HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

توبہ (۱)

’توبہ‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اِس کے لفظی معنی    پلٹنا ، لوٹنا اور رجوع کرنے کے ہیں۔ دین میں توبہ سے مراد  خدا کی طرف پلٹنا ، لوٹنا اور اُس کی طرف رجوع کرنا ہے۔ یہی عمل رجوع الی اللہ کہلاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ خدا كی نافرمانی پر ندامت و پشیمانی کے ساتھ انسان كے ترک گناہ كا نام ہے۔ پروردگار عالم كا ارشاد ہے:

يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْ٘ا اِلَي اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ. (التحریم۶۶: ۸)
’’ایمان والو، اللہ کی طرف مخلصانہ رجوع کرو۔ امید ہے کہ تمھارا پروردگار تمھارے گناہ تم سے دور کر دے اور تمھیں ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچی نہریں بہ رہی ہوں۔‘‘

اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو توبہ اور رجوع الی اللہ کی دعوت دی ہے اور اپنے بندوں کو یہ عظیم بشارت دی گئی ہے کہ وہ اگر خدا سے سچے دل اور پوری انابت کے ساتھ توبہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ اُن کے گناہ معاف کر دے گا اور انھیں جنتوں میں داخل کرے گا۔ اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ توبہ دراصل وہی ہوتی ہے جو سچی اور مخلصانہ ہو۔‏‏‏‏‏‏‏‏‏ سورۂ ہود میں ارشاد باری ہے:


وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْ٘ا اِلَيْهِ. (۱۱: ۳)
’’اور یہ کہ تم اپنے پروردگار سے معافی چاہو، پھر اُس کی طرف رجوع کرو ۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اس آیت سے توبہ کے متعلق بھی یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس کے دو اہم رکن ہیں: ایک استغفار دوسرا توبہ۔ استغفار تو یہ ہے کہ آدمی اپنے جرم کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور اس سے آیندہ باز رہنے کا عہد کرے اور توبہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کرے اور اس صحیح راہ کو اختیار کرے جس کی طرف اللہ نے رہنمائی فرمائی ہے۔ اگر آدمی جرم سے باز نہ آئے اور صحیح روش اختیار نہ کرے تو زبان سے لاکھ توبہ توبہ کرے اس کی توبہ محض مذاق ہے۔‘‘ (تدبر قرآن۴/ ۱۰۷)

اِسی طرح سورۂ نور میں فرمایا:


وَتُوْبُوْ٘ا اِلَي اللّٰهِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ. (۲۴ : ۳۱)
’’ایمان والو، سب مل کر اللہ سے رجوع کرو تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘۔

اِس آیت میں پورے مسلم معاشرہ کی اصلاح و تطہیر کے لیے یہ ابدی ہدایت دی گئی ہے کہ سب مسلمان توبہ کریں، یعنی رجوع الی اللہ اختیار کریں۔ یہ ہدایت فرد اور معاشرے، دونوں کے لیے یکساں ہے۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی کوتاہیوں کی اصلاح کرے اور خدا کا نافرمان نہیں، بلکہ فرماں بر دار بندہ بن کر زندگی گزارے، کیونکہ فوز و فلاح کا راستہ صرف یہی ہے۔

توبہ ایمان باللہ کا لازمی تقاضا ہے

قرآن مجید کی اِن آیات اور اِن کے علاوہ متعدد آیات سے یہ پتا چلتا ہے کہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہر شخص کے لیے اپنے گناہوں سے توبہ کرنا اس کے ایمان کا تقاضا ہے ۔ یہی وجہ ہے كہ خدا کی جناب میں توبہ کرنے سے جان بوجھ کر گریز سرکشی کے زمرے میں آتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید کے یہ الفاظ ہیں :

قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ قَالَ اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ. قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِيْهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِيْنَ. (الاعراف ۷: ۱۲ - ۱۳)
’’فرمایا: تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روک دیا، جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا؟ بولا: میں اُس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُس کو مٹی سے۔ فرمایا: اچھا تو یہاں سے اتر، اِس لیے کہ تجھے یہ حق نہیں کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے، سو نکل جا، یقیناً تو ذلیل ہے۔‘‘

یعنی ابلیس نے خدا کے حکم کے باوجود نہ آدم علیہ السلام كو سجده كیا اور پھر اپنی اِس نافرمانی پر نہ خدا سے معافی ہی مانگی تو اللہ تعالیٰ نے اُس کے اِس رویے کو تکبر سے تعبیر كیا۔

توبہ کی حقیقت

قرآن مجید کے نزدیک توبہ کی حقیقت كیا ہے، اِس میں کون کون سی چیزیں انتہائی ضروری ہوتی ہیں،جن کے بغیر درحقیقت توبہ معتبر ہی نہیں ہوتی۔اِس حوالے سے درج ذیل آیات ہماری رہنمائی کرتی ہیں:

وَعَلَي الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰ٘ي اِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوْ٘ا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّا٘ اِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوْبُوْا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ. (التوبہ۹: ۱۱۸)
’’اِسی طرح اُن تینوں پر رحمت کی نظر کی جن کا معاملہ اٹھا رکھا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود اُن پر تنگ ہو گئی اور وہ خود اپنی جانوں سے تنگ آگئے اور اُنھوں نے اندازہ کر لیا کہ خدا سے خدا کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے، پھر اللہ نے اپنی رحمت سے توجہ فرمائی کہ وہ اُس کی طرف پلٹیں۔ یقیناً اللہ ہی ہے جو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’... اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ اگر اُس کے اندر ایمان ہو تو ہر گناہ پر اُس کا دل کڑھتا اور آزردہ ہوتا ہے اور ایک احساس ندامت کے ساتھ اُس کے اندر اپنے رب کی طرف رجوع ہونے کا جذبہ ابھرتا ہے۔ اگر آدمی اپنے اِس جذبے کے مطابق عمل کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے دل اور زبان پر وہ الفاظ اور کلمات بھی جاری فرما دیتاہے جو اُس کو پسند ہیں اور جن کو وہ شرف قبولیت بخشتا ہے۔ اِس سے محروم صرف وہ بدقسمت لوگ رہتے ہیں جن کا ضمیر کند اور جن کا ایمان مردہ ہو جایا کرتا ہے۔ ایسے لوگ خدا سے بے پروا ہو جایا کرتے ہیں جس کی سزا اُن کو یہ ملتی ہے کہ خدا بھی اُن سے بے پروا ہو جاتا ہے۔ آدم و ابلیس کی سرگذشت، جو سورۂ بقرہ میں بیان ہوئی ہے، وہ اِس کی نہایت حقیقت افروز مثال ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۶۶۰)

توبہ کے ساتھ اصلاح کا رویہ

ارشادِ باری ہے:

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا٘ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ. (الاعراف۷: ۲۳)
’’ دونوں بول اٹھے: پروردگار، ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے، اب اگر تو ہماری مغفرت نہ فرمائے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم ضرور نامراد ہو جائیں گے۔ ‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس کی وضاحت میں فرماتے ہیں:

’’یہ آدم و حوا علیہما السلام کی وہ توبہ ہے جو انھوں نے اللہ تعالیٰ کی مذکورہ بالا تنبیہ کے بعد کی۔ ...اس توبہ سے آدم نے ہاری ہوئی بازی پھر جیت لی۔ ...آدم و حوا نے اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار کیا، خدا سے معافی مانگی اور ... اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی اور ان پر رحم فرمایا اور اس طرح آدم نے اپنے عمل سے اپنی ذریت کے لیے مثال قائم کی کہ اگر شیطان کے ورغلانے سے انسان کوئی ٹھوکر کھا جائے تو اس کے نتائج سے بچنے کی راہ توبہ ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۳/ ۲۳۷)

توبہ کے بارے میں سنت اللہ

سورۂ بقرہ آیت ۳۷ کے تحت مولانا اصلاحی رحمہ اللہ درج بالا سورۂ اعراف کی اِسی آیت ۲۳ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:


’’توبہ کے لیے حضرت آدم علیہ السلام کا بے قرار ہونا اور توبہ کے الفاظ کا ان کے دل میں ڈالا جانا اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا پتا دیتا ہےجو توبہ سے متعلق اس نے پسند فرمائی ہے۔ وہ سنت یہ ہے کہ بندہ جب کوئی گناہ کر گزرتا ہے تو ندامت وشرمندگی اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا ایک احساس اس کے اندر خود بخود ابھرتا ہے۔ یہ احساس اس کی فطرت کا ایک تقاضا ہے اور یہ اس وقت تک برابر ابھرتا رہتا ہے جب تک انسان غلطیوں اور گناہوں پر اصرار کر کے اپنے اس احساس کو بالکل کچل کے نہ رکھ دے۔ اسی خاص کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر نفس لوامہ کو ودیعت فرمایا ہے۔‘‘(تدبرِ قرآن ۱/ ۱۶۹)

اِس کا مطلب یہ ہے کہ احساسِ ندامت کے بغیر توبہ بے معنی عمل ہے۔ سورۂ نحل میں توبہ کے ساتھ اصلاح کے لزوم کو بیان كرتے ہوئے فرمایا:


ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ عَمِلُوا السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۣ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْ٘ا اِنَّ رَبَّكَ مِنْۣ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ . (۱۶: ۱۱۹)
’’ پھر اُن کے لیے جو جذبات سے مغلوب ہو کر برائی کر بیٹھیں، پھر اُس کے بعد توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو اِس کے بعد، (اے پیغمبر)، تیرا پروردگار، اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ تیرا پروردگار بڑا ہی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے ۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’یہ اوپر کی تنبیہات کے بعد ایک بشارت ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ خدا کی واضح ہدایات کے باوجود اب تک غلطیوں، جہالتوں اور تعصبات میں گرفتار رہے ہیں، ان کے لیے اب بھی نجات کی راہ کھلی ہوئی ہے۔ تمھارا رب ان لوگوں کو بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا جنھوں نے جہالت کے سبب سے برائیاں کیں، پھر اس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لی۔ مطلب یہ ہے کہ تمھاری بعثت سے قبل جو تاریکی کا دور گزرا ہے، اس میں لوگوں نے خدا کی جو نافرمانیاں کی ہیں، اگر تمھاری اس دعوت کے بعد انھوں نے توبہ اور اصلاح کر لی تو ان کے لیے خدا کی رحمت میں داخل ہونے اور اس کی مغفرت کے مستحق ہونے کا موقع اب بھی باقی ہے۔ بدقسمت ہی ہوں گے وہ جو اس موقع سے فائدہ نہ اٹھائیں۔‘‘(تدبر قرآن ۴/۴۶۰)

اور سورۂ نساء میں ارشاد باری ہے:


وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِهَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْهُمَا فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَا اِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا . (۴: ۱۶)
’’اور جو مرد و عورت تمھارے لوگوں میں سے اِس جرم کا ارتکاب کریں،اُنھیں ایذا دو۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور اصلاح کر لیں تو اُن سے درگذر کرو۔ بے شک، اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘

اِس آیت کے الفاظ ’تَابَا وَاَصْلَحَا‘ کی تفسیر میں مولانا اصلاحی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’یہ جو فرمایا تھا کہ ’’اگر وہ توبہ اور اصلاح کر لیں تو ان سے درگذر کرو‘‘ اس سے اتنی بات تو بالکل واضح ہو گئی تھی کہ رویے کی اصلاح توبہ کے لازمی شرائط میں سے ہے، اگر کوئی شخص اس برائی سے باز نہ آئے جس کا وہ مرتکب ہوا ہے تو زبان سے لاکھ توبہ توبہ کا ورد کرے، اس کی توبہ بالکل غیر معتبر ہے۔‘‘ (تدبرِ قرآن ۲/ ۲۶۶ )

توبہ کی قبولیت و عدم قبولیت کا اصول

وہ غلطیاں جن پر مواخذہ نہیں ہو گا

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْ٘ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ. (البقرہ ۲: ۲۲۵)
’’اللہ تمھاری اُن قسموں پر تو تمھیں نہیں پکڑے گا جو تم بے ارادہ کھا لیتے ہو، لیکن وہ قسمیں جو اپنے دل کے ارادے سے کھاتے ہو، اُن پر لازماً تمھارا مواخذہ کرے گا اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بخشنے والا ہے، وہ بڑا بردبار ہے۔ ‘‘

یعنی جس عمل کے پیچھے کوئی ارادہ ،کوئی باقاعدہ نیت یا کوئی پروگرام موجود نہیں ہوتا ، اُس عمل کو باقاعدہ نیت اور ارادے کے ساتھ کیے گئے عمل کی طرح شمار نہیں کیا جائے گا[1]۔ 

یہی بات سورۂ احزاب میں بھی بیان ہوئی ہے:


وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَا٘ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا. (۳۳: ۵)
’’تم سے (بغیر ارادے کے )جو غلطی ہوئی ، اُس کے لیے توتم پر کوئی گرفت نہیں ہے، البتہ تمھارے دلوں نے جس بات کا ارادہ کرلیا، اُس پر ضرور گرفت ہے۔ اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ ‘‘

اِس آیت سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ خدا کے ہاں بغیر ارادے کے ہونے والی غلطی نہ تو گناہ شمار ہو گی اور نہ اس پر کوئی مواخذہ ہو گا۔

كبائر سے بچنے پر صغیرہ گناہوں کی بخشش کا وعدہ

ارشادِ باری ہے:

اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِيْمًا
. (النساء۴: ۳۱)
’’تمھیں جن باتوں سے روکا جا رہا ہے ، اُن کے بڑے بڑے گناہوں سے اگر تم پرہیز کرتے رہو تو تمھاری چھوٹی برائیاں ہم تمھارے حساب سے ختم کر دیں گے اور تمھیں عزت کی جگہ داخل کریں گے۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اِس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’...جن چیزوں سے اس (خدا)نے روکا ہے، ان کے کبائر سے پرہیز رکھو۔ اگر کبائر سے پرہیز رکھو گے تو صغائر کو وہ اپنے فضل و رحمت سے خود دور فرما دے گا، ورنہ کبائر و صغائر سب تمھارے اعمال نامے میں درج ہوں گے اور سب کا تمھیں حساب دینا ہو گا۔
یہاں یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ صغائر سے بچنے کی راہ بھی یہی ہے کہ آدمی کبائر سے اجتناب کرے۔ جو آدمی اپنے ہزاروں کے قرضے چکاتا رہتا ہے، وہ اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوتا کہ کسی کے پانچ روپے دبا کر نادہند کہلانے کی ذلت گوارا کرے۔ برعکس اس کے جو لوگ کبائر کے مرتکب ہوتے ہیں، لیکن چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا بڑا اہتمام کرتے ہیں، ان کا حال زندگی بھر یہ رہتا ہے کہ مچھر کو چھانتے رہتے ہیں اور اونٹ نگلتے رہتے ہیں۔ دوسروں کو تو یہ زیرے اور سونف تک کی زکوٰۃ کا حساب سمجھاتے ہیں، لیکن خود یتیموں کے مال اور اوقاف کی آمدنیوں سے اپنی کوٹھیاں بنواتے اور ان کو سجاتے ہیں۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۲۸۷- ۲۸۸)

سورۂ نجم میں اِسی حوالے سے ارشادِ باری ہے:


اَلَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَﵧ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ.(۵۳: ۳۲)
’’ جو بڑے گناہوں اور کھلی بے حیائیوں سے بچتے رہے، مگر یہ کہ کبھی کچھ آلودہ ہوگئے۔ (وہ اُنھیں معاف فرما دے گا)، تیرے پروردگار کا دامن مغفرت یقیناً بہت وسیع ہے۔ ‘‘

مولانا اصلاحی رحمہ اللہ اِس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’...آدمی کسی گناہ میں آلودہ تو ہو جائے، لیکن پھر اُس سے کنارہ کش ہو جائے۔ مطلب یہ ہوا کہ انسان سے یہ مطالبہ نہیں ہے کہ وہ معصوم بن کر زندگی گزارے۔ جذبات اور خواہشوں سے مغلوب ہو کر گناہ کا مرتکب ہو جانا اُس سے بعید نہیں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ اُس سے ضرور ہے کہ اُس کی حس ایمانی اتنی بیدار رہے کہ کوئی گناہ اُس کی زندگی کا اِس طرح احاطہ نہ کر لے کہ اُس کے لیے اُس سے پیچھا چھڑانا ہی ناممکن ہو جائے، بلکہ جب بھی اُس کا نفس اُس کو ٹھوکر کھلائے، وہ متنبہ ہوتے ہی تو بہ کر کے اپنی اصلاح کر لے۔ جو لوگ اِس طرح زندگی گزارتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ اُس کا دامن مغفرت بہت وسیع ہے۔‘‘(تدبر قرآن۸/ ۷۱)

گناه کے بعد توبہ کا بہترین طریقہ

ارشاد باری ہے:

اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَي اللّٰهِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ فَاُولٰٓئِكَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلَيْهِمْﵧ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيْمًا حَكِيْمًا. (النساء۴: ۱۷)
’’اللہ پر توبہ قبول کرنے کی ذمہ داری اُنھی لوگوں کے لیے ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی گناہ کر بیٹھتے ہیں،پھر جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں۔ سو وہی ہیں جن پر اللہ عنایت کرتا اور اُن کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اللہ علیم وحکیم ہے۔ ‘‘

مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے اِس کی تفسیر یہ بیان کی ہے:

’’... اللہ کے اوپر صرف ان کی توبہ کا حق قائم ہوتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی برائی کر گزرتے ہیں، پھر فوراً توبہ کر لیتے ہیں۔ انھی لوگوں کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ علیم اور حکیم ہے۔ نہ وہ کسی بات سے بے خبر نہ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۲۶۶)

کن لوگوں کی توبہ رد کر دی جاتی ہے؟

وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ حَتّٰ٘ي اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّيْ تُبْتُ الْـٰٔنَ وَلَا الَّذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَهُمْ كُفَّارٌ اُولٰٓئِكَ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا. (النساء۴: ۱۸)
’’ اُن لوگوں کے لیے کوئی توبہ نہیں ہے جو گناہ کیے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجاتا ہے، اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کر لی ہے۔ اِسی طرح اُن کے لیے بھی توبہ نہیں ہے جو مرتے دم تک منکر ہی رہیں۔ یہی تو ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک سزا تیار کر رکھی ہے۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے اِس آیت کی یہ تفسیر بیان کی ہے:

’’ فرمایا کہ اللہ کے اوپر صرف ان کی توبہ کا حق قائم ہوتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی برائی کرگزرتے ہیں، پھر فوراً توبہ کر لیتے ہیں۔ انھی لوگوں کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ علیم اور حکیم ہے۔ نہ وہ کسی بات سے بے خبر نہ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی۔ پھر وہ ان لوگوں کی توبہ کی کوئی ذمہ داری اپنے اوپر کیوں لے گا جو جانتے بوجھتے ٹھنڈے دل سے گناہ بھی کیے جا رہے ہیں اور توبہ کا وظیفہ بھی پڑھتے جا رہے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۲۶۶)

موت سے پہلے توبہ کی توفیق میسر آنا

سورۂ نساء کی درج بالا آیات ۱۷ اور ۱۸ کی تفسیر كرنے کے بعد مولانا اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:


’’... اب ایک سوال رہ جاتا ہے کہ ان لوگوں کی توبہ کا کیا حکم ہے جن کو گناہ کے بعد جلدی توبہ کرنے کی سعادت تو حاصل نہیں ہوئی، لیکن اتنی دیر بھی انھوں نے نہیں لگائی کہ موت کا وقت آن پہنچا ہو۔ اس سوال کے جواب میں یہ آیت خاموش ہے اور یہ خاموشی جس طرح امید پیدا کرتی ہے، اسی طرح خوف بھی پیدا کرتی ہے اور قرآن حکیم کا منشا یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ بین الرجاء والخوف ہی رہے، لیکن کبھی کبھی ذہن اس طرف جاتا ہے کہ اس امت کے اس طرح کے لوگ امید ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے نجات پاجائیں گے، اس لیے کہ ان کے باب میں شفاعت کے ممنوع ہونے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۲۶۷)

توبہ کے عظیم نتائج

اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا. وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ اِلَي اللّٰهِ مَتَابًا. (الفرقان۲۵: ۷۰-   ۷۱)
’’مگر یہ کہ جس نے توبہ کر لی اور ایمان لایا اور اچھے عمل کیے تو اِسی طرح کے لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے اور جو توبہ کرے اور اچھے عمل کرے، اُس کو مطمئن ہونا چاہیے، اِس لیے کہ وہ پوری سرخ روئی کے ساتھ اللہ ہی کی طرف لوٹتا ہے۔‘‘

مولانا اصلاحی رحمہ اللہ اِن آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’...جو لوگ توبہ کر کے ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کر لیتے ہیں ان کی نیکیاں ان کے اعمال نامے کے پچھلے گناہوں کو محو کر دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی جگہ پر ان کی نیکیوں کو رکھ دیتا ہے جو ان کے گناہوں کو ڈھانک لیتی ہیں۔....اس میں توبہ کرنے والوں کے لیے عظیم بشارت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنے گناہوں کے ساتھ ہی مریں گے، وہ تو بہرحال اپنے گناہوں سے دوچار ہوں گے، لیکن جو توبہ کر لیں گے، وہ نہایت سرخروئی کے ساتھ اپنے رب کی طرف لوٹیں گے۔ ... یہ لوٹنا نہایت عزت و شان کا ہو گا۔ سیدنا مسیحؑ نے کھوئی ہوئی بھیڑ والی تمثیل میں نہایت بلاغت سے یہ بات سمجھائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے توبہ کرنے والے بندے کی توبہ سے کس قدر خوش ہوتا ہے اور اس کو اپنے کس درجے کے فضل وکرم سے نوازتا ہے۔ وہی بات اس آیت سے واضح ہو رہی ہے۔
اس میں توبہ کے لیے حوصلہ افزائی کا یہ پہلو بھی ہے کہ بسا اوقات آدمی گناہ کی زندگی چھوڑنے سے اس وجہ سے گھبراتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے یہ زندگی چھوڑ دی تو اسے اپنے لیے ایک نیا ماحول تلاش کرنا پڑے گا جو ایک نہایت مشکل کام ہے۔ یہ آیت ایسے لوگوں کو تسلی دیتی ہے کہ جو لوگ برائی اور برے ماحول کو چھوڑتے ہیں، ان کو اللہ کی معیت اور سرپرستی حاصل ہوتی ہے اور جن کو یہ چیز حاصل ہو، وہ ہر چیز سے مستغنی ہیں۔‘‘(تدبرِ قرآن ۵/ ۴۸۹)

توبہ سے متعلق اِن آیات سے درج ذیل اہم باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں:

۱۔ گناه سے توبہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔

۲۔ توبہ کے دو رکن ہیں : ایک استغفار اور دوسرا توبہ ۔

۳۔ ہر صاحب ایمان شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی معمولی سے معمولی غلطی پر بھی استغفار اور توبہ کرے۔

۴۔ انسان پر لازم ہے كہ وه توبہ کے ساتھ اپنی اصلاح بھی کرے ، کیونکہ کامیابی اور خوش بختی کا راستہ صرف یہی ہے۔

۵۔ بغیر ارادے کے سرزد ہونے والی غلطیاں گناہ شمار نہیں ہوتیں۔

۶۔ کبیرہ گناہوں سے بچنے والوں کے صغیرہ گناہ بھی معاف کر دیے جاتے ہیں۔

۷۔ توبہ کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں توبہ قبول کرنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے۔

۸۔ موت کو دیکھ کر توبہ کرنے والے کی توبہ قبول نہ ہو گی۔

۹۔ کفر پر زندگی بھر قائم رہنے والے کی توبہ قبول نہ ہو گی۔

۱۰۔ سچی توبہ کرنے والوں کے گناہ بھی نیکیوں میں بدل دیے جائیں گے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

۱۔  البتہ وه فی نفسہٖ دین میں ناگوار و ناپسندیده ہو سکتا ہے۔

B