HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : کوکب شہزاد

حضرت لوط کی قوم پر عذاب کیوں؟

حضرت لوط علیہ السلام کا تعلق اُر کے علاقے سے تھا۔ حضرت ابراہیم حضرت لوط علیہ السلام کے چچا تھے۔ حضرت ابراہیم کی قوم مشرک قوم تھی۔ وه بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ ان کے والد بت بناتے تھے اور ان کی عبادت بھی کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم نے ہر ممکن کوشش کی کہ وه اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں اور بت پرستی چھوڑ دیں، لیکن انھوں نے نہ صرف یہ کہ ایک اللہ پر ایمان لانے سے انکار کردیا، بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہر قسم کی جسمانی اور ذہنی اذیت دی اور انھیں وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہجرت کی تو ان کے ساتھ ان کے بھتیجے جو ایمان لا چکے تھے،انھوں نے بھی ان کے ساتھ ہجرت کی۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو بھی نبوت کے منصب پر فائز کیا اور انھیں حکم دیا کہ وه سدوم کے علاقے میں جا کر آباد ہو جائیں اور ایک اللہ کا حکم مانیں۔

حضرت لوط علیہ السلام اپنی قوم کے لوگوں کو ایک خدا کی عبادت پر ایمان رکھنے کے لیے نصیحت کرتے تھے اور قیامت کے دن اپنے ہر عمل کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس دلاتے تھے۔

شیطان بنی آدم سے دشمنی کی آگ میں جلتا رہتا ہے اور انسانوں کو گم راہ کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا۔ شیطان نے اللہ تعالیٰ کو یہ چیلنج دیا ہوا ہے کہ جس انسان کی وجہ سے تم نے مجھے اپنی قربت سے دور کیا، اسی انسان کو میں گم راہ کروں گا اور وہ دوزخ جس میں تو مجھے ڈالے گا، اسی دوزخ کو میں آدم کی اولاد سے بھر دوں گا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے اچھے اور نیک بندے تیرے چنگل میں نہیں آئیں گے۔ میں ان کی ہدایت کے لیے اپنے نبی بھیجوں گا اور جو اس کے باوجود میری نافرمانی کریں گے تو میں انھیں بہت سخت سزا دوں گا اور جو میرے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے، انھیں میں ایسی ایسی نعمتیں دوں گا جن کا وه اس دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔

اب بنی آدم اور شیطان کے درمیان قیامت تک کش مکش جاری ہے اور بنی آدم کو اس کش مکش میں جیتنا ہے اور اللہ کی ابدی نعمتوں کا مستحق بننا ہے۔

حضرت لوط کی قوم میں شیطان نے بد فعلی کو بڑا پر کشش بنا دیا تھا۔ مرد مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جو فطری طریقہ بنایا تھا، یعنی بیویوں کے ذریعے سے اپنے جذبات کو پورا کرنا اور بیویوں کے ذریعے سے اولادپیدا کرنا ،اسے انھوں نے نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔

ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس کچھ فرشتے لڑکوں کی صورت میں آئے۔ حضرت ابراہیم نے انھیں اپنا مہمان سمجھا اور ان کے لیے ایک بچھڑا بھون کر لے آئے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ یہ لوگ تو باوجود اصرار کے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا رہے تو انھیں خوف محسوس ہوا۔ فرشتوں نے حضرت ابراہیم کو بتایا کہ ہم آپ کو بیٹے کی خوش خبری دینے کے لیے آئے ہیں، (یعنی حضرت اسحٰق کی)۔ دروازے کی اوٹ میں حضرت سارہ (حضرت ابراہیم کی دوسری بیوی ) کھڑی تھیں۔ انھوں نے جب یہ سنا کہ میں بیٹے کو جنم دوں گی تو خوشی کے مارے اپنے چہرے پر ہاتھ مارنے لگیں اور کہنے لگیں کہ ہائے، میں بڑھیا بچہ جنوں گی، جب کہ میں بانجھ ہوں اور میرا شوہربوڑھا ہوچکا ہے اور اس کی ہڈیاں بوسیده ہوچکی ہیں۔

حضرت ابراہیم نے ان سے کہا کہ تم اصل میں کس مشن پر آئے ہو،کیونکہ بیٹے کی خوش خبری دینے کے لیے اتنے فرشتوں کا آنا ضروری نہیں تھا۔ حضرت ابراہیم کو اندیشہ تھا کہ ضرور ان کو لوط کی قوم کی طرف بھیجا گیا ہے، کیونکہ وه بہت بری گندگی میں پڑ چکے ہیں اور بار بار منع کرنے کے باوجود باز نہیں آتے۔

حضرت ابراہیم کو جب یقین دہانی ہوگئی کہ یہ فرشتے حضرت لوط کی قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹانے آئے ہیں تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے مجادلہ کرنا شروع کردیا کہ اے اللہ ، آپ لوط کی قوم پر عذاب نہ بھیجیں۔

 بائیبل میں ہے کہ حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ سے بحث وتکرار کی کہ اے اللہ، آپ سدوم کی قوم، یعنی حضرت لوط کی قوم پرعذاب نہ بھیجیں، ہوسکتا ہے ان میں یچاس لوگ بہتر ہوں۔ اس گندگی میں نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ابراہیم اگر تو لوط کی قوم میں سے یچاس لوگ بھی اچھے نکال دے تو میں ان پر عذاب نہیں دوں گا۔

حضرت ابراہیم نے جائزه لیا تو پچاس لوگ بھی ایسے نہیں تھے جو اس کام سے پاک ہوں۔ حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ سے مجادلہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اگر میں چالیس لوگ پاک کردار نکال لوں تب تو آپ ان پر عذاب نہیں بھیجیں گے؟ اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ ابراہیم بہت ہی فرماں بردار اور اللہ تعالیٰ سے کوئی سوال کیے بغیر ہر آزمایش پر پورے اترے۔

بائیبل میں ہے:

’’تب وہ مرد(فرشتے) ابراہیم کے پاس سے سدوم کی طرف گئے۔ پر ابراہیم خداوند کے سامنے ہی کھڑا رہا اور اس کے سامنے جا کر اس سے کہا کہ کیا تو نیک کو بد کے ساتھ ہلاک کرے گا؟ اگر پچاس راست بازآدمی اس شہر میں ہوں گےتو کیا وہ بھی سب کے ساتھ ہلاک ہوں گے اوران پچاس راست بازوں کی خاطر اگر وہ وہاں پر ہیں کیا وہ بھی ان پچاس کے ساتھ ہلاک ہوں گے؟ اور ان پچاس راست بازوں کی خاطر اگر وہ وہاں پر ہیں تو کیا تو ان کے مقام کو چھوڑ نہ دے گا؟ ایسا نہ کرنا۔ یہ تجھ سے بعید ہے کہ تو نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالےاور نیک جو ہے وه بد کے برابر ہوجائیں۔ یہ تجھ سے بعید ہے۔ تو جو تمام دنیا کا حاکم ہے ، کیا راستی سے کام نہ کرے گا؟ اور خداوند نے اسے کہا کہ اگر میں سدوم میں شہر کے اندر پچاس راست بازپاؤں تو میں ان کی خاطر تمام مقام کو چھوڑ دوں گا۔ اور ابراہیم نے جواب دے کر کہا ،دیکھ میں نے اپنے مالک کے سامنے بولنا شروع کیا۔ اگر میں خاک اور راکھ ہوں۔ شاید پچاس راست بازوں سے پانچ کم ہوں۔ کیا پانچ کم ہونے کی وجہ سے تو تمام شہر کو نیست کرے گا؟ اور اس نے کہا کہ میں پینتالیس پاؤں تو اسے ہلاک نہیں کروں گا،۔ اور پھر اس نے اس سے کہا کہ اگر وہاں چالیس پائے جائیں ؟ اس نے کہا کہ میں چالیس کی خاطر بھی اسے نیست نہیں کروں گا۔ پھر اس نے کہا اے خدا اگر میں کچھ بولوں تو خفا نہ ہونا۔ شاید وہاں تیس پائے جائیں۔ اللہ نے جواب دیا کہ اگرمیں وہاں تیس پاؤں تو میں یہ نہ کروں گا۔ ابراہیم نے کہا کہ میں نے اپنے مالک کے سامنے گستاخی کی ہے۔ اگر وہاں بیس پائے جائیں ؟ وه بولا میں بیس کی خاطر اسے نیست نہ کروں گا۔ تب اس نے کہا خداوند ناراض نہ ہونا۔ اگر میں فقط ایک دفعہ اور عرض کروں کہ اگر وہاں دس پائے جائیں؟ خدا بولا میں دس کی خاطر بھی اسے نیست نہ کروں گا۔ اور جب خداوند ابراہیم سے باتیں کر چکا تو چلا گیا اور ابراہیم اپنے مسکن کو پھرا۔‘‘ (پیدایش ۱۸: ۲۲- ۳۳)

یعنی حضرت ابراہیم کو حضرت لوط کی قوم میں دس لوگ بھی ایسے نہ ملے جو اس غلاظت سے پاک ہوتے۔ فرشتے خوب صورت لڑکوں کی صورت میں حضرت لوط کی قوم کی طرف آئے۔ قوم کے لوگوں کو جب پتا چلا تو وه خوشی خوشی حضرت لوط کی طرف چل پڑے۔ حضرت لوط نے جب اپنی قوم کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اس کے مہمانوں پر جھپٹنے آرہے ہیں تو وه نہایت آزردہ ہوئے۔ انھیں معلوم نہیں تھا کہ وه اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو ان کی قوم پر عذاب لے کر آئے ہیں۔

قرآن مجید میں ہے:

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ. يٰ٘اِبْرٰهِيْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَا اِنَّهٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَ وَاِنَّهُمْ اٰتِيْهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُوْدٍ. وَلَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْٓءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّقَالَ هٰذَا يَوْمٌ عَصِيْبٌ. وَجَآءَهٗ قَوْمُهٗ يُهْرَعُوْنَ اِلَيْهِ وَمِنْ قَبْلُ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ قَالَ يٰقَوْمِ هٰ٘ؤُلَآءِ بَنَاتِيْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَلَا تُخْزُوْنِ فِيْ ضَيْفِيْ اَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيْدٌ. قَالُوْا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِيْ بَنٰتِكَ مِنْ حَقٍّ وَاِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيْدُ. قَالَ لَوْ اَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِيْ٘ اِلٰي رُكْنٍ شَدِيْدٍ. قَالُوْا يٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَّصِلُوْ٘ا اِلَيْكَ فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَكَ اِنَّهٗ مُصِيْبُهَا مَا٘ اَصَابَهُمْ اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ. فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَاَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّيْلٍ مَّنْضُوْدٍ. مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ وَمَا هِيَ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ بِبَعِيْدٍ. (ہود ۱۱: ۷۵ - ۸۳)
’’حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم بڑا بردبار، بڑا دردمند اور اپنے پروردگار کی طرف بڑا دھیان رکھنے والا تھاـــــ۔ ابراہیم، یہ بحث چھوڑو، تمھارے پروردگار کا حکم ہو چکا ہے اور اب اِن لوگوں پر وہ عذاب آنے والا ہے جو لوٹایا نہیں جاتا۔ (اِس کے بعد) جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو اُن کے آنے سے وہ بہت رنجیدہ اور دل تنگ ہوا اور کہنے لگا کہ یہ تو بڑی مصیبت کا دن ہے۔ اُس کی قوم کے لوگ (یہ دیکھ کر کہ خوب رو لڑکے آئے ہیں)، بے اختیار دوڑتے ہوئے اُس کے پاس آ پہنچے۔ پہلے سے وہ ایسی ہی بدکاریوں کے خوگر تھے۔ اُس نے کہا: میری قوم کے لوگو، یہ میری بیٹیاں ہیں۔ یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں۔ اِس لیے خدا کا خوف کرو اور میرے مہمانوں کے معاملے میں مجھے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں ہے؟ اُنھوں نے جواب دیا: تمھیں معلوم ہی ہے کہ تمھاری بیٹیوں پر ہمارا کوئی حق نہیں ہے اور تم اچھی طرح جانتے ہو جو کچھ ہم چاہتے ہیں۔ لوط نے کہا: اے کاش، میرے پاس تم سے مقابلے کی طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا۔ فرشتوں نے کہا: اے لوط، ہم تمھارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں۔ (مطمئن رہو)، یہ تمھارے قریب بھی نہیں آسکیں گے۔ سو اپنے اہل و عیال کو لے کر کچھ رات رہے نکل جاؤاور تم میں سے کوئی پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے۔ تمھاری بیوی نہیں، اِس لیے کہ اُس پر وہی کچھ گزرنے والا ہے جو اِن لوگوں پر گزرنا ہے۔ اِن (پر عذاب) کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے۔ (تم پریشان کیوں ہوتے ہو)؟ کیا صبح قریب نہیں ہے؟ پھر جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے اُس بستی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا اور اُس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسائے، تہ بر تہ، جو تمھارے پروردگار کے ہاں نشان لگائے ہوئے تھے اور وہ اِن ظالموں سے کچھ زیادہ دور نہیں تھے۔‘‘

لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قوم لوط پر عبرت انگیز عذاب بھیجا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر جب ان بستیوں سے ہوتا تو آپ اپنے صحابہ سے فرماتے کہ جلد ی جلدی ان بستیوں سے گزرو اور یہاں پڑاؤ نہ ڈالو۔

اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس وقت اس دنیا میں یہ بیماری بہت پھیل رہی ہے۔ بعض ملک تو اسے قانونی شکل دے رہے ہیں۔ان سب کو، خاص طور پر اسلامی ملکوں کے رہنے والوں کو یہ معلوم ہے کہ چند لمحوں کی لذت حاصل کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B