HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت اسماء بنت مخرّبہ رضی اللہ عنہا

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

(حضرت اسماء بنت مخرّبہ ’السابقون الأولون‘ میں سے نہ تھیں، نام کی یکسانیت اور حالات زندگی کے اشتراک کی وجہ سے ان كا ذکر حضرت اسماء بنت سلمہ کے ساتھ كیا جا رہا ہے)

نسب

حضرت اسماء کے والد کا نام مخربہ(مخرمہ:ابن اثیر) تھا۔ نہشل بن دارم ان کے چوتھے، جب کہ تمیم بن مر دسویں جد تھے۔ انھی کے نام سے ان کا قبیلہ بنو تمیم کہلاتا ہے۔ حضرت اسماء ا سی نسبت سے تمیمی کہلاتی ہیں۔ ام الجلاس ان کی کنیت اورحنظلیہ لقب تھا۔ کچھ لوگوں نے حضرت اسماء کی ولدیت ا سماء بنت عمرو بن مخرّبہ بتائی ہے۔ حضرت اسماء کی والدہ بنو تغلب سے تعلق رکھتی تھیں، عناق بنت جان ان کا نام تھا، شموس بنت وائل ان کی نانی تھیں۔

 بیاہ اور اولاد

بنو مخزوم کا ہشام بن مغیرہ اپنی جوانی میں نجران (حران:بلاذری)کے سفر پر گیا اور وہاں اسماء بنت مخرّبہ کو دیکھاجو بیوہ ہو چکی تھیں۔ وہ اسے خوب بھلی لگیں تو بیاہ کر مکہ لے آیا۔ ابو جہل اور حارث کی ولادت ہوئی تو ہشام انتقال کر گیا(ابن حجر)۔ اسماءکے بیوہ ہونے کے بعد ابو جہل کے چچا ابوربیعہ بن مغیرہ نے ان سے نکاح کر لیا۔ تب حضرت عیاش بن ابو ربیعہ پیدا ہوئے۔چنانچہ وہ ابوجہل بن ہشام اور حارث بن ہشام کے ماں شریک سوتیلے بھائی ہوئے۔ ابن عبد البراور ابن اثیر کہتے ہیں :ہشام نے اسماءبنت مخرّبہ کو طلاق دی تو وہ ابو ربیعہ عمرو بن مغیرہ کے عقد میں آئیں۔ عبداللہ بن ابو ربیعہ اور ام حجیر حضرت عیاش کے سگے بہن بھائی تھے۔ حضرت اسماء بنت مخرّبہ(مخرمہ)، سلمہ بن مخرّبہ کی بہن، حضرت اسماء بنت سلمہ بن مخّر بہ کی پھوپھی تھیں۔ ابوجہل بن ہشام، حارث بن ہشام، حضرت عیاش بن ابو ربیعہ اور حضرت عبداللہ بن ابوربیعہ ان کے بیٹے تھے۔

ابن حجر کہتے ہیں: ابن مندہ نے حضرت اسماء بنت سلمہ اور حضرت اسماء بنت مخرّبہ کے حالات زندگی گڈ مڈ کردیے ہیں۔

قریش کا بائیکاٹ اور شعب ابی طالب

۷/نبوی : قریش کے جور و ستم سے تنگ آئے ہوئے مسلمان آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر حبشہ ہجرت کر گئے تو بھی ان کفار کو چین نہ آیا۔ انھوں نے دو سرکردہ قریشیوں عبداللہ بن ربیعہ اور عمرو بن العاص کو سفیر بنا کر شاہ حبشہ نجاشی کے پاس بھیجا۔ بادشاہ کو چندقیمتی نذرانے دے کر ان سفرا نے گزارش کی کہ ہمارے شہر کے چند نادانوں نے ایک نیا مذہب ایجاد کر کے آپ کے ہاں پناہ لی ہے، ازراہ کرم ہمارے مجرم ہمیں سونپ دیں۔ اس موقع پر حضرت جعفر بن ابو طالب نے اپنی مدلل و موثر تقریر میں اسلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان مشرکوں کے اٹھائے ہوئے شبہات کو خوب زائل کیا تو نجاشی نے مہاجرین کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ یہ سفرا خائب و خاسر ہو کر مکہ پہنچے تو ان کے لیڈروں کا غیظ و غضب بھڑک اٹھا۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ قتل کرنے کی ٹھانی۔ ایک مشرک منصور بن عکرمہ عبدری نے ان کے حکم پر یہ عہد نامہ تحریر کیا:کوئی شخص خاندان بنو ہاشم میں شادی بیاہ کرے گا، نہ ان سےخرید و فروخت کرےگا۔ ان کو کھانے پینے کا سامان بھی نہ دیا جائے گا، ان کا مکمل مقاطعہ کیا جائےگا، جب تک یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کو قتل کے لیے ہمارے حوالے نہیں کر دیتے۔ اس صورت حال میں ابو طالب اپنے کنبےبنو ہاشم کو لے کر مکہ کی پہاڑیوں کے بیچ اپنے موروثی رقبے خیف بنو کنانہ میں منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے بھوک اور افلاس میں تین کٹھن سال گزارے۔ یہ درہ بعد میں شعب ابی طالب کے نام سے مشہور ہوا۔ مشہور ہے کہ معاہدے کی تحریر کعبہ کے دروازے پر یا اس کے اند رلٹکائی گئی، تاہم ایک روایت یہ بھی ہے کہ اسے ابو جہل کی والدہ اسماء بنت مخرّبہ کے پاس رکھوایا گیا۔

قبول اسلام

ابن سعد کہتے ہیں :اسماءبنت مخرّبہ کی وفات مکہ میں حالت کفر ہی میں ہو گئی تھی۔ ابن اثیر کہتے ہیں : مجھے یقین نہیں آتا کہ انھوں نے اسلام قبول کیا ہو، اگر وہ مسلمان ہوتیں تو اپنے بیٹے کی ہجرت سے خوش ہوتیں۔ دوسری روایت کے مطابق وہ فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائیں اور حضرت عمر کے زمانۂ خلافت میں انتقال کیا۔ بلاذری اور ابن حجر کہتے ہیں: یہ روایت درست ہے۔

 ہجرت مدینہ

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مدینہ ہجرت کرنے کا اذن دیا توحضرت اسماء بنت مخرّبہ کے بیٹے حضرت عیاش بن ابوربیعہ قبا پہنچے تو ان کا سوتیلا بھائی ابوجہل بھی پیچھے پیچھے پہنچ گیا اور کہاکہ والدہ نے جو ابھی تک مسلمان نہ ہوئی تھیں، قسم کھائی ہے کہ وہ سرمیں تیل لگائے گی، نہ سائے میں بیٹھے گی جب تک تمھیں دیکھ نہ لے گی۔ یوں بہلا پھسلا کراس نے انھیں واپسی پر آمادہ کیا، مگر راستے میں رسیوں سے باندھا اور مکہ لا کر قید خانے میں ڈال دیا۔ ان کے محبوس ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اورمکہ میں قید دوسرے مسلمانوں کے لیے دعاے قنوت مانگنا شروع کی۔ حضرت عیاش کی رہائی غزوۂ خندق کے بعد ہوئی۔ ب

  عہد رسالت میں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مریض کی عیادت کے لیے حضرت ابو ربیعہ کے گھر تشریف لائے۔ ان کی اہلیہ حضرت اسماء بنت مخرّبہ(مخرّمہ) نے کہا:یا رسول اللہ، مجھے نصیحت نہ فرمائیں گے؟آپ نے فرمایا: اے ام الجلاس، اپنی بہن سے وہی سلو ک کرو جو تم چاہتی ہو کہ وہ تمھارے ساتھ کرے۔ پھر وہ حضرت عیاش کا بیمار بیٹا آپ کے سامنے لائیں، آپ نے اسے دم کیا اور اپنا تھوک اسے لگایا۔ وہ بھی آپ پر تھوکنے لگا تو گھر والوں نے اسے ڈانٹا۔ آپ نے انھیں بچے کو جھڑکنے سے منع فرمایا(کنزالعمال، رقم ۳۷۴۵۸۔ جامع المسانید وا لسنن، ابن کثیر، رقم ۱۲۸۵۷)۔

عہد فاروقی میں

عہد فاروقی میں حضرت ربیع بنت معوّذ کچھ انصاری صحابیات کے ساتھ حضرت اسماء بنت مخرّبہ کے ہاں گئیں جو زمانۂ جاہلیت سے تجارت کرتی تھیں۔ ان کے بیٹے حضرت عیاش بن ابو ربیعہ یمن سے انھیں عطر بھیجتے تھے اور لوگ ان سے وہ عطر خرید کر تحفے تحائف دیا کرتے تھے۔ حضرت ربیع کو دیکھ کر حضرت اسماء بولیں: تو تم اس شخص (حضرت معوذ بن عفراء ) کی بیٹی ہوجس نے اپنے سردار (ابوجہل)کو قتل کیا تھا۔ حضرت ربیع نے جواب دیا:نہ، نہ، میں تو اس بہادر کی سپتری ہوں جس نے اپنے غلام کو ما را تھا۔ حضرت اسماء بنت مخرّبہ نے کہا:مجھ پر حرام ہے کہ تمھیں اپنا ذرا سا عطر بھی بیچوں۔ حضرت ربیع نے جواب دیا:مجھ پر بھی حرام ہے کہ تم سے کچھ بھی خریدوں۔ میں نےکبھی کسی عطر میں تمھارے عطر جیسی بو نہیں پائی۔ بعد میں کہا:میں نے غصے سے ایسا کہہ دیا تھا، واللہ، میں نے اس سے زیادہ اچھی خوشبوکبھی نہیں سونگھی۔ ن

روایت حدیث

حضرت عبداللہ بن عیاش، حضرت ربیع بنت معوذنے حضرت اسماء بنت مخرّبہ سے حدیث روایت کی۔

وفات

ابن سعد کہتے ہیں:ابو جہل حضرت عیاش کو لے کر ابھی مکہ نہیں پہنچا تھا کہ ان کی والدہ انتقال کر گئیں۔ دوسری روایت کے مطابق ان کی وفات حضرت عیاش کی اسیری کے دوران میں ہو ئی۔ تیسری روایت کے مطابق وہ حضرت عمر کے عہد خلافت میں فوت ہوئیں۔ یہی روایت درست مانی جاتی ہے۔

مطالعۂ مزید: الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، انساب الاشراف(بلاذری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔ و

ـــــــــــــــــــــــــ

 

حضرت سلمیٰ بنت صخر رضی اللہ عنہا

نام و نسب

حضرت سلمیٰ بنت صخر اپنے لقب ام الخیر سے مشہور ہیں۔ الخیر سے مراد ان کےنام ور اور نیک نام فرزند حضرت ابو بکر ہیں جو خیر البشر بعد الانبیا ، یکے از اصحاب عشرۂ مبشرہ اور دور اسلامی کے پہلے خلیفۂ راشد ہیں۔ حضرت سلمیٰ کے دادا کا نام عامر بن کعب اورسکڑدادا کا سعد بن تیم تھا۔ ان کے شوہر حضرت ابو قحافہ عثمان ان کے والد کے چچا عامر بن عمرو کے بیٹے تھے۔ طبرانی نے حضرت سلمیٰ کے دادا کا نام عامر بن عمرو بن کعب لکھا ہے۔ یہ زیادہ صحیح ہے، اس سے ان کا اور حضرت ابو قحافہ کا سلسلۂ نسب ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔

  قبیلہ تیم قریش کا بطن تھا، قبیلہ کے بانی تیم بن عبد مناۃ حضرت ام الخیر کے پانچویں جد ہیں۔ بنو تیم کے مرد امانت داری، حسن معاملہ اور ایفاے عہدمیں مشہور تھے اور ان کی عورتیں وقار، اخلاص اور وفا داری کی شہرت رکھتی تھیں۔ بعض مورخین نے حضرت سلمیٰ بنت صخر کی نسبت تمیمی بتائی ہےجو درست نہیں، اسے کتابت کی غلطی ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ بنو تیم کا شجرہ اس طرح ہے: تیم بن عبدمناۃ بن اد بن طابخہ بن الیاس، جب کہ بنو تمیم کا سلسلۂ نسب یوں ہے:تمیم بن مر بن اد بن طابخہ بن الیاس۔ ان دونوں برادر قبائل میں مخاصمت بھی تھی، عبدمناۃ بن اد کے پانچوں بیٹوں تیم، عدی، عوف (عکل)، ثور اور اشیب نے اپنے چچا ضبہ بن اد کے ساتھ مل کر پھلوں کا شیرہ(رُبّ) پیا اور اس میں ہاتھ ڈبو کر اپنے چچیروں تمیم بن مر کے خلاف حلف اٹھایا اور رِباب کہلائے۔ یہ رُبّۃ بمعنی فرقہ کی جمع ہے۔ مطلب ہے کہ وہ الگ الگ گروہ تھے، میثاق باہمی سے یکجاہو گئے۔ ز

اولاد

 حضرت ابوقحافہ کےحضرت سلمیٰ سے کئی بچے ہوئے، لیکن مدت رضاعت ہی میں وفات پا گئے۔ انھوں نے نذر مانی کہ اگلے بچے کا نام عبدالکعبہ رکھیں گی۔۵۷۳ء میں حضرت ابوبکر پیدا ہوئے توحضرت سلمیٰ انھیں بیت اللہ لے گئیں اور اللہ سے دعا کی کہ یہ بچہ موت سے رستگاری پا گیا ہے ۔ اب مجھے عطا کر دے۔ وہ زندہ رہے تو عتیق، یعنی موت سے آزادی حاصل کرنے والا ان کا نام ہو گیا۔ حضرت سلمی ٰ نے بعد میں آنے والے دو بچوں کے نام مُعتق اور عُتیق رکھے۔ چوتھے کا نام قحافہ تھا جن سے ان کے والدحضرت عثمان نے ابو قحافہ کنیت اختیار کی (المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۶)۔عتیق نام ہونے کی کچھ اور وجوہات بھی بتائی گئی ہیں۔ لیث بن سعد اورعمرو بن علی کہتے ہیں :حضرت ابو بکر کالقب عتیق اس لیے پڑا، کیونکہ وہ خوب رو اور با وقار تھے (المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۴- ۵۔ مجمع الزوائد:۱۴۲۹۲)۔ حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں:(ایک بار) ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا : اللہ نے آپ کو دوزخ سے آزاد کر دیا ہے۔ اس دن سے ان کا نام عتیق(آزادکردہ) ہوگیا (ترمذی، رقم ۳۶۷۹۔ مستدرک حاکم، رقم ۳۵۵۷۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۸۶۴)۔ حضرت عائشہ ہی کی دوسری روایت ہے: حضرت ابو بکر بارگاہ نبوی میں آتے دکھائی دیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آگ سے آزاد کیا ہوا دیکھ کر مسرت پانا چاہتا ہے، وہ ابوبکر کو دیکھ لے (مستدرک حاکم، رقم ۴۴۰۴۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۹۳۸۴۔  مسند ابو یعلیٰ، رقم ۴۸۹۶۔ مسند بزار، رقم ۲۲۱۳)۔ ترمذی نے اپنی روایت کو غریب قرار دیا ہے اور ذہبی نے مستدرک کی روایتوں کو ضعیف بتایا ہے۔

حضرت ابوبکر کا نام عتیق تو تھا ہی، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ عتیق سے مستنبط اور معانی بھی عطا کر دیے، اس طرح یہ نام زیادہ خوب صورت اور پر اثر ہو گیا۔

قبول اسلام

حضرت سلمیٰ بنت صخر بعثت سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت ابوبکر سے دوستی تھی اور ان کے گھر آپ کا آنا جانا رہتا تھا۔

نبوت کے تیسرے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کو قرآن حکیم سناناشروع کیا۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے:اسی برس جب اہل ایمان کی تعداد اڑتیس ہوگئی تو حضرت ابوبکر نے ایمان کا اظہار کرنے پر اصرار کیا۔ چنانچہ آپ مسلمانوں کو لے کر بیت اللہ کے گرد پھیل گئے اورحضرت ابوبکر نے کھڑے ہوکر اہل مکہ کو اللہ ورسول کے اتباع کی دعوت دینا شروع کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مشرکین ان پر پل پڑے، انھیں گرا کر پیروں تلے روندا۔ عتبہ بن ربیعہ نے اپنی بھاری جوتی اتار لی اورحضرت ابوبکر کو پیٹنے لگا، ا ن کے پیٹ پر چڑھ کر جوتے کے کنارے سے ان کے چہرے پراتنی ضربیں لگائیں کہ منہ سوج کر کپا ہو گیااور ناک اس میں چھپ گئی۔ خانۂ کعبہ میں موجود دوسرے مسلمانوں پر بھی تشدد کیا گیا۔

حضرت ابوبکر کے قبیلہ بنو تیم کے لوگوں کو پتا چلا تو وہ دوڑے آئےاور انھیں عتبہ اور اس کے ساتھیوں سے چھڑایا۔ حضرت ابوبکر ادھ موئے پڑے تھے۔ اہل قبیلہ کو یقین ہوگیا کہ وہ جاں بر نہ ہو سکیں گے، اس لیے انھیں کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے آئے۔ دن بھر بے ہوش رہنے کے بعدشام کے وقت وہ ہوش میں آئے تو سب سے پہلے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت دریافت کی۔ مشرک اہل قبیلہ طیش میں آگئے۔ ان کو برا بھلا کہا اور گالی گلوچ کر کے چلتے بنے۔ حضرت ابوبکر کو ان کی والدہ نے کچھ کھانے پینے کو کہا تو انھوں نے کہا :پہلے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتائیں۔ والدہ نے کہا: مجھے علم نہیں۔ انھوں نے کہا:تو عمر کی بہن۔ ام جمیل فاطمہ بنت خطاب سے پوچھ کر آئیں۔ ام جمیل خود آئیں اور بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے دار ارقم میں ہیں۔ حضرت ابوبکر نے کہا: میں آپ سے ملے بغیر کچھ نہ کھاؤں گا۔ جب رات کا اندھیرا ہوا اور لوگ گھروں میں ٹک گئے تو حضرت ام الخیر اور حضرت ام جمیل حضرت ابوبکر کو سہارا دے کر دارارقم لے آئیں۔ حضرت ابوبکر کو دیکھ کر آپ پر رقت طاری ہو گئی۔ آپ نے جھک کر ان کا بوسہ لیا۔ حضرت ابوبکر نے کہا:یا رسول اللہ، مجھے اور تو نہیں، بس چہرے کی تکلیف ہے۔ جو عتبہ فاسق نے اس کا حال کیا ہے۔ اس موقع پر انھوں نے اپنی والدہ حضرت ام الخیرسلمیٰ کے لیے نار جہنم سے چھٹکارے کی دعا کرنے کی درخواست بھی کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی جو فوراً قبول ہوئی اور حضرت سلمیٰ اسی وقت دارارقم ہی میں ایمان لے آئیں۔ اسی دن آپ کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب بھی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ تب تک ایمان لانے والے انتالیس صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دار ارقم میں ایک ما ہ مقیم رہے (البدایۃ)۔

حضرت ابو الخیر سلمیٰ اولیں مسلمانوں میں شامل تھیں۔ انھوں نے ۵ / نبوی(۶۱۴ء) میں دار ارقم میں حاضر ہو کررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی۔ تاہم ابن ہشام، ابن کثیر اور ذہبی نے اپنی اپنی ترتیب کردہ ’السابقون الأولون‘ کی فہارس میں ان کا نام شامل نہیں کیا۔

حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں:صحابہ میں سے حضرت ابوبکر، حضرت عثمان، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر، حضرت عمار اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی مائیں ایمان لائیں(المعجم ا لکبیر، طبرانی، رقم 3۔ مستدرک حاکم، رقم ۵۵۸۴)۔ ایک روایت کے مطابق اس فہرست میں حضرت ابوبکر کی والدہ اول شمار ہوتی ہیں۔ حضرت عثمان کی والدہ حضرت اروی ٰ بنت کریز ہجرت مدینہ کے بعد اسلام لائیں۔ حضرت طلحہ کی والدہ حضرت صعبہ بنت حضرمی تاخیر سے مسلمان ہوئیں۔ حضرت زبیر کی والدہ حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ غالب امکان ہے کہ وہ اپنے بھائی حضرت حمزہ کے بعد ایمان لائیں۔ حضرت عمار کی والدہ حضرت سمیہ ’السابقون الأولون‘میں سے تھیں۔ انھوں نے بھی دارارقم میں حاضر ہو کر بیعت ایمان کی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی والدہ حضرت شفا بنت عوف ہجرت مدینہ سے قبل دائرۂ اسلام میں داخل ہوئیں۔

 مدینہ میں

۱۳ / نبوی :بیعت عقبہ اولی ٰ و ثانیہ میں انصار نے نصرت دین کا عہد کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کومدینہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ حضرت ام الخیر سلمیٰ بھی مدینہ روانہ ہو گئیں۔ انھوں نے اپنی باقی زندگی مدینہ میں گزاری اور تمام حالات و واقعات کا مشاہدہ کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری وقت تک ان سے راضی تھے۔ حضرت ابوبکر واحد خلیفہ ہوئے جنھوں نے والدین کی زندگی میں وفات پائی۔ ان کے ماں باپ، دونوں نے بیٹے کی میراث پائی، مگرحضرت ابوقحافہ نے اپنا حصہ حضرت ابوبکر کی اولاد کو ہبہ کر دیا۔ 

وفات

حضرت ابوالخیر سلمیٰ حضرت ابو بکر کے بعد زیادہ نہ جی سکیں۔ ان کی رحلت کے کچھ ہی ماہ بعد انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ سن وفات ۱۳ھ (۶۳۴ء) ہے۔ ان کے شوہر اور حضرت ابوبکر کے والدحضرت ابوقحافہ نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا اور ۱۴ھ میں ستانویں برس کی عمر میں مکہ میں انتقال کیا۔

مطالعۂ مزید: اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ(ابن کثیر)، السیرۃ النبویۃ(ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)۔

 ــــــــــــــــــــــــــ

B