HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

قرآن: کتاب معرفت

قرآن مجید کے ساتھ تعلق کیا ہو؟اس پر بہت کچھ لکھا اور بولا گیا ہے۔عام طور پر قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ناظرہ [*]پڑھنے پر سمجھایا جاتا ہے کہ قرآن پڑھنے کا اس سےحق ادا نہیں ہوتا۔ اگرچہ ایسے علما بھی ہیں جو ناظرہ تلاوت ہی کو مرجح قرار دیتے ہیں،اس لیے کہ ان کے نزدیک عام آدمی اگر ترجمے کے ساتھ قرآن پڑھے گا تو اپنی کم علمی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہو گا اور فتنے میں بھی پڑ سکتا ہے، حالاں کہ عام آدمی بالعموم اپنے حدود سے آشنا ہوتا ہے اور جہاں اسے کوئی سوال پیدا ہوتا ہے، وہ علما ہی سے رجوع کرتا ہے اور یہی صائب رویہ ہے۔ البتہ جو کسی زعم میں مبتلا ہو، اس کو ضرور تلقین کرنی چاہیے کہ ’ایاز قدرِ خود بشناس‘۔ لیکن ان معدودے چند لوگوں کی وجہ سے بڑی اکثریت کو قرآن کے مطالب سے دور رکھنا کسی طرح موزوں نہیں۔ قرآن مجید کو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھنا ہی اولیٰ ہے۔ لیکن یہ احتیاط کرنی چاہیے کہ جو لوگ کسی معذوری کے باعث صرف ناظرہ تلاوت ہی کر سکتے ہیں، وہ ہمارے اس اصرار کے نتیجے میں کہ قرآن صرف سمجھ کر ہی پڑھنا چاہیے قرآن کے ساتھ تعلق کی کم از کم دست یاب صورت ہی سے محروم ہو جائیں، اس لیے کہ اس تعلق کے بھی کچھ ثمرات ہیں۔ لیکن جو لوگ ناظرہ پڑھنے سے آگے بڑھنے کی اہلیت رکھتے ہیں، وہ اپنی محرومی کو سمجھیں اور فہم قرآن کی جو صورت ممکن ہے، اسے اختیار کریں اور اپنی اہلیت کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کریں۔

کم از کم ابتدا یہاں سے ہونی چاہیے کہ کسی درس قرآن کی مجلس میں شرکت کو زندگی کا لازمی حصہ بنائیں۔ مدرس کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اس شخص کا جید عالم ہونا ضروری ہے۔ معاشرے میں بالعموم یہ واضح ہی ہوتا ہے کہ کون کون سے علما بڑے اصحاب علم ہیں۔ اگرچہ عام آدمی خود صحیح اور غلط کا حکم لگانے کی قابلیت نہیں رکھتا، لیکن اگر وہ جائز تنقید کے لیے اپنے دل و دماغ کو کھلا رکھے تو اللہ کی توفیق اسے حاصل ہوگی اور اسے راہ حق تک پہنچنے میں مدد کی جائے گی۔ یہاں یہ نکتہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ صحیح رخ پر سعی و جہد انسان کے شعوری قویٰ کو بہتر بناتی اور اسے اس ذوق و شوق سے آراستہ کر دیتی ہے جو راہ ہدایت کا زاد راہ ہے۔

اگر ممکن ہو تو خود قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر کے ساتھ مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔ عربی زبان سیکھنے کا موقع ہو تو اتنی عربی ضرور سیکھ لینی چاہیے کہ سادہ ترجمے کی اہلیت پیدا ہو جائے۔ لیکن ہر قابلیت اس بات کا امتحان ہے کہ اسے اپنے حدود میں رہ کر استعمال کیا جائے۔ کوئی عالم دین ہو یا غیر عالم دین اصل مقصود خدا کی رضا کا حصول ہے، اللہ تعالیٰ کے منشا کو جاننا ہے۔ ’مخلص له الدین‘ بننا ہے، نہ کہ دین سازی کے فتنے میں مبتلا ہونا۔

 قرآن ہمارا ایمان ہے کہ مالک کائنات کی طرف سے بھیجی گئی ہدایت ہے۔ لیکن یہ کسی ہدایت نامے کے طرز پر نہیں لکھی گئی ہے کہ ابواب قائم کرکے زندگی کے دائروں سے متعلق احکام او ر ہدایات درج کر دی جائیں۔ استاذ گرامی نے اس کے لیے سرگذشت انذار کی ترکیب چنی ہے، یعنی ایک دعوت کے برپا ہونے اور اس کے اپنے اہداف تک پہنچنے کے احوال منزل بہ منزل۔

اس طرز بیان نے اس کتاب کو مرقع عجائب بنا دیا ہے۔ اپنے بھیجنے والے کا تعارف: اس کی صفات ، اس کے فیصلے، اس کی حکمت عملی، اس کے اہداف اور اس کی عدالت کے اصول، غرض اس کی معرفت کے متعدد پہلو اس کے ذریعے سے جانے جا سکتے ہیں۔

اس کا انسانوں کے لیے پسند کردہ دین، یعنی اسلام : اس کے عقائد اور ان کا استدلال، اس کی شریعت اور اس کے اہداف،اس کی اخلاقیات اور اس کے مطلوب معیار، اس کا تعمیر کردہ سماج اور اس کی اقدار، غرض شریعت اور منہاج کے تما م مباحث اس میں مل جائيں گے۔

مذہب ،اس کی بنیاد ، اس کے اہداف ، اس کے شعوری اور نفسیاتی اوضاع، اس کا سماجی کردار، دنیوی زندگی کے مختلف دائروں میں اس کی صوری اور معنوی تشکیلات، غرض ’مذہب کیا ہے‘ کے سوال کے جوابات اس میں مل جائیں گے۔

یہ زندگی کیا ہے ؟ اس کے حوالے سے کہاں کھڑا ہونا چاہیے؟ اس کے دنیوی اہداف اور اخروی اہداف کے مابین کیا تعلق ہے، ایک خدا کے بندے کا اس دنیا کے تعلق سے کیا لائحۂ عمل ہونا چاہیے؟ غرض زندگی کا ایک مکمل تصور اس میں مل جائے گا۔

پیغمبری کیا ہے؟ کار پیغمبری کیا ہے؟ اُن کی بعثت کیا معنی رکھتی ہے؟ اُن کو ماننا اور اُن کو نہ ماننا کس طرح کا عمل ہے؟ اُن کے آنے سے اس دنیا کے ساتھ اللہ کیا معاملہ کرتے ہیں؟ ان سب سوالات کے جوابات اس کتاب سے حاصل ہوتے ہیں۔

خیر کیا ہے اور شر کیا ہے؟ خیر کے لیے اللہ کا قانون کیا ہے اور شر کے ساتھ وہ کیا معاملہ کرتا ہے؟ رزم گاہ خیر وشر کے ان رازوں سے پردہ یہی کتاب اٹھاتی ہے۔

سماج ، تہذیب اور ثقافت کو اگر خیر پر استوار کرنا ہو تو اس کے عناصر کیا ہیں؟ فرد کی تعمیر اگر خدا کی مرضیات کے مطابق کرنی ہو تو اس کے نشانات منزل کیا ہیں ؟ان حقائق سے آگاہی کابے خطا ماخذ یہی کتاب ہے۔

بندہ اور خدا، اِن کا تعلق کیا ہے؟ یہ تعلق کن اساسات پر استوار ہوتا ہے؟ اس کی صورتیں کیا ہیں اور اس کی منزل کیا ہے؟ اس میں انسانوں نے کہاں کہاں خطا کھائی ہے؟ یہ باتیں جاننے کا اصل ذریعہ یہی کتاب ہے۔

ہم یا تو قرآن مجید کو عبادت کے طور پر پڑھتے ہیں کہ اس کی تلاوت سے ثواب ہوتا ہے یا اس سے دینی احکام جاننے کے لیے پڑھتے ہیں جو ہمارے دین پر عمل میں ہماری ضرورت ہے یا ہم اپنے کسی علمی یا عملی مسئلے کے جواب کی غرض سے قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں۔

یہ قرآن مجید سے تعلق کی صورتیں قرآن مجید سے کما حقہٗ استفادہ نہیں ہیں۔ بے شک، قرآن مجید کی تلاوت عبادت ہے۔ بے شک، یہ اللہ کے احکام کے جاننے کا ذریعہ ہے۔ بے شک، دین سے متعلق سوالات کے جواب جاننے کے لیے اس کی طرف رجوع ہونا چاہیے، لیکن یہ مالک کائنات کا کلام ہے۔ اسے آخری کتاب کی حیثیت سے اتارا گیا ہے۔ اب اسے ہی قیامت تک خدا کی طرف سے اتاری گئی ’’خدا کی کتاب ‘‘کی حیثیت حاصل ہے۔ لہٰذا یہ کتاب حق کی معرفت کی کتاب ہے۔ یہ اللہ کی معرفت کی کتاب ہے۔ یہ بندگی کی معرفت کی کتاب ہے۔اس کے ساتھ جاننے کا تعلق بھی بننا چاہیے ۔ اس کے ساتھ اس کو ماننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا تعلق بھی بننا چاہیے ۔ اور پھر یہ کہ یہ جاننا اور یہ ماننا اور یہ تعمیل ارشاد مجھے وہ بنادے جو میرا رب مجھے بنانا چاہتا ہے۔ میں بندگی کے تمام تقاضے پورے کردوں اور اس پر دل وجان سے راضی ہو جا‌ؤں۔ اور میرا رب بھی مجھ سے راضی ہو جائے۔ خدا کی کتاب کا میرا مطالعہ بندگی کے اس مقام کو جاننے ، ماننے اور اپنانے کے لیے ہونا چاہیے۔ اس باب میں خداے کائنات کی مرضیات کی واحد، صحیح ترین اور خالص ترین کتاب صرف اور صرف قرآن ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[*] ناظرہ: قرآن مجید کی تلاوت جس میں صرف عبارت پڑھ لی جاتی ہے، یعنی الفاظ کی بغیر سمجھے ادائیگی۔

B