ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر
گذشتہ قسط ملاحظہ فرمائیے: علامات قیامت (۶)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:۱ «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ مِنَ الْمَدِينَةِ، مِنْ خِيَارِ أَهْلِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ، فَإِذَا تَصَافُّوا، قَالَتِ الرُّومُ: خَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الَّذِينَ سَبَوْا مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ، فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ: لَا، وَاللّٰهِ لَا نُخَلِّي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا، فَيُقَاتِلُونَهُمْ، فَيَنْهَزِمُ ثُلُثٌ لَا يَتُوبُ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ أَبَدًا، وَيُقْتَلُ ثُلُثُهُمْ، [وَهُمْ۲ ] أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللّٰهِ، وَيَفْتَتِحُ الثُّلُثُ، لَا يُفْتَنُونَ أَبَدًا فَيَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِينِيَّةَ، فَبَيْنَمَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْغَنَائِمَ، قَدْ عَلَّقُوا سُيُوفَهُمْ بِالزَّيْتُونِ، إِذْ صَاحَ فِيهِمِ الشَّيْطَانُ: إِنَّ الْمَسِيحَ - يَعْنِي الدَّجَّالَ - قَدْ خَلَفَكُمْ فِي أَهْلِيكُمْ، فَيَخْرُجُونَ، وَذَالِكَ بَاطِلٌ، فَإِذَا جَاءُوا الشَّامَ خَرَجَ، فَبَيْنَمَا هُمْ يُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ، يُسَوُّونَ الصُّفُوفَ، إِذْ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، فَأَمَّهُمْ، فَإِذَا رَآهُ عَدُوُّ اللّٰهِ ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ، فَلَوْ تَرَكَهُ لَانْذَابَ حَتَّى يَهْلِكَ، وَلَكِنْ يَقْتُلُهُ اللّٰهُ بِيَدِهِ، فَيُرِيهِمْ دَمَهُ فِي حَرْبَتِهِ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہو گی، جب تک رومی (عیسائی) اعماق۱ یا فرمایا کہ دابق۲ میں نہ اتر جائیں۳ ۔اُن سے مقابلے کے لیے شہر ۴ سے ایک لشکر نکلے گا جو اُس وقت روے زمین کے بہترین لوگوں پر مشتمل ہوگا۔ پھر جب وہ (دشمن کے سامنے) صف بستہ ہوجائیں گے تو رومی کہیں گے: تم ہمارے اور اِن لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ جنھوں نے ہمارے کچھ لوگوں کو قیدی بنایا ہوا ہے تا کہ ہم اِن سے قتال کریں۔ یہ سن کرمسلمان کہیں گے:نہیں، بخدا ہم تمھارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے۔ چنانچہ وہ اُن (عیسائیوں )سے جنگ کریں گے۔پھر اِن (مسلمانوں) میں سے ایک تہائی پسپائی اختیار کر لیں گے، جن کی توبہ اللہ تعالیٰ کبھی قبول نہیں فرمائیں گے۵۔ اور ایک تہائی مسلمان قتل کر دیے جائیں گےاوروہ اللہ کے نزدیک افضل ترین شہدا ہوں گے۔ اور باقی ایک تہائی کو فتح حاصل ہوجائے گی، جس کے بعد اُنھیں کبھی آزمایش میں نہیں ڈالا جائے گا۶۔ پھر وہ قسطنطنیہ کو فتح کرلیں گے۷ ۔ (اِس فتح کے موقع پر) وہ اپنی تلواروں کو زیتون کے درختوں پر لٹکا کر غنیمت کے اموال آپس میں تقسیم کر رہے ہوں گے کہ شیطان اُن کے درمیان میں چیخ کر اعلان کرے گا کہ مسیح، یعنی دجال (نمودار ہو کر) تمھارےپیچھے تمھارے گھر والوں تک پہنچ چکا ہے، چنانچہ یہ سن کر وہ نکلیں گے ، لیکن یہ خبر جھوٹی ہوگی۸۔ البتہ جب وہ شام پہنچیں گے تو دجال واقعتاً نمودار ہوجائے گا۹۔ پھر وہ (اُس سے) قتال کی تیاری کرتے ہوئے صف بندی کر رہے ہوں گے کہ نماز کے لیے اقامت کہی جائے گی اور عیسیٰ ابن مریم (آسمان سے)نازل ہوجائیں گے،اور (نماز میں) اُن کی امامت کریں گے۱۰۔ پھراللہ کا دشمن (دجال) جب عیسیٰ ابن مریم کو دیکھےگا تو اِس طرح پگھل جائےگا، جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔ چنانچہ اگر عیسیٰ ابن مریم اُس کو چھوڑ بھی دیں تو وہ پگھل کر ہلاک ہوجائے گا ۔لیکن اللہ تعالیٰ اُس کو اُنھی کے ہاتھ سے قتل کریں گے، اور وہ (اُسے مار کر) لوگوں کو اپنے نیزے پر اُس کا خون دکھائیں گے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ اِس سے غالباً عمق مراد ہے ، جس کے لیے علاقے کی وسعت کے لحاظ سے جمع کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ یہ دابق کے قریب حلب اور انطاکیہ کے درمیان ایک ضلع ہے۔
۲۔حلب سے چار فرسخ، کم وبیش ۳۲ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک قریہ ہے۔
۳۔ یہ غالباً شام وفلسطین پر صلیبی لشکروں کی تاخت یا آخری زمانے کی کوئی جنگ ہے، جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤیا میں اِسی طرح دکھائی گئی۔ اِس طرح کے معرکوں میں کئی جگہ قیدیوں کے پکڑنے اور چھڑانے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ بعید نہیں کہ اُنھی میں سے کوئی واقعہ آپ کو دکھایا گیا، جسے راویوں نے اِس اجمال کے ساتھ بیان کردیا ہے۔
۴۔ اِس سے مدینۃ النبی بھی مراد ہوسکتا ہے اور دابق کے قریب حلب یا کوئی دوسرا شہر بھی۔
۵۔ یہ، ظاہر ہے کہ اُسی صورت میں ہوسکتا ہے، جب لشکر کا کوئی حصہ عین معرکے کے وقت، دشمن کے ساتھ کسی سازش کے نتیجے میں،بزدلی دکھائے اور اپنی پسپائی کے نتیجے میں پورے لشکر کو خطرے میں ڈال دے۔
۶۔ یعنی اُس طرح کی کسی آزمایش میں نہیں ڈالا جائے گا ، جو لشکر کے ایک حصے کی پسپائی کے بعد اُنھیں عین میدان جنگ میں پیش آئی۔
۷۔ رؤیا میں صدیوں کے واقعات اِسی طرح ممثل ہوتے ہیں۔ ۱۰۹۶ء سے ۱۳۰۰ء تک فتح وشکست کے جو مراحل پیش آئے، پھر صلاح الدین ایوبی کی فتح اور بالآخر سلطان محمد فاتح کے قسطنطنیہ پر قبضے کو گویا پے در پے ایک ہی سلسلۂ واقعات کی صورت میں دکھا دیا گیا ہے۔
۸۔ یعنی یہ خبر کہ اپنے خروج کے بعد تاخت کرتا ہوا وہ تمھارے علاقوں تک پہنچ چکا ہے۔
۹۔ اصل میں لفظ ’خرج‘ استعمال ہوا ہے ۔ اِس سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ مدعا غالبًا یہ ہے کہ پھر وہ اِس لشکر پر حملے کے لیے سامنے آجائے گا۔
۱۰۔ اِس معاملے میں روایتوں کا اختلاف پیچھے زیر بحث آچکا ہے ۔ اِسی طرح نزول کی حقیقت بھی بیان ہوچکی ہے۔ اِس کی تفصیلات پیچھے ’’نزول مسیح‘‘ کے باب میں دیکھ لی جاسکتی ہیں۔
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً صحیح مسلم، رقم ۲۸۹۷سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور اِس کاایک ہی متابع ہے، جو صحیح ابن حبان، رقم ۶۸۱۳ میں نقل ہوا ہے۔
۲۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۸۱۳۔
إِنَّ كُلَيْبَ بْنَ شهابٍ قَالَ:۱ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ: فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: أَأَنْتَ الْقَائِلُ تُصَلِّي مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ؟ قَالَ: يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ إِنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنْ سَيُكَذِّبُونِي وَلَا يَمْنَعُنِي ذَالِكَ أَنْ أُحَدِّثَ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ: «أَنَّ الدَّجَّالَ يَخْرُجُ مِنَ الْمَشْرِقِ فِي حِينِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ فَيَبْلُغُ كُلَّ مَبْلَغٍ فِي أَرْبَعَينَ يَوْمًا فَيَأْزِلُ الْمُؤْمِنُونَ مِنْهُ أَزْلًا شَدِيدًا، وَتَأْخُذُ الْمُؤْمِنِينَ فِيهِ شِدَّةٌ شَدِيدَةٌ، فَينْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ فَيُصَلِّي بِهِمْ فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ أَهْلَكَ اللّٰهُ الدَّجَّالَ وَمَنْ مَعَهُ»، فَأَمَّا قَوْلِي إِنَّهُ حَقٌّ، قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَهُوَ الْحَقُّ، وَأَمَّا قَوْلِي: إِنِّي أَطْمَعُ أَنْ أُدْرِكَ ذَالِكَ فَلَعَلِّي أَنْ أُدْرِكَهُ عَلَى مَا يُرَى مِنْ بَيَاضِ شَعْرِي وَرِقَّةِ جِلْدِي وَقَدْحِ مَوْلِدِي فَيَرْحَمُنِي اللّٰهُ تَعَالَى فَأُدْرِكُهُ فَأُصَلِّي مَعَهُ، ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ فَأَخْبِرَهُمْ بِمَا أَخْبَرَكَ أَبُو هُرَيْرَةَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: أَيْنَ يَكُونَ ذَالِكَ؟ قَالَ: فَأَخَذَ حَصًى مِنْ مَسْجِدٍ، فَقَالَ: مِنْ هَاهُنَا وَأَعَادَ الرَّجُلُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: أَتُرِيدُ أَنْ أَقُولَ مِنْ مَسْجِدِ الْكُوفَةِ؟ هُوَ يَخْرُجُ مِنَ الْأَرْضِ قَبْلَ أَنْ تُبَدَّلَ، يَجْعَلُهُ اللّٰهُ حَيْثُ شَاءَ.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کلیب بن شہاب کہتے ہیں : میں کوفہ کی مسجد میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اُن کے پاس ایک شخص آیا اور اُن سے کہنے لگا: کیا یہ آپ کا کہنا ہے کہ آپ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے ساتھ نماز پڑھیں گے؟ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:عراق والو، مجھے معلوم تھا کہ (یہاں کے) لوگ مجھے جھٹلائیں گے، لیکن یہ چیز مجھے اُس بات کو بیان کرنے سے نہیں روک سکتی جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ اللہ کے صادق ومصدوق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بتایا ہے کہ دجال اُس زمانے میں، جب لوگ افتراق وانتشار کی حالت میں ہوں گے، مشرق کی طرف سے نمودار ہوگا۱۔پھر چالیس دن میں وہ ہر جگہ پہنچے گا اور مسلمان اُس سےبڑی مشکل اور تنگی میں پڑ جائیں گے اور اُس کے بارے میں مسلمان سخت مصیبت کی گرفت میں آجائیں گے۔ پھر عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے اور مسلمانوں کو نماز پڑھائیں گے۔ سو جب وہ رکوع سے اپنا سر اٹھائیں گےتو اللہ تعالیٰ دجال اور اُس کے ساتھیوں کو ہلاک کردے گا۲۔(ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ) جہاں تک میرا یہ کہنا ہے کہ یہ سچی خبر ہے تو وہ اِس لیے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو بر حق ہی ہوتا ہے۔ اور میرا جو یہ کہنا ہے کہ مجھے اُن کو پالینے، (یعنی اُن سےملاقات) کی توقع ہے تو شاید اِس بڑھاپے میں جب میرے بال سفید ہوچکے ہیں، جلد نرم ہوچکی ہے اور میں پیرانہ سالی کے عالم میں ہوں، اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم فرمائیں اور میں اُن کو پا لوں اور اُن کے ساتھ نماز پڑھوں۔تم واپس جا کر اپنے اہل خانہ کو (بھی) یہ خبر دو جو ابو ہریرہ نے تمھیں دی ہے۔ اُس شخص نے کہا: یہ کہاں ہوگا؟ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد سے کچھ کنکر اٹھائے اور کہا: یہاں سے ہوگا۔ اُس آدمی نے اپنا سوال پھر دہرایا تو اُنھوں نے جواب دیا: کیا تو چاہتا ہے کہ میں تجھ سے کہوں کہ(دجال) کوفہ کی مسجد سے نکلے گا؟ وہ وقوع قیامت سے پہلے زمین کے اُس خطے سے نمودار ہوگا، جہاں سے اُس کا ظہور اللہ کی مشیت ہوگی۳۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یعنی اصفہان سے، جس کا ذکر پیچھے بھی ہوچکا ہے۔
۲۔ یہاں اجمال ہے یا راوی سے بیان میں غلطی ہوئی ہے، اِس لیے کہ دوسری روایتوں میں صراحت ہے کہ دجال کو سیدنا مسیح قتل کریں گے۔
۳۔ اِس سے واضح ہے کہ اوپر ’مِنْ هَاهُنَا‘،یعنی ’یہاں سے ہوگا‘ کے الفاظ بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اُسی طرح غصے میں کہے ہیں ، جس طرح اِس سے پچھلے جملے میں ’مِنْ مَسْجِدِ الْكُوفَةِ ‘ فرمایا ہے۔
۱۔ اِس روایت کا متن مسند اسحاق بن راہویہ ، رقم ۲۶۲سے لیا گیا ہے، اور یہی اِس کا تنہا ماخذ ہے۔
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ يَعْقُوبَ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰهِ بْنَ عَمْرٍو، وَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ:۱ مَا هَذَا الْحَدِيثُ الَّذِي تُحَدِّثُ بِهِ؟ تَقُولُ: إِنَّ السَّاعَةَ تَقُومُ إِلَى كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللّٰهِ أَوْ لَا إِلٰهٰ إِلَّا اللّٰهُ - أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهُمَا - لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أُحَدِّثَ أَحَدًا شَيْئًا أَبَدًا، إِنَّمَا قُلْتُ: إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدَ قَلِيلٍ أَمْرًا عَظِيمًا، يُحَرَّقُ الْبَيْتُ، وَيَكُونُ وَيَكُونُ، ثُمَّ قَالَ [عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ عَمْرٍو:۲ ] قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي فَيَمْكُثُ [فِيهِمْ۳ ] أَرْبَعِينَ - لَا أَدْرِي: أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ أَرْبَعِينَ شَهْرًا، أَوْ أَرْبَعِينَ عَامًا - فَيَبْعَثُ اللّٰهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ كَأَنَّهُ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ [الثَّقَفِيُّ، فَيَظْهَرُ۴ ] فَيَطْلُبُهُ فَيُهْلِكُهُ، ثُمَّ يَمْكُثُ النَّاسُ سَبْعَ سِنِينَ،۵ لَيْسَ بَيْنَ اثْنَيْنِ عَدَاوَةٌ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللّٰهُ رِيحًا بَارِدَةً مِنْ قِبَلِ الشَّأْمِ، فَلَا يَبْقَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ أَوْ إِيمَانٍ إِلَّا قَبَضَتْهُ، حَتَّى لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ دَخَلَ فِي كَبِدِ جَبَلٍ لَدَخَلَتْهُ عَلَيْهِ، حَتَّى تَقْبِضَهُ» قَالَ: سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «فَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ فِي خِفَّةِ الطَّيْرِ وَأَحْلَامِ السِّبَاعِ، لَا يَعْرِفُونَ مَعْرُوفًا وَلَا يُنْكِرُونَ مُنْكَرًا، فَيَتَمَثَّلُ لَهُمُ الشَّيْطَانُ، فَيَقُولُ: أَلَا تَسْتَجِيبُونَ؟ فَيَقُولُونَ: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ فَيَأْمُرُهُمْ بِعِبَادَةِ الْأَوْثَانِ [فَيَعْبُدُونَهَا۶ ]، وَهُمْ فِي ذَالِكَ دَارٌّ رِزْقُهُمْ،۷ حَسَنٌ عَيْشُهُمْ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ، فَلَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا أَصْغَى لِيتًا وَرَفَعَ لِيتًا، قَالَ: وَأَوَّلُ مَنْ يَسْمَعُهُ رَجُلٌ يَلُوطُ حَوْضَ إِبِلِهِ، قَالَ: فَيَصْعَقُ، وَيَصْعَقُ النَّاسُ،۸ ثُمَّ يُرْسِلُ اللّٰهُ - أَوْ قَالَ يُنْزِلُ اللّٰهُ - مَطَرًا كَأَنَّهُ الطَّلُّ أَوِ الظِّلُّ، فَتَنْبُتُ مِنْهُ أَجْسَادُ النَّاسِ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى، فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ، ثُمَّ يُقَالُ: يَاأَيُّهَا النَّاسُ هَلُمُّوا إِلَى رَبِّكُمْ، وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ، قَالَ: ثُمَّ يُقَالُ: أَخْرِجُوا بَعْثَ النَّارِ، فَيُقَالُ: مِنْ كَمْ؟ فَيُقَالُ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَمِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، قَالَ فَذَاكَ يَوْمَ يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا، وَذَالِكَ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یعقوب بن عاصم ثقفی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: یہ کیا حدیث ہے جو آپ بیان کرتے ہیں کہ فلاں فلاں واقعہ رونما ہونے تک قیامت قائم ہو جائے گی؟ یہ سن کر ابن عمرو نے تسبیح یا تہلیل یا اِسی طرح کے کوئی کلمات کہے۔ (اور پھر کہا:)اب میں نے ارادہ کر لیا ہےکہ میں کسی کو کبھی کوئی بات بیان نہیں کروں گا۔ میں نے تو بس یہ کہا تھا کہ کچھ عرصے بعد تم لوگ بہت بڑے بڑے واقعات دیکھو گے۔بیت اللہ کو جلا دیا جا ئےگا اور فلاں اور فلاں واقعہ ہوگا۱۔پھر عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں دجال نمودار ہو گا اور وہ اِن میں چالیس دن یا فرمایا کہ چالیس مہینے یا پھر فرمایا تھا کہ چالیس سال رہے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ ابن مریم کو مبعوث فرمائیں گے، وہ دیکھنے میں گویا عروہ بن مسعود ثقفی کی طرح ہوں گے۔وہ جب نمودار ہوں گے تو دجال کا تعاقب کر کےاُس کو ہلاک کردیں گے۔اِس کے بعد لوگ سات سال تک اِس طرح رہیں گے کہ کہیں دو لوگوں کے مابین دشمنی تک نہ ہوگی۲۔ اِس کے بعد اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا چلائیں گے،جس سے روے زمین پر ایک آدمی بھی ایسا نہیں رہے گا، جس کے دل میں ذرہ برابر بھی بھلائی یا ایمان ہو گا، مگر یہ کہ وہ ہوا اُس کی روح قبض کرلے گی، یہاں تک کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی پہاڑ کے اندر بھی داخل ہوجائے گا تو یہ ہوا وہاں بھی داخل ہو کر اُس کی روح قبض کرلے گی۔ ابن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ باتیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں۔ (پھر)آپ نے فرمایا: اِس کے بعد ایسے بُرے انسان باقی رہ جائیں گےجو (برائی میں) پرندوں کی طرح ہلکے، (یعنی تیزی سے سبقت کرنے والے) ہوں گےاور درندوں جیسی (اندھی) عقل والے ہوں گے۔ وہ معروف کو اچھا جانیں گے، نہ منکر کو بُرا سمجھیں گے۔ پھر شیطان انسانی صورت میں اِن کے سامنے آکر کہے گا : کیا تم میری بات نہیں مانتے؟ وہ اُس سے پوچھیں گے:تو ہمیں کیا حکم دیتا ہے؟ وہ اُنھیں بتوں کو پوجنے کا حکم دے گا تو وہ اُن کو پوجنے لگیں گے۔اور اِس ساری صورت حال میں اُن کا رزق اُن کو وافر ملتا رہے گا، اور وہ پرعیش زندگی گزار رہے ہوں گے۔ پھر صور پھونکا جائے گا تو جو شخص بھی اُس کو سنے گا، وہ (زمین پر گرتے ہوئے اپنی) گردن کو ایک جانب جھکائے گا اور دوسری جانب (صور کی آواز سننے کے لیے) گردن کو اونچا کرے گا۔ آپ نے فرمایا: سب سے پہلا شخص جوصور کی آواز سنے گا، وہ اپنے اونٹوں کے حوض کی لپائی کر رہا ہوگا کہ (اُس کی آواز سنتے ہی) وہ شخص اور باقی تمام انسان بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے۔ پھر اللہ ایک ایسی بارش بھیجے گا یا فرمایا کہ بارش نازل کرے گا جو گویا پھوار کی طرح ہوگی یا فرمایا کہ سایے کی طرح ہوگی۔ پھر اِس بارش سے تمام انسانوں کے جسم (زمین سے) باہر نکل آئیں گے۔ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو دفعۃً وہ کھڑے ہو کر تاکنے لگیں گے۔ پھر کہا جائے گا: لوگو، اپنے پروردگارکی طرف چلو، اور (فرشتوں سے کہا جائے گا:)اِن کو ذرا روکو، اِن سے کچھ پوچھنا بھی ہے۔فرمایا کہ پھر حکم دیا جائے گا: آگ میں بھیجے جانے والوں کو( اِس ہجوم سے)باہرنکالو۔ پوچھا جائے گا:کتنوں میں سے (کتنے؟) حکم ہوگا: ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۳ ۔فرمایا کہ یہ وہ دن ہو گا جو بچوں کو بوڑھا کردے گا اور یہی وہ دن ہوگا جب بڑی ہلچل پڑے گی ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یہ غالبًااُن واقعات کی طرف اشارہ ہے ، جو عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور بنو امیہ کے درمیان اقتدار کی کش مکش کے نتیجے میں ہوئے۔
۲۔یہ اُس امن و امان کی تعبیر ہے، جو اِن غیر معمولی واقعات کے بعد کچھ عرصے کے لیے قائم ہوجائے گا۔
۳۔ یہ پہلے انتخاب کا بیان ہے جو استحقاق کی بنیاد پر اور حساب کتاب کے بعد ہوگا۔ اِس کا اشارہ’ اِن سے کچھ پوچھنا ہے‘ کے الفاظ میں ہوگیا ہے۔ پھر یہ بھی واضح رہے کہ اِس طرح کے مشاہدات میں اعداد محض تناسب کا تصور دلانے کے لیے ہوتے ہیں۔ اِنھیں بیانِ حقیقت نہیں سمجھنا چاہیے۔اِس کے بعد، ظاہر ہے کہ عفو ودرگذر کا مرحلہ ہے، جس کے واضح اشارات ’يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ‘ اور اِس مضمون کی دوسری آیات میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
۱۔ اس روایت کا متن صحیح مسلم، رقم ۲۹۴۰سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات کے مراجع یہ ہیں: مسند احمد، رقم۶۵۵۵۔ الاوائل، ابن ابی عاصم، رقم۱۲۸۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۱۵۶۵۔ صحیح ابن حبان، رقم ۷۳۵۳۔ الایمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۶۱۔ مستدرک حاکم، رقم۸۶۵۴۔ شعب الایمان ، بیہقی، رقم ۳۴۵۔
۲۔ مسند احمد، رقم۶۵۵۵۔
۳۔ نفس مصدر۔
۴۔ ایضًا۔
۵۔ السنن الکبریٰ ، نسائی، رقم ۱۱۵۶۵میں یہاں ’سَبْعَ سِنِينَ‘ کے بجاے ’تِسْعَ سِنِينَ‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۶۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم۱۱۵۶۵۔
۷۔ بعض طرق، مثلاً مسند احمد، رقم ۶۵۵۵ میں یہاں ’وَهُمْ فِي ذَالِكَ دَارَّةٌ أَرْزَاقُهُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
۸۔ بعض روایتوں، مثلاً صحیح ابن حبان، رقم ۷۳۵۳ میں یہاں ’ثُمَّ لَا يَبْقَى أَحَدٌ إِلَّا صَعِقَ‘ کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ