بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
وَوَهَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَيْمٰنَ نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّهٗ٘ اَوَّابٌ ٣٠
اور داؤد کو ہم نے سلیمان[143] (جیسا بیٹا) عطا کیا[144]۔ کیا ہی خوب بندہ تھا[145]! کچھ شک نہیں کہ وہ خدا کی طرف بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا[146]۔ ۳۰
اِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِالْعَشِيِّ الصّٰفِنٰتُ الْجِيَادُ ٣١ فَقَالَ اِنِّيْ٘ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّيْ حَتّٰي تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ ٣٢ رُدُّوْهَا عَلَيَّ فَطَفِقَ مَسْحًاۣ بِالسُّوْقِ وَالْاَعْنَاقِ ٣٣
یاد کرو،[147]جب خاصے کے اصیل اور عمدہ گھوڑے شام کے وقت اُس کے ملاحظے کے لیے پیش کیے گئے (اور اُن کے دیکھنے میں وہ ایسا محوہوا کہ نماز جاتی رہی[148]) تو اُس نے کہا: یہ تو اپنے پروردگار کی یاد سے غافل ہوکر،میں مال کی محبت میں لگ گیا،[149]یہاں تک کہ آفتاب (مغرب کے) پردے میں چھپ گیا ہے[150]۔ اُن کو میرے پاس واپس لاؤ۔ (وہ لائے گئے) تو (غلبۂ حال میں) وہ اُن کی پنڈلیوں اور گردنوں پر تلوار کے ہاتھ چلانے لگا۔[151]۳۱- ۳۳
وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمٰنَ وَاَلْقَيْنَا عَلٰي كُرْسِيِّهٖ جَسَدًا ثُمَّ اَنَابَ ٣٤ قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۣبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۣ بَعْدِيْ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ ٣٥ فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيْحَ تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖ رُخَآءً حَيْثُ اَصَابَ ٣٦
ہم نے سلیمان کو (ایک اور) آزمایش میں بھی ڈالا تھا اور اُس کے تخت پر ایک دھڑ کی طرح ڈال دیا تھا۔[152]پھر اُس نے رجوع کیا[153] (اور)دعا کی کہ میرے پروردگار، مجھے معاف فرما دے اور مجھ کو ایسی بادشاہی عطا فرما جو میرے سوا کسی کے لیے زیبا نہیں[154]۔ بے شک، تو بڑا ہی بخشنے والا ہے۔ سو ہم نے ہوا کو اُس کی خدمت میں لگا دیا جو اُس کے حکم سے،جدھر وہ جانا چاہتا تھا، سازگار ہوکر چلتی تھی۔[155]۳۴- ۳۶
وَالشَّيٰطِيْنَ كُلَّ بَنَّآءٍ وَّغَوَّاصٍ ٣٧وَّاٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِي الْاَصْفَادِ ٣٨
اور سرکش جنوں کو بھی اُس کے لیے مسخر کر دیا، ہر طرح کے ماہر معماروں اور غوطہ خوروں کو، (جو کام میں لگے رہتے) اور اُن کے علاوہ دوسروں کو بھی،جوزنجیروں میں بندھے رہتے تھے[156]۔ ۳۷- ۳۸
هٰذَا عَطَآؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ٣٩ وَاِنَّ لَهٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰي وَحُسْنَ مَاٰبٍ ٤٠
یہ ہماری بے حساب بخشش ہے[157]،اب تم (لوگوں کو دو اور) احسان کرو یا اُس کو روکے رکھو۔[158] (ہم نے سلیمان سے کہا تھا) اور ہمارے پاس (آگے بھی) یقیناً اُس کے لیے تقرب کا خاص مقام اور اچھا انجام ہے۔۳۹- ۴۰
[143]۔ سلیمان علیہ السلام کا زمانۂ سلطنت ۹۶۵ ق م سے لے کر ۹۲۶ ق م تک ہے۔
[144]۔ یہ ذکر جس طریقے سے ہوا ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ داؤد علیہ السلام کو وہ خدا کی طرف سے اُن کے حسن عمل کے صلے میں انعام کے طور پر دیے گئے تھے۔
[145]۔ سلیمان علیہ السلام کے کمال عبدیت پر یہ خود اُن کے پروردگار کی شہادت ہے۔ اِس کے بعد وہ کیا چیز ہے جس کی کوئی بندۂ مومن اِس دنیا میں تمنا کر سکتا ہے؟
[146]۔ یہی صفت داؤد علیہ السلام کے لیے بھی بیان ہو چکی ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اِس صفت میں گویا وہ اپنے جلیل القدر باپ کا ہوبہو عکس تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... ’عبدیت‘ کا اصلی جمال ’اوابیت‘ میں ہے ،یعنی بندے کا دل ہر وقت خدا کی طرف متوجہ رہے اور اگر کبھی کسی سبب سے ذرا بھی غفلت ہو جائے تو اِس طرح ٹوٹ کر اپنے رب کی طرف گرے کہ برسوں کی منزل منٹوں میں طے کر لے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی یہی ادا سب سے زیادہ پسند ہے۔ گناہ سے آدمی جتنا کھوتا ہے، اُس سے کہیں زیادہ وہ اُس سے پا لیتا ہے، اگر وہ سچے دل سے گناہ کے بعد توبہ کر لیتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۵۳۰)
[147]۔ اوپر جس طرح حضرت داؤد کی اوابیت کو مثال سے نمایاں کیا ہے، اُسی طرح اب یہ حضرت سلیمان کی اوابیت کی مثال بیان ہو رہی ہے۔
[148]۔ قرآن نے یہ بات الفاظ میں بیان نہیں کی، لیکن آگے کا جملہ اِسے واضح کر رہا ہے۔
[149]۔ آیت میں فعل ’اَحْبَبْتُ‘ حرف ’عَنْ‘ کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ یہ اِس بات کا قرینہ ہے کہ ’اَحْبَبْتُ‘ یہاں اعراض یا غفلت کے مفہوم پر متضمن ہے۔ نیز یہ بات بھی واضح ہے کہ جس نماز سے غفلت ہوئی، وہ عصر کی نماز تھی۔ اِس لیے کہ دن کے آخری حصے میں اور غروب آفتاب سے پہلے یہی نماز ہو سکتی ہے۔ یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ انبیا علیہم السلام کے دین میں نماز کے اوقات ہمیشہ وہی رہے ہیں جن کے مطابق اب ہم نمازیں ادا کرتے ہیں۔
[150]۔ اصل الفاظ ہیں:’حَتّٰي تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ‘۔ اِن میں ’تَوَارَتْ‘ کا فاعل ’الشَّمْس‘ ہے جسے آیت میں حذف کر دیا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’...عربی میں معروف و مشہور چیزوں کے لیے فعل بھی اِس طرح لاتے ہیں اور ضمیریں بھی۔ فاعل یا مرجع کو قرینے سے سمجھ لیتے ہیں۔ یہاں لفظ ’عَشِيّ‘کی وجہ سے قرینہ واضح تھا، اِس وجہ سے فاعل کے اظہار کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۵۳۱)
[151]۔ آیت میں لفظ ’طَفِقَ‘اشارہ کر رہا ہے کہ یہ غلبۂ حال ہی کی ایک صورت تھی۔ اِس طرح کی کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر بھی طاری ہو گئی تھی۔ قرآن نے یہ واقعہ ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، سلیمان علیہ السلام کے جوش انابت اور غلبۂ اوابیت کے اظہار کے لیے سنایا ہے اور اِس لحاظ سے یہ بلاشبہ ایک شان دار واقعہ ہے۔ اِس سے دین و شریعت کے اصول و ضوابط اخذ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
[152]۔ یعنی ایسا بے بس اور غم زدہ بنادیا تھا کہ اُس کے تخت پر گویا صرف ایک جسم پڑا ہوارہ گیا جس میں سے روح نکل گئی تھی۔ یہ اُن حالات کی طرف اشارہ ہے، جب دشمنوں نے یورش کرکے اُن کے بیش تر علاقے چھین لیے اور باقی مقامات پر بھی ایسی گڑبڑ پھیلا دی تھی کہ نظم حکومت بالکل درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا۔ تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان اُس زمانے میں اپنے دارالحکومت میں بالکل محصور و مجبور ہو کر رہ گئے تھے۔ قرآن نے اِس پوری صورت حال کو کمال بلاغت کے ساتھ ایک جملے میں سمیٹ دیا ہے کہ ہم نے سلیمان کو اُس کے تخت پر ایک دھڑ کی طرح ڈال دیا۔
[153]۔ یعنی ایسے حالات میں بھی وہ مایوس نہیں ہوئے،بلکہ یہ خیال کرکے کہ شاید کسی غلطی پر اُن کی پکڑ ہوئی ہے، وہ توبہ و استغفار کے لیے اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو گئے۔
[154]۔ یعنی میرے گناہوں کے باوجود ایسی بادشاہی دے جس کا سزاوار نہ میں ہوں، نہ میرے بعد کوئی اور ہو گا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’اِس دعا میں اصلی زور بادشاہی کی بے مثال عظمت و شوکت پر نہیں، بلکہ بلا استحقاق بادشاہی دیے جانے پر ہے کہ مجھے میرے گناہوں کے باوجود بادشاہی دے، جب کہ میرے بعد کوئی اور اِس کا سزاوار نہیں ٹھیرے گا۔ اِس دعا میں اپنے گناہ کا جو شدید احساس ہے، وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی غایت خشیت و انابت کی دلیل ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۵۳۴)
[155]۔ مطلب یہ ہے کہ بادبانی نظام کو وہ ایسی ترقی دینے میں کامیاب ہو گئے کہ اُس سے ہواؤں کو اِس طرح کنٹرول کیا جا سکتا تھا کہ سخت سے سخت طوفانی ہوائیں بھی سفر کے لیے سازگار ہو جاتی تھیں اور اُن کے جہاز، جہاں وہ چاہتے، بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ جاتے تھے۔ آیت میں اِس کے لیے لفظ ’اَصَابَ‘ استعمال ہوا ہے، یعنی جس مقام کو چاہتے اپنا ہدف بنا لیتے اور جب چاہتے، وہاں کے لیے روانہ ہو جاتے تھے۔
[156]۔ یعنی ایک ایسا علم بھی اُس کو عطا فرمایا تھا کہ اُس سے شریر جنوں کو مسخر کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ اُن میں سے کچھ کو پکڑ کر کاموں میں لگا دیا جاتا اور کچھ زنجیروں میں قید پڑے رہتے تھے کہ ضرورت کے وقت کام میں لگائے جا سکیں۔ آیت میں اُن کے لیے ’كُلَّ بَنَّآءٍ وَّغَوَّاصٍ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اِن میں لفظ ’كُلّ‘ ہمارے نزدیک صفت کی تاکید کے لیے ہے، جیسے ’هو العالم كل العالم‘۔
[157]۔ یعنی تمھارے قیاس و گمان اور امیدوں اور توقعات سے ماورا جس کا تم خواب و خیال میں بھی تصور نہیں کر سکتے تھے۔
[158]۔ یہ اُس اختیار کا بیان ہے جو ہر مالک کو اُس کی ملکیت میں حاصل ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دینا چاہے یا روکنا چاہے، یہ سب اُس کی صواب دید تھی۔ وہ اپنی ملکیت میں اخلاقی حدود کے اندر جس طرح چاہے، تصرف کر سکتا تھا۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ