HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: صٓ ۳۸: ۱۷-۲۹ (۲)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

اِصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَيْدِ اِنَّهٗ٘ اَوَّابٌ ١٧ اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ ١٨ وَالطَّيْرَ مَحْشُوْرَةًﵧ كُلٌّ لَّهٗ٘ اَوَّابٌ ١٩ وَشَدَدْنَا مُلْكَهٗ وَاٰتَيْنٰهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ ٢٠

یہ جو کچھ کہتے ہیں، اُس پر صبر کرو، (اے پیغمبر)، اور بڑی قوت کے مالک، ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو۔[127] حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا۔[128]ہم نے اُس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا کہ صبح وشام اُس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور پرندوں کو بھی، جھنڈ کے جھنڈ [129]  ــــــ  سب اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ ہم نے اُس کی سلطنت مضبوط کر دی تھی، اُس کو حکمت عطا کی تھی اور نزاعات میں فیصلہ کن بات کہنے کی صلاحیت بخشی تھی۔ ۱۷- ۲۰

وَهَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ ٢١ اِذْ دَخَلُوْا عَلٰي دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوْا لَا تَخَفْ خَصْمٰنِ بَغٰي بَعْضُنَا عَلٰي بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَا٘ اِلٰي سَوَآءِ الصِّرَاطِ ٢٢

تمھیں اُن لوگوں کی خبر پہنچی ہے [130]جو مقدمہ لے کر آئے تھے؟ جب وہ دیوار پھاند کر اُس کی محراب[131]میں داخل ہو گئے،[132] اُس وقت جب وہ داؤد کے پاس پہنچ گئے تو وہ اُن سے ڈر گیا۔ اُنھوں نے فوراً کہا کہ آپ ڈریں نہیں، ہم دو فریق معاملہ ہیں، ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے، سو آپ ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیجیے اور کوئی بے انصافی نہ کیجیے اور ہمیں سیدھی راہ بتائیے۔[133]۲۱- ۲۲

اِنَّ هٰذَا٘ اَخِيْ لَهٗ تِسْعٌ وَّتِسْعُوْنَ نَعْجَةً وَّلِيَ نَعْجَةٌ وَّاحِدَةٌ فَقَالَ اَكْفِلْنِيْهَا وَعَزَّنِيْ فِي الْخِطَابِ ٢٣ قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰي نِعَاجِهٖ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْخُلَطَآءِ لَيَبْغِيْ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِيْلٌ مَّا هُمْ وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهٗ وَخَرَّ رَاكِعًا وَّاَنَابَ ٢٤ فَغَفَرْنَا لَهٗ ذٰلِكَﵧ وَاِنَّ لَهٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰي وَحُسْنَ مَاٰبٍ ٢٥

یہ میرا بھائی ہے۔ اِس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے۔[134]اب یہ کہتا ہے کہ وہ بھی میرے حوالے کردو اور اِس نے بحث میں مجھے دبا لیا ہے۔[135] داؤد نے کہا: اِس نے تمھاری دنبی کو اپنی دنبیوں میں ملانے کا مطالبہ کرکے یقیناً تم پر ظلم کیا ہے[136]اور واقعہ یہ ہے کہ معاملے کے اکثر شریک اِسی طرح ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں۔[137]اِس سے وہی بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور اچھے عمل کرتے ہیں اور ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں۔ اُس وقت داؤد کو خیال ہوا کہ یہ تو ہم نے اُس کا امتحان کیا ہے۔ چنانچہ اُس نے اپنے پروردگار سے معافی چاہی اور اُس کے حضور جھک کر سجدے میں گر گیا[138] اور (پورے دل سے اُس کی طرف) رجوع ہوا۔ تب اُس کی وہ خطا[139]ہم نے معاف کر دی اور اُس کے لیے یقیناً ہمارے پاس تقرب کا خاص مقام اور اچھا انجام ہے۔ ۲۳- ۲۵

يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰي فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۣ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِ ٢٦

اے داؤد، ہم نے تمھیں زمین میں حاکم بنایا ہے تو لوگوں کے درمیان (اِسی طرح) انصاف کے ساتھ فیصلے کیا کرو اور اپنی خواہش کے پیچھے نہ چلوکہ وہ تمھیں خدا کی راہ سے بھٹکا دے۔[140] جو لوگ خدا کی راہ سے بھٹکتے ہیں، اُن کے لیے یقیناً سخت سزا ہے، اِس لیے کہ اُنھوں نے روز حساب کو بھلا دیا۔۲۶

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِ ٢٧ اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ ٢٨ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْ٘ا اٰيٰتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ ٢٩

(لیکن یہ آکر رہے گا،[141]اِس لیے کہ)زمین و آسمان اوراُن کے درمیان کی چیزوں کو ہم نے عبث پیدا نہیں کیا ہے۔[142]یہ اُن لوگوں کا گمان ہے جو انکار پر اڑ گئے ہیں۔ سو اِن منکروں کے لیے جہنم کی ہلاکت ہے۔ کیا ہم اُن لوگوں کو جو ایمان لائے اور اُنھوں نے اچھے عمل کیے اُن جیسا کر دیں گے جو زمین میں فساد کرنے والے ہیں؟ یا خدا سے ڈرنے والوں کو اُس کے نافرمانوں جیسا کر دیں گے؟ (ہرگز نہیں، یہ قرآن اِسی حقیقت کی یاددہانی کرتا ہے)، یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے، (اے پیغمبر)، تمھاری طرف نازل کی ہے۔ اِس لیے کہ لوگ اِس کی آیتوں پر غور کریں اور اِس لیے کہ عقل والے اِس سے یاددہانی حاصل کریں۔۲۷- ۲۹

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[127]۔ اِس لیے کہ خود بھی اُس کے حلم و تحمل سے تسلی حاصل کرو اور اپنے مخاطبین کو بھی توجہ دلاؤ کہ اِن سے کہیں بڑھ کر قوت و شوکت اور دولت و حشمت کا مالک ہونے کے باوجود وہ کسی غرور و تکبر میں مبتلا نہیں ہوا تھا۔ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ داؤد علیہ السلام خدا کے پیغمبر بھی تھے اور بنی اسرائیل کے عظیم بادشاہ بھی۔ ہم سورۂ سبا (۳۴) کی تفسیر میں پیچھے بیان کر چکے ہیں کہ اُن کی سلطنت خلیج عقبہ سے دریاے فرات کے مغربی کناروں تک پھیلی ہوئی تھی جس پر وہ ۹۶۵ ق م تک حکومت کرتے رہے۔

[128]۔ یعنی زور و قوت نے اُس کے اندر رعونت پیدا نہیں کی تھی، بلکہ اُس کی خشیت و انابت کو اور بڑھا دیا تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... قرآن نے یہاں ’ذَا الْاَيْدِ‘ اور ’اَوَّاب‘ ،دونوں صفتوں کو ایک ساتھ ذکر کر کے یہ دکھایا ہے کہ کوئی صاحب قوت و حکومت شخص اللہ تعالیٰ کا منظور نظر بندہ اُس وقت بنتا ہے، جب قوت و شوکت کے ساتھ اُس کے اندر’اوابیت‘ کی صفت پائی جائے۔ اگر قوت و صولت اُس کے اندر ’عزت و شقاق‘ کی رعونت پیدا کردے تو یہ نمرودیت اور فرعونیت ہے جو اللہ کے نزدیک ملعون و مبغوض ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۵۲۲)

[129]۔ یعنی اپنے خاص لحن میں جب وہ زبور کے منظوم نغمے چھیڑتے تو دشت و جبل، چرند و پرند، سب اُن کے ہم نوا ہو کر اُن کے شریک بزم بن جاتے تھے۔ قرآن نے دوسرے مقامات میں تصریح فرمائی ہے کہ اِس کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے، لیکن انسان اُس کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ تاہم حضرت داؤد کا معاملہ یہ نہیں تھا۔ استاذ امام کے الفاظ میں، اللہ تعالیٰ نے جس طرح اُنھیں پہاڑوں کو موم کر دینے والا اور پرندوں کو جذب کر لینے والا سوز و لحن بخشا تھا، اُسی طرح اُن کو وہ گوش شنوا بھی عطا فرمایا تھا کہ وہ اُن کی تسبیح و مناجات کو سمجھ سکیں۔

[130]۔ یہ اسلوب خطاب واقعہ کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتا ہے اور اِس میں مخاطبین کے لیے فی الجملہ تشویق و ترغیب بھی ہے کہ وہ پوری توجہ کے ساتھ اُس کو سنیں۔

[131]۔ یعنی داؤد علیہ السلام کی خلوت گاہ میں ۔ شاہی محلات کی تعمیر میں محرابوں کی کثرت ہوتی تھی۔ اِسی سے یہ لفظ اُن کے کمروں، برآمدوں اور نشست گاہوں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا۔ اردو زبان میں بھی اِس کا یہ استعمال معروف ہے۔

[132]۔ اصل الفاظ ہیں:’اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ‘۔ اِن میں تضمین ہے، یعنی ’تَسَوَّرُوا الْجِدَارَ وَدَخَلُوا الْمِحْرَابَ‘۔

[133]۔ آگے جو مقدمہ پیش کیا گیا ہے، اُس سے واضح ہے کہ یہ کوئی حقیقی فریق مقدمہ نہیں تھے، بلکہ ایسے لوگ تھے جو تمثیل کے اسلوب میں خود حضرت داؤد کو اُن کی کسی غلطی پر متنبہ کرنے کے لیے اِس طریقے سے اُن کے محل میں داخل ہوئے تھے ۔ یہ اُن کے کوئی خیرخواہ بھی ہو سکتے ہیں اور خدا کے فرشتے بھی جو انسانی صورت میں آئے اور اُنھیں توجہ دلا کر چلے گئے۔ بائیبل سے پہلی بات کی تائید ہوتی ہے، لیکن غور کیجیے تو دوسری بات زیادہ قرین قیاس ہے۔ اِس لیے کہ رعایا کے کسی فرد یا افراد کا اِس طرح دیوار پھاند کر فرماں رواے وقت کی خلوت گاہ میں جا پہنچنا آسانی کے ساتھ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ تاہم اِس سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ داؤد علیہ السلام کیسے خداترس اور متحمل مزاج بادشاہ تھے کہ اُن کی اِس حرکت پر کچھ بھی کبیدہ خاطر نہیں ہوئے، بلکہ اپنی عدل پروری کے باعث فوراً اُن کا مقدمہ سننے کے لیے تیار ہو گئے، اِس کے باوجود کہ اُن کا اسلوب گفتگو بھی، جیسا کہ ’لاَ تُشْطِطْ‘ کے لفظ سے ظاہر ہے، کچھ ایسا شایستہ نہیں تھا۔

[134]۔ اُس زمانے کے تمدن میں لوگوں کی اصل دولت بھیڑوں اور دنبیوں کے ریوڑ ہی ہوتے تھے۔ چنانچہ تمثیل میں اُنھی کا ذکر کیا گیا ہے۔

[135]۔ یعنی چونکہ دولت مند ہے اور میں ایک غریب آدمی ہوں، گردوپیش کے لوگ اِسی کی حمایت کر رہے ہیں، اِس لیے دب کر رہ گیا ہوں، بحث و جدال میں اِس سے جیتنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔

[136]۔ اصل الفاظ ہیں:’لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰي نِعَاجِهٖ‘۔اِن میں لفظ ’سُؤَال‘ مطالبے کے مفہوم میں ہے۔ اِس مفہوم کے لیے عربی زبان میں اِس کا استعمال معروف ہے۔ اِس کے بعد ’اِلٰي‘ کا صلہ ہے۔ یہ اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ لفظ یہاں ’ضَمّ‘ یا ’خَلْط‘ کے مفہوم پر متضمن ہے۔

[137]۔ یعنی اپنے ننانوے کو سو بنانے کی فکر میں اِسی طرح ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں۔

[138]۔ اصل الفاظ ہیں:’خَرَّ رَاكِعًا‘۔ لفظ ’خَرَّ‘ دلیل ہے کہ وہ صرف جھکے ہی نہیں، اِس کے ساتھ اُنھوں نے سجدہ بھی کیا۔

[139]۔ یہ خطا کیا تھی؟ قرآن نے اِس کی تصریح نہیں کی، لہٰذا ہمیں بھی اُس کو جاننے کے درپے نہیں ہونا چاہیے۔ اُن کے سامنے مقدمہ جس تمثیل کی صورت میں رکھا گیا ہے، اُس کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ بادشاہ کی حیثیت سے کسی شخصی یا اجتماعی ضرورت کے لیے کسی دوسرے کی ملکیت سے تعرض کرنے کی کوئی خواہش غالباً اُن کے دل میں پیدا ہوئی یا اُن کی طرف سے اُس کا اظہار ہوا اور اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کی یہ صورت پیدا کر دی۔

[140]۔ یہی ہدایت، ظاہر ہے کہ دنیا کے تمام حکمرانوں کے لیے بھی ہے۔

[141]۔ یعنی روز حساب۔

[142]۔ یہ دلیل بیان فرمائی ہے کہ اگر حساب کا دن نہ آئے تو اِس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ یہ دنیا ایک باطل کارخانہ ہے، اِس میں کوئی حکمت اور کوئی مقصد نہیں ہے اور اِس کا خالق ایک کھلنڈرا ہے جس نے اپنا دل بہلانے کے لیے یہ دنیا بنا دی ہے جس میں حق و باطل اور خیر و شر میں سرے سے کوئی امتیاز ہی نہیں ہے۔ اِس طرح کی بات، ظاہر ہے کہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو فیصلہ کر بیٹھے ہوں کہ ہر چیز کو مان لیں گے، لیکن آخرت کو کسی حال میں نہیں مانیں گے، اگرچہ اُس کے دلائل کیسے ہی ناقابل تردید ہوں۔

B