اعتکاف کا لفظی مفہوم ’العُکوف علی الشيء‘ ہے، یعنی ایک مقصد کے تحت انتہائی یکسوئی اور انہماک کے ساتھ کسی چیزمیں مشغول ہو جانا۔ گویا اعتکاف یہ ہے کہ آدمی خالص ذکر وعبادت کے اہتمام اور تعلق مع اللہ کی تجدید واستحکام کے جذبے کے تحت ایک گوشۂ مسجد میں اقامت پذیر ہوجائے (لزوم المسجد علی وجه التعبّد)۔ چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے شخص کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
...ھو یعتکف الذنوب، ویُجرٰی له من الحسنات کعامل الحسنات کلِّها.(ابن ماجہ، رقم ۱۷۸۱)
’’اعتکاف کرنے والا آدمی گناہوں سے الگ کنارہ کش ہوکر بیٹھ جاتاہے۔البتہ اُس کے لیے بالکل مسجد سے باہر دوسرے نیکوکاروں جیسا اجر مسلسل طورپر جاری رہتاہے۔‘‘
اعتکاف کی اہمیت بتاتے ہوئے آپ نے ارشاد فرمایا:
من اعکتف یومًا ابتغاء وجه اللّٰه تعالیٰ، جعل اللّٰهُ بینه وبین النار ثلاثَ خنادق، أبعدُ مما بین الخافِقَین.(المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۷۳۲۲)
’’جوشخص صرف رضاے الہٰی کے جذبے کے تحت صدق دل سے ایک دن کا اعتکاف کرے، اللہ تعالیٰ جہنم اور اُس شخص کے درمیان تین خندق قائم فرمادیتاہے ۔اِن میں سے ہر خندق کے درمیان وہی فاصلہ ہے جواِس زمین اور آسمان کے مابین پایاجاتاہے۔‘‘
گفتگوکے دوران میں راقم نے ایک کالج کے چند طلبہ سے کہا کہ جس طرح آج کل طلبہ آئی ٹی (IT) اور نیٹ (NEET ) ٹیسٹ کوالیفائی کرنے کے لیے اُس کی تیاری پر کمربستہ اورپوری طرح یکسو ہو جاتے ہیں، اُسی طرح ایک مومن گویا ایمان اور تعلق مع اللہ کا یہ ٹیسٹ کوالیفائی کرنے کے لیے اعتکاف کا طریقہ اختیار کرتاہے۔
اعتکاف کے دوران میں ایک مومن سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ذکرو تلاوت، توبہ و اِنابت، ذکر ودعا،فکر و تدبر، صبروشکر، تذکیرو دعوت ، تعلیم و تعلم، محبت ومواسات اور صدقہ و اِنفاق کے ذریعے سے اپنا تزکیہ کرے۔ وہ ایک نئے عزم اورنئی ایمانی اور شعوری تیاری کے ساتھ دنیا پرستی اور نفس و شیطان کے فتنوں سے بلند ہوکر زندگی گزارنے لگے۔ اِس طرح وہ خدا سے اپنے تعلق کو زندہ کرکے اُس کی یاد میں جینے والا اور اپنے پورے وجود کے ساتھ ہمہ تن اُس کی جانب متوجہ ہوجانے والاانسان بن گیا ہو۔
إن اللّٰه لینادي یوم القیامة: أین جیراني، أین جیراني؟ قال: فتقول الملائکة: ربّنا، ومن ینبغي أن یجاورك؟ فیقول: أین عُمّارُ المساجد؟(سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ، رقم ۵۵۴)
’’سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ میرے پڑوسی کہاں ہیں؟ میرے پڑوسی کہاں ہیں؟ فرشتے پوچھیں گے: اے ہمارے رب، تیر ا پڑوسی بننے کا یارا کسے ہوسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: مسجدوں کو آباد کرنے والے لوگ کہاں ہیں؟‘‘
إنّ للمساجد أوتادًا. الملائکةُ جلساؤهم. إن غابُوا، یفتقدُونهم؛ وإن مرضوا، عادوهم؛ وإن کانوا في حاجة، أعانوهم. وقال: جلیسُ المسجدِ علی ثلاثِ خصالٍ: أخٍ مستفادٍ، أوکلمةٍ محکمةٍ، أورحمةٍ مُنتَظرَةٍ.(مسند احمد، رقم ۹۴۲۵۔سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ، رقم ۵۵۵)
’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ مسجدوں میں معتکف بعض افراد ایسے ہیں کہ فرشتے اُن کے ہم نشیں ہوا کرتے ہیں۔ اگر وہ موجود نہ ہوں تو فرشتے اُنھیں تلاش کرتے ہیں۔ اگر وہ بیمار پڑ جائیں تو فرشتے اُن کی عیادت کرتے ہیں اور اگر اُنھیں کوئی ضرورت پیش آجائے تو فرشتے اُن کا تعاون کرتے ہیں۔ مسجد میں بیٹھنے والا آدمی کوئی ایک فائدہ ضرور حاصل کرتا ہے: یاوہ کسی سے استفادہ کرتا یا کوئی حکیمانہ بات کہتا یا ( ذکرودعا اور فکروتدبر میں مشغول ہوکر ) رحمت ِ الہٰی کا منتظر رہتا ہے۔‘‘
أحبّ الناس إلی اللّٰه تعالیٰ أنفعهم للناس، وأحبّ الأعمال إلی اللّٰه عزوجل سرورٌ یدخله علی مسلم؛ أو یکشف عنه کربةً؛ أو یقضي عنه دینًا؛ أو تطرد عنه جوعًا. ولأن أمشي مع أخ في حاجةٍ، أحبّ إلي من أن أعتكف في هذا المسجد (یعني مسجد المدینة) شهرًا. ومن کفّ غضبه، ستر اللّٰه عورته. ومن کظم غیظه، ولو شاء أن یُمضیه، أمضاہ؛ ملأ اللّٰه قلبه رجاءً یوم القیامة. ومن مشیٰ مع أخیه في حاجةٍ حتی تتهیأ له، أثبت اللّٰه قدمه یوم تزول الأقدام. وإن سوء الخُلُق یفسد العمل کما یفسد الخلُّ العسلَ. (سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ، رقم ۲۸۸۷)
’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔وہ کہتے ہیں: ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول، کون سے لوگ اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب اور کون سے اعمال اللہ تعالیٰ کوسب سے زیادہ پسند ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں جو دوسرے انسانوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے والے ہوں۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جو کام پسند ہیں، وہ یہ ہیں: ایک مسلمان کا اپنے بھائی کو خوش کرنا، اُس کی کوئی تکلیف دور کرنا، اُس کا قرض ادا کرنا، اُسے کھانا کھلانا، (وغیرہ)۔ (یاد رکھو) مجھے کسی آدمی کے ایک کام سے اُس کے ساتھ تعاون کے لیے چلنا میری اِس مسجد (مسجد ِنبوی) میں ایک ماہ اعتکاف کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ (یاد رکھو ) جس نے اپنے غصے کو روک لیا،اللہ تعالیٰ اُس کی خطاؤں پر پردہ ڈال دے گا۔ جس آدمی نے اپنے غصے کو نافذ کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود غصے کو پی لیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کے دل کو مایوسی اور خوف کے بجاے رَجا اور اطمینان سے بھر دے گا۔ جوشخص اپنے بھائی کے ساتھ اُس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے نکلے، اللہ تعالیٰ اُسے اُس دن ثابت قدم رکھے گا جس دن(بہت سے لوگوں کے) قدم ڈگمگا رہے ہوں گے۔ اور(یاد رکھو ) برے اخلاق نیکیوں کو اُسی طرح برباد کردیتے ہیں جس طرح سرکہ، شہد کو بربادکر دیتا ہے۔‘‘
عام طورپر یہ سمجھا جاتاہے کہ آدمی یا توپورے دس دن کا اعتکاف کرے یا اگروہ اِس قدرطویل اعتکاف نہیں کرسکتا تو اعتکاف سے بالکل دور اور محروم رہے،مگرایسا سمجھنا درست نہیں۔ایک شخص اگر ’’پارٹ ٹائم جاب‘‘(part-time job)کرسکتا ہے، تواُسے چاہیے کہ وہ حسب گنجایش، جز وقتی اعتکاف کا طریقہ اختیار کرے ، یعنی ’’پارٹ ٹائم اعتکاف‘‘۔ اِس دوران میں آدمی کچھ اوقات کے لیے پوری طرح یکسو ہوکر اللہ سے اپنا تعلق اُستوار کر ے۔مثلاً وہ مختلف نماز وں سے پہلے اور بعد میں تھوڑا وقت نکال کر ذکرودعا اور تلاوت و تدبر کے لیے اپنے آپ کو یکسو کرے ۔
اعتکاف در اصل تنہائی اختیار کر نے اور خلوت نشیں ہوجانے کا نام ہے۔خلوت نشینی کا یہ طریقہ تمام معاصی و انتشار (distraction)سے بچنے اور یکسوئی کے ساتھ ذکر وعبادت اور فکر وتدبر کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ سیدنا عمر اِسی بنا پر فرمایاکرتے تھے:
خُذُوْا بِحَظِّکم مِنَ العُزلَةِ. (التمہید، ابن عبد البر۱۷ /۴۴۶۔ الزہد، ابن ابی عاصم۴۸)
’’ تنہائی اور خلوت نشینی کے مواقع سے اپنا حصہ ضرور لیا کرلو۔‘‘
اعتکاف کا مقصدتعلق مع اللہ کی تجدید اور خداکے ساتھ جینے کی تربیت حاصل کرناہے، یعنی اعتکاف کے دوران میں تبتل الی الله(المزمل ۷۳: ۸) کے اِس خصوصی ماحول میں خدا اور اُس کی کتاب کے ساتھ زندگی گزارنے کی مشق ۔ تبتل الی الله کا مطلب ہے:اللہ کے سوا ہر دوسری چیز سے کٹ کر صرف اور صرف اللہ سے لو لگانا اور اِن قیمتی لمحات کو اُسی کی یاد میں بسر کرنا۔
اعتکاف کا مقصد یہ ہے کہ ایک شخص اِس طرح اپنی تربیت کرے کہ وہ خداکے ساتھ جیناسیکھ لے ۔ اُس کے صبح وشام یادِ الٰہی میں بسر ہونے لگیں۔ وہ تقویٰ و حسن اخلاق کا نمونہ ہو اور ایمان و اخلاق کے تقاضوں کے ساتھ زندگی گزارنے والا بن سکے ــــــ مسجدکا’ جسمانی اعتکاف‘ اُس کے لیے مسجدسے باہر کی دنیا کے اِس ’ذہنی اعتکاف‘ (intellectual seclusion) کا ذریعہ بن گیا ہو کہ دنیا کے مادی ہنگاموں کے درمیان کسی بھی لمحہ وہ خدا سے غافل نہ رہے :
گو میں رہا ، رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے، غافل نہیں رہا!
ذِکرو اعتکاف کے اِس ربانی ماحول اور اِ ن تربیتی درس گاہوں کے فیض یافتہ یہی وہ اہل ایمان ہیں جن کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہواہے:
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِيْتَآءِ الزَّكٰوةِ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ .(النور ۲۴: ۳۷)
’’یہی وہ مردِ مومن ہیں، جن کے اندر تجارت اور خریدو فروخت (کے ہنگامے) اللہ کی یاد، اہتمامِ صلوٰۃ اورایتاے زکوٰۃ سے غفلت پیدا نہیں کرتے ۔ یہ لوگ اُس دن سے خائف ہوکر زندگی گزارتے ہیں جس (کی ہول ناکی)کے سبب دل الٹ جائیں اور دیدے پتھراکر رہ جائیں گے۔‘‘
[۱۰/ مارچ ۲۰۲۴ء]
ـــــــــــــــــــــــــ