[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
مبارک احمد ثانی بنام ریاست نامی مقدمے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ گذشتہ دنوں کافی زیربحث رہا۔ اس مقدمے میں قادیانی کمیونٹی کے ایک تعلیمی ادارے کے اندر قادیانی طلبہ کے مابین مرزا بشیر الدین محمود کی ’’تفسیر صغیر“ کےنسخے تقسیم کیے جانے پر اس بنیاد پر ایف آئی آر کٹوائی گئی تھی کہ کسی تحریف شدہ ترجمے کی اشاعت قانوناً ممنوع ہے اور یہ کہ ’’تفسیر صغیر“ پر الگ سے بھی قانونی پابندی عائد ہے۔ سپریم کورٹ نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے ’لا اکراہ فی الدین‘ کے مذہبی اصول کے علاوہ آئین کی ان دفعات کا حوالہ دیا ہے جن کے مطابق ہر مذہبی کمیونٹی کو اپنے مذہب کے اظہار اور اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا اور اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے کا حق دیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اپنے اداروں میں اپنی کمیونٹی کے افراد کو مذہبی تعلیم دینے سے کسی کو نہیں روکا جا سکتا۔
بظاہر یہی مترشح ہوتا ہے کہ عدالت یہاں ’’تبلیغ “ کرنے سے مراد اپنی کمیونٹی کے افراد کی تعلیم وتربیت ہی لے رہی ہے، نہ کہ عوامی تبلیغ وتشہیر کی اجازت دے رہی ہے۔ احمدی کمیونٹی کے حوالے سے آئین کی اس دفعہ کا مطلقاً ذکر کرنے سے ایک ابہام سا ضرور پیدا ہوتا ہے، لیکن بظاہر اس خاص مقدمے کے تناظر میں ایسا نہیں لگتا کہ عدالت کا مقصود عوامی سطح پر مذہبی تبلیغ کی اجازت دینا ہے۔ بہرحال اس عدالتی فیصلے نے ایک بار پھر مذہبی حلقوں کی اس تشریح کو واضح طور پر رد کر دیا ہے جو یہ حضرات قادیانیوں کے قانونی ومذہبی حقوق کے حوالے سے اپنے تئیں کرتے رہتے ہیں۔ گذشتہ سال بھی عدالت نے ایک فیصلے میں واضح کیا تھا کہ اپنی چاردیواری کے اندر احمدیوں کو اپنی تمام عبادات از قسم نماز وقربانی وغیرہ ادا کرنے کا حق حاصل ہے۔ حالیہ فیصلے نے اس کو مزید موکد کر دیا ہے کہ قادیانی اپنی کمیونٹی کے دائرے میں اپنی مذہبی ضروریات کے لحاظ سے اپنا مذہبی لٹریچر بھی شائع اور مہیا کر سکتے ہیں۔ ان پر خود کو مسلمان ظاہر کرنے یا اپنے مذہب کی عوامی تبلیغ کرنے کی پابندی ہے، لیکن اپنی کمیونٹی کے دائرے میں ان کے مذہبی حقوق اس بنیاد پر سلب نہیں کیے جا سکتے۔
اس تناظر میں اس فیصلے کے خلاف مخصوص مذہبی حلقوں کی طرف سے جو پراپیگنڈا مہم جاری کی گئی اور یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ فیصلے میں قادیانی جماعت کے حوالے سے متعلقہ آئینی فیصلے اور قوانین کی نفی کی گئی ہے، اس کا محرک فیصلے میں کسی تعبیری وتشریحی ابہام کو دور کرانا نہیں ہے، بلکہ چونکہ فیصلہ واضح طور پر اس مذہبی مطالبے کی تردید کر رہا ہے کہ قادیانیوں کو ان کے اپنے تعلیمی اداروں میں بھی اپنا مذہبی لٹریچر استعمال کرنے سے روکا جائے اور اس مطالبے کے خلاف اصل فیصلے پر کوئی آئینی وقانونی اعتراض نہیں ہو سکتا، اس لیے اس کو تبلیغ کی اجازت کا رنگ دے کر فیصلے کے اصل نکتے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایسی پراپیگنڈا مہموں کا ایک بڑا مقصد یہ تاثر قائم کرنا بھی ہوتا ہے کہ قادیانیوں سے متعلق آئینی وقانونی ضمانتوں کی اصل محافظ مذہبی جماعتیں ہیں اور آئینی ادارے بھی ان کے سامنے جواب دہ اور انھیں مطمئن رکھنے کے پابند ہیں۔ اگر مذہبی جماعتیں متحرک نہ ہوں تو حکمران اور عدالتیں اتنا بکاؤ مال ہیں کہ کسی بھی وقت سب کیے کرائے پر پانی پھیر سکتی ہیں۔ ساری مذہبی سیاست اس پرسیپشن پر کھڑی ہے اور اس مہم کے ذریعے سے اسی کو بحال رکھنے کی کوشش ہوئی ہے جو بظاہر پوری طرح کامیاب ہے۔
اس ضمن میں ایک اور عمومی اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ عدالت کو ملزم کی ضمانت کے مسئلے تک محدود رہنا چاہیے تھا اور مذہبی آزادیوں کے حوالے سے کسی اصولی قسم کی گفتگو میں پڑنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس تنقید میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیراگراف نمبر ۱۰ کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، کیونکہ عدالت نے اس میں قرار دیا ہے کہ :
’’اگر ریاست کے حکام صرف قرآن شریف پر عمل اور آئین پر غور کرتے اور قانون کا جائزہ لیتے تو مذکورہ بالا جرائم کے متعلق ایف آئی آر درج نہ کرائی جا سکتی۔ اس لیے فوجداری درخواست برائے اپیل نمبر 1054-L بابت ۲۰۲۳ء کو اپیل میں تبدیل کرتے ہوئے منظور کیا جاتا ہے اور معترضہ حکمنامہ کو منسوخ کرتے ہوئے درخواست گزار کے خلاف عائد کی گئی فرد جرم سے پنجاب (طباعت وضبط) قانون، ۲۰۱۱ء کی دفعہ ۷ مع دفعہ ۹ اور مجموعہ تعزیرات کی دفعات 298-C اور 295-B کو حذف کیا جاتا ہے۔“
محولہ جملہ صاف بتا رہا ہے کہ عدالت کی نظر میں سرے سے یہ مقدمہ ہی درج نہیں ہونا چاہیے تھا، کیونکہ یہ ہر گروہ کو مقررہ حدود میں دی گئی مذہبی آزادیوں کی آئینی ضمانت کے خلاف ہے۔ اسی نکتے کی وضاحت میں عدالت نے آئین کی مختلف دفعات کا حوالہ دیا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عدالت کی نظر میں ممنوعہ کتاب کی تقسیم یا اشاعت سے متعلق جس قانون کا حوالہ ایف آئی آر میں دیا گیا ہے، وہ قادیانیوں کی داخلی مذہبی آزادیوں پر قابل اطلاق ہی نہیں اور اس قانون کی بنیاد پر ان کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔
اس معاملے کی بہت قریبی مماثلت گائے کی قربانی کے مسئلے کے ساتھ بنتی ہے جو متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم کشیدگی کا ایک بڑا عنوان تھا۔ ہندوؤں کا مطالبہ تھا کہ چونکہ گائے ان کے مذہب میں مقدس ہے، اس لیے مسلمان اس رسم کو کلیتاً ترک کر دیں۔ مسلمان رہنماؤں کی طرف سے جو موقف پیش کیا گیا، وہ یہ تھا کہ مسلمان، ہندوؤں کے عقیدے کے پابند نہیں ہیں اور نہ گاؤ کشی کو کلیتاً ترک کر سکتے ہیں، اور نہ قانون کی طاقت یا سماجی دباؤ کے زور سے مسلمانوں کو اس پر مجبور کیا جا سکتا ہے، البتہ مسلمان یہ اہتمام ضرور کر سکتے ہیں کہ اس رسم کی ادائیگی میں ہندوؤں کے مذہبی احساسات کی رعایت کریں اور ایسا طریقہ اختیار کریں جس سے ان کے جذبات مجروح نہ ہوں۔
مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ نے اس نوعیت کے اختلافات کے مجوزہ حل کے حوالے سے اکابر علما وزعما کی منظور کردہ ایک تفصیلی قرارداد ’’کفایت المفتی‘‘ کی جلد نہم میں نقل کی ہے۔ اس کا ایک اقتباس حسب ذیل ہے:
’’(ج) (۱) ہندوؤں کو یہ توقع نہ رکھنی چاہیے کہ باہمی معاہدہ کے علاوہ مسلمانوں کو ان کے حق گاؤ کشی کے استعمال سے جبراً یا مقامی بورڈوں کو قرارداد یا قانون جماعت ساز کے قانون یا عدالت کے حکم سے روکا جا سکتا ہے۔ ہندوؤں کو اس کے لیے مسلمانوں کے نیک احساس اور دونوں قوموں میں بہتر تعلقات کے قائم ہو جانے پر بھروسہ کرنا چاہیے جس کی وجہ سے ہندوؤں کے جذبات کا مسلمانوں کے دلوں میں زیادہ احترام پیدا ہوگا۔
(۲) مذکورہ بالا دفعہ میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ کسی مقامی رواج یا دونوں قوموں کے باہمی معاہدہ پر جو پہلے ہوچکا ہے، کوئی اثر نہ ڈالے گا اور نہ اس کو مسترد کرے گا اور نہ اس کی وجہ سے کسی ایسی جگہ گاؤ کشی کو اجازت ہوگی جہاں پہلے گاؤ کشی نہیں ہوئی ہے۔ اس بارے میں واقعات کے متعلق تمام جھگڑے قومی پنچایت جس کا ذکر تحریک نمبر ۳ میں ہو چکا ہے، طے کرے گی۔
(۳) ذبیحہ گاؤ اس طرح ہوگا جس سے ہندوؤں کے مذہبی احساسات کو صدمہ نہ پہنچے۔
(۴) اس کانفرنس کے مسلمان ممبران اپنے ہم مذہبوں سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ گائے کے ذبیحہ کو کم کرنے کی حتی الوسع کوشش کریں۔“ (۳۳۰)
ہماری راے میں مسلمان ریاست میں بھی غیر مسلم اقلیتوں کے مذہبی حقوق کے حوالے سے اسی عملی انداز نظر کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔
جناب جاوید احمد غامدی نے کلمہ گو کی تکفیر سے متعلق اپنا نقطۂ نظر اپنی کتاب ’’مقامات“ میں ’’مسلم اور غیر مسلم“ کے عنوان سے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’اِس کے بعد اُن لوگوں کا معاملہ ہے جو مسلمان ہیں، اپنے مسلمان ہونے کا اقرار، بلکہ اُس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کر لیتے ہیں جو عام طور پر اسلام کی تعلیمات کے منافی سمجھا جاتا ہے یا کسی آیت یا حدیث کی کوئی ایسی تاویل اختیار کر لیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علما یا دوسرے تمام مسلمان بالکل غلط سمجھتے ہیں، مثلاً امام غزالی اور شاہ ولی اللہ جیسے بزرگوں کا یہ عقیدہ کہ توحید کا منتہاے کمال وحدت الوجود ہے یا محی الدین ابن عربی کا یہ نظریہ کہ ختم نبوت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ نبوت کا مقام اور اُس کے کمالات ختم ہو گئے ہیں، بلکہ صرف یہ ہیں کہ اب جو نبی بھی ہو گا، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا پیرو ہو گا یا اہل تشیع کا یہ نقطۂ نظر کہ مسلمانوں کا حکمران بھی مامور من اللہ ہوتا ہے جسے امام کہا جاتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اِس منصب کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا تقرر اِسی اصول کے مطابق خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے کر دیا گیا تھا جسے قبول نہیں کیا گیا یا علامہ اقبال جیسے جلیل القدر مفکر کی یہ راے کہ جنت اور دوزخ مقامات نہیں، بلکہ احوال ہیں۔
یہ اور اِس نوعیت کے تمام نظریات و عقائد غلط قرار دیے جا سکتے ہیں، اِنھیں ضلالت اور گم راہی بھی کہا جاسکتا ہے، لیکن اِن کے حاملین چونکہ قرآن و حدیث ہی سے استدلال کر رہے ہوتے ہیں، اِس لیے اُنھیں غیرمسلم یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِن نظریات و عقائد کے بارے میں خدا کا فیصلہ کیا ہے؟ اِس کے لیے قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ دنیا میں اِن کے حاملین اپنے اقرار کے مطابق مسلمان ہیں، مسلمان سمجھے جائیں گے اور اُن کے ساتھ تمام معاملات اُسی طریقے سے ہو ں گے، جس طرح مسلمانوں کی جماعت کے ایک فرد کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ علما کا حق ہے کہ اُن کی غلطی اُن پر واضح کریں، اُنھیں صحیح بات کے قبول کرنے کی دعوت دیں، اُن کے نظریات و عقائد میں کوئی چیز شرک ہے تو اُسے شرک اور کفر ہے تو اُسے کفر کہیں اور لوگوں کو بھی اُس پر متنبہ کریں، مگر اُن کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے یا اُنھیں مسلمانوں کی جماعت سے الگ کر دینا چاہیے، اِس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اِس لیے کہ یہ حق خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن و حدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اُس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے۔“ (۲۳۱ - ۲۳۲)
بعض ناواقف ناقدین کے ہاں تکفیر کے باب میں استاذ گرامی جاوید احمد غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کی یہ تعبیر دیکھنے میں آئی کہ یہ تو ایمانیات میں ریلیٹیو ازم بن جاتا ہے کہ جو بھی اسلام کے نام پر جو کچھ بھی ماننا چاہے، مان سکتا ہے اور وہ کسی بھی قسم کا کفر یا شرک اختیار کرنے کے باوجود اس لیے مسلمان ہی رہے گا کہ وہ اس کو اسلام سمجھتا ہے۔ یہ بدیہی طور پر غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کی بالکل غلط تعبیر ہے۔ غامدی صاحب کسی عقیدہ یا عمل کو کفر یا شرک کہنے کو غلط نہیں سمجھتے، بلکہ اس کے مرتکب کی تکفیر سے اختلاف کرتے ہیں۔
یہ اصولی طور پر ہماری کلامی روایت میں کوئی نیا نقطۂ نظر نہیں ہے۔ عقیدہ وعمل کو کفر کہنا، لیکن تاویل کی رعایت دیتے ہوئے یا موانع کا لحاظ کرتے ہوئے، نیز دعوتی مصلحت سے معین شخص یا گروہ کی تکفیر سے اجتناب کرنا علم کلام میں ایک معروف بات ہے۔ قادیانیوں کے حوالے سے بھی بعض اہل علم کا یہی رجحان رہا ہے جن میں مولانا عبد الماجد دریابادی معروف ہیں اور اس مسئلے پر مولانا اشرف علی تھانوی کے ساتھ اپنا مکالمہ انھوں نے اپنی کتاب ’’حکیم الامت: نقوش وتاثرات“ میں نقل کیا ہے۔ یہی رجحان عرب علما میں بھی رہا ہے اور سلطنت عثمانیہ کے شیخ الاسلام علامہ مصطفیٰ صبری نے اپنی کتاب ’’موقف العقل والعلم“ میں قادیانیوں کی تکفیر کے باب میں بعض مصری علما کے تردد پر تفصیلاً کلام کیا ہے۔
قریب کے عرب علما میں علامہ البانی تو واضح طور پر یہی موقف رکھتے ہیں جو غامدی صاحب کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی گروہ کے عقائد کا کفریہ ہونا بیان کرنا چاہیے، لیکن متعین طور پر فرد کو یا پورے گروہ کو کافر نہیں کہنا چاہیے۔ اور یہ بات بھی وہ مرزا صاحب کے متبعین میں سے قادیانیوں کے متعلق کہتے ہیں، جب کہ لاہوری گروپ کے اعتقاد پر بھی کفر کا حکم نہیں لگاتے، کیونکہ وہ مرزا صاحب کو نبی نہیں مانتے (دیکھیے: جامع تراث العلامۃ الالبانی فی العقیدۃ ۴/ ۲۸۴، ۵/ ۶۹۸)۔ یہ موقف ہمارے ہاں ابتداءً مولانا مودودی کا بھی رہا ہے، تاہم آئینی فیصلے کے موقع پر انھوں نے یہ راے ترک کر کے دونوں گروہوں کی تکفیر کے باب میں جمہور اہل علم کے موقف کی تائید کا طریقہ اختیار کیا۔
اصل میں، مذکورہ کلامی اصول کے ہوتے ہوئے قادیانیوں کی تکفیر پر جمہور علما کے اصرار کی وجہ عملی دینی مصالح بنے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم مصلحت تو قادیانیوں کی دعوتی جارحیت کا سدباب کرنا تھا جس کو مولانا تھانوی نے یوں بیان کیا کہ قادیانیوں کو تاویل کی رعایت دینے میں ان کے ساتھ تو شفقت ہے، لیکن عام مسلمانوں کے لیے یہ مہلک ہے، کیونکہ اس رعایت سے فائدہ اٹھا کر قادیانی مسلمانوں کو گم راہ کرتے رہیں گے۔
دوسری اہم مصلحت علامہ اقبال اور مولانا مودودی نے واضح کی ہے کہ دائرۂ اسلام کے اندر نئی نبوت پر ایمان کی گنجایش مان لینے سے امت میں نئی نئی نبوتوں کی بنیاد پر فرقہ بندی کا ایک ایسا دروازہ کھل جائے گا جس میں پھر وحدت اور اجتماعیت کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’یہ امر نظر انداز نہ کیا جانا چاہیے کہ ختم نبوت کا یہ عقیدہ محض ایک اعتقادی مسئلہ نہیں ہے جس میں اختلاف رونما ہونے کے اثرات ونتائج صرف فکر وخیال کی دنیا تک محدود رہ سکتے ہوں، بلکہ یہی وہ واحد بنیاد ہے جس پر مسلمانوں کی پوری قومی عمارت قائم ہے، جس کے بقا پر مسلم ملت کی وحدت اور اس کا استحکام منحصر ہے، اور جس کے متزلزل ہو جانے کے اثرات ونتائج محض ’’مذہب “ کے دائرے تک محدود رہ جانے والے نہیں ہیں، بلکہ تمدنی اور سیاسی اور معاشی اور بین الاقوامی ہر حیثیت سے ہمارے لیے سخت مہلک ہیں۔ تاریخ کے دوران میں مسلمانوں کے درمیان عقائد اور اصول اور فروع میں بے شمار اختلافات رونما ہو چکے ہیں اور اب بھی ہوئے جا رہے ہیں جن کے نہایت برے اثرات ہماری اجتماعی زندگی پر مترتب ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ مگر شروع سے آج تک جس چیز نے تمام تفرقوں اور اختلافات کے باوجود ہم سب کو ایک ملت بنا رکھا ہے اور جس چیز کی بدولت ہمیشہ قومی خطرات ومصائب کے وقت یا اہم قومی مسائل پیش آنے پر ہمارا متحد ہو کر کام کرنا ممکن ہوا ہے، وہ صرف ایک رسول کی پیروی پر ہمارا متفق ہونا ہے۔ یہ ایک بنیاد بھی اگر متزلزل ہو جائے اور نئے نئے رسولوں کی دعوتیں اٹھ کر ہمیں الگ الگ امتوں میں بانٹنا شروع کر دیں تو پھر کوئی طاقت ہمیں مستقل طور پر پراگندہ ہونے سے نہ بچا سکے گی اور کوئی چیز ایسی باقی نہ رہے گی جو ہم کو کبھی جمع کر سکے۔ اس فتنۂ عظیم سے جو لوگ ’’رواداری‘‘ برتنے کا ہمیں مشورہ دے رہے ہیں، وہ صرف یہی نہیں کہ رواداری کے معنی اور اس کے حدود نہیں جانتے، اور صرف یہی نہیں کہ وہ اسلام سے ناآشنا ہیں، بلکہ درحقیقت وہ بڑی نیک نیتی، مگر بڑی نادانی وبے فکری کے ساتھ مسلم ملت کی قبر کھودنا چاہتے ہیں۔“ (تحقیقاتی عدالت میں مولانا مودودی کا تیسرا بیان، ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد ۴۲، شمارہ ۳، جون ۱۹۵۴ء، ص ۱۴۱- ۱۴۲)
ہمارے نزدیک اس مسئلے کے دونوں پہلو اہم ہیں اور اہل علم کے لیے کسی ایک پہلو کو ترجیح دینے کی گنجایش موجود ہے۔ البتہ عملی دینی مصالح کے لحاظ سے جمہور اہل علم کا موقف زیادہ وزنی اور درست معلوم ہوتا ہے اور اسی لیے ہم اس کی تائید کرتے ہیں۔
تاہم غامدی صاحب کے نقطۂنظر سے اس حد تک ہمیں بھی اتفاق ہے کہ خود کو مسلمان کہنے والے کسی فرد یا گروہ سے یہ حق چھیننا اور اس سے مطالبہ کرنا کہ وہ خود کو مسلمان نہ سمجھے یا نہ کہے، یہ مذہبی جبر کے زمرے میں آتا ہے اور دعوتی مصالح کے بھی خلاف ہے۔ مسلمان امت کسی گروہ کے متعلق یہ فیصلہ یقیناً کر سکتی ہے کہ وہ اسے مسلمان مانتی ہے یا نہیں، لیکن خود اس گروہ کو اس پر مجبور کرنا کہ وہ اسلام کی طرف اپنی نسبت سے دست بردار ہو جائے، غلط اور غیر منطقی بات ہے۔
قانونی طور پر اس گروہ کو صرف اس کا پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی الگ شناخت کو چھپا کر عام مسلمانوں کو التباس میں نہ ڈالے اور ایسے انداز سے اپنے عقائد کا اظہار نہ کرے کہ اس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہو۔ اس حوالے سے ہمارے ہاں مناسب قانون سازی موجود ہے جس کا انصاف کے ساتھ نفاذ ہونا چاہیے اور اسے مذہبی جبر کی صورت دے کر نہ تو دینی واخلاقی حدود پامال کرنی چاہییں اور نہ ریاست کے لیے مسائل پیدا کرنے چاہییں۔
ـــــــــــــــــــــــــ