HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

خدا اور الحاد

معاذ بن نور

[جناب جاوید احمد غامدی کی ویڈیوز کی ٹرانسکرپشن پر مبنی سوال و جواب]

سوال: دین کی بنیاد ہی خدا ہے اور الحاد نے اسی کا انکار کر رکھا ہے۔ ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ الحاد تیزی سے ہمارے ماحول میں پھیل رہا ہے؟

جواب: یہ صحیح بات ہے کہ دین اس کے سوا کچھ نہیں کہ بندے کو اس چیز کی معرفت حاصل ہو جائے کہ میں بندہ ہوں اور میرا ایک پروردگار ہے۔ میں دنیا میں آپ سے آپ نہیں ہوں، مجھے ایک خالق نے وجود بخشا ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے لہٰذا اسی کو میرا معبود ہونا چاہیے اور اسی کی بادشاہی کا مجھے اعتراف کرنا چاہیے۔

دنیا کی تاریخ کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں اس بنیادی حقیقت سے اعراض کرنے والے لوگ رہے ہیں۔یہ محض آج کا معاملہ نہیں ہے۔ قدیم ترین تاریخ میں الحاد کی سب قسمیں مل جاتی ہیں۔ خدا کو نہ ماننے والے، خدا کے شریک ٹھیرانے والے اور اپنی طرف سے ایک دیومالا بنا کر اس کو دین قرار دینے والے ہر دور میں رہے ہیں۔

انسانی تاریخ کو پڑھنے سے ایک مزید حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کم و بیش چار ہزار سال دنیا میں ایسے گزرے ہیں جس میں شرک کو غالب تہذیب کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ بادشاہ ہوں یا عوام، عارف ہوں یا عامی، سب شرک کا گیت گاتے ہیں اور شرک ہی کی بنیاد پر معاشرے کی تنظیم کرتے ہیں۔ شرک ہی کو منبع الہام سمجھتے ہیں۔ اللہ کے پیغمبروں نے تین چار ہزار سال تک اس کے خلاف جدوجہد کی ہے۔

 توحید کا جیسا کچھ علمی غلبہ پچھلے ہزار سال میں رہا ہے، یہ سیدنا مسیح علیہ السلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوا ہے۔’’Age of Civilization ‘‘ (کے مصنف) ول ڈیورنٹ کے الفاظ میں (ان ہزار سال کو) عصر الایمان (Age of Faith) کہا گیا۔ ایک طرف مقدس رومی سلطنت قائم ہو گئی اور دوسری طرف مسلمانوں نے اس وقت کی متمدن دنیا پر عمومی سیاسی غلبہ قائم کر دیا۔ سیاسی غلبہ ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس میں لوگوں کے پاس کم موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات بلند آہنگ انداز میں کہہ سکیں۔ موجودہ زمانے میں لوگوں کو اپنی بات کہنے کی آزادی حاصل ہوگئی ہے تو آپ کو یہ بات زیادہ محسوس ہونے لگ گئی ہے۔

میرے نزدیک ہمیشہ ہی سے الحاد کا سبب انسان کی یہ غلط روی رہتی ہے کہ وہ کسی چیز کا جب اسیر ہو جاتا ہے تو اس کو اس کے حدود میں رکھنے کے بجاے بہت وسعت دے دیتا ہے۔ ایک زمانے میں سحر و ساحری، شاعری، ادب اور فلسفے کو یہی حیثیت حاصل رہی ہے، یعنی انسان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو معبود بنا لیتا تھا اور پھر اس کی بنیاد پر پوری دنیا تخلیق کر لیتا تھا۔

موجودہ زمانے میں یہ ہوا ہے کہ مادی دنیا کے قوانین دریافت ہونا شروع ہوگئے۔ ارسطو سے جس سائنس کی ابتدا ہوئی تھی، اس کو انسان نے اپنے کمال پر پہنچا دیا۔ قوانین دریافت ہوئے تو ان کی بنیاد پر نئی نئی ایجادات ہونے لگ گئیں۔ اس سے پہلے مرحلے میں لوگ حیران ہوئے، پھر یہ حیرت بڑھتی چلی گئی، پھر ایک اعتماد پیدا ہونا شروع ہوا کہ شاید اس کائنات کے معما کو ہم نے حل کرلیا ہے یا کر لیں گے۔ اس سے ایسی مرعوبیت سی طاری ہوئی اور ایک فیشن سا بن گیا کہ اللہ تعالیٰ کو ماننے کی بات پرانی اور دقیانوسی بات ہے، یہ دنیا غالباً اب ختم ہو رہی ہے۔

(الحاد کا اس دور میں) ایک بڑا سبب یہ چیز بنی ہے، جب کہ اگر آپ حقیقت کی نگاہ سے دیکھیں تو اس پورے عالم میں اصل راز کیا ہے (اتنی سائنسی ترقی کے بعد) جس کے کم از کم ایک فی صد حصے کو تو اب کھلنا چاہیے۔

وہ راز جہاز یا انٹرنیٹ ایجاد کرلینا نہیں ہے۔ وہ راز یہ ہے کہ یہ کائنات مادہ ہے۔ جو یہ مخلوقات، اجرام فلکی، کہکشانیں اور سپائرل نیبیولاز جو آپ کو نظر آتے ہیں یہ سب مادے کا ایک عظیم انفجار ہے۔

اس مادے سے حیات پیدا ہو جاتی ہے، یعنی وہی زمین جو بظاہر مردہ نظر آرہی ہوتی ہے، وہ حیات کا باعث بن جاتی ہے۔ درخت، پودے، پھول اور پھر جراثیموں سے ڈائنوسارز تک بے پناہ مخلوقات جن کو ہم گن ہی نہیں سکتے۔ اور پھر ہم انسانوں کی صورت میں شعور کی ایک دنیا وجود میں آتی ہے، یعنی سمع و بصر، عقل، جمالیات اور اخلاقی وجود۔

یہ تین چیزیں ہیں، دراصل جو مل کر اس کائنات کا راز بنتی ہیں:

آپ حیرت انگیز طریقے سے یہ سنیں گے کہ مادے کو سائنسی طور پر سمجھ لینا کہ یہ کیسے وجود میں آیا ہے اور کسی لیبارٹری میں اسے بہت چھوٹے پیمانے پر ہی وجود میں لے آنا۔

 مادے کے ڈھیر موجود ہیں، اس سے حیات پیدا کر لینا یا یہ سمجھ لینا کہ وہ کیا تالیف ہے جس سے حیات پیدا ہوتی ہے۔

اور حیات میں شعور کی کوئی رمق پیدا کرلینا۔

اس راز کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھا۔ یہ جیسا تھا ویسا ہی اس وقت موجود ہے، لیکن انسان کی نگاہ اس طرف نہیں پڑتی اور وہ اس مادی دنیا کے کچھ قوانین کی دریافت سے پیدا ہونے والی حیرت انگیز ایجادات کی وجہ سے یہ خیال کرتا ہے کہ ہم کائنات کے معما کو حل کر لیں گے۔

انسان اس خبط میں مبتلا ہوگیا ہے کہ غالباً وہ اس پر قابو پالے گا۔ اگر کوئی دو قدم اٹھ سکتے تو یہ غلط فہمی کسی حد تک جسٹیفائڈ (justified)تھی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ علمی سطح پر الحاد کا باعث یہی غلط فہمی ہے۔

دوسری چیز عمل کی سطح پر ہے۔ یعنی یہ کہ انسان کے پاس صرف عقل، شعور اور اخلاقی وجود ہی نہیں ہے، بلکہ خواہشات، جذبات اور رغبات بھی ہیں اور پھر ان کو پورا کرنے کے مواقع ہیں جو انسان کو ملتے ہیں۔ دور حاضر میں یہ مواقع بہت بڑھ گئے ہیں اور چونکہ سیاسی غلبہ مذہبی لوگوں کا نہیں رہا تو اس وجہ سے آزادی کی ایک فضا بھی ہے۔ اس فضا میں اپنی خواہشات کی اسیری سے نکلنا آسان نہیں ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ مذہب اور خدا کی بات سن کر مجھے بہت سی ایسی چیزوں کو ترک کرنا پڑے گا۔ تو انسان کے ہاں آزادی کی قدر اتنا غلبہ پاچکی ہے کہ جس طرح پہلی چیز میں وہ غلط فہمی کا شکار ہوا ہے، یہاں انتہا پسندی کا شکار ہوا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ کسی چیز کو بھی جو ذرا پابندی عائد کرے اور اس کی معاشرت میں دخیل ہوجائے، قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

میرے نزدیک علم اور عمل کی سطح پر (بالترتیب) یہ دو چیزیں ہیں جو خدا سے دوری کا باعث بنتی ہیں۔ اور ایک چیز جب فیشن بن جاتی ہے تو انسان خیال کرتا ہے کہ اسی میں جینے سے دنیا میں اس کو اچھا سمجھا جائے گا۔

اس موقع پر ضروری ہے کہ سب انسانوں تک خدا کا پیغام پہنچایا جائے۔ ہم مسلمانوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ ہمارے پاس خدا کی کتاب اس کے اپنے الفاظ میں بغیر کسی ادنیٰ تبدیلی اور تغیر کے موجود ہے۔ ہم اس کو پہنچائیں گے تو یہ فطرت کی آواز ہے، یہ حقیقت کا بیان ہے، یہ خدا کی سچی معرفت کا ذریعہ ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ ہم اپنی نئی نسلوں کو اللہ کی کتاب پہنچانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ سچی معرفت پیدا ہوگی جو قرآن پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ کتاب ہمارے پاس موجود ہے۔[1]

ـــــــــــــــ

لالچ کیا ہے؟

سوال: لالچ کیا ہے؟

جواب: انسان کے اندر جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے ودیعت کی ہیں، ان میں ہر چیز کو آگے بڑھ کر پانے، زیادہ پانے کا داعیہ بھی رکھا ہے۔ یہ زیادہ پانا، اسی کو ’اِسْتِكْثار‘ سے قرآن میں تعبیر کیا گیا ہے۔ زیادہ پانے کی جدوجہد انسان مال کے معاملے میں بھی کرتا ہے، علم کے معاملے میں بھی کرتا ہے، اگر اس کے اندر ایک حوصلہ مند شخصیت ہو تو بعض اوقات اقتدار کو پانے کے لیے بھی کرتا ہے۔ یہ چیز اپنی ذات میں کوئی قابل مذمت چیز نہیں ہے۔

اسی کا ایک پہلو وہ بھی ہے جس میں لوگوں کو یہ ترغیب دی گئی ہے کہ جنت کو پانے کے لیے بھی وہ کم پر اکتفا نہ کریں، بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچنے کی جدوجہد کریں۔

 قرآن مجید نے اس کے لیے جو لفظ استعمال کیا ہے، وہ ’تنافس‘ ہے۔ جنت کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’وَفِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنٰفِسُوْنَ[2]، یعنی وہ لوگ جو ایک دوسرے سے دوڑ لگا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، وہ کوشش کریں کہ جنت کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زیادہ پانے کی جدوجہد کرنا اپنی ذات میں کوئی بری چیز نہیں ہے۔ یہ چیز بری اس وقت بنتی ہے، جب انسان کو جن اخلاقی اقدار کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، ان کا لحاظ کیے بغیر وہ آگے بڑھنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ اس کے بعد یہ لالچ، حرص یا اس نوعیت کے برے الفاظ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ گویا ایک چیز جب صحیح حدود میں ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو پسند بھی کرتے ہیں، اس کی تحسین بھی کرتے ہیں، بلکہ اس کی ترغیب دیتے ہیں۔

چونکہ انسان کو اخلاقی تقاضوں کا شعور دیا گیا ہے، اس میں ایک بڑا تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان آگے بڑھنے کی جدوجہد کا ہدف اس دنیا میں جنت کو بنائے۔ جنت کو ہدف بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اخلاق کی پاکیزگی کے ساتھ آگے بڑھے۔ یعنی خیر، نیکی، انفاق، اللہ کے دین کی خدمت، اپنے اعزہ، اقربا اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے میں آگے بڑھے۔ یہ ساری چیزیں بڑی مطلوب و محمود اور ہر لحاظ سے قابل تحسین ہیں۔ لیکن اگر انسان دوسروں سے مال چھیننے میں آگے بڑھ رہا ہے، ان کی ٹانگیں کھینچنے اور نقصان پہنچانے میں آگے بڑھ رہا ہے یا یہ کہ جو کچھ اس کو مل گیا ہے، اس پر شکرگزار ہو کر آگے بڑھنے کے بجاے ناشکری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہو تو ایک ہی عمل جو اپنی ذات میں کوئی برا عمل نہیں تھا وہ پھر قابل مذمت ہو جاتا ہے، یعنی ایک جگہ یہ ترغیب دی ہے کہ آگے بڑھو اور دوسری جگہ یہ بیان کیا ہے کہ ’اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ[3]۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جدوجہد نے تمھیں ہلاک کر ڈالا۔

لہٰذا یہ دونوں چیزیں، (یعنی تکثیر اور تنافس) انسان کے اخلاقی وجود سے ماپی جاتی ہیں۔ اگر تو وہ اعلیٰ اخلاقیات کو سامنے رکھ کر آگے بڑھ رہا ہے تو محمود اور اگر وہ اخلاق کے آلودہ پہلوؤں کو سامنے رکھ کر آگے بڑھ رہا ہے تو قابل مذمت۔

یہ اعلیٰ اخلاق اگر پیش نظر ہے تو ہر چیز جس میں آپ آگے بڑھ رہے ہیں، وہ اللہ کا فضل تلاش کرنا ہے، وہ خیر کو تلاش کرنا ہے، اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔ نہ دولت کوئی بری چیز ہے، نہ علم اور نہ ہی اقتدار کوئی بری چیز ہے۔ آپ ان کی طرف آگے بڑھیے، لیکن اخلاقی حدود کی سچی پاس داری کے ساتھ آگے بڑھیے۔[4]

ـــــــــــــــــــــــــ

 ۱-https://www۔youtube۔com/watch?v=R96rnqFq-9I

[2]۔ المطففین ۸۳: ۲۲ - ۲۶۔ ’اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ. عَلَي الْاَرَآئِكِ يَنْظُرُوْنَ. تَعْرِفُ فِيْ وُجُوْهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيْمِ. يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَّخْتُوْمٍ. خِتٰمُهٗ مِسْكٌ وَفِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنٰفِسُوْنَ‘ ( یہ فرماں بردار (وہاں) نعمتوں میں گھرے ہوں گے،تختوں پر بیٹھے سیر دیکھتے۔اِن کے اِس عیش کی تازگی تم اِن کے چہروں پر دیکھو گے۔ اِنھیں سر بند مےِ ناب پلائی جائے گی۔ جس پر مشک کی مہر لگی ہو گی۔ یہ چیز ہے کہ جس کی طلب میں طالبوں کو ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے سرگرم ہونا چاہیے)۔

[3]۔ التکاثر ۱۰۲: ۱ - ۸۔ ’اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ. حَتّٰي زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ. كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ. ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ. كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ. لَتَرَوُنَّ الْجَحِيْمَ. ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِيْنِ. ثُمَّ لَتُسْـَٔلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيْمِ.‘ ( بہت پانے اور اُس میں دوسروں سے بڑھ جانے کی حرص نے تمھیں غفلت میں ڈالے رکھا،یہاں تک کہ قبروں میں جا پہنچے۔(نہیں، یہ کچھ نہیں لوگو)، ہرگز نہیں، تم جلد جان لو گے۔پھر سنو، (یہ کچھ نہیں)، ہرگز نہیں، تم جلد جان لو گے۔ تم اِس طرح غافل نہیں ہو سکتے تھے، ہرگز نہیں، اگر تم یقین سے جانتےکہ دوزخ دیکھ کررہو گے۔پھر جانتے کہ تم اُسے یقین کی آنکھوں سے دیکھو گے۔پھر دنیاکی سب راحتوں کے بارے میں اُس دن تم سے ضرور پوچھا جائے گا)۔

۴- https://youtu۔be/eGiCsyxRr2Q?si=MlUks2l2HY-0xciI

B