ وَيَسْـَٔلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَﵾ قُلِ الْعَفْوَﵧ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ. (البقرہ ۲: ۲۱۹)
اَيَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُوْنَ لَهٗ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُﶈ لَهٗ فِيْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِﶈ وَاَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهٗ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَآءُﵗ فَاَصَابَهَا٘ اِعْصَارٌ فِيْهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْﵧ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ. (البقرہ ۲: ۲۶۶)
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍﵧ مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَحِيْنَ تَضَعُوْنَ ثِيَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِيْرَةِ وَمِنْۣ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآءِﵪ ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْﵧ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌۣ بَعْدَهُنَّﵧ طَوّٰفُوْنَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰي بَعْضٍﵧ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِﵧ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ. (النور ۲۴: ۵۸)
مختصر یہ کہ پورا قرآن اس بات سے خالی ہے کہ کوئی آیت کسی کے سمجھ میں نہ آئی ہو، چہ جائیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اشکال کا باعث ہوئی ہواور پھر اس کی شرح کی گئی ہو۔لہٰذا ان آیات میں آیا ہوا ’يُبَيِّنُ‘ اور سورۂ قیامہ کا ’بَيَانَهُ‘ بالترتیب بتا دینے اورکہہ دینے کے معنی میں ہے۔ لہٰذا ’بَيَانَهُ‘ کے معنی ہوں گے کہ قریش و اہل کتاب کے لیے جو قرآن کی صورت میں کہنا ہے، اس کو بیان کردینا ہمارا کام ہے۔
قرآن کی تالیف وتصنیف ہی ایسی ہے کہ اس میں تشریح و توضیح کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ مثلاً بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں، پھر خداے حکیم و خبیر کی طرف سے اُن کی تفصیل کی گئی ہے(ہود ۱۱: ۱)۔یہ عربی مبین میں ہے (الشعراء۲۶: ۱۹۵)یہ کتاب مبین ہے(المائدہ۵: ۱۵، یوسف ۱۲: ۱)، اس کی تمام آیات ’مبينات‘ ہیں(النور۲۴: ۳۴) وغیرہ۔ان آیات کا مطلب یہی ہے کہ یہ کتاب محتاج توضیح وتشریح نہیں،اس لیے کہ یہ اتری ہی ’مبين‘ ہے۔
’ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ‘: ان الفاظ میں یہ بات کہی جاری ہے کہ بیان بھی ہماری ذمہ داری ہے۔بیان میں بتانے، کہہ دینے، آگاہ کرنے، واشگاف کہنے اور ثبوت دینے کے معنی ہیں۔یہاں یہ اسی جامع معنی میں ہے۔اس لیے کہ اس کا مفعول بہ صرف قرآن ہے، قرآن کے تمام مندرجات، مثلاًمخاطبین قرآن کو جو کچھ کہنا بنتا ہے، اور جو کچھ کہنا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر ہے، وہ بھی خدا ہی کا فیصلہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہیے کہ قرآن اتارنے کا فیصلہ بھی ہمارا ہے کہ کب اور کتنا اترنا ہے۔اس لیے یہ اللہ ہی کے ذمے ہے کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا ہے، کتنا کہنا ہے اور کس کو کہنا ہے، کس موقع پر کہنا ہے، اور کن الفاظ میں کہنا ہے۔ یہ سب اللہ کی صواب دید پر ہے۔ اسی بات کو یہاں ’ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول قرآن میں جلدی کیے جانے کے مطالبہ پر فرمایا گیا ہے کہ آپ اپنی زبان کو حرکت نہ دیجیے، یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اسے جمع کریں اور یہ ہمارا کام ہے کہ اسے پڑھیں، جب ہم پڑھیں تو آپ کو اس پڑھنے کی پیروی کرنا ہوگی، پھر یہ بھی ہمارا کام ہے کہ ہم قرآن حسب منشا بیان کریں۔
’ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ‘ کا ’ثُمَّ‘بھی اہم ہے۔ ’ثُمَّ‘ کے معنی بالعموم تراخی و ترتیب کے ہوتے ہیں، لیکن یہ ہر جگہ لازم نہیں ہے۔ بعض اوقات ’ثُمَّ‘ محض تشریک فی الحکم کے لیے آجاتا ہے،یعنی معطوف کو اس کے معطوف علیہ کے قبیل میں شامل کرنے کے لیے، خواہ اپنی نوع میں وہ مختلف ہو۔مثلاً یہ آیت دیکھیے۔ اس میں نہ ترتیب ہے اور نہ تراخی: ’وَلَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا‘ (الفتح ۴۸: ۲۲)۔مراد یہ ہے کہ جس طرح یہ میدان جنگ سے بھاگیں گے، ویسے ہی مدد سے بھی محروم رہیں گے۔ نہ خود ثابت قدم رہ پائیں گے اور نہ کوئی مدد کو پہنچے گا۔سورۂ قیامہ میں بھی یہ ترتیب وتراخی کے لیے نہیں ہے، تشریک فی الحکم کے لیے ہے۔یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبۂ قرآن کو پہلے دو کاموں : ’جَمْعَهُ‘ اور ’قُرْآنَهُ‘ کےحکم میں شامل کرنے کے لیے آگیا ہے۔ یعنی پہلے دو کاموں کی طرح یہ تیسرا کام بھی ہمارے کرنے کا ہےآپ کا نہیں، اس لیے آپ اس کے بارے میں بھی فکر میں نہ پڑیں، نہ عجلت میں طلب کریں۔معنی کے اعتبار سے ہم اس جملے کے دیگر پہلو اوپر بیان کرآئے ہیں۔
ابھی تک جو بات ہم نے سمجھی ہے، وہ یہ ہے کہ ان آیات میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ قرآن کی بہ عجلت طلب میں زبان کو حرکت نہ دیجیے، ہم قرآن کی جمع و تالیف بھی کریں گے، اسے(نقاط و اعراب کے لحاظ سے ) پڑھ کر بتائیں گے بھی۔جب ہم پڑھا چکیں تو آپ اسی پڑھنے (اعراب و نقاط) کی پیروی کریں گے۔صرف یہی نہیں مزید یہ بھی جان لیجیے کہ حسب موقع اس کو جتنا ہمارے پیش نظر ہو گا بیان بھی ہم کریں گے۔مدعا یہ کہ قرآن سے متعلق اس بات کو سمجھیے کہ ہمارے ذمے کیا ہے اور آپ کے ذمے کیا ہے۔
آگے چل کر ہم واضح کریں گے کہ قرآن کی طلب میں جلدی کی وجہ کیا تھی۔آپ کا سب سے بڑا معاملہ: concern جس کے لیے آپ قرآن طلب کررہے تھے، وہ قریش کو مسکت جواب فراہم کرنا ہوتا تھا۔آپ کے اس معاملے کوجزوًا ’ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ‘میں موضوع بنایا گیا ہے (address کیا گیا ہے)۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[10]۔ القصص ۲۸: ۸۵۔ ’اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰي مَعَادٍﵧ قُلْ رَّبِّيْ٘ اَعْلَمُ مَنْ جَآءَ بِالْهُدٰي وَمَنْ هُوَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ‘۔
[11]۔ النساء ۴: ۲۴۔ ’وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْﵐ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْﵐ وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَﵧ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِيْضَةًﵧ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا تَرٰضَيْتُمْ بِهٖ مِنْۣ بَعْدِ الْفَرِيْضَةِﵧ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا‘۔
[12]۔ الانبیاء ۲۱: ۱۰۴۔ ’يَوْمَ نَطْوِي السَّمَآءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِﵧ كَمَا بَدَاْنَا٘ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗﵧ وَعْدًا عَلَيْنَاﵧ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ‘۔
[13]۔ مریم ۱۹: ۷۱۔ ’وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاﵐ كَانَ عَلٰي رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا‘۔
[14]۔ یونس ۱۰: ۱۰۳۔ ’ثُمَّ نُنَجِّيْ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كَذٰلِكَﵐ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِيْنَ‘۔
[15]۔ سورۂ نور کی تفسیر میں سورتوں کی وجۂ تسمیہ بتانے کے بعد قرآن کی وجۂ تسمیہ بتائی تو انھوں نے لكھا ہے:
سُمِّيَ الْقُرْآنُ لِجَمَاعَةِ السُّوَرِ، وَسُمِّيَتْ السُّورَةُ لِأَنَّهَا مَقْطُوعَةٌ مِنْ الأخْرَى، فَلَمَّا قُرِنَ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ سُمِّيَ قُرْآنًا، وَقَوْلُهُ: إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ تَأْلِيفَ بَعْضِهِ إِلَى بَعْضٍ، فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ: فَإِذَا جَمَعْنَاهُ وَأَلَّفْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ، أَيْ مَا جُمِعَ فِيهِ فَاعْمَلْ بِمَا أَمَرَكَ وَانْتَهِ عَمَّا نَهَاكَ.(صحیح البخاری، ، ناشر دار طوق النجاۃ۶ / ۹۹)