HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

حیات امین احسن (۷)

باب ۷

استعفیٰ کے بعد جماعت سے تعلق

 

جماعت اسلامی سے استعفیٰ دینے کے بعد بھی امین احسن جماعت سے ذہنی اور قلبی طور پر الگ نہیں ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میں جماعت کو ایوب حکومت نے غیر قانونی قراردے دیاتو آپ نے اس پر اداریہ لکھا تھا۔ ان دنوں مارشل لاء کی وجہ سے اخبارات اور رسائل پر سینسرشپ عائد تھا، اس لیے یہ اداریہ چھپ نہ سکا تھا۔سہ ماہی ’’تدبر‘‘ اپریل ۱۹۹۸ء نے اپنے خصوصی نمبر میں یہ اداریہ شائع کیا، جو کہ حسب ذیل ہے :

’’اس واقعہ سے قدرتی طور پر ہمیں بڑا صدمہ ہوا ہے کہ جماعت اسلامی خلاف قانون قرار دے دی گئی اور اس کے پچاس سے زائد ارکان اور مولانا مودودی (رحمۃ اللہ علیہ) گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ ایک عرصہ سے جماعت اور حکومت کی کشمکش جس انداز سے ترقی کر رہی تھی اس کا آخری متوقع نتیجہ یہی تھاجو بالآخر ظاہر ہو کر رہا۔ اس امر میں جماعت کے حضرات سے اب ہمیں کچھ کہنا نہیں ہے۔ ہمارے اوپر ان حضرات کے لیے جو حق نصیحت عائد ہوتا تھا ہم پوری تفصیل کے ساتھ قولاً و عملاً سراً و علانیۃً اور تحریراً و تقریراً ادا کر چکے ہیں اور ان حضرات کی طرف سے اس کی پوری پوری سزا بھی بھگت چکے ہیں۔ البتہ حکومت کی خدمت میں اس موقع پر چند معروضات ہم پیش کرنا چاہتے ہیں اور یہ بھی اس حق خیر خواہ کے تحت ہے جو پاکستان کے ایک شہری کی حیثیت سے اپنی حکومت سے متعلق ہم پر عائد ہوتا ہے۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے محترم صدر ریاست اور ان کے رفقا ہماری ان معروضات پر توجہ فرمائیں گے۔
پہلی گزارش تو ہم یہ کریں گے کہ اس وقت جماعت کے خلاف کسی اقدام کی، اور وہ بھی ایسے سخت اقدام کی، بظاہرحالات کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ جہاں تک صدر ایوب کی حکومت کا تعلق ہے وہ کافی مستحکم ہے اور اس کے استحکام میں روزبروز اصافہ ہو رہا ہے۔ ایک ایسی مستحکم حکومت کو اپنی حریف پارٹیوں کے معاملہ میں نہایت روادار اور فیاض ہونا چاہیے، اگرچہ ان کا رویہ کچھ غلط بھی ہو۔ جہاں تک جماعت کا تعلق ہے اس کا حال ایک عرصہ سے یہ ہے کہ لوگوں کے اندر اس سے جو حسن ظن پیدا ہوا تھا وہ آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔ اس کے بہت سے ذی علم و ذی صلاحیت ارکان اس سے الگ ہو گئے۔ مذہبی طبقہ اس سے سخت بدگمان، بلکہ بیزار ہے۔ عوام میں اس کا کچھ زیادہ اثر نہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ اس کی تنظیم کا ظاہری ڈھانچہ اگرچہ کھڑا تھا، لیکن اس کے اندرونی نظام میں بددلی، مایوسی اور بے اعتمادی سرایت کر چکی تھی۔ جماعت نے اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے اب مذہب کو چھوڑ کر سیاست کے میدان میں ہاتھ پاؤں مارنے شروع کیے تھے، لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ اس میدان میں اس کا ہر قدم الٹا ہی پڑا۔ ایسے حالات میں جماعت کے خلاف اس سخت اقدام کا فائدہ بظاہر تو اس کے سوا کوئی اور نظر نہیں آتا کہ لوگوں کے اندر جماعت کے ساتھ اسی قسم کی ہمدردی پیدا ہو جو ایک مظلوم کے ساتھ ہوا کرتی ہے۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ جماعت اور مولانا مودودی کے خلاف حکومت کے بعض الزامات صریحاً غلط ہیں۔ ان کو بار بار دہرانا نہیں چاہیے۔
مولانا مودودی صاحب پاکستان کے کبھی مخالف نہیں تھے۔ تقسیم ملک سے پہلے وہ نیشنلسٹ مسلمانوں کے مقابل میں قائداعظم کے اور کانگریس کے مقابل میں مسلم لیگ کے پرزور حامی تھے۔ انھوں نے ’’ترجمان القران‘‘ میں قائد اعظم کو ’كونوا عباد اللّٰه اخوانا‘ کا داعی لکھا تھا اور مسلم لیگ کے نقطۂ نظر کی نہایت پرزور حمایت کی تھی۔ البتہ ان کا یہ خیال ضرور تھا کہ مسلم لیگ کی قیادت ملک کو تقسیم تو کرا سکتی ہے، لیکن تقسیم کے بعد پاکستان میں اسلامی حکومت نہیں قائم کر سکتی۔ اسی خیال کے تحت انھوں نے مسلم لیگ سے الگ جماعت اسلامی کے قیام کو بھی ضروری سمجھا اور اسی نقطۂ نظر سے انھوں نے مسلم لیگ کی قیادت پر تنقیدیں بھی کیں۔ ان تنقیدوں کا لب و لہجہ سخت و شدید ضرور تھا، لیکن ان سے مقصود ہندوؤں کو تقویت پہنچانا نہیں، بلکہ لیگ کے اندراور لیگ سے باہر ایک اسلامی محاذ بنانا تھا۔
کشمیر کے معاملہ میں مولانا مودودی سے چوک ضرور ہوئی، لیکن یہ چوک محض ایک چوک تھی۔ اس میں ان کی کسی بدنیتی کو دخل نہیں تھا۔ وہ بھارت اور پاکستان کے باہمی معاہدۂ صلح کا یہ لازمی تقاضا سمجھتے تھے کہ جب تک یہ معاہدۂ صلح قائم ہے اس وقت تک پاکستان کے عام افراد کشمیر کے معاملہ میں کوئی حصہ نہیں لے سکتے۔ اپنے اس خیال کے تحت انھوں نے ایک رائے ظاہر کی، لیکن جماعت کی اس وقت کی مجلس شوریٰ نے ان کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا، بلکہ اس نے یہ رائے دی کہ اس قسم کے معاہدات اپنے بین الاقوامی مفہوم ہی میں لیے جائیں گے۔ یہی صحیح شرعی موقف ہے۔ شوریٰ کی یہ رائے مولانا مودودی کی رائے سے اظہار بے تعلقی کے ہم معنی تھی۔ لیکن اس وقت اس قسم کی بے تعلقی کے اعلان کے بجائے سر ظفر اللہ کے جو اس وقت وزیر خارجہ تھے ایک اعلان سے فائدہ اٹھا کر یہ مناسب سمجھا گیا کہ مولانا مودودی اس اعلان کی روشنی میں اپنے موقف میں تبدیلی کر لیں۔ چنانچہ انھوں نے ایسا کر لیا اور اس کے بعد سے وہ اور ان کی جماعت برابر کشمیر کے لیے زبان سے اسی طرح جہاد کے لیے اعلان کر رہے ہیں جس طرح دوسرے لوگ کر رہے ہیں۔ پھر جس غلطی کی نوعیت ایک علمی غلطی کی تھی اور جس کی سزا مولانا اور ان کے ساتھ ان کے بعض بے قصور رفقاء بھی ۲۰ ماہ کی نظر بندی کی صورت میں بھگت چکے ہیں اب اس کو ایک الزام کی شکل میں بار بار کیوں دہرایا جا رہا ہے۔ میں یہ بات بھی پورے اعتماد کے ساتھ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی مذکورہ رائے کے اظہار سے مولانا کا مقصد پاکستانی مجاہدین کی حوصلہ شکنی نہیں تھا، بلکہ پاکستان کی حکومت کو اس بات پر اکسانا تھا کہ وہ معاہدے کی ذمہ داریوں سے براء ت کا اعلان کر دے۔ ہمارے نزدیک مولانا کی یہ رائے ٹھیک نہیں تھی، لیکن اس میں جیسا کہ میں نے عرض کیا، کسی بدنیتی کو دخل نہیں تھا۔
طلبہ کے ہنگاموں میں اگر حکومت جماعت کو ملوث سمجھتی ہے تب بھی جماعت کے خلاف کم از کم اس قسم کے کسی اقدام کی ضرورت نہیں تھی۔ اول تو حکومت نے اپنے حسن تدبیر سے حالات کو بالکل قابو میں کر لیا اور اس سلسلے میں اس کے فیاضانہ رویے سے ہر شخص نے اچھا تاثر لیا۔ ثانیاً، جماعت اس سلسلہ میں کافی بدنام ہو چکی تھی۔ ہمارا تو اندازہ یہ ہے کہ اس کے حصے میں جو بدنامی آئی وہ شایدوزن میں اس کے جرم کی مقدار سے زائد ہی رہی۔ پھر کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ جماعت کو اس بات کا موقع دیا جاتا کہ وہ از خود اپنے رویے پر نظر ثانی کرتی۔ اس طرح شاید اصلاح حال کے پہلو سے اس سے بہتر نتائج پیدا ہوتے جو اس اقدام سے پیدا ہو سکتے ہیں۔
حکومت کا سب سے سنگین الزام جماعت پر مخالف حکومتوں سے مالی امداد حاصل کرنے کا ہے۔ حکومت نے یہ الزام جماعت پر اتنے جزم کے ساتھ لگایا ہے کہ اس کو پڑھ کر ہمارا تو دل کانپ گیا ہے۔ اس الزام کے بعد ہم حکومت کو اس امر کا حق دار سمجھتے ہیں کہ وہ جماعت کو جو سزا چاہے دے۔ لیکن ساتھ ہی ہم جماعت کو بھی اس بات کا حق دار سمجھتے ہیں کہ اس الزام کی باقاعدہ عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے۔ اگر اس کی تحقیقات نہ ہوئی تو ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کو مجرد ایک الزام سمجھیں گے اور جماعت کو مظلوم۔ ہمیں حکومت کے بعض ذمہ داروں کے اس اعلان سے اطمینان ہوا ہے کہ حکومت بھی اس معاملہ کو عدالت میں لانا چاہتی ہے۔ حکومت اس کام میں جتنی ہی جلدی کرے گی انصاف اور مصلحت، دونوں اعتبارات سے یہ بات بہتر ہو گی۔
ہماری ان گزارشات سے مقصود صرف یہ ہے کہ حکومت کو اس معاملے میں وہ عادلانہ اور حکیمانہ روش اختیار کرنی چاہیے کہ نہ ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کو یہ کہنے کا موقع ملے کہ حکومت ان کو دبانا چاہتی ہے اور نہ بیرون ملک کے لوگوں پر یہ اثر پڑنے پائے کہ صدر ایوب کی حکومت کسی مشکل سے دوچار ہے کہ اسے جماعتوں کو خلاف قانون قرار دینے کے حربے کو استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ اور پھر سب سے زیادہ ہمیں جس بات کا احساس ہے وہ یہ ہے کہ مالی امداد والا الزام ہماری پوری قوم اور پورے ملک کے لیے موجب رسوائی ہے۔ چونکہ یہ الزام ایک مذہبی جماعت پر لگایا گیا ہے اس وجہ سے اس میں دین اور اہل دین کی خاص طور پر رسوائی ہے۔ اس وجہ سے اس الزام کی تحقیقات کا انتظام حکومت کو فوراً کرنا چاہیے۔ ‘‘ (۳۹- ۴۱)           

۴/نومبر ۱۹۸۹ء کو اپنی ہفتہ وار نشست میں گفتگو کرتے ہوئے امین احسن نے جماعت اسلامی کے ساتھ ہم دردی کااظہار کرتے ہوئے ایک قرآنی دلیل دی :

’’ جماعت اسلامی کے متعلق لوگوں کے ساتھ مجھے ہم دردی ہے جو لوگ دین کا نام لیتے ہیں اور اس کے لیے یہ ہے کہ میں اللہ میاں سے کہتا ہوں کہ آپ کو جب مجوسیوں کے مقابل میں رومیوں کے ساتھ ہم دردی رہی ہے تو مجھے بھی ہم دردی ہے۔ اس لیے کہ دین کا نام لیتے ہیں، وہ لوگ دین کا نام نہیں لیتے۔ لیکن اس ہم دردی کے باوجود میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہوں۔ دعا کرتا ہوں کہ خدا ان کو احساس دے،جو ان میں سے چاہتے ہیں ان کو سمجھا بھی دیتا ہوں۔‘‘

۲۵ / نومبر ۱۹۸۹ء کی بات ہے۔اپنی ہفتہ وار نشست میں گفتگو کرتے ہوئے امین احسن نے مولانا مودودی کی خوش قسمتی کا ذکر کرتے ہوئے کہا:

’’ مولانا مودودی صاحب اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ہر گروہ کے گل سرسبدساتھ لیے۔ دیوبند کی جماعت میں واقعہ یہ ہے کہ کوئی آدمی کبھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ مولانا منظور نعمانی ایک اچھے آدمی تھے، وہ مل گئے۔ جماعت ندوہ کے گل سرسبدعلی میاں تھے، وہ مل گئے۔ مشائخ کی جمعیت کے گل سرسبد ہمارے دوست شاہ جعفر تھے، وہ مل گئے۔اور میں بھی کوئی جنگل میں کھلاہوا گل تو نہیں تھا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میرے سوا سب چوٹی کے لوگ تھے۔‘‘

اپریل ۱۹۸۸ء کو اپنی ہفتہ وار نشست میں امین احسن نے میاں طفیل محمد مرحوم کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا:

’’ میں پرسوں منصورہ میں پہنچ گیا تھا۔ ہوا یوں کہ احسان صاحب کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا تھا، دس بارہ روز پہلے۔ تو نثار(آپا نثار فاطمہ مرحومہ) نے مجھے بتایا کہ آپ گئے نہیں۔ تو مجھے محسوس ہوا کہ مجھے جانا چاہیے تھا کیونکہ ان کے گھر کے ہمارے گھر کے لوگوں کے ساتھ تعلقات تھے۔ اور مجھے کیا مجھ سے زیادہ مریم (بیٹی )کو جانا چاہیے تھا۔ تو میں چلا گیا تو وہاں میاں طفیل صاحب کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھاکہ میاں صاحب یہیں ہیں۔ انھوں نے کہا ہاں۔ تو پھر میرے جی میں آیا کہ کھڑے کھڑے ان سے بھی علیک سلیک کرلیں۔ ورنہ محسوس کریں گے۔ ٹھیک نہیں ہے۔ تو میں چلا گیا۔میرے ذہن میں آیا کہ میں میاں صاحب سے کچھ سوالات کروں۔ لیکن پھر طبیعت رک گئی۔ اس وجہ سے کہ خیال کریں گے کہ ابھی نیا نیا تو میں امارت سے الگ ہوا ہوں اور… مجھے یہ بات بہت کھٹک رہی تھی کہ یہ قاضی حسین احمد نام ہے نا؟ قاضی حسین احمد صاحب جو تقریریں کر رہے ہیں۔ کیا یہ تقریریں مجلس شوریٰ کی رہنمائی میں کر رہے ہیں یا ارشاد احمد حقانی کی رہنمائی میں کر رہے ہیں ؟‘‘

۲۵ / نومبر ۱۹۸۹ء کو اپنی ہفتہ وار نشست میں میاں طفیل محمد مرحوم کی تعریف کرتے ہوئے کہا:

’’ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ طفیل محمد صاحب آج بھی مجھے عزیز ہیں۔ یہ نہیں کہ عزیز نہ ہوں۔ عزیز ہیں انھوں نے میری بڑی خدمت کی ہے۔ ‘‘

ایک غلط فہمی کاازالہ

امین احسن کی زندگی کا ایک بڑا حصہ جماعت اسلامی میں گزرا،وہ برسوں اس کے فکر کے داعی رہے، اس کے لیے کئی علمی مباحثے کیے، اس لیے کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ وہ جماعت سے تو اس کے بنیادی فکر کی وجہ سے تو الگ نہیں ہو ئے، اس لیے عین ممکن ہے وہ اقامت دین کے اسی طرح قائل رہے ہوں، ضروری محسوس ہوتاہے کہ اسی مقام پر اس بات کی بھی وضاحت کردی جائے۔ اس ضمن میں جناب جاوید احمد صاحب غامدی لکھتے ہیں :

’’... میں نے جو کچھ ان سے سنا اور جو کچھ سمجھا ہے، اس کی بنیاد پر میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ اب نہ وہ اقامت دین کے اس مفہوم کے قائل تھے جو جماعت اس سے مراد لیتی ہے، نہ اظہار دین کے وہ معنی ان کے نزدیک درست تھے جو مولانا مودودی نے بیان کیے ہیں۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ۲۴)

’’ تدبر قرآن‘‘ اور جماعت اسلامی کا لٹریچر

لاہور سے امین احسن، سردار محمد اجمل خان لغاری کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں :

’’مجھے آپ کی اس رائے سے اتفا ق ہے کہ تصور ِدین سے متعلق جو غلط فہمیا ں جما عت اِسلامی کے لٹریچر سے پھیلی ہیں ان کو تفسیر میں دور کر نے کی کو شش کی جا ئے۔ میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اگر میر ی تفسیر اللہ نے پو ری کرادی تو اس کا کوئی مطا لعہ کر نے والا بھی، اگر وہ دیا نت دار ہو گا، اس قسم کی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہو گا جس میں یہ مبتلا ہیں، رہے خود غر ض اور تقلید ا عمی کے گرفتا ر اشخا ص تو ان کا علا ج تو پیغمبرلو گ بھی نہ کرسکے، میں اور آپ کیاکرسکیں گے۔
ویسے آپ میر ی یہ با ت گرہ کر لیں کہ اب اس با ت کا کوئی امکا ن نہیں ہے کہ جما عت اسلامی کوئی دینی فتنہ بن سکے یا اس ملک کی تا ریخ میں کو ئی صفحہ اپنے لئے مخصو ص کر اسکے۔ اب یہ ما ضی کا ایک واقعہ ضرور ہے، لیکن اس کی اہمیت ختم ہو چکی ہے اور مستقبل نے اپنے دروازے اس کے لئے بند کر لئے ہیں۔اب یہ ایک نہایت حقیر سیا سی جما عت ہے اور اس کی سیا ست اتنی احمقانہ ہے کہ یہ بہت جلد اپنی مو ت آپ مر جا ئے گی۔ میر ی تو یہ آرزو ہے کہ کا ش حکو مت انتخابات سے پہلے ان لو گوں کو چھوڑ دے۔ اگر ایسا ہو گیا توآپ دیکھ لیں گے کہ یہ نا دان لوگ اپنے تابوت میں آخری کیل خو د اپنے ہا تھو ں ٹھونک لیں گے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۷- ۸)

امین احسن لاہور سے ۱۵ ؍اگست ۱۹۵۹ء کو محمد احسن خان صاحب کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :

’’میں نے یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ مو دودی صا حب مسا ئل میں جو توڑ مروڑ کر رہے ہیں وہ اس لیے کررہے ہیں کہ وہ سیا سی منا صب کے خواہا ں ہیں۔ میں ان کی رائے کی اور ان کے دلائل کی غلطیاں واضح کر رہا ہوں۔ مجھے اس سے بحث نہیں کہ وہ یہ سا رے پا پڑ کیو ں بیل رہے ہیں۔ رہا طنزو تعریض کا معا ملہ تو میں اس کو کوئی ضروری چیز نہیں سمجھتا، مگر مو دودی صا حب کو اس معا ملہ میں زیا دہ حسا س نہیں ہو نا چا ہیے، اس لیے کہ وہ تو طنزو تعریض کے بغیر چار سطریں بھی نہیں لکھ سکتے۔ تا ہم مجھے اس پر اصرار نہیں ہے۔ ستمبر میں میرا مفصل جواب آرہا ہے۔ میں نے آپ کے خط کے بعد اس کے بعض فقر ے نکال دیے ہیں۔ ‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۲۰)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B