HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ‘؟ (۱)

سورۂ قیامہ (۷۵) کی آیات ۱۶ تا ۱۹ کی تفسیر میں اختلاف ہوا ہے۔ اکثر مفسرین نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک تفسیر کی روشنی میں انھیں سمجھا ہے ۔ اس مضمون میں پہلے ہم ان آیات کا تجزیہ کریں گے، اس کے بعد اس تفسیری روایت پر بھی نگاہ ڈالیں گے جس سے معروف تفسیر وجود میں آئی ہے۔ہم ان آیات کا قرآنی الفاظ ، دیگرنصوص قرآنی ، روایات اور چنیدہ کلاسیکل تفاسیر کی روشنی میں جائزہ لیں گے۔

آیات یوں ہیں:

لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ. اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗ. فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ. ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ. (۷۵: ۱۶ - ۱۹)

ان کا سادہ ترجمہ ، یعنی بغیر کسی تفسیری مفہوم کو پیش نظر رکھے، یوں ہے:

’’آپ زبان کو قرآن کے لیے حرکت نہ دیجیے کہ آپ اس کے لیے عجلت کریں، اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھناہمارے ذمہ ہے، جب ہم اسے پڑھ دیں تو پھر آپ اس کے اس پڑھنے کی پیروی کیجیے گا، پھراس کا بیان بھی ہمارےذمہ ہے۔‘‘

تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ‘ کے معنی

لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖکے معنی کیا ہیں؟ اس کے یہ معنی تو بالکل واضح ہیں کہ آپ زبان مبارک کو قرآن کے لیے حرکت دیتے تھے۔ یہ بھی واضح ہے کہ اس حرکت دینے کی وجہ قرآن کے لیے عجلت تھی،لیکن اس بات کو مخفی رکھا گیا ہے کہ قرآن کے لیے زبان ہلانے کا عمل کیا تھا، اور یہ بھی بتایا نہیں گیا کہ قرآن کو بہ عجلت لینے (عجلت بالقرآن)کی وجہ کیا تھی۔جن لوگوں نے انھیں متعین کیا ہے تو انھوں نے محض قیاس کیا ہے۔

زبان کو حركت دينے كا عمل: مفسرین كی راے

لَا تُحَرِّكْ بِهٖ‘ کا ایک عمل مفسرین نے یہ بتایا ہے کہ آپ جبریل علیہ السلام کے وحی ختم کرنے سے پہلے ہی قرآن کو پڑھنے لگتے، یعنی تلاوت یا قراءت قرآن کے لیے زبان مبارک کو حرکت دیتے تھے (تفسیرابن عباس)۔ آپ جبریل سے قراءت میں منازعت کرتے تھے، اورتکمیل وحی تک توقف سے کام نہیں لیتے تھے (زمخشری)۔  آپ قرآن کو پڑھتے اور بہت زیادہ پڑھتے کہ یاد کرلیں(قتادہ بحوالہ طبری) ۔ جب جبریل وحی لاتے تو آپ قرآن کی محبت میں اس کلام کو بولنے لگ جاتے(شعبی بحوالہ طبری)۔یہ تمام عملی صورتیں حقیقت میں ایک ہیں،یعنی قیاسی ہیں، کسی کو نبی کریم یا قرآن کے کسی بیان سے تصدیق حاصل نہیں ہے۔

عجلت بالقرآن عند المفسرین

قرآن کو جلد لینے کی وجہیں درج ذیل بتائی گئی ہیں:

۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی اترتے وقت ایک شدت میں سے گزرنا پڑتا تھا، اس وجہ سے آپ جلدی کرتے تھے، کہ جلدی جلدی قرآن کو اخذ (وصول) کرلیں( ابن عباس بحوالہ بخاری، رقم۵۔ مسلم، رقم ۴۴۸)۔

۲۔ آپ قرآن یاد کرنے کے لیے ایسا کرتے تھے (ابن عباس بحوالہ ترمذی، رقم ۳۳۲۹)۔

۳۔ آپ اس لیے ایسا کرتے تھے کہ کہیں قرآن کا کوئی حصہ ہاتھ سے نہ نکل جائے(ابن عباس ، بخاری، رقم ۴۹۲۸)۔

۴۔ اس لیے کہ آپ بھول نہ جائیں(قتادہ اور ضحاک بحوالہ طبری)۔

ان تمام آرا میں مرکزی حیثیت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو حاصل ہے، اس لیے یہ تمام آرا یا انھی کی ہیں یا ان کی باتوں سے ماخوذ ہیں۔یہ بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہلَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ‘ کی کم از کم تین وجوہات انھی سے منسوب ہیں۔اس بات کا امکان ہے کہ ان کی راے بدلتی رہی ہو۔اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ راویوں کے تصرفات سے بات بدلتی گئی ہو۔لیکن جو کچھ بھی ہوا ہے اب ہم تیقن سے نہیں کہہ سکتے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اصل راے کون سی ہے، اس لیے اب ہمارے پاس کوئی قابل وثوق ماثور بات موجود نہیں ہے۔ یہ تمام تفسیریں  ماثور ضرور ہیں، مگر حدیث نبوی نہیں ہیں، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر مبنی ہیں۔

اب ایک ایک بات کا قرآن کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں کہ آیا اوپر بتائی گئی باتوں کا قرآن تحمل (accept) کرتا ہے یا نہیں؟

تجزیہ

وحی کی شدت و مشقت

ایک یہ راے اوپر بیان ہوئی کہ وحی کے عمل میں آپ کو ایک شدت کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اس لیے آپ قرآن کو لینے میں جلدی کرتے تھے(بخاری، رقم ۵)۔

اگرچہ روایات میں ایسی باتیں ملتی ہیں،[1]  لیکن قرآن مجید میں کوئی ایسا اشارہ نہیں ہے کہ وحی اترتے وقت انبیا کسی تکلیف دہ عمل سے گزرتے تھے۔ حضرت نوح سے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہم وسلم تک کی نبوتوں کا قرآن مجید میں بیان ہوا ہے، لیکن کہیں ایسی چیز بیان میں نہیں آئی۔سورۂ نجم میں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی کا بیان ملتا ہے، وہاں سے بھی کوئی ایسا تاثر سامنے نہیں آتا، بلکہ ’مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰي‘(النجم ۵۳: ۱۱)

اورمَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰي(النجم ۵۳: ۱۷) آیات دوسرا تاثر قائم کرتی ہیں کہ آپ وحی کے اترتے وقت  کسی بھی جسمانی یا ذہنی عارضے یا تکلیف سے پاک تھے۔ حضرت موسیٰ کا احوال طور قرآن میں متعدد بار آیا ہے ۔ وہ اللہ رب العزت سے عصا کے بارے میں بات کررہے ہیں، وہ اللہ کو دیکھنے کا مطالبہ کررہے ہیں، اس ساری کیفیت سے یہ تاثر بالکل نہیں ملتا کہ آپ کسی تکلیف میں تھے۔اگر کوئی کہے کہ فرشتہ پیغام لے کر آئے تو پھر ایسا ہوتا ہے۔ سورۂ نجم میں ایسے ہی دو مواقع کا ذکر ہے جب جبریل امین اپنی اصل صورت میں آئے تھے۔ قرآن میں اس کے علاوہ بھی دو مقامات ہیں کہ سیدہ مریم فرشتوں سے بحث کررہی ہیں، کوئی دقت کے آثار نہیں ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے انسانی روپ میں آئےتھے، آپ کو ذرا بھی تکلیف نہیں تھی، بلکہ وہ پہچان بھی نہ سکے کہ آیا وہ فرشتے ہیں کہ انسان! (ہود ۱۱: ۶۹- ۷۰)۔ وہ روایات جو وحی کو شدت والا عمل قرار دیتی ہیں، ان میں بھی فرشتے کی آمد والی وحی کو ہلکا قرار دیا گیا ہے(مسند الحمیدی، رقم ۲۵۸)۔ اگر جلوۂ طور اور اس کےحضرت موسیٰ پر اثرات پر قیاس کیا جائے تو حضرت موسیٰ کی وحی شدید تر ہونی چاہیے، اس لیے کہ وہ اللہ کی آواز سن رہے تھے۔ روایات کی بنا پر ہم تسلیم کیے لیتے ہیں کہ آپ کی یہ وحی شدید تر ہوتی تھی تو تب اللہ کا یہ کہنا نہیں بنتا کہ آپ جلدی نہ کریں، اور نہ یہ کہنا بنتا ہے کہ ہم قرآن جمع کردیں گے ،یاد کرادیں گےیا قراءت کرادیں گے،بلکہ یہ کہنا بنتا ہے کہ آپ جلدی نہ کریں، یہ چند سال کا عمل ہے جلد ہی وحی مکمل ہو جائے گی۔اس کے بعد آپ کی یہ زحمت جاتی رہے گی، لیکن وحی اترتے وقت یہ تکلیف آپ کو ہوتی رہے گی، آپ کو صبر کرنا ہوگا۔

دوسری وجہ جو بتائی گئی ہے ، وہ تین نکاتی ہے:

۱۔آپ یاد کرنے کے لیے ایسا کرتے تھے،

۲۔اس لیے ایسا کرتے تھے کہ آپ سے قرآن کا کچھ حصہ کھو نہ جائے، یا

۳۔آپ نازل ہوتا ہوا قرآن بھول نہ جائیں۔

یہ سہ جہتی بات بھی قرآن سے ٹکراتی ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن دل پر ہوا تھا[2]، اس میں یاد کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔فرض کریں کہ آپ واقعی دہرا دہرا کر یاد کرتے تھے تو تب بھی یہ بات درست نہیں لگتی، کیونکہ نزولی ترتیب سے اگر دیکھا جائے تو محققین کے نزدیک سورۂ قیامہ ۳۰ یا ۳۴ سورتوں کے بعد نازل ہوئی تھی ، جب کہ سورۂ اعلیٰ اس سے بہت پہلے اتری تھی۔ نازل ہونے کی ترتیب میں ۷ یا ۱۸ سورتوں کے بعد اتری، یعنی سورۂ قیامہ سے کم ازکم ۱۶ سورتیں پہلے اتر چکی تھی۔اب سوال یہ ہے کہ سورۂ اعلیٰ میں آپ کو فرمادیا گیا تھا کہ ہم عنقریب آپ کو پڑھائیں گے تو آپ بھولیں گے نہیں۔اس کے بعد بھولنے کے خوف کی کیا وجہ تھی؟ یہ تمام وجوہات، اسی آیت میں موجود ’لِتَعْجَلَ بِهٖ کے الفاظ سے بھی ٹکراتی ہیں، اس لیے کہ اس آیت کے مطابق آپ کی حرکت لسانی کا سبب عجلت بالقرآن ہے، نہ  کہ نسیان اور کھو جانے کا خوف۔

اب حرکت لسانی کے عمل کی طرف آئیے:

آپ جبریل امین کے وحی ختم کرنے سے پہلے ہی قرآن کو پڑھنے لگتے، یعنی قراءت قرآن کے لیے زبان مبارک کو حرکت دیتے تھے ۔قراءت کے دو معنی ممکن ہیں: ایک محض پڑھنا، اور دوسرے قراءت، یعنی اعراب اور تلفظ سیکھنا۔محض پڑھنا عجلت بالقرآن کے لحاظ سے معنی خیز نہیں ہے۔یعنی ابھی جبریل علیہ السلام نے قرآن کی تلاوت ختم نہیں کی ہوتی تھی تو آپ اسے پڑھنے کے لیے دہرانے لگ جاتے! مطلب یہ کہ جتنا جلدی پڑھیں گے، اتنی جلدی قرآن کا اگلا حصہ جبریل پڑھیں گے۔اس صورت میں یہ فرض کرنا ہوگا کہ وحی اترنے کا طریقہ یہ تھا کہ ایک آیت جبریل سناتے، نبی کریم اسے دہراتے اور پھر اگلی آیت سنائی جاتی، آپ اسے بھی دہراتے اور پھر جبریل اگلی آیت سناتے، یوں وحی کے مکمل ہونے تک سنانے اور سننے کا عمل ہوتا۔لیکن یہ بات خود اسی تفسیر کو قابل قبول نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں خود جبریل ایسا کرنے سے روک رہے ہیں۔ اگر یہ وحی اترنے کا طریقہ ہوتا تو یقیناً اس سے روکا نہ جاتایا پھر یہ فرض کرنا پڑے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سے یہ طریقہ اختیار کرلیا تھا تو پھر اس صورت میں یہ طرز عمل عجلت بالقرآن کی طلب سے ٹکرائے گا، اس لیے کہ آپ کے دہرانے سے وقت زیادہ لگے گا، اور قرآن کے اترنے میں دیر ہو گی ۔اس صورت میں اگلے جملے سے جس میں حرکت لسانی کا سبب عجلت بالقرآن بتایا گیا ہے، سے یہ جملہ جدا کرنا ہوگا، جو لِتَعْجَلَ بِهٖکے لام تعلیل کی وجہ سے ممکن نہیں ہے۔  لہٰذا یہ توجیہ کسی طرح قابل قبول نہیں ہے کہ آپ جبریل کے وحی ختم کرنے سے پہلے پڑھنے لگ جاتے تھے۔

قراءت کے دوسرے معنی کے لحاظ سے بھی دیکھ لیتے ہیں کہ آپ اعراب و تلفظ کے سیکھنے کے لیے ایسا کرتے تھے۔اول تو اہل زبان ہونے کے اعتبار سے اس کی آپ کو ضرورت نہیں تھی۔ دوسرے یہ کہ اوپر ہم لکھ آئے ہیں کہ سورۂ اعلیٰ اس سورہ سے پہلے نازل ہوئی ہے، اس میں قراءت کا بھی وعدہ ہے اور حفظ کا بھی۔جس میں خدائی وعدۂ قراءت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حرکات واعراب سمیت یاد کرایا جائے گا۔پھر یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ قراءت کے لیے آپ ایسا کیوں کریں گے؟ زبان آپ کی ہے، بول کراگر آپ کو قرآن سنایا جارہا ہے یا سیدھا دل پر اتارا جارہا ہے ، یا بول کر دل میں اتارا جارہا ہے تو تینوں صورتوں میں آپ کے لیے قراءت سمیت ہی حفظ ہوگا۔ اسی طرح ایک عجمی کے لیے تو تلفظ مسئلہ ہو سکتا ہے کہ ’ضعف‘ کو ’ضَعْف‘، ’ضُعْف‘ یا ’ضِعْف‘ وغیرہ بول دے، لیکن ایک افصح العرب جس کی اپنی زبان میں قرآن نازل ہو رہا ہے(مریم۱۹: ۹۷)، اسے اس قراءت کےلیے زبان ہلانے کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ بالاجماع آپ تحریر پڑھ نہیں سکتے تھے تو بے اعراب کی تحریر کے ساتھ تو قراءت کا مسئلہ یقیناً اہل زبان کے لیے بھی کہیں کہیں ہو سکتا ہے، لیکن آپ کو تو تحریری صورت میں کلام نہیں ملا، پھر قراءت کے لیے زبان ہلانے کی وجہ کچھ نہیں رہتی۔

زبان ہلانے کی دوسری عملی صورت یہ بیان ہوئی ہے کہ آپ جبریل علیہ السلام سے قراءت میں منازعت کرتے تھے، اورتکمیل وحی تک توقف سے کام نہیں لیتے تھے(زمخشری)۔اگرچہ اس پر اوپر والے بعض اعتراضات وارد نہیں ہوتے، لیکن یہ بھی دل چسپ بات ہے، علامہ زمخشری کے عربی الفاظ یہ ہیں: ’إذا لقن الوحي نازع جبريل القراءة، ولم يصبر إلى أن يتمها، مسارعة إلى الحفظ وخوفًا من أن يتفلت منه‘: منازعت کے دو معنی ممکن ہیں ، شوق قرآن میں گویا جلدی جلدی لینے کے لیے کشاکش کرتے یا جبریل سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے۔ دوسرے معنی یہاں ممکن نہیں ہیں۔جب ایک ہستی قرآن دینے آئی ہے، اور دوسری لینے کو آمادہ ہے تو یہ کشاکش کیوں کر ہو گی؟رہی کشاکش کی یہ صورت کہ ادھر جبریل وحی کا ایک جملہ مکمل کرتے، ادھر جھٹ سے آپ دہرا ڈالتے کہ اگلی آیت دیجیے تو یہ بھی وحی دل پر اتارنے کے منافی عمل ہے، خواہ وہ سنا کر دل میں اتاری گئی ہو۔لہٰذا یہ عملی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔یہ طرز عمل عجلت کے بجاے تاخیر کا باعث بھی بنے گا۔

تیسری عملی صورت مفسرین نے یہ قیاس کی ہے کہ آپ قرآن کو پڑھتے اور بہت زیادہ پڑھتے کہ یاد کرلیں (قتادہ بحوالہ طبری)۔اس کی صورت یہ سامنے آتی ہے کہ ادھر یہ جملہ اترا کہ ’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘ ادھر آپ نے گویا ’’ رٹنے ‘‘کے انداز میں دہرانا شروع کردیا اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ... اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ... اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘۔اوپر کی ساری بحث سے واضح ہے کہ نہ آپ نے یاد کیا، نہ اس تکرار والی قراءت کی ضرورت تھی۔ نہ یہ بات لِتَعْجَلَ بِهٖکے ساتھ میل کھاتی ہے ۔ رٹا لگانے سے عجلت بالقرآن کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔سواے اس کے کہ یہ مانا جائے کہ وحی کے دوران ہی میں یاد کرایا جاتا تھا، اور یاد ہوئے بغیر اگلی آیات اتاری نہیں جاتی تھیں۔ واضح ہے کہ یہ حقیقت وحی کے خلاف ہے ۔اوپر ہم اس پر بات کرچکے ہیں ۔

چوتھی عملی صورت شعبی نے بیان کی ہے: جب جبریل وحی لاتے تو آپ قرآن کی محبت میں اس کلام کو بولنے لگ جاتے(شعبی بحوالہ طبری)۔یہ بات اوپر کی کسی بات سے نہیں ٹکراتی، مگر قرآن میں اسی آیت میں موجود لِتَعْجَلَ بِهٖ سے ٹکراتی ہے۔اس لیے کہ کلام واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ آپ زبان عجلت بالقرآن کے مقصد سے ہلاتے تھے۔

مدعاے آیت

آیت۱۶میں ایک مشکل ہے۔وہ یہ کہ آیت ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ‘ میںبِهٖ‘ دو جگہ ہے۔ تقریباً مذکورہ بالا مفسرین سب[3]  کا اس پر اتفاق ہے کہ دونوں میں ضمیر قرآن کی طرف راجع ہے[4]۔اب اگر اسے کھول دیجیے تو جملہ یوں ہوگا ’لَا تُحَرِّكْ بِالقرآن لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِالقرآن‘۔اب غور کیجیے کہ پہلے ’بِالقرآن‘ کے معنی کیا ہوں گے: ــــــ  قرآن کو، قرآن کے لیے، قرآن میں، قرآن پر، قرآن کی وجہ سے، قرآن کے ساتھ، قرآن کے ہمراہ، ـــــــ وغیرہ معنی ممکن ہیں۔زیادہ تر مفسرین نے قرآن پڑھنے کے معنی لیے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہےکہ انھوں نے’ قرآن پر‘ یا ’قرآن کے لیے‘ کے معنی لیے ہیں کہ قرآن پرزبان کو نہ چلائیے، یا قرآن پڑھنے کے لیے زبان کو حرکت نہ دیجیے[5]۔

مثلاً، تفسیر ابن عباس میں ، اس ترکیب کو یوں کھولا گیا ہے: لَا تُحَرِّكْ بِهِ: بِقِرَاءَة الْقُرْآن يَا مُحَمَّد لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ: بِقِرَاءَة الْقُرْآن قبل أَن يفرغ جِبْرِيل من قِرَاءَته عَلَيْك۔ زمخشری نے اسے یوں کھولا ہے: ’لا تحرّك لسانك بقراءة الوحي ما دام جبريل صلوات اللّٰه عليه يقرأ لِتَعْجَلَ بِهِ لتأخذه على عجلة، ولئلا يتفلت منك‘۔

دوسری مشکل اس آیت میں یہ ہے کہ ’لَا تُحَرِّكْ...لِسَانَكَ‘ کیا ہے:’’زبان نہ ہلائیے‘‘ ظاہر ہے کہ یہ ہر اس عمل یا تکلم کے لیے بولا جاسکتا ہے، جس میں زبان ہل رہی ہو، تکلم، یعنی بولنا، کچھ مانگنا،باتیں کرنا ، کوئی چیز سنانا، گنگنانا اور پڑھنا وغیرہ۔ قرآن کے حوالے سےتین چار معنی ہی ممکن ہیں، قرآن پڑھنا، غنغنانا[6]، قرآن سنانا اور قرآن مانگنے کا مطالبہ کرنا۔یعنی درج ذیل معنی ممکن ہیں:

ترجمہ مقصود کلام

۱ قرآن پڑھنے کے لیے زبان کو حرکت نہ دیجیے : یاد کرنے کے لیے یا دل میں اتری ہوئی وحی کو فہم یا شعور میں لا کر دہرانے کے لیے

۲ قرآن کا مطالبہ کرنے کے لیے زبان کو زحمت نہ دیجیے: مزید وحی کا مطالبہ کہ مخاطبین کے اعتراضات کا جواب یا مزید ہدایت انھیں پہنچائی جائے

۳ قرآن سنانے کے لیے زبان کو ہلائیے نہیں: جبریل کو سنانا کہ منزّل قرآن یاد ہو گیا کہ نہیں یا  لوگوں کو ابلاغ کے لیے سنانا

۴ قرآن غنغنانےکے لیے زبان نہ ہلائیے: یعنی قرآن کی حلاوت وتاثیر دل میں اتارنےکے لیے مدھم آواز میں لحن سے پڑھنا

اوپر ہم تفصیل سے بات کر آئے ہیں کہ پہلے اورتیسرے معنی کی کوئی گنجایش کلام میں نہیں ہے۔چوتھے معنی بھی مناسب نہیں ، ایک اس لیے کہ پورے کلام کے بغیر حلاوت و تاثیر مشکل ہے کہ ایک آیت اترے تو آدمی فوراً حلاوت کے لیے پڑھنے لگے۔قرآن کے اعلیٰ کلام ہونے کی وجہ سے یہ ناممکن نہیں ہے کہ ایک ایک آیت حلاوت عطا کرتی ہو۔ لیکن پھر بھی جو پوری بات کی حلاوت اور اثر ہوتا ہے، اس کے لیے یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا فہیم وفطین انسان وحی پوری ہونے کا انتظار لازماً کرےگا۔ دوسرے اس لیے کہ حلاوت کے لیے پڑھنا، عجلت بالقرآن سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔حلاوت کے لیے پڑھنا ، عجلت کے بجاے وحی اترنے میں رکاوٹ بنے گا کہ ادھر قرآن اترے اور آپ اسے لحن سے پڑھنا شروع کردیں تو اگلی آیات اتارنے میں مشکل ہو گی کہ آپ اگلی وحی کے لیے تیارنہیں رہے۔ تیسرے اس لیے کہ اس عمل کا اللہ کے اپنے ذمے لیے ہوئے تین کاموں  ’جَمْعَهُ‘، ’قُرْآنَهُ‘ اور ’بَيَانَهُ‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ جس کام سے روکا گیا ہے، اس کام کے بعد جو جملے تسلی کے لیے یا روکنے کی تعلیل کے لیے بولیں جائیں، روکی گئی بات سے ان کا تعلق ہونا ہی چاہیے، خواہ ادنیٰ سا ہی کیوں نہ ہو۔

اس تفصیل کے بعد اب سوال یہ ہے کہ پھر لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ‘ کا مطلب ہے کیا؟اگر ہم روایات کےبجاے قرآن کے الفاظ جو بات کہتے ہیں، انھی پر بھروسا کرلیں تو کسی نص سے ٹکراؤ پیدا نہیں ہوتا۔وہ بات یہ ہے کہ آپ نے قرآن کو جلدی مانگنے کے لیےمطالبہ کیا، اور یہ مطالبہ ظاہر ہے کہ بول کر ہوا تھا، لہٰذا زبان مبارک حرکت کررہی تھی۔ اوپر گوشوارے (table) میں بیان کیے گے دوسرے معنی یہاں مراد ہیں۔

لَا تُحَرِّكْ بِهٖ میں ’بِهٖ کی تفسیر میں مذکورہ بالاتمام مفسرین نے ’به کی ’باءاور ’هاء کے درمیان حذف مانا ہے۔ ان کے محذوفات کچھ یوں کھولے جاسکتے ہیں: ’لا تُحَرِّكْ بِقرآتهِ لِسَانَكَ‘ (اسے پڑھنے کے لیے زبان کو حرکت نہ دیجیے )۔دوسرے ’لا تُحَرِّكْ بِأخذهِ لِسَانَكَ‘ (حصول قرآن کے لیے زبان کو حرکت نہ دیجیے)، ’لا تُحَرِّكْ بِحفظهِ لِسَانَكَ‘ (اسے یاد کرنےکے لیے زبان کو حرکت نہ دیجیے) وغیرہ۔ یہاں سب کے مطابق ’باءتعلیل کی ہے۔ ہمارے خیال میں یہاں کسی حذف کی ضرورت نہیں ہے، بس ’هاء کا مرجع کھول دیں تو مطلب یہ ہوگا : ’لا تُحَرِّكْ بِالقرآنِ لِسَانَكَ )قرآن کے لیے زبان کو حرکت نہ دیجیے(۔اگر حذف کھولنا پیش نظر ہو تو یوں کھولا بھی جاسکتا ہے: ’لا تُحَرِّكْ بِطلبهِ لِسَانَكَ ، کہ قرآن کی طلب میں زبان کو حرکت نہ دیجیے ۔ مختصر الفاظ میں یوں کہیے کہ سورۂ قیامہ کے نزول کے دوران میں آپ نے شاید باربار یہ مطالبہ کیا کہ مزید قرآن اتارا جائے۔اس پر فرمایا گیا کہ اس کی طلب میں زبان کو زحمت مت دیجیے۔

آیت کے اس ٹکڑے: ’لِتَعْجَلَ بِهِکو بہت فراموش کیا گیا ہے۔ یہ حرکت لسان کا مقصد بیان ہوا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور مقصد کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔’عجل به‘ جب کسی چیز کے لیے آتا ہے تو اس کے پورے معنی یہ ہیں کہ کسی چیز کو مطلوب یا مقرر وقت سے پہلے حاصل کرنایا کر گزرنا، اور دوسرے معنی اس کے یہ ہوتے ہیں کہ سستی کے بغیر جلد جلد کرچکنا۔واضح ہے کہ یہاں آیت میں صرف سورۂ قیامہ کے اترنے کی بات نہیں ہو رہی کہ اس وقت جو وحی اتر رہی تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے جلدی چاہ رہے تھے۔ یہ معنی مناسب نہیں ہیں، کیونکہ آیا سورۂ قیامہ کے اتارتے وقت جبریل معمول سے زیادہ دیر لگا رہے تھے؟تو آپ نے یہ جلدی کرنے کو کہہ دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ بے معنی بات ہے۔اسی طرح زبان کی حرکت سے منع کرنے کے بعد تسلی کے لیے جو تفصیل دی گئی ہے، اس سے واضح ہے کہ سورۂ قیامہ کی وحی دل پر اتارنے میں دیر نہیں ہو رہی تھی، بلکہ قرآن کے نجماً نجماً اترنے میں جو وقت لگ رہا تھا، اس حوالے سے عجلت یہاں مراد ہے، کیونکہ آگےپورے قرآن کو زیر بحث لے آیا گیا ہے، صرف سورۂ قیامہ کو نہیں۔

آیات میں واحد مذکر کی ضمیریں بھی اسی بات کی نشان دہی کرتی ہیں، اس لیے کہ آیات یا سورت کے لیے ضمیریں مؤنث آنی چاہییں تھیں۔کوئی کہہ سکتا ہے کہ قرآن بول کر جزو مراد ہے، یعنی قرآن سے مراد یہاں سورۂ قیامہ کا نزول ہے۔اس مضمون کے لیے پھر’إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ‘ اور ’إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ‘ کے الفاظ مناسب نہیں ہیں۔ خواہ ’جَمْعَهُ کو یاد کرا دینے کے معنی ہی میں کیوں نہ لیں، اس لیے کہ سورۂ قیامہ دل پر اتر رہی تھی تو یاد تو ہوتی ہی جارہی تھی، اور جب وہ اتررہی تھی تو سورت کی صورت میں جمع بھی تھی، پھر اس قدر مؤکد لفظوں میں اپنے ذمے لینا کہ اس سورہ کا جمع کرنا اور پڑھا دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ناقابل فہم ہے، پھر اس کے بعد ’إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ  بھی سورۂ قیامہ کے لحاظ سے بالکل غیر مناسب ہے کہ صرف اس کے بیان کی ذمہ داری اللہ نے لی تھی ۔لہٰذا اس سیاق کی روشنی میں دیکھا جائے تو ’لِتَعْجَلَ بِهِ میں پورے قرآن کے لیے عجلت مراد ہوگی، نہ کہ اترتی ہوئی سورۂ قیامہ کے لیے۔ایک یہ صورت ہو سکتی ہے کہ ۱۵ آیات تک سورۂ قیامہ نازل کرنے کے بعد جبریل واپس جانے لگے ہوں تو آپ نے کہا ہو کہ مزید وحی چاہیے، ابھی بات پوری نہیں ہوئی۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی قرین قیاس نہیں ہے کہ بس آپ کو ’لَا تُحَرِّكْوالی بات کہہ کر پھر باقی سورہ بھی نازل کردی۔

غرض یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے جلد مکمل ہو جانے کا مطالبہ کررہے تھے، اور اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ آپ اس کے لیے بہ عجلت مطالبہ نہ کریں۔ رہا قرآن کا معاملہ تو تین امور ہمارے ذمے ہیں: ’جَمْعَهُ، ’قُرْآنَهُ اور ’بَيَانَهُ ۔ آپ ان کے بارے میں تردد نہ کریں۔

 اس قدر تفصیلی اور تسلی آمیز جواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی یہ عجلت فطری اور عند اللہ قابل قبول تھی۔  قرآنی انبیاکی تاریخ میں دو قسم کی عجلت سامنے آتی ہے: ایک قابل قبول ٹھیری تھی اور دوسری نامقبول۔ حضرت موسیٰ کی تیس دن کے لیے طور پر آمد کے لیے عجلت قابل قبول تھی، حالاں کہ اس سے آپ کی قوم کو نقصان ہوا تھا[7]۔ لیکن حضرت یونس کی عجلت قبول نہیں ہوئی[8]، حالاں کہ اس سے ان کی قوم کو نقصان نہیں ہوا تھا،[9] کیونکہ دونوں عجلتیں اپنی نوع میں مختلف تھیں۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ مثلاً صحیح بخاری میں وارد ہے کہ ’عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، أَنَّ الحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ سَأَلَ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، كَيْفَ يَأْتِيكَ الوَحْيُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الجَرَسِ، وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ، فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ، وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِيَ المَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ» قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا: وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الوَحْيُ فِي اليَوْمِ الشَّدِيدِ البَرْدِ، فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا‘ (رقم ۲)۔

[2]۔ البقرہ ۲: ۹۷۔ ’قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًي وَّبُشْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ۔

[3]۔ کچھ مفسرین کے اختلاف کا امکان ہے، مثلاً قفال رحمہ اللہ نے یہ ضمیر مجرمین کے اعمال نامے کی طرف راجع مانی ہے کہ سورہ میں مذکورمجرم سے کہا گیا ہے کہ اپنے اعمال نامے کو بہ عجلت پڑھنے میں زبان نہ چلا۔

[4]۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ یوں غیر مذکور اشیا کے لیے اچانک ضمیر کا آنا، لسانی امور میں مانا ہوا ہے۔ یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب وہ چیز پورے ماحول میں نمایاں اور معلوم ہو۔ مثلاً ’اِنَّا٘ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ (القدر۹۷: ۱)اَنْزَلْنٰهُ میں ہا ے منصوب بغیر مرجع کے قرآن کے لیے آگئی ہے یا مثلاً اقبال کے اس شعر میں ’’یہ ‘‘اقبال کے شاعری یا بال جبریل کے لیے ایسے ہی آیا ہے: محمد بھی ترا قرآن بھی جبریل بھی تیرا... مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا۔

[5]۔ یہ دو مرتبہ آیا ہوا  ’بِهِ‘ ایسا ہے جیسا اس آیت میں ’بِالَّذِياور بِهِ‘ ہے: وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِيْ٘ اَوْحَيْنَا٘ اِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَيْنَا وَكِيْلًا (۱۷: ۸۶) ۔

[6] ۔ یہ گنگنانے کی ایک قراءت ہے، گنگنانا زیادہ تر گیتوں اور شعروں کے ساتھ مستعمل ہے،اس کی اس شناعت کو کم کرنے کے لیے ’غنغنانے‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ قرآن کے غیر شایان شان لفظ نہ ہو۔

[7] ۔ طٰہٰ۲۰: ۸۳- ۸۵۔’وَمَا٘ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يٰمُوْسٰي. قَالَ هُمْ اُولَآءِ عَلٰ٘ي اَثَرِيْ وَعَجِلْتُ اِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضٰي. قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۣ بَعْدِكَ وَاَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ‘۔

[8] ۔ القلم۶۸: ۴۸۔ ’فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ اِذْ نَادٰي وَهُوَ مَكْظُوْمٌ‘۔

[9] ۔ یونس ۱۰: ۹۸۔ ’فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَا٘ اِيْمَانُهَا٘ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ لَمَّا٘ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰي حِيْنٍ‘۔

B