فرقہ پرستی ایک منفی عمل ہے۔ ہم یہ ترکیب عام طور پر کسی شخص یا جماعت کےاپنے مسلک سے جڑے غلط رویے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص یا گروہ اپنے علاوہ دوسرے افراد یا گروہوں کو صحت مند مکالمے کے بجاے اپنی معاندت کا ہدف بناتا ہے۔ وہ دوسروں کی بیخ کنی کو اپنا حق سمجھتا اور اس کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا۔ جھوٹ بولنا، تنابز بالالقاب، سوء ظن کرنا، تہمتیں لگانا، غیبت کرنا، چغلی کرنا، اس کی جان،مال اور آبرو کو خطر ے میں ڈالنے کے حالات پیدا کرنا، یہاں تک کہ اس طرح کے اقدامات کرنا، سب کبائر وہ اپنے لیے جائز بنا لیتا ہے۔ فرقہ پرست اس استدلال پر کھڑا ہوتا ہے کہ وہ ’حق‘ کا علم بردار ہے اور اس ’حق‘ سے اختلاف کرنے والے اس کے لیے خطرہ ہیں۔ چنانچہ اس خطرے کا استیصال ضروری ہے۔ وہ اس کا امکان تسلیم ہی نہیں کرتا کہ دوسرے کے نقطۂ نظر کا بھی کوئی جواز ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات زبان سے اختلاف راے کی آزادی کی باتیں بھی کی جاتی ہیں، لیکن ذہناً اور عملاً ایک فرقہ پرست شخص وہی موقف اور لائحۂ عمل رکھتا ہے جس کی تفصیل ہم نے اوپر کی ہے۔ البتہ طبائع کے فرق یا حالات و امکانات کے تحت کہیں کچھ عناصر اور کہیں کچھ رویے ظاہر ہوتے ہیں۔یہ تسلیم ہے کہ اس دنیا میں حق و باطل کا معرکہ بھی برپا ہےاور فکر وعمل میں اختلاف و اتفاق کی کشمکش بھی جاری ہے،لیکن اس کے لیے صحت مند مکالمے کے سوا کسی اور تدبیر کا کوئی حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔
فرقہ واریت ایک انسانی عمل ہے، یعنی یہ انسان کے اندر موجود بعض خصائص کے غلط ظہور سے پیدا ہوتا ہے۔ انسان جب کسی چیز کو اختیار کرتا ہے تو اس چیز کے لیے اس کے اندر حمایت اور حمیت کا جذبہ لازماً پیدا ہو جاتا ہے، یعنی کسی چیز سے وابستگی اسے اس کی ترقی اور حفاظت میں سرگرم کر دیتی ہے اور اس شے پر کوئی آنچ آنا اسے کسی صورت میں قبول نہیں ہوتا اور وہ اس کے لیے اپنی مساعی، حتیٰ کہ اپنا مال اور جان بھی لگانے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ یہی چیز ہے جو استقامت کے تقاضے کو پورا کرنے میں اس کی مدد کرتی ہے۔ یہ اگر انسان کے اندر نہ ہو، وہ کسی بھی تعلق اور کسی بھی بندھن کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ اسی کے بل پر انسان مشکلات کے باوجود اپنانے اور نبھانے کا حق ادا کر پاتا ہے، لیکن یہی مثبت چیز منفی ہو جاتی ہے جب یہ انصاف اور حق پرستی کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ جب دوسروں کے حقوق کو پامال کرنے پر آمادہ کردے۔ جب استدلال کے بجاے دھونس اور جبر کے ساتھ منوانے کا طریق کار اختیار کر لیا جائے۔ میں جس نقطۂ نظر کاحامل ہوں اور جس چیز کو میں حق سمجھتا ہوں، وہ ایک استدلال پر قائم ہے۔ جب اس استدلال کی غلطی مجھ پر واضح ہو جائے تو میرے لیے لازم ہے کہ میں اپنا نقطۂ نظر تبدیل کرلوں۔ اگرچہ مجھے اپنے استدلال کے درست ہونے کا اتنا پختہ یقین ہو کہ سورج اور چاند ٹل سکتے ہیں، لیکن میری راے غلط نہیں ہو سکتی۔ اس کے باوجود مجھے اس امکان کو ماننا ہے کہ کوئی ایسا نکتہ سامنے آسکتا ہے جو میرے استدلال کے عمود متین کولرزاں کردے اوردوسرے کے نقطۂ نظر کو میرے لیے قابل تسلیم حقیقت بنا دے۔ چنانچہ فرقہ واریت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو میرے نزدیک غلط ہے میں اسے غلط نہ کہوں، لیکن غلطی واضح کرنے کے سوا میری ذمہ داری کچھ نہیں۔ماننے اور نہ ماننے کا فیصلہ میرے مخاطب کا ہے اور اس کے کسی فیصلے پر میری کوئی جواب دہی نہیں ہونی ہے۔ اور اگر میں نے مذکورہ غلط راہ اختیار کی تو اس کا وبال ضرور میرے سر آئے گا۔ مطلب یہ کہ کوئی حق کی پیروی کرے یا باطل کی، میں نے اگر مجادلۂ احسن کرکے بات پہنچادی تو میں بری الذمہ ہو ں۔ البتہ اگر میں نے فرقہ پرستی کی مذموم راہ اختیار کی اور میں نے توبہ و تلافی نہ کر لی تو اس کی سزا ضرور میرے انجام پر اثر انداز ہوگی۔
فرقہ پرستی کرنے والا شخص اصل میں حق پرستی کا مدعی ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک فروغ حق کا مقصد اسی رویے سے حاصل ہو سکتا ہے جو اس نے اختیار کیا ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ نتیجہ خیز دعوتی سرگرمیوں کی راہیں مسدود کرتا ہے۔ پیغمبروں کے بعد کسی شخص کو یہ مقام حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو معیار حق کی حیثیت سے پیش کرے، لیکن فرقہ پرست زبان حال سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ جو کچھ اس کی زبان سے صادر ہوتا ہے، وہی صوت حق ہے اور جو کچھ اس کے نوک قلم پر آتا ہے، وہی نواے سروش ہے۔
فرقہ پرستانہ رویے سماج کی تقسیم میں شدت پیدا کرتے ہیں۔ افہام و تفہیم کے بجاے تشدد و افتراق اور مکالمے اور استدلال کے بجاے شکست دینے اور نابود کردینے کے جذبات پیدا ہو تے ہیں۔ اختلاف اختلاف نہیں رہتا، مخاصمت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ غلطی بتانا مقصود نہیں رہتا، بلکہ دوسرے کی تکفیر اور ملت سے اس کا ناتا کاٹنے کی تدبیریں ہونے لگتی ہیں۔ مسجدیں اللہ کے گھر نہیں رہتیں، فرقوں کے مراکز کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ مدارس امت کی تراث کے حامل نہیں بنتے، بلکہ فرقہ واریت کے تربیتی مراکز بن جاتے ہیں۔
فرقہ پرستانہ رویہ زیادہ تر خلاف توقع نتائج پیدا کرتا ہے۔ جس گروہ یا فرد کے خلاف یہ رویے اختیار کیے جاتے ہیں، وہ اسے حق کی راہ میں پیش آنے والی آزمایش سمجھتا اور اپنے نظریات کے ساتھ زیادہ شدت سے منسلک ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف سماج میں اس کی مظلومیت ایک طبقے میں اس کے لیے ہم دردانہ جذبات پیدا کرتی ہے اور اس کے نظریات کے لیے دلوں میں جگہ بنا دیتی ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حق وباطل کو جاننے اور پہچاننے کے بعد ایک کو قبول کرنے اور دوسرے کو رد کرنے کا جو امتحان برپا کر رکھا ہے۔ فرقہ پرستی براہ راست اس کے ساتھ متصادم ہے۔ فرقہ پرست نہ اپنے آپ کو اس کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو بے لاگ طریقے سے سنے اور اپنی یا اپنے بڑوں کی غلطی کو جانے اور نہ دوسروں کو اس کا موقع دیتا ہے کہ وہ معیار دلیل پر فیصلہ کریں۔ حق جب نسبت کے معیار سے پرکھا جاتا ہے کہ ہمارا فرقہ یا ہمارے اکابر ہی معیار حق ہیں تو پھر کشمکش حق و باطل کے مابین نہیں رہتی، فرقوں کے جدال میں تبدیل ہو جاتی ہے، جس کا مقصد اصلاً کبھی بھی حق وباطل کا وضوح نہیں ہوتا، بلکہ بہرصورت اپنا اثبات اور دوسرے کی تغلیط ہوتا ہے۔
اختلاف آرا ایک حقیقت ہے۔ کوئی انسانی سماج ایسا نہیں ہے جہاں طرح طرح کے گروہ نہ پائے جاتے ہوں۔ کوئی انسانی علم ایسا نہیں ہے جہاں مختلف مکاتب فکر نہ پائے جاتے ہوں، یہاں تک کہ انسانی زندگی کے عملی دائروں میں بھی باہم متصادم آرا و افکار موجود ہیں۔سیاست، معیشت، معاشرت وغیرہ ہر میدان طرح طرح کے مفکروں اور مدبروں کی آماج گاہ ہے۔پھر مذہب کا میدان اس سے مختلف کیسے ہو سکتا ہے۔اگرچہ فرقہ پرستی کے رجحانات دوسرے دائروں میں بھی پیدا ہو جاتے ہیں اور وہاں بھی یہ بعض اوقات اپنی ہلاکت خیزیوں کا مظہر بن جاتےہیں، لیکن مذہب کے دائرے میں یہ اپنی کارستانیاں نسبتاً زیادہ دکھاتے ہیں۔
ہماری دعا ہے اور توقع ہے کہ یہ تحریر صحت مند مکالمے کی فضا پیدا کرنے میں کچھ نہ کچھ حصہ ڈالے گی۔ صحت مند مکالمے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ جس سے اختلاف ہے، اس کے کسی مذہبی موقف کو غلط ثابت کرنے پر مکالمہ مرکوز رہے۔ اس شخص کی ذات، اس کی حیثیت اور اس کے علم و عمل کا استہزا، استخفاف اور اس کے لیے معاشرے میں جینے کو مشکل بنانے کا کام نہ کیا جائے۔ اس کے اہداف اور محرکات طے کرنے کے بجاے اس کے نقطۂ نظرکی بناے استدلال کو موضوع بحث بنا یا جائے۔فرقہ پرستی کا تقاضا تو یہی ہے کہ جس سے ہمیں اختلاف ہے، اس کے لیے جینا مشکل بنادیں تاکہ وہ مجبور ہو کر اپنا نقطۂ نظر چھوڑ دے یا ہم اسے اتنا حقیر اور راندۂ درگاہ بنا دیں کہ کوئی اس سے متاثر نہ ہو۔ یہ نتائج تو کم ہی حاصل ہوتے ہیں، لیکن جس چیز کا خون ہو جاتا ہے، وہ حق پرستی ہے، وہ آخرت میں جواب دہی ہے، وہ اخلاقی اقدار ہیں۔
کسی مذہبی موقف کو غلط ثابت کرنے کا طریق کیا ہو؟ یہ بھی وضاحت طلب ہے۔ کچھ مذہبی موقف عقلی مقدمات پر کھڑے ہیں۔ کچھ مذہبی آرا کی بنیاد نصوص کے فہم پر ہوتی ہے۔ کچھ مذہبی نقطۂ نظر ان بنیادوں پر بنی آرا کی مزید تفریع اور اطلاق سے وجود میں آتے ہیں۔ مزید برآں ایسے افراد بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں جو ایک خاص مذہبی رنگ، مذہبی روایت اور مذہبی اہداف کی نیو ڈالتے ہیں۔ کسی فرد کے ہاں بعض اوقات کچھ آرا محض اس رنگ اور روایت کی بنا پر مقبول یا مردود قرار پاتی ہیں۔ سب سے پہلے یہ ضروری ہوتا ہے کہ جس نقطۂ نظر پر ہمارا اختلاف ہے، اس کی بنیاد کو سمجھ کر اس کی غلطی متعین کریں اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے استدلال بیان کریں۔ غلط تنقید اور صحیح تنقید کو سمجھنے کے لیے سب سے زیادہ مدد گار کتاب قرآن مجید ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اہل عرب اور اہل کتاب نے جو تنقیدیں کی ہیں، وہ قرآن میں زیر بحث آئی ہیں۔ اسی طرح بارگاہ ایزدی نے ان دونوں گروہوں پر جو تنقیدیں کی ہیں، وہ بھی قرآن مجید کا حصہ ہیں۔ قرآن مجید نے براہ راست ان کے استدلال کو ہدف بنایا ہے، جب کہ ان دونوں گروہوں نے زیادہ تر حضور کی شخصیت کے خلاف فضا بنانے کی کوشش کی ہے۔ جب ہم فکر کی بنیاد اور استدلال کو موضوع بنائیں گے اور اس سے جو مضمون یا مکالمہ وجو د میں آئے گا، وہ تعمیری کردار ادا کرے گا۔ بصورت دیگر محض اپنے ہی لوگوں سے صلہ و ستايش پاکر لکھنے بولنے والا یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس نے علمی تنقید کا حق ادا کر دیا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ طے کرنا ضروری ہے کہ کسی بھی نقطۂ نظر کا مبنی کیا ہے۔اگر وہ کسی عقلی مقدمے پر کھڑا ہے تو اس اعتبار سے اس کا تجزیہ و محاکمہ ہوگا۔ اگر وہ کسی نص کی تفہیم پر موقوف ہے تو اس لحاظ سے اس کا تیا پانچا کیا جائے گا۔اگر واسطہ کسی مذہبی، کلامی،فقہی یا فنی روایت سے ہے تو اس کے اصول و ضوابط زیر بحث آئیں گے یا ان کے اطلاق کی صحت و عدم صحت موضوع بنے گی۔معاملہ اگر کسی مذہبی تعبیر سے آن پڑا ہے تو اس کی بنیادیں ہدف قلم بنیں گی۔
کیا صحیح اصولوں پر کی گئی تنقید لازماً موثر ہوتی ہے؟ نہیں، یہ لازم نہیں ہے۔ مخلص،حق شناس اور حق پرست بھی بعض اوقات صحیح بات کو قبول کرنے میں متردد رہتا ہے۔ ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ توفیق کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم اپنی طرف سے بیان حق اور ابلاغ حق کا کام کردیں۔ باقی دعا کریں اور نتائج اللہ پر چھوڑ دیں۔
میاں محمد نے کیا خوب کہا ہے:
مالی دا کم پانی دینا بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پَھل پُھل لانا لاوے یا نہ لاوے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ