HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : شاہد رضا

رمضان کے اثرات

[جناب جاوید احمد غامدی کی تحریروں، آڈیوز اور ویڈیوز سے اخذ و استفادہ پر مبنی مختصر سوال و جواب]

سوال:  ہمارے معاشرے میں رمضان کے اثرات کیوں نہیں  پائے جاتے ؟

جواب: دین کا مقصد ہی انسان کے اخلاقی وجود کا تزکیہ ہے۔ دین اصلاً یہی چاہتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو شرف عطا فرمایا ہے کہ وہ خیر و شر کا شعور رکھتا ہے؛ خیر کو اپنانے کے لیے آگے بڑھتا ہے، شر سے اجتناب کے لیے اس میں داعیات رکھے گئے ہیں۔ یہی کشمکش ہے جس میں اس کو زندگی بسر کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جو ابتلا یا امتحان برپا کیا ہے ، وہ اصل میں خیر و شر میں امتیاز اور پھر اس میں خیر کو اختیار کرنے اور شر کو چھوڑنے کا امتحان ہے، لیکن اس معاملے میں، معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں نے شاید نہ دین کو سمجھا ہے اور نہ اس کے مقصد کو۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ خیر وشر کی کش مکش کی دنیا الگ ہے اور عبادات کی یہ دنیا الگ ہے۔ لہٰذا دنیا کی زندگی میں ہمیں جس امتحان میں ڈالا گیا ہے، وہ اصل میں اخلاقی وجود کی تطہیر، اس کے تزکیے اور اس کو پاکیزہ بنانے کا امتحان ہے۔ اگر یہی نہیں ہوا تو پھر یہ روزے جیسی ساری چیزیں بے کار ہو جائیں گی۔

یہی وجہ ہے کہ آدمی نے اپنے اوپر بہت سی پابندیاں تو لگا لیں، مگر اس نے جھوٹ بولنا، کم تولنا اور دھوکا دینا نہیں چھوڑا۔ یہ کوئی معمولی الم ناک صورت حال تو نہیں ہے کہ جیسے ہی رمضان کا مہینا آتا ہے، اشیا کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ دنیا کا عمومی تجربہ یہ ہے کہ باہر کے ملکوں میں کرسمس کے موقع پر قیمتیں کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور ہر دکان دار یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ ہمارا اجتماعی تہوار ہے؛ بہت سے لوگوں نے خریداری کرنی ہے تو میں اپنی منفعت کو کم کر دوں، لیکن ہمارے ہاں تو عمومی رویہ یہ ہے کہ جیسے ہی رمضان کی آمد شروع ہوتی ہے، قیمتیں بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس موقع پر حکومت سبسڈی دیتی ہے، اپنی طرف سے کچھ مدد کرنے کی کوشش کرتی ہے اور نگرانی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ نگرانی جو خدا کی طرف سے ہونی چاہیے تھی اور جس میں انسان کو اپنے پروردگار کو جواب دہ سمجھ کر اپنی تطہیر اور تزکیے پر متوجہ ہونا چاہیے تھا اور اگر عام دنوں میں کوئی غلطی ہوتی بھی ہے، اس دوران میں اس کو غلطی سے بچنا چاہیے تھا، اس کے عمومی اثرات نظر نہیں آتے۔

 اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ   ہمارے ہاں جتنی بھی عبادات کی نوعیت کی چیزیں ہیں ، مثلاً نماز، حج و عمرہ وغیرہ  تو بالعموم ان کے فضائل تو بیان کیے جاتے ہیں جن کا تعلق آخرت میں اجر و ثواب سے ہے، دنیا کی زندگی میں اس کےکیا اثرات ہونے چاہییں اور انسان کے اخلاقی وجود پر اس کا کیا اثر ہونا چاہیے، یہ بالعموم ہماری مذہبی گفتگو میں زیر بحث نہیں آتا[1]۔

ـــــــــــــــ

علما اور عید کا تعین

سوال: علما کے مابین اختلاف کے ہوتے ہوئے مسلمان ایک ہی دن عید کیسے منائیں؟

جواب:     اس کا تعین کرنا علما کا کام نہیں، بلکہ سائنس دانوں کا کام ہے۔ جدید سائنس نے انسان کو اس قابل کردیا  ہے کہ اب وہ سیکنڈز کے حساب سے آپ کو بتا سکتی ہے کہ چاند کی پیدایش کب ہو گی۔ اگر آپ سائنس دانوں سے کہیں تو وہ آپ کو چاند کی پیدایش کے لحاظ سے قمری مہینوں کا کیلنڈر بنا کر دے دیتے ہیں، اس لیے علما کی طرف سے عید کے چاند کی تعیین کی  اب  ضرورت ختم ہو چکی ہے۔ انتہائی تعجب کی بات ہے کہ ہمارے ہاں آخر نمازوں کے اوقات بھی تو سورج کے لحاظ سے ہیں۔ سائنس دانوں  نے ہمارے لیے گھڑی ایجاد کر دی ہے۔ اب ہم میں سے کتنے ہیں جو اس کے بجاے باہر جا کر سورج دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو ایک چھڑی گاڑنی پڑتی تھی تاکہ سایے کا اندازہ ہو جائے۔ بتانے کے لیے یہ کہنا پڑتا تھا کہ تمھارے قد کے برابر سایہ ہو جائے تو اس نماز کا وقت ہو جائے گا۔ غروب آفتاب کو بھی باہر نکل کر دیکھنا پڑتا تھا، اس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں تھا۔

تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک ٹاٹ کا ٹکڑا مسجد کی دیوار پر ڈال دیا جاتا تھا تاکہ اس کے سایے سے جمعہ کے وقت کا اندازہ ہو جائے، تو اب بھی آپ یہی کرتے ہیں۔ یہ جو پاکستان کی مسجدوں میں نمازوں کے اوقات کا کیلنڈر آویزاں ہے، یہ انگریز بحریہ کا بنایا ہوا ہے۔ انھوں نے آپ کو گھڑی ایجاد کر کے دے دی،  اب آپ اطمینان کے ساتھ اس کے ذریعے سے سحری کرتے اور غروب آفتاب کا اندازہ کر کے روزہ کھول لیتے ہیں۔ دیہات میں ہماری مائیں تاروں کو دیکھ کر یہ اندازہ کرتی تھیں کہ سحری کا وقت ہوا ہے یا نہیں۔ چاند دیکھنا علما کا کام ہی نہیں ہے۔ چاند دیکھنا علم فلکیات کا موضوع ہے اور یہ سائنس دانوں کا کام ہے[2]۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۱- https://ghamidi.com/videos/why-ramadan-is-ineffective-in-our-society-1214

۲- https://www.youtube.com/watch?v=8FEmmcEeKtI


B