HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

خدا پر ایمان

انسان مخلوق ہے ۔ مذہب کا مقدمہ اِسی حقیقت کے ادراک سے شروع ہوتا ہے ۔ یہ ایک وجودی حقیقت ہے، جس کا مشاہدہ ہم جب چاہیں ، اپنی آنکھوں سے کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ انسان کی تخلیق کن بے جان عناصر سے ہوتی ہے۔ ہماری غذا کے ذریعے سے یہ کہاں اور کس مصنع (Factory) میں جاتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اِن میں انسانی تخم کہیں نہیں ہوتا اور نہ کوئی ایسی چیز ہوتی ہے ، جو مادے کو حیات اور حیات کو شعور میں بدل دے ۔ لیکن یہی غذا جب ایک خاص مقام پر پہنچتی ہے تو اُس نطفے میں تبدیل ہو جاتی ہے ، جس کے اندر انسان بن جانے کی صلاحیت رکھنے والے تخم موجود ہوتے ہیں۔ یہ تخم اُس نطفے میں لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں، جو ایک وقت میں ایک مرد سے نکلتا ہے، اور اِن میں سے ہر ایک یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ عورت کے بیضے سے ملے، جو اِسی طریقے سے ایک دوسرے مصنع (Factory) میں بنتا ہے، اور پورا انسان بن جائے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ جب بیضے سے ملتا ہے تو ابتدا میں جو چیز وجود میں آتی ہے، وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ خوردبین کے بغیر دیکھی نہیں جا سکتی، مگر یہی حقیر سی چیز پھر نو مہینے اور چند دنوں میں پانی کی ایک بوند سے لوتھڑے، لوتھڑے سے بوٹی، پھر بوٹی کی ہڈیوں اور ہڈیوں پر چڑھے ہوئے گوشت کے ساتھ ایک دوسری ہی چیز بن کر ماں کے پیٹ سے باہر آجاتی ہے تاکہ اپنی حیرت انگیز قوتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ علم و استدلال، عقل و دانش اور صنعت و حرفت کے وہ کمالات دکھائے، جو اِس وقت دنیا میں ہر جگہ دیکھے جاسکتے ہیں۔

ہم اِس مخلوق کو دیکھتے ہیں اور اپنے شعور کی ساخت ہی سے مجبور ہیں کہ اِس کا خالق تلاش کریں۔ اِس لیے نہیں کہ ہر چیز کا خالق ہونا چاہیے، اِس لیے کہ ہر مخلوق کا خالق ہونا چاہیے۔ یہ خلق کا فعل ہے، جو ہمیں اِس تلاش کے لیے مجبور کرتا ہے۔ ہم اِس اضطرار کے ساتھ پیدا ہوئےہیں، لہٰذا کبھی اِس پر راضی نہیں ہو سکتے کہ اثر کے لیے موثر اور فعل کے لیے فاعل کی تلاش سے دست بردار ہو جائیں۔ فلسفہ، سائنس اور تصوف کے اساطین کو ایک ایک کر کے دیکھ لیجیے، کوئی بھی اِس سے دست بردار نہیں ہو سکا۔ چنانچہ علم کی پوری تاریخ اِسی حقیقت کے اعتراف کی تاریخ ہے کہ ہر مخلوق کا خالق ہے، انسان مخلوق ہے، لہٰذا انسان کا بھی خالق ہے۔

پھر یہی نہیں، ہم جانتے ہیں کہ خلق کے جس فعل کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے، وہ ارادی ہے اور اُس کے ایک ایک جزو میں بے پایاں قدرت اور بے نظیر علم و حکمت کا ظہور ہوا ہے۔ ہم جس طرح خلق کا انکار نہیں کر سکتے، اُسی طرح فعل کی اِس نوعیت کا انکار بھی نہیں کر سکتے۔ اِس لیے کہ فعل کی یہ نوعیت بھی اُسی طرح ایک وجودی حقیقت ہے، جس طرح خلق کا فعل ایک وجودی حقیقت ہے۔ ہم جس طرح فعل کا مشاہدہ کرتے ہیں، اُسی طرح اِس حقیقت کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں، لہٰذا مجبور ہیں کہ اِس کے ساتھ یہ اعتراف بھی کریں کہ انسان کا خالق صاحب ارادہ ہے، اُس کی قدرت بے پایاں ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے۔

انسان کی عقل اُسے یہاں تک لے آتی ہے۔ اِس سفر میں اُس کو خارج سے کسی رہنمائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ علم و ادراک کی جو صلاحیت انسان کو اُس کی پیدایش کے ساتھ عطا ہوئی ہے، وہی اِس سفر میں رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ لیکن اِس سے آگے یہ سوال کہ وہ خالق کون ہے؟ اِس کا جواب انسان کی عقل اِسی قطعیت اور یقین و اذعان کے ساتھ نہیں دے سکتی۔ چنانچہ بالعموم اُنھی دو جوابات کی طرف دیکھتی ہے، جو انسانیت کی پوری تاریخ میں اب تک دیے گئے ہیں اور اُن میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیتی یا اُن کے درمیان متردد رہتی ہے۔

پہلا جواب یہ ہے کہ انسان جس کائنات کی آغوش میں شعور کی آنکھ کھولتا ہے، وہی اُس کی خالق ہے۔ یہ الحاد کا جواب ہے۔

اِس کی تقریر بالعموم اِس طرح کی جاتی ہے کہ کائنات اپنا شعور رکھتی ہے، لہٰذا وہ قوت بھی اِس کے اندر ہی ہے، جو اپنی حقیقت کے لحاظ سے خلّاق ہے۔ اِس سے باہر کچھ نہیں، بلکہ اندر اور باہر کی تفریق بھی اِس کے اندر ہی ہے۔ اِس کا ہر جزو اپنے آپ میں اندر بھی ہے اور باہر بھی۔ یہ اسباب و علل کا کارخانہ ہے، لیکن اپنی کلیت میں آخری علت بھی خود ہی ہے۔

یہ جواب محض ادعا ہے۔

اولاً، اِس لیے کہ اِس میں کائنات کی جس خود شعوری کا دعویٰ کیا گیا ہے، اُس کے کوئی شواہد کبھی ہمارے مشاہدے میں نہیں آئے۔ ہم جانتے ہیں کہ کائنات کی حقیقت مادہ ہے، اور مادہ ارادے سے خالی ہے، وہ علم و عقل سے بھی خالی ہے۔یہ چیزیں کسی نہ کسی درجے میں اگر کہیں پائی جاتی ہیں تو اُسی مخلوق میں پائی جاتی ہیں، جس کا خالق اِس کائنات کو کہا گیا ہے۔ پھر یہی نہیں، وہ قدرت بھی کسی درجے میں اگر کہیں ہے تو اُسی مخلوق میں ہے، جس کے بغیر علم و عقل اور ارادہ، سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔

ثانیاً، اِس لیے کہ کائنات کی جس قوت کے ظہور کو تخلیق سمجھ لیا گیا ہے، وہ محض شے کے خواص اور اُس کی تاثیر کا ظہور ہے۔ اِس طرح کا ظہورِ قوت ہم اُن خودکار مشینوں کے ہر پرزے میں دیکھ سکتے ہیں، جو انسان نے ایجاد کی ہیں، اور مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کی صورت میں جن کا منتہاے کمال اب ہر شخص کو حیرت میں ڈالے ہوئے ہے۔

ثالثاً، اِس لیے کہ اِس کی کلیت بھی اگر کچھ ہے تو اُنھی تاثیرات اور خواص کی کلیت ہے، جو اِس میں علت و معلول کے رشتے پیدا کرتے ہیں۔ اِس کا تخلیق کے اُس فعل سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو ہر ہر مرحلے پر علم و عقل، ارادے اور فعل کی قدرت کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ اسباب و علل، مناہج اور قوانین کی دنیا ہے۔ اِس سے زیادہ اِس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

انسان کا خالق کون ہے؟ اِس سوال کا دوسرا جواب اُن لوگوں نے دیا ہے، جو اپنے آپ کو پیغمبر کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ انسان کو یہ جواب اُس کی تخلیق کے ساتھ ہی دے دیا گیا تھا۔ چنانچہ پہلا انسان جس طرح پہلا انسان تھا، اُسی طرح پہلا پیغمبر بھی تھا۔ اِس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کا خالق اِس کائنات سے ماورا ایک علیم و حکیم ہستی ہے۔ انسان کی تخلیق کا آغاز اُس نے زمین کے پیٹ سے کیا تھا۔ مٹی کے وہی اجزا جو غذا کی صورت میں ہمارے اندر جاتے اور حقیر پانی کے خلاصے میں تبدیل ہو کر اُس عمل کی ابتدا کرتے ہیں، جس سے انسان بنتے ہیں، اُس وقت سڑے ہوئے گارے کے اندر اِسی عمل سے گزرے، یہاں تک کہ جب خِلقت پوری ہو گئی تو اوپر سے وہی گارا خشک ہو کر ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی بن گیا، جس کے ٹوٹنے سے جیتی جاگتی ایک مخلوق نمودار ہوئی، جسے انسان کا حیوانی وجود کہنا چاہیے۔ پھر وہی عمل جو زمین کے اندر ہوا تھا، علم و ادراک سے محروم اِس ناتراشیدہ حیوان کے اندر ہونے لگا، جس کے بعد اُسے ہر لحاظ سے سنوارا اور نک سک سے درست کیا گیا، یہاں تک کہ وہ اِس قابل ہو گیا کہ اُسے انسان کی شخصیت عطا کی جائے۔ چنانچہ ایک لطیف پھونک کے ذریعے سے یہ شخصیت اُسے عطا کر دی گئی:

بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ، ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِيْنٍ، ثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ، وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـِٕدَةَﵧ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ. (السجدہ ۳۲: ۷- ۹)
’’انسان کی تخلیق کا آغاز اُس کے خالق نے مٹی سے کیا، پھر اُس کی نسل حقیر پانی کے خلاصے سے چلائی، پھر اُس کے نوک پلک سنوارے اور اُس میں اپنی روح پھونک دی، اور تمھارے (سننے کے) لیے کان اور (دیکھنے کے لیے) آنکھیں اور (سمجھنے کے لیے) دل بنا دیے ــــــتم کم ہی شکرگزار ہوتے ہو۔‘‘

یہ جواب آخری مرتبہ جس ذریعے سے دیا گیا، وہ یہی قر آن ہے، جس کی آیات اوپر نقل ہوئی ہیں۔ اِس کو جس پیغمبر نے پیش کیا ہے، اُس کا دعویٰ ہے کہ یہ خالق کا اپنا کلام ہے، جو اُس پر نازل کیا گیا ہے، اور جس طرح نازل کیا گیا ہے، اُس نے بے کم و کاست اُسی طرح لوگوں کو پڑھ کر سنا دیا ہے۔ اِس میں ایک حرف، ایک شوشے کی تبدیلی نہ اُس نے کی ہے اور نہ آگے قیامت تک کوئی کرنے کی جسارت کر سکے گا۔

یہ دعویٰ خود قر آن میں بیان ہوا ہے، اور اِس کے ساتھ ایک نہایت واضح معیار بھی سامنے رکھ دیا گیا ہے، جس کی بنیاد پرہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ قر آن فی الواقع خالق کا کلام ہے یا کسی انسان نے افترا کر کے اِس کو خالق کی طرف منسوب کر دیا ہے؟

وہ معیار کیا ہے؟ اِسے ہم درج ذیل تین نکات کی صورت میں پیش کر سکتے ہیں:

پہلا یہ کہ انسان جو علم بھی پیدا کرتا ہے، لفظ اور معنی ، دونوں کے لحاظ سے سعی و خطا (Trial and Error) کے بہت سے مراحل سے گزر کر پیدا کرتا ہے۔ وہ پہلے دن نہ سقراط و فلاطوں ہوتا ہے، نہ غالب اور شیکسپئر اور نہ نیوٹن اور آئن اسٹائن۔ چنانچہ سیکھتا، سمجھتا، سیکھنے اور سمجھنے کے ہر ہر مرحلے میں غلطیاں کرتا اور اُن کی اصلاح بھی کرتا ہے۔ اُسے ہم برسوں اگلوں سے لیتے، اُس کی مشق اور مزاولت کرتے، نوک پلک سنوارتےاور اُس میں درجہ بہ درجہ آگے بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں، یہاں تک کہ علم و ادب کا کوئی شہ پارہ اُس کی طرف سے سامنے آجاتا ہے۔ یہ انسان کی تقدیر ہے۔ وہ اِسی کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ علم و ادب کی پوری تاریخ میں اِس سے کبھی کوئی استثنا نہیں دیکھا گیا اور نہ آگے کبھی اِس کا کوئی تصور کیا جا سکتا ہے۔

لیکن قر آن اِس سے مستثنیٰ ہے۔ وہ جس ہستی کی طرف سے پیش کیا گیا ہے، اُس کو چند سو گھروں کی ایک چھوٹی سی بستی میں اُس کی قوم نے چالیس برس تک شب و روز دیکھا ہے۔ اُس کے دن اور راتیں اُن کی آنکھوں کے سامنے گزری ہیں، مگر اُنھوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اِس طرح کے علم اور کلام کے لیے سعی و خطا کے جو مراحل ہر انسان کے لیے مقدر ہیں، اُن کا کوئی شائبہ کبھی اُس کی شخصیت میں کہیں پایا گیا ہو۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ اُنھیں باور ہی نہیں آتا تھا کہ اُن کی بستی کا یہ صادق اور امین اِس طرح کے کسی علم اور اِس شان کے کسی کلام کا خالق ہوسکتا ہے۔ چنانچہ جھنجلا کر کہتے تھے کہ یہ سب اِس کو کسی پڑھے لکھے عجمی نے املا کرادیا ہے۔ قرآن نے اِسی طرف توجہ دلائی اور فرمایا:

قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَيْكُمْ وَلَا٘ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ، فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ، اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ؟ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖ، اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ.(یونس ۱۰: ۱۶- ۱۷)
’’(اِن سے) کہہ دو، اگر اللہ چاہتا تو نہ میں یہ قرآن تمھیں سناتا، نہ اللہ اِس کی خبر تمھیں دیتا۔ یہ اُسی کا فیصلہ ہے، اِس لیے کہ میں تو اِس سے پہلے ایک عمر تمھارے درمیان گزار چکا ہوں۔ (میں نے کب اِس طرح کی کوئی بات کبھی کی ہے)؟ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ سو اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا، جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اُس کی آیتوں کو جھٹلا دے؟ حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کے مجرم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔‘‘

مدعا یہ تھا کہ احمقو، تم نے کب دیکھا ہے کہ میں اُن مباحث میں دل چسپی لے رہا ہوں یا اُن کے بارے میں کچھ خیالات و افکار کا اظہار کر رہا ہوں یا اُن کی ترتیب و تدوین کے لیے مشق و مزاولت میں مصروف ہوں یا اُن سے متعلق کسی علم و فن کا اکتساب کر رہا ہوں، جو اِس وقت قرآن کی سورتوں میں پے در پے زیر بحث آرہے ہیں؟ پورے چالیس سال میں نے تمھارے درمیان گزارے ہیں، میری باتوں اور میری حرکات وسکنات میں تم نے کب ایسی کوئی چیز محسوس کی ہے، جسے اُس دعوت کی تمہید کہا جاسکے، جو میں اِس وقت پیش کر رہا ہوں؟ جو کچھ میں آج کہہ رہا ہوں، اُس کے نشو و ارتقا کے کوئی نشانات تم نے کبھی میری زندگی میں پائے ہیں؟ تم جانتے ہو کہ انسانی دماغ اپنی عمر کے کسی مرحلے میں بھی ایسی کوئی چیز پیش نہیں کر سکتا، جس کے نشو و ارتقا کے نشانات اُس سے پہلے کے مرحلوں میں نہ پائے جاتے ہوں؟ تم کہتے ہو کہ میں خدا پر جھوٹ باندھ رہا ہوں۔ اِس سے پہلے کسی جھوٹ، فریب، جعل یا مکاری و عیاری کا کوئی ادنیٰ شائبہ تم نے کبھی میری سیرت و کردار میں دیکھا ہے؟ آج تک تم مجھے صادق اور امین سمجھتے رہے ہو۔ اب کس طرح کہہ رہے ہو کہ وہی صادق اور امین راتوں رات برخود غلط، لپاٹیا اور مفتری بن گیا ہے؟ خدا کے بندو، تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟

دوسرا یہ کہ انسان کا علم کبھی تضادات سے خالی نہیں ہو سکتا۔ تراشیدم، پرستیدم، شکستم کی جو داستان وہ پہلے دن سے رقم کرنا شروع کرتا ہے، وہی آخر تک جاری رہتی ہے۔ یہ بھی ، اگر غور کیجیے تو اُسی سعی و خطا کا نتیجہ ہے، جس کا ذکر پیچھے ہوا۔ پھر یہی نہیں، اُس کا یہ علم اگر کبھی ادب کا پیرہن اختیار کرے تو اُس میں بھی یہی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ اُس کی تخلیقات کو دقت نظر کے ساتھ دیکھیے تو نظم، بلا غت، معانی، ہر چیز متفاوت نظر آئے گی۔ اُس کا کلام کسی جگہ حسن بیان کا معجزہ ہوگا اور کسی جگہ اِس سے کہیں نیچے، بلکہ مہمل دکھائی دے گا۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا انسان کبھی نہیں ہوا، جو فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے حد اعجاز کو پہنچی ہوئی تقریریں متنوع موضوعات پر اور مختلف حالات میں مسلسل کرتا رہے، اور شروع سے آخر تک اُس کی یہ تقریریں جب مرتب کی جائیں تو ایک ایسے ہم رنگ اور متوافق مجموعۂ کلام کی صورت اختیار کر لیں، جس میں نہ خیالات کا کوئی تصادم ہو، نہ متکلم کے دل و دماغ میں پیدا ہونے والی کیفیات کی کوئی جھلک دکھائی دے، اور نہ راے اور نقطۂ نظر کی تبدیلی کے کوئی آثار کہیں دیکھے جا سکتے ہوں۔

اِس سے بھی، اگر کوئی استثنا ہے تو وہ تنہا قرآن کا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:

اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا.  (النساء ۴: ۸۲)
’’پھر کیا لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں یہ بہت کچھ اختلاف پاتے۔‘‘

استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... قرآن کی ہر بات اپنے اصول اور فروع میں اتنی مستحکم اور مربوط ہے کہ ریاضی اور اقلیدس کے فارمولے بھی اتنے مستحکم و مربوط نہیں ہو سکتے۔ وہ جن عقائد کی تعلیم دیتا ہے، وہ ایک دوسرے سے اِس طرح وابستہ و پیوستہ ہیں کہ اگر اُن میں سے کسی ایک کو بھی الگ کر دیجیے تو پورا سلسلہ ہی درہم برہم ہوجائے۔ وہ جن عبادات و طاعات کا حکم دیتا ہے، وہ عقائد سے اِس طرح پیدا ہوتی ہیں، جس طرح تنے سے شاخیں پھوٹتی ہیں؛ وہ جن اعمال و اخلاق کی تلقین کرتا ہے، وہ اپنے اصول سے اِس طرح ظہور میں آتے ہیں، جس طرح ایک شے سے اُس کے قدرتی اور فطری لوازم ظہور میں آتے ہیں؛ اُس کی مجموعی تعلیم سے زندگی کا جو نظام بنتا ہے، وہ ایک بنیان مرصوص کی شکل میں نمایاں ہوتا ہے، جس کی ہر اینٹ دوسری اینٹ سے اِس طرح جڑی ہوئی ہے کہ اُن میں سے کسی کو بھی الگ کرنا بغیر اِس کے ممکن نہیں کہ پوری عمارت میں خلا پیدا ہوجائے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/۳۴۷)

تیسرا یہ کہ کسی انسان کا علم کبھی سراسر حق نہیں ہوتا۔ اُس میں ہمیشہ کچھ آمیزش حق کے ساتھ باطل کی بھی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ وہ دنیا سے رخصت نہیں ہوتا کہ اُس کے علم، معلومات، استنباط و استدلال اور اندازوں کی غلطیاں واضح ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ سقراط و فلاطوں، نیوٹن اور آئن اسٹائن، ہر ایک کی تقدیر یہی ہے۔ اِس سے کسی کو مفر نہیں۔ علم و ادب کی پوری تاریخ میں اِس سے مستثنیٰ کوئی ایک شخص بھی کسی جگہ اور کسی دور میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ مگر قرآن اِس معاملے میں بھی ایک حیرت انگیز استثنا ہے۔ چنانچہ کم و بیش پندرہ سو سال ہوگئے ہیں، وہ معرض امتحان میں ہے، لیکن کسی بڑے سے بڑے فلسفی، حکیم اور سائنس دان کے لیے بھی ممکن نہیں ہوا کہ اُس کی کسی بات کو غلط اور کسی تعلیم کو باطل ثابت کر دے۔ پچھلی تین صدیوں میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، مگر اِس پورے سفر میں کسی ایسی حقیقت کا انکشاف نہیں ہوا، جو قرآن کے پیش کردہ حقائق کے خلاف ہو، کسی علم نے قرآن کے بیان کردہ علم کی تردید نہیں کی، کوئی تجربہ اور مشاہدہ ایسا نہیں ہوا، جو اُس رہنمائی کو غلط ٹھیرا دے، جو قرآن نے اپنے پیش نظر کسی بھی مقصد کے لیے انسان کو دی ہے۔ وہ جس کو حق کہتا ہے، وہ کبھی باطل نہیں ہوا اور جس کو باطل کہتا ہے، وہ کبھی حق ثابت نہیں ہوا۔ قرآن کے بارے میں یہ حقائق ناقابل تردید ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے:

وَاِنَّهٗ لَكِتٰبٌ عَزِيْزٌ، لَّا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْۣ بَيْنِ يَدَيْهِ، وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ، تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ. (حمٓ السجدہ ۴۱: ۴۱- ۴۲)
’’حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے۔ اِس میں نہ باطل آگے سے داخل ہوسکتا ہے اور نہ اِس کے پیچھے سے۔ یہ نہایت اہتمام کے ساتھ اُس ہستی کی طرف سے اتاری گئی ہے، جو سراسر حکمت ہے، ستودہ صفات ہے۔‘‘

یہ معیار ہے، جس کے مطابق اپنی صداقت کو ثابت کر دینے کے بعد قرآن نے انسان کو بتایا ہے کہ جس کائنات کو تم اپنا خالق سمجھنے کی غلطی کر رہے ہو، وہ بھی اُسی کی مخلوق ہے، جو تمھارا خالق ہے۔ تم دیکھتے نہیں ہو کہ اِس دنیا کی ہر چیز حسن تخلیق کا معجزانہ اظہار ہے، ہر چیز میں اتھاہ معنویت ہے، غیر معمولی اہتمام ہے، حکمت، تدبیر، منفعت اور حیرت انگیز نظم و ترتیب ہے، غایت درجہ موزونیت ہے، بے پناہ توافق ہے، بے مثال اقلیدس اور ریاضی ہے، جس کی کوئی توجیہ اِس کے سوا نہیں ہو سکتی کہ اِس کو بھی اُسی علیم و حکیم نے تخلیق کیا ہے، جس نے تمھیں تخلیق کیا ہے۔ وہی جس نے زمین کو تمھارے لیے گہوارہ اور پہاڑوں کو اُس کی میخیں بنادیا ہے، تمھیں جوڑوں کی صورت میں پیدا کیا ہے اور تمھاری نیند کو تمھارے لیے باعث راحت، رات کو لباس اور دن کو معاش کا وقت بنادیا ہے، تمھارے اوپر سات محکم آسمان بنائے اور اُن میں ایک دہکتا چراغ جلا دیا ہے۔ وہی جس نے نچڑتی بدلیوں سے چھاجوں مینہ برسایا اور اُس سے سبزہ اور غلے اور گھنے باغ اگادیے ہیں:

هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ، عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ، هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ، اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ، سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ. هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ، لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰي، يُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ. (الحشر ۵۹:  ۲۲- ۲۴)
’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، غائب و حاضر کا جاننے والا، وہ سراسر رحمت ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، بادشاہ، وہ منزہ ہستی، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، غالب، بڑے زور والا، بڑائی کا مالک۔ پاک ہے اللہ اُن سے جو یہ شریک بناتے ہیں۔ وہی اللہ ہے نقشہ بنانے والا، وجود میں لانے والا، صورت دینے والا، سب اچھے نام اُسی کے ہیں۔ زمین اور آسمانوں کی سب چیزیں اُس کی تسبیح کرتی ہیں، اور وہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔‘‘

قرآن نے بتایا ہے کہ اِس خالق کی ربوبیت کا اقرار ایک ایسی چیز ہے، جو ازل ہی سے انسان کی فطرت میں ودیعت کر دی گئی ہے۔ اُس کا بیان ہے کہ اِس کا اولین ظہور ایک عہد و میثاق کی صورت میں ہوا تھا۔ اِس عہد کا ذکر قرآن ایک امر واقعی کی حیثیت سے کرتا ہے۔ انسان کو یہاں امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے، اِس لیے یہ واقعہ تو اُس کی یاد داشت سے محو کر دیا گیا ہے، لیکن اِس کی حقیقت اُس کے صفحۂ قلب پر نقش اور اُس کے نہاں خانۂ دماغ میں پیوست ہے، اِسے کوئی چیز بھی محو نہیں کر سکتی۔ چنانچہ ماحول میں کوئی چیز مانع نہ ہو اور انسان کو اِسے یاد دلایا جائے تو وہ اِس کی طرف اِس طرح لپکتا ہے، جس طرح بچہ ماں کی طرف لپکتا ہے، دراں حالیکہ اُس نے کبھی اپنے آپ کو ماں کے پیٹ سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھا، اور اِس یقین کے ساتھ لپکتا ہے، جیسے کہ وہ پہلے ہی سے اُس کو جانتا تھا۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ خالق کا یہ اقرار اُس کی ایک فطری احتیاج کے تقاضے کا جواب تھا، جو اُس کے اندر ہی موجود تھا۔ اُس نے اِسے پالیا ہے تو اُس کی نفسیات کے تمام تقاضوں نے بھی اِس کے ساتھ ہی اپنی جگہ پالی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ انسان کے باطن کی یہ شہادت ایسی قطعی ہے کہ جہاں تک خدا کی ربوبیت کا تعلق ہے، ہر شخص مجرد اِس شہادت کی بنا پر اللہ کے حضور میں جواب دہ ہے۔ فرمایا ہے:

وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۣ بَنِيْ٘ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ، وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰ٘ي اَنْفُسِهِمْ، اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ؟ قَالُوْا: بَلٰي، شَهِدْنَاﵑ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ: اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ. اَوْ تَقُوْلُوْ٘ا اِنَّمَا٘ اَشْرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ، وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّنْۣ بَعْدِهِمْ، اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ؟ وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ، وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ. (الاعراف ۷: ۱۷۲ - ۱۷۴)
’’اِنھیں وہ وقت بھی یاد دلاؤ، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ ٹھیرایا تھا۔ (اُس نے پوچھا تھا): کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہاں، (آپ ہی ہمارے رب ہیں)، ہم اِس کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اِس لیے کیا کہ قیامت کے دن تم کہیں یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اِس بات سے بے خبر ہی رہے یا اپنا یہ عذر پیش کرو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے پہلے سے کررکھی تھی اور ہم بعد کو اُن کی اولاد ہوئے ہیں۔ پھر کیا آپ اُن غلط کاروں کے عمل کی پاداش میں ہمیں ہلاک کریں گے؟ ہم اِسی طرح اپنی آیتوں کی تفصیل کرتے ہیں، اِس لیے کہ لوگوں پر حجت قائم ہو اور اِس لیے کہ وہ رجوع کریں۔‘‘

یہی اقرار اِس کائنات کی روح ہے۔ انسان کی عقل اِسی سے مطمئن ہوتی اور اُس کا سینہ اِسی سے مطلع انوار بنتا ہے۔ چنانچہ وہ پکار اٹھتا ہے کہ لاریب، اللہ ہی ہے، جس کے نور سے یہ زمین و آسمان روشن ہیں:

اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ، اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ، اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ، يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ، لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ، يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْٓءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ، نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ، يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَآءُ، وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ، وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ. (النور ۲۴: ۳۵)
’’اللہ زمین اور آسمانوں کی روشنی ہے۔ (انسان کے دل میں) اِس روشنی کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک طاق جس میں ایک چراغ ہے۔ چراغ شیشے کے اندر ہے۔ شیشہ ایسا ہے، جیسے ایک چمکتا ہوا تارا۔ وہ زیتون کے ایک ایسے شاداب درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہے، جو نہ شرقی ہے نہ غربی۔ اُس کا تیل (ایسا شفاف ہے کہ) گویا آگ کے چھوئے بغیر ہی بھڑک اٹھے گا۔ روشنی کے اوپر روشنی! اللہ جس کو چاہتا ہے، اپنی اِس روشنی کی ہدایت بخشتا ہے۔ اللہ یہ تمثیلیں لوگوں کی رہنمائی کے لیے بیان فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘

استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...یہ آسمان و زمین، بلکہ یہ پوری کائنات اُس شخص کے لیے ایک عالم ظلمات اور ایک اندھیر نگری ہے، جو خدا کو نہیں مانتا یا مانتا ہے، لیکن خدا کی صفات اور اُن کے مقتضیات کو نہیں تسلیم کرتا۔ ایسا شخص نہ یہ جان سکتا ہے کہ یہ دنیا کہاں سے آئی ہے اور نہ یہ جان سکتا ہے کہ اِس کے وجود میں آنے کی غایت اور مقصد کیا ہے؟ وہ خود اپنے متعلق بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اُس کا مقصد وجود کیا ہے؟ وہ اِس دنیا میں مطلق العنان اور شتربے مہار ہے یا پابند و محکوم؟ وہ مسؤل ہے یا غیرمسؤل؟ اُس کے لیے کیا خیر ہے اور کیا شر؟ اُسے ظلم کی روش اختیار کرنی چاہیے یا عدل کی؟ اُسے مجرد اپنے مفاد اور خواہشوں کی پیروی کرنی چاہیے یا اُن سے کسی بالاتر نصب العین کی؟ اِن سوالوں کے صحیح جواب ہی پر صحیح اور کامیاب زندگی کا انحصار ہے۔ لیکن جو شخص خدا کو نہیں مانتا، وہ اِن سوالوں کا صحیح حل نہیں پا سکتا۔ وہ اندھیرے میں اندھے بھینسے کی طرح بھٹکتا پھرتا ہے اور بالآخر قعر ہلاکت میں گر کر اپنے کیفر کردار کو پہنچ جاتا ہے۔ البتہ جو شخص خدا کو اُس کی صحیح صفات کے ساتھ مانتا ہے، وہ اِس کائنات کا سرا بھی پا جاتا ہے اور اِس کا انجام بھی اُس پر واضح ہو جاتا ہے۔ اُس پر اُن تمام سوالوں کے جواب بھی روشن ہو جاتے ہیں، جن کو خدا کا نہ ماننے والا کبھی حل نہیں کر سکتا۔ اِس وجہ سے یہ دنیا اُس کے لیے اندھیر نگری نہیں رہتی، بلکہ ایمان کے نور سے اُس کے لیے اِس کی ہر چیز جگمگا اٹھتی ہے اور اِس کا ہر پہلو اُس پر روشن ہو جاتا ہے۔ وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے، پورے دن کی روشنی میں اٹھاتا ہے اور جس سمت میں بھی چلتا ہے، خدا کے ایمان کا نور اُس کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہی حقیقت اِس (آیت) میں واضح فرمائی گئی ہے کہ اِس آسمان و زمین کا نور اللہ ہے۔ جس کے پاس یہ نور ہے، وہ روشنی میں اور صراط مستقیم پر ہے۔ اور جو اِس نور سے محروم ہے، وہ ایک عالم ظلمات میں بھٹک رہا ہے اور کوئی دوسرا اُس کو روشنی نہیں دے سکتا۔ ’وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ ‘۔‘‘ (تدبر قرآن ۵/ ۴۰۹)

ـــــــــــــــــــــــــ

B