ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر
عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ:۱ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا أَعْلَمُ بِمَا مَعَ الدَّجَّالِ مِنْهُ، نَهْرَانِ: أَحَدُهُمَا نَارٌ تَأَجَّجُ فِي عَيْنِ مَنْ رَآهُ، وَالْآخَرُ مَاءٌ أَبْيَضُ فَإِنْ أَدْرَكْهُ مِنْكُمْ أَحَدٌ فَلْيُغْمِضْ، وَلْيَشْرَبْ مِنَ الَّذِي يَرَاهُ نَارًا، فَإِنَّهُ مَاءٌ بَارِدٌ، وَإِيَّاكُمْ وَالْآخَرَ فَإِنَّهُ الْفِتْنَةُ، وَاعْلَمُوا أَنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ، يَقْرَأُهُ مَنْ يَكْتُبُ وَمَنْ لَا يَكْتُبُ، وَأَنَّ إِحْدَى عَيْنَيْهِ مَمْسُوحَةٌ عَلَيْهَا ظَفَرَةٌ، أَنَّهُ يَطْلُعُ مِنْ آخِرِ أَمْرِهِ عَلَى بَطْنِ الْأُرْدُنِّ، عَلَى بَيْتِهِ أَفْيَقُ، وَكُلُّ وَاحِدٍ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ بِبَطْنِ الْأُرْدُنِّ، وَأَنَّهُ يَقْتُلُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ثُلُثًا، وَيَهْزِمُ ثُلُثًا، وَيُبْقِي ثُلُثًا، وَيَجِنُّ عَلَيْهِمُ اللَّيْلُ، فَيَقُولُ بَعْضُ الْمُؤْمِنِينَ لِبَعْضٍ: مَا تَنْتَظِرُونَ أَنْ تَلْحَقُوا بِإِخْوَانِكُمْ فِي مَرْضَاةِ رَبِّكُمْ، مَنْ كَانَ عِنْدَهُ فَضْلُ طَعَامٍ فَلْيَغْدُ بِهِ عَلَى أَخِيهِ، وَصَلُّوا حِينَ يَنْفَجِرُ الْفَجْرُ، وَعَجِّلُوا الصَّلَاةَ، ثُمَّ أَقْبِلُوا عَلَى عَدُوِّكُمْ، فَلَمَّا قَامُوا يُصَلُّونَ نَزَلَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِ إِمَامُهُمْ، فَصَلَّى بِهِمْ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: هَكَذَا افْرِجُوا بَيْنِي وَبَيْنَ عَدُوِّ اللّٰهِ.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حذیفہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال کے پاس جو کچھ ہو گا، اُس کے بارے میں خود اُس سے زیادہ میں علم رکھتا ہوں۔اُس کے پاس دو نہریں ہوں گی، جن میں سے ایک دیکھنے والے کی نظر میں بھڑکتی ہوئی آگ دکھائی دے گی اور دوسری میں سفید رنگ کا پانی ہوگا۔سو تم میں سے اگر کوئی اُس کو پائے تو اُس کو چاہیے کہ (اپنی آنکھیں بند کر کے) اُس نہر سے پیے جسے وہ آگ (کی طرح )دیکھ رہا ہو، اِس لیے کہ وہ در اصل ٹھنڈا پانی ہوگا۔اور دوسری نہر سے تم لوگ دور رہنا ، اِس لیے کہ وہ آزمایش (کا باعث) ہوگی۔اور جان رکھو کہ اُس (دجال) کی دونوں آنکھوں کے مابین ’ کافر‘ لکھا ہوگا جسے ہر پڑھا لکھا اور اَن پڑھ (بہ آسانی) پڑھ لے گا اور یہ کہ اس کی ایک آنکھ ایسے مٹی ہوئی ہوگی کہ اُس کے اوپر جلد چڑھی ہوگی۔یہ دجال بالآخر اردن۱ کے میدانی علاقے میں نمودار ہوگا ،اِس طرح کہ اُس کے گھر پر افیق کی گھاٹی جھک رہی ہوگی۲۔ اردن کے علاقے میں ہر شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہوگا۔ اور یہ (دجال) اُن مسلمانوں میں سے ایک تہائی لوگوں کو قتل کردے گا، ایک تہائی کو پسپا کر دے گا اور ایک تہائی کو (پہلے کی طرح) باقی رکھے گا۔ پھر جب رات چھا جائے گی تو اہل ایمان ایک دوسرے سے کہیں گے، اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنے (مسلمان) بھائیوں سے جا ملنے میں انتظار کس بات کا!جس کے پاس بھی کوئی کھانا بچا ہو، وہ اُسے اپنے بھائی تک پہنچائے اور فجر کا وقت ہوتے ہی فی الفور نماز پڑھو اور اپنے دشمن کے مقابلے میں نکل آؤ۔ پھر جب وہ (فجر کی) نماز پڑھنے لگیں گےتو اُن کے امام عیسیٰ ابن مریم نازل ہوکر اُن کو نماز پڑھائیں گے۔جب وہ نماز پڑھا کر پلٹیں گے تو فرمائیں گے: اِس طرح ،
۳ میرے اور اللہ کے دشمن کے مابین راستہ چھوڑ دو۴۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یہ ہلاکت سے پہلے دجال کے آخری تاخت کے لیے نمودار ہونے کا ذکر ہے۔اِس میں اردن کے ذکر سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔
۲۔اِس کے لیے اصل میں ’عَلَى بَيْتِهِ أَفْيَقُ ‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہ اُس مدعا کے لیے بہت واضح نہیں ہیں ، جو اِن سے بظاہر معلوم ہوتا ہے۔
۳۔ اصل میں ’هَكَذَا ‘ کا لفظ آیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ گویا اشارے سے فرمایا۔
۴۔ دجال سے متعلق یہاں اور اِس کے آگے کی روایتوں میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں، اُن کی وضاحت پیچھے ’ دجال کا خروج‘ کے زیر عنوان ہوچکی ہے۔
۱۔ اِس روایت کا متن مستدرك حاکم، رقم ۸۵۰۷ سے لیا گیا ہے اور اِس کا ایک ہی متابع طریق ہے جو الایمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۳۳ میں نقل ہوا ہے۔
إِنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ:۱ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ لِي: «مَا يُبْكِيكِ؟» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، ذَكَرْتُ الدَّجَّالَ فَبَكَيْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «[لَا تَبْكِي۲ ] إِنْ يَخْرُجِ الدَّجَّالُ وَأَنَا حَيٌّ كَفَيْتُكُمُوهُ، وَإِنْ يَخْرُجْ بَعْدِي، فَإِنَّ رَبَّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، وَإِنَّهُ يَخْرُجُ فِي يَهُودِيَّةِ أَصْبَهَانَ،۳ [فَيَسِيرُ۴ ] حَتَّى يَأْتِيَ الْمَدِينَةَ فَيَنْزِلَ نَاحِيَتَهَا، وَلَهَا يَوْمَئِذٍ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ۵ مِنْهَا مَلَكَانِ، فَيَخْرُجَ إِلَيْهِ شِرَارُ أَهْلِهَا حَتَّى الشَّامِ مَدِينَةٍ بِفِلَسْطِينَ بِبَابِ لُدٍّ، وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ -أي الطيالسي- مَرَّةً: حَتَّى يَأْتِيَ فِلَسْطِينَ بَابَ لُدٍّ، [وَفِي رِوَايَاتٍ: فَيَنْطَلِقُ حَتَّى يَأْتِيَ لُدًّا۶ ] فَيَنْزِلَ عِيسَى [ابْنُ مَرْيَمَ۷ ] عَلَيْهِ السَّلَامُ فَيَقْتُلَهُ، ثُمَّ يَمْكُثَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً [أَوْ قَرِيبًا مِنْ أَرْبَعِينَ سَنَةً۸ ] إِمَامًا عَدْلًا، وَحَكَمًا مُقْسِطًا».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میں اُس وقت رو رہی تھی۔ آپ نے دیکھا تو فرمایا: تم کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، مجھے دجال کا خیال آیا تو میں رو پڑی۔آپ نے فرمایا: مت رو۔ اگر دجال میرے حین حیات نمودار ہوا تو اُس کے مقابلے میں تمھارے لیے میں کافی ہوں گا۔ اور اگر وہ میرے بعد ظاہر ہوا تو (آگاہ رہو کہ) تمھارا صاحب عزت وجلال رب یک چشم نہیں ہے، (جب کہ دجال یک چشم ہوگا)۔ اُس کا خروج اصبہان کے یہودی علاقے میں ہوگا۱۔ پھر وہ سفر کرتا ہوا مدینہ کی طرف آئے گااور اُس کے کنارے پر پڑاؤ ڈالے گا۔ اُس زمانے میں مدینہ کے سات دروازے ہوں گے، اُس میں داخل ہونے کے ہر راستےپر (پہرے کے لیے) دو فرشتے مقرر ہوں گے۔ پھر اہل مدینہ کے بُرے لوگ مل کر دجال کے ساتھ ہو جائیں گے اور فلسطین کےشہر شام میں بابِ لُد تک اُس کے ساتھ جائیں گے۔طیالسی کہتے ہیں کہ بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں کہ: یہاں تک کہ دجال فلسطین میں بابِ لُد کے علاقے میں آئے گا، جب کہ بعض روایتوں میں ہے کہ: پھر وہ روانہ ہوگا، یہاں تک لُد کے علاقے میں پہنچے گا۔ پھر عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کردیں گے۔اِس کے بعد عیسیٰ ایک عادل حکمران اور منصف حَکم کی حیثیت سے روے زمین پرچالیس سال یا فرمایا کہ چالیس سال کے قریب عرصہ گزاریں گے
۲۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔یعنی ابتدا میں، جب وہ مسلمانوں کے علاقے پر تاخت کے لیے نکلے گا۔
۲۔ پیچھے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے نقل ہوا ہے کہ سیدنا مسیح کا عرصۂ قیام سات سال ہوگا، یہاں یہ چالیس سال بیان ہوا ہے۔ پھر راوی کو اِس میں بھی تردد ہے۔ اِس طرح کے تضادات اِن روایتوں میں ہر جگہ دیکھے جاسکتے ہیں۔اب اِس کے سوا کیا چارہ ہے کہ اِن سے قطع نظر کر کے اصل بات پر نگاہ رکھی جائے۔
۱۔ اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۲۴۴۶۷ سے لیا گیا ہے۔ اس کی راوی تنہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۷۴۔ السنۃ، عبد اللہ بن احمد، رقم ۹۹۶، ۱۱۴۸۔صحيح ابن حبان، رقم۶۸۲۲۔ الایمان، ابن منده، رقم ۱۰۵۶۔ السنن الواردة فی الفتن، دانی، رقم ۶۸۷۔
۲۔ السنۃ، عبد اللہ بن احمد، رقم ۱۱۴۸۔
۳۔ بعض روایتوں، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۷۴ میں یہاں ’وَإِنَّهُ يَخْرُجُ مَعَهُ يَهُودُ أَصْبَهَانَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
۴۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۷۴۔
۵۔ دوسرے طرق، مثلاً صحیح ابن حبان، رقم ۶۸۲۲ میں یہاں ’نَقْب ‘ کے بجاے ’بَاب‘ کا لفظ آیا ہے۔
۶۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۷۴۔
۷۔ نفس مصدر۔
۸۔ ایضًا۔
عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، قَالَ:۱ ذَكَرَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ، فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ، حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا، فَقَالَ: «مَا شَأْنُكُمْ؟» قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ غَدَاةً، فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ، حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَقَالَ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ، إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ، فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ، وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ، فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللّٰهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، إِنَّهُ شَابٌّ [جَعْدٌ۲ ] قَطَطٌ، عَيْنُهُ طَافِئَةٌ، كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ، فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ، فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ، إِنَّهُ خَارِجٌ خَلَّةً بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ، فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاثَ شِمَالًا، يَا عِبَادَ اللّٰهِ فَاثْبُتُوا» قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ: «أَرْبَعُونَ يَوْمًا، يَوْمٌ كَسَنَةٍ، وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ، وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ، وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ» قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ، أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ؟ قَالَ: «لَا، اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ» قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، وَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ: «كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ، فَيَأْتِي عَلَى الْقَوْمِ فَيَدْعُوهُمْ، فَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ، فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ فَتُمْطِرُ، وَالْأَرْضَ فَتُنْبِتُ، فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ، أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًا، وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا، وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ، ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ، فَيَدْعُوهُمْ، [فَيُكَذِّبُونَهُ،۳ ] فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ، [فَتَتْبَعُهُ أَمْوَالُهُمْ،۴ ] فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ، فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ، وَيَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ، فَيَقُولُ لَهَا: أَخْرِجِي كُنُوزَكِ، فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ، ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا، فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جَزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ، ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ وَيَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ، يَضْحَكُ، فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللّٰهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ، فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ، بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ، وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ، إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ، وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ، فَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ، وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرْفُهُ، فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ [الشَّرْقِيِّ۵ ]، فَيَقْتُلُهُ، ثُمَّ يَأْتِي عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ قَوْمٌ قَدْ عَصَمَهُمُ اللهُ مِنْهُ، فَيَمْسَحُ عَنْ وُجُوهِهِمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ، فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللّٰهُ إِلَى عِيسَى: إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي، لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ، فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ وَيَبْعَثُ اللّٰهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَهُمْ [كَمَا قَالَ اللّٰهِ۶:عزوجل ] ﴿مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ﴾ [الأنبياء: ۹۶ ]، فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةَ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا، وَيَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ: لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٌ، وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللّٰهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ، حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمُ الْيَوْمَ، فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللّٰهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ [إِلَى اللّٰهِ۷ ]، فَيُرْسِلُ اللّٰهُ عَلَيْهِمُ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ، فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللّٰهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى الْأَرْضِ، فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ، فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللّٰهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللّٰهِ، فَيُرْسِلُ اللّٰهُ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللّٰهُ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللّٰهُ مَطَرًا لَا يَكُنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ [أَرْبَعِينَ يَوْمًا۸ ]، فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّى يَتْرُكَهَا كَالزَّلَفَةِ، ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ: أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ، وَرُدِّي بَرَكَتَكِ، فَيَوْمَئِذٍ [تَخْضَارُّ فَلَا تَيْبَسُ، وَتَيْنَعُ فَلَا تَذْهَبُ ثَمَرَتُهَا،۹ ] تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرُّمَّانَةِ، وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا، وَيُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ، حَتَّى أَنَّ اللِّقْحَةَ مِنَ الْإِبِلِ لَتَكْفِي الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ، وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْبَقَرِ لَتَكْفِي الْقَبِيلَةَ مِنَ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْغَنَمِ لَتَكْفِي الْفَخِذَ مِنَ النَّاسِ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللّٰهُ رِيحًا طَيِّبَةً، فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ، فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَكُلِّ مُسْلِمٍ، وَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ،۱۰ يَتَهَارَجُونَ فِيهَا تَهَارُجَ الْحُمُرِ، فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر فرمایا اور بہت اضطراب میں ڈال دینے والی باتیں فرمائیں۱۔ یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ گویا وہ کھجوروں کے جھنڈمیں کہیں موجود ہے ۔پھرجب ہم شام کو آپ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے ہماری اِس کیفیت کو بھانپ لیا اور فرمایا:تم لوگوں کو کیا ہواہے؟ہم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول،صبح کے وقت جب آپ نے دجال کا ذکر فرمایاتو بہت پریشان کردینے والی باتیں فرمائی تھیں، یہاں تک کہ ہمیں یہ لگا کہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے۔ اِس پر آپ نے فرمایا: مجھے تم لوگوں کے بارے میں دجال کے بجاے دوسری چیزوں کا اندیشہ زیادہ ہے ۔ اگر وہ اُس وقت نمودار ہوا جب میں تمھارے درمیان موجود ہوں گا تو تم تک پہنچنے سے پہلے میں اُس کو مغلوب کر دوں گا۔ اور اگر وہ اُس زمانے میں ظاہر ہوا جب میں تمھارے درمیان نہیں ہوں گا تو ہر آدمی اپنا دفاع خود کرے گا اور میرے بعد ہر مسلمان کو سنبھالنے والا (نگہبان) اللہ ہی ہوگا۔ یہ (دجال ) چھوٹے اور گھنگریالے بالوں والا نوجوان ہوگا، اِس کی (ایک) آنکھ باہر نکلی ہوئی (اور بے نور) ہوگی۔ گویا میں اِس کو عبد العزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں۔سو تم میں سے جو شخص اِس کو پائے، اُس کو چاہیے کہ اِس کے سامنے۲ سورۂ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے۔ یہ عراق اور شام کے درمیان میں ایک راستے سے نکل کر آئے گا ۔ پھر یہ دائیں اور بائیں، ہر طرف تباہی مچائے گا۔ اے اللہ کے بندو، تم ثابت قدم رہنا ۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، یہ روے زمین پر کتنے عرصے تک رہے گا؟ آپ نے فرمایا: چالیس دن، جن میں سے ایک دن ایک سال کی طرح کا ہوگا، ایک دن ایک مہینے کے برابر ہوگا، ایک دن ایک ہفتے کے برابر ہوگا اور اِس کے (باقی) سارے دن تمھارے (عام) دنوں ہی کی طرح ہوں گے۔ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ، دجال کا جو دن ایک سال کی طرح ہوگا، کیا اُس میں ہمیں ایک دن کی نماز کافی ہوگی؟ آپ نے فرمایا: نہیں، تم اُس دن کے حساب سے اندازہ کر کے نماز پڑھنا
۳۔ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، زمین پر اُس کی سرعت رفتار کیسی ہوگی؟ آپ نے فرمایا:اُس بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو۴۔ پھر وہ ایک قوم کے پاس آئے گا، اُنھیں دعوت دے گا تو وہ اُس پر ایمان لے آئیں گے اور اُس کے حکم پر چلیں گے۔ وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا اور زمین کو حکم دے گا تو وہ فصلیں اگائےگی۵۔ شام کے وقت اُن کے جانور (چراگاہوں سے) واپس آئیں گے تو اُن کے کوہان نہایت اونچےاور تھن دودھ سے خوب بھرے ہوئے اور کوکھیں بہت پھیلی ہوئی ہوں گی۔پھر وہ (ایک اور) قوم کے پاس آئے گا، اُنھیں (بھی) دعوت دے گا تو وہ اُس کو جھٹلا کر اُس کی بات ٹھکرادیں گے۔ اِس پر اُن کے اموال اُن کو چھوڑ کر دجال کے پیچھے ہو لیں گے، چنانچہ وہ وہاں سے جائے گا تو لوگ قحط کا شکار ہو جائیں گے، اور اُن کے مال ومواشی میں سے کوئی چیز اُن کےہاتھ میں نہیں ہوگی۔ پھر وہ (دجال)ویران زمین سے گزرے گا تو اُس سے کہے گا: اپنے خزانے نکال،چنانچہ اُس کے خزانے (نکل کر) اِس طرح اُس کے پیچھے چل پڑیں گےجیسے شہد کی مکھیاں اپنی ملکہ کے پیچھے چلتی ہیں۔ پھر وہ ایک جوان رعنا کو طلب کرے گا اور اُسے تلوار سے مار کر اُس کے دوٹکڑے کردے گا جو اتنی دور جا گریں گے جیسے نشانے پر پھینکا گیا تیر گرتا ہے۔ پھر وہ اُس (نوجوان) کو پکارے گا تو وہ (زندہ ہوکر) چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا اُس کے پاس آئے گا۶۔ وہ (دجال)اِسی عالم میں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم کو بھیج دیں گے جو دمشق کے مشرقی علاقے میں سفید مینار کے پاس اِس حالت میں اتریں گے کہ دوزرد کپڑوں میں ملبوس ہوں گے، دو فرشتوں کے پروں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے ہوں گے۔ جب وہ اپنا سر جھکا ئیں گے تو اُس سے پانی ٹپکے گا اورسر اٹھائیں گے تو اُس سے چمکتے موتیوں کی طرح پانی کی بوندیں گریں گی۷۔جو کافر بھی آپ کی سانس کی خوشبو پائے گا ، اُس کے لیے مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۸۔ اُن کے سانس (کی خوشبو)وہاں تک پہنچے گی جہاں تک اُن کی نظر جائے گی۔چنانچہ وہ دجال کی تلاش میں نکلیں گے۹ اور مشرقی علاقے میں بابِ لُد کے مقام پر اُس کو پا کر قتل کردیں گے۔ پھر عیسیٰ ابن مریم کے پاس کچھ لوگ آئیں گے جنھیں اللہ نے اُس (دجال)سے محفوظ رکھا ہو گاتووہ اُن کے چہروں پر اپنے ہاتھ پھیریں گےاور اُنھیں جنت میں اُن کے درجات کے بارے میں بتائیں گے ۔ پھر اِسی دوران میں اللہ تعالیٰ عیسیٰ کی طرف وحی فرمائیں گے، (جس میں ارشاد ہوگا: میں نے اپنے ایسے بندوں کو (زمین میں) نمودار کر دیا ہے جن سے جنگ کرنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۱۰۔ پس آپ میرے (اِن) بندوں کو بچا کر کوہِ طور کی طرف لے جائیے۔اِس کے بعد اللہ یاجوج وماجوج کو بھیج دے گا اور وہ اللہ کے ارشاد کے مطابق ہر بلندی سے پل پڑیں گے۱۱۔ پھر اُن کے (لشکر کا) اگلا حصہ بحیرۂ طبریہ سے گزرے گا تو اُس میں جو(پانی)ہوگا، اسے پی جائے گا۔ پھر اُنھی کے بعد کے لوگ (وہاں) سے گزریں گے تو کہیں گے: کبھی اِس (بحیرہ )میں (بھی)پانی ہوا کرتا تھا۔پھر اللہ کے نبی عیسیٰ اور اُن کے ساتھی (طور پر)محصورہوکر رہ جائیں گے۔ یہاں تک کہ اُن میں سے ہرایک کے لیے بیل کا سر اِس سے بہتر، (یعنی قیمتی)ہوگا جتنےآج تمھارے لیے سودینارہیں
۱۲۔پھراللہ کے نبی عیسیٰ اور اُن کے ساتھی گڑگڑا کر اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ اُن (یاجوج ماجوج) کی گردنوں میں کیڑوں کا عذاب نازل کر دے گا، جس کے نتیجے میں صبح کو وہ سب اِس طرح مرے ہوئے ہوں گے،جیسے سب پر ایک ہی وقت میں (اچانک) موت آ گئی ہو۱۳۔ پھر اللہ کے نبی عیسیٰ اور اُن کے ساتھی (طور سے) اترکر زمین پر آئیں گے تو زمین میں بالشت بھر جگہ بھی نہیں پائیں گےجو یاجوج وماجوج کی گندگی اور بد بو سے بھری ہوئی نہ ہو۔ یہ دیکھ کر اللہ کے نبی عیسیٰ اور اُن کے ساتھی گڑگڑا کر اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں جیسی لمبی گردنوں والے پرندے بھیجے گا جو اُنھیں اٹھاکر جہاں اللہ چاہے گا، لے جا کر پھینک دیں گے۔ پھر اللہ چالیس دن تک ایسی بارش برسائے گا جس سے کوئی اینٹوں کا گھر محفوظ رہے گا، نہ اون کا کوئی خیمہ۔ چنانچہ یہ بارش زمین کو دھوکر شیشےکی طرح (صاف) کردے گی۔پھر زمین کو حکم ہوگا:اپنے پھل اگاؤاوراپنی برکت لوٹالاؤ، چنانچہ اُس زمانے میں وہ سرسبزوشاداب ہوجائے گی اور خشک نہ ہوگی، خوب ثمر آور ہوجائے گی اور اُس کا پھل ختم نہ ہوگا۔ ایک انار سےپوری جماعت کھائےگی اور اُسی کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی۔ اور دودھ میں اتنی برکت ڈال دی جائے گی کہ دودھ دینے والی ایک اونٹنی بھی لوگوں کی ایک جماعت کو کافی ہوگی۔ اور دودھ دینے والی گائے لوگوں کے پورے قبیلےکو کفایت کرے گی۔ اور دودھ دینے والی بکری آدمی کےقریبی رشتہ داروں کے لیے کافی ہوگی۔یہ لوگ اِسی عالم میں ہوں گےکہ اللہ ایک خوش گوار ہوا بھیجے گا جو لوگوں کو اُن کی بغلوں کے نیچے سے پکڑے گی اور ہر مومن و مسلم کی روح قبض کر لے گی۔ پھر (زمین پر) بد ترین لوگ باقی رہ جائیں گے جواِس پر گدھوں کی طرح (سرعام) مجامعت کریں گے، سو قیامت اُنھی لوگوں پر قائم ہوگی۱۴۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یعنی ایسی باتیں جن سے یہ خیال ہوا کہ ہوسکتا ہے وہ ہمارے ہی زمانے میں کسی وقت آجائے۔
۲۔یعنی اُس زمانے میں، جب لوگوں کو اُس کے فتنے کا سامنا کرنا پڑے۔ہم پیچھے وضاحت کرچکے ہیں کہ ابتدائی آیات کا ذکر یہاں راوی کی غلطی ہے ، اِس لیے کہ پیش نظر مقصد کے ساتھ اُن کے مضمون کی نہ صرف یہ کہ کوئی مناسبت نہیں ہے، بلکہ اپنی الگ حیثیت میں اُن کا فصل بھی محل نظر ہے۔ سورۂ کہف کی آخری دس آیتیں ، البتہ قرآن کے خاص اسلوب میں دین کی پوری دعوت بڑے موثر طریقے سے بیان کرتی ہیں۔ روایت کی نسبت اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح ہے تو جس طرح دوسری روایتوں میں تصریح ہے، آپ نے یہ غالباً اُنھی کے بارے میں فرمایا ہے۔
۳۔ یہ آپ نے اُصولِ اجتہاد کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر دن تمھارے احساس کے لحاظ سے ایک سال کی طرح ہے تو ایک ہی دن کی اور اگر فی الواقع ایک سال کا ہوگیا ہے تو اُس کے حساب سے ہر دن کی نماز الگ الگ پڑھی جائے گی۔
۴۔اِس پر اب کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے، اِس لیے کہ ہوا کی طرح اُڑاکر لے جانے والی سواریاں اب ہمارے روز مرہ کے مشاہدے کی چیز بن چکی ہے۔
۵۔نئے علوم نے یہ چیزیں بھی بڑی حد تک ممکن بنادی ہیں۔
۶۔اِس طرح کے شعبدے نفسی علوم کی مدد سے لوگوں کی نگاہوں کو اپنی گرفت میں لے کر پہلے بھی دکھائے جاتے رہے ہیں۔
۷۔ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں کہ قرآنِ مجید اِس طرح کے نزول کو قبول نہیں کرتا ۔ چنانچہ نا گزیر ہے کہ اِس کی تعبیر کی جائے ، اُسی طرح جیسے رؤیا کے مشاہدات کی تعبیر کی جاتی ہے۔ہمارے نزدیک یہ تعبیر کیا ہے؟ اِس کی وضاحت اِس سے پہلے نزول مسیح کی روایتوں میں ہوچکی ہے۔
۸۔ مطلب یہ ہے کہ ہدایت کے لیے وہ برہان سامنے آجائے گی کہ کفر کے لیے اُس کے مقابل میں جینا ممکن نہیں رہے گا، بالکل اُسی طرح، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فتح مکہ کی برہان سامنے آجانے کے بعد ممکن نہیں رہا تھا اور فی الواقع وہی صورت حال پیدا ہوگئی تھی، جو روایت میں بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ فرمایا تھا کہ سر زمین عرب میں اب کوئی گھر اور کوئی خیمہ ایسا نہیں رہے گا ، جس میں اسلام داخل نہیں ہوجائے گا۔روایت میں جو تعبیر اختیار کی گئی ہے، وہ اِسی طرح کے کسی مفہوم پر دلالت کے لیے ہے۔ اُس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کوئی کافر زندہ نہیں رہے گا۔
۹۔ یہ راوی نے پیچھا کرنے کو اِس اسلوب میں بیان کردیا ہے ۔ اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ دجال کہیں گم ہوگا اور وہ اُس کو تلاش کرنے کے لیے نکلیں گے۔
۱۰۔ یعنی یاجوج وماجوج کو ، جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔
۱۱۔ یہ اُسی خروج کا منتہاے کما ل ہوگا ، جس کی ابتدا چنگیز وہلاکو کے حملوں سے ہوچکی ہے۔
۱۲۔ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد جب اِس طرح محصور ہوگی تو کھانے کی چیزیں ایسی نایاب ہوجائیں گی کہ بیل کا سر بھی اگر سو دینار کا ملے تو اُسے سستا سمجھا جائے گا ، دراں حالیکہ اُس کے گوشت میں سب سے ردی چیز اُس کا سر ہی ہوتا ہے۔
۱۳۔ یاجوج وماجوج کے جس خروج کا ذکر قرآن میں ہوا ہے ، یہ اُس کے آخری مرحلے کا بیان ہے۔اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اُنھیں مغلوب نہیں کر پائیں گے ، بلکہ اللہ ہی اپنے کسی عذاب سے اُن کا خاتمہ کردیں گے۔
۱۴۔ یہ اور اِس سے پیچھے کی روایتیں اِس لحاظ سے تو قابل قبول ہیں کہ اِن میں بھی یاجوج وماجوج کے خروج، نزول مسیح اور دجال کا ذکر اُسی طریقے سے ہوا ہے ، جس طریقے سے پیچھے متعدد روایتوں میں ہوچکا ہے۔ تاہم اِن تینوں واقعات کی جو تفصیلات اِن میں بیان ہوئی ہیں ، اُن میں اِس قدر اختلافات ہیں کہ اِنھیں اب ایک مجموعۂ تضادات ہی کہا جا سکتا ہے۔یہ تضادات واقعات کی ترتیب میں بھی ہیں ، بیانات کی کمی بیشی میں بھی ہیں، اعداد اور مقادیر میں بھی ہیں اور اُن کے نتائج وعواقب میں بھی۔صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسرا اور معراج کی روایتوں کی طرح الگ الگ واقعات کو ایک ہی واقعے کی صورت میں بیان کردینے کے نتیجے میں بہت سی چیزیں خلط ملط ہوگئی ہیں۔ہم نے کوشش کی ہے کہ اِن میں توفیق پیدا کریں، مگر ہر جگہ ممکن نہیں ہوا۔اِس صورت حال میں اب دو ہی راستے رہ جاتے ہیں : ایک یہ کہ پچھلے ابواب میں جو روایتیں آچکی ہیں، اُنھی پر اکتفا کیا جائے اور اِس باب کی تمام روایتیں یہ کہہ کر رد کردی جائیں کہ اِن میں سے کوئی روایت بھی محفوظ طریقے سے منتقل نہیں ہوسکی۔دوسرے یہ کہ پیچھے مذکور روایتوں کی تائید میں اِنھیں فی الجملہ باقی رکھا جائے اور راویوں کی غلطیوں اور اُن کے تصرفات نے جو مسائل پیدا کردیے ہیں، اُنھیں اُس وقت کے لیے چھوڑ دیا جائے، جب حقیقت واضح ہوگی اور اِن کا مصداق، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اِن کی نسبت صحیح ہے تو سامنے آجائے گا۔ہم نے اِسی دوسری صورت کو ترجیح دی ہے اور جو کچھ وضاحت ہوسکتی تھی، کردی ہے۔
۱۔ اِس روایت کا متن صحیح مسلم، رقم ۲۹۳۷ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ ہیں۔ اِس کے متابعات کے مراجع یہ ہیں: مسند احمد، رقم۱۷۶۲۹۔ سنن ابن ماجہ، رقم۴۰۷۵۔ الفتن، حنبل بن اسحاق، رقم۲۹۔ سنن ابی داؤد، رقم۴۳۲۱۔ سنن ترمذی، رقم ۲۲۴۰۔ تہذيب الآثار، طبری، رقم ۱۱۷۴۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۸۱۵۔ الشريعۃ، آجری، رقم ۸۸۴۔ مسند الشامیین، طبرانی، رقم۶۱۴۔ الایمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۲۶، ۱۰۲۷۔ مستدرك حاکم، رقم۸۵۰۸۔
۲ ۔مسند احمد، رقم ۱۷۶۲۹۔
۳۔ الفتن ،حنبل بن اسحاق، رقم۲۹۔
۴۔ نفس مصدر۔
۵۔ ایضاً۔
۶۔مسند احمد، رقم۱۷۶۲۹۔
۷۔ نفس مصدر ۔
۸۔ ایضًا ۔
۹۔ ایضًا ۔
۱۰۔ بعض طرق، مثلاً سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۷۵ میں یہاں ’شِرَارُ النَّاسِ‘ کے بجاے ’سَائِرُ النَّاسِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ