[جناب جاوید احمد غامدی کی تحریروں، آڈیوز اور ویڈیوز سے اخذ و استفادہ پر مبنی مختصر سوال و جواب]
سوال: روزہ کیا ہے اور اس کا معنی و مفہوم کیا ہے؟
جواب: روزہ ہماری دینی عبادات میں بڑی غیر معمولی اہمیت کی حامل عبادت ہے۔ رمضان میں ہم روزے رکھتے ہیں اور عام دنوں میں بھی نفل روزے رکھے جاتے ہیں۔ ہمارے مذہب ہی میں نہیں، بلکہ دنیا کے تمام مذاہب میں روزے کو یہ حیثیت حاصل رہی ہے کہ تزکیۂ نفس کے لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تقرب حاصل کرنے کے لیے یہ عبادت کی جائے۔
عربی زبان میں اس کے لیے ’صوم‘ کا لفظ آتا ہے، جس کے معنی کسی چیز سے رک جانے ، اس کو ترک کردینے اور اس سے اجتناب کرنے کے ہیں۔ گھوڑوں کو تربیت دینے کے لیے جب بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا تھا تواہل عرب اسے ان کے ’صوم‘ سے تعبیر کرتے تھے۔ شریعت کی اصطلاح میں یہ لفظ خاص حدود وقیود کے ساتھ کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رک جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو زبان میں اسی کو ’روزہ‘ کہتے ہیں۔ انسان چونکہ اس دنیا میں اپنا ایک عملی وجود بھی رکھتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کے لیے اس کا جذبۂ عبادت جب اس کے اس عملی وجود سے متعلق ہوتا ہے تو پرستش کے ساتھ اطاعت کو بھی شامل ہوجاتا ہے۔ روزہ اسی اطاعت کا علامتی اظہارہے۔ اس میں بندہ اپنے پروردگار کے حکم پراور اس کی رضا اور خوشنودی کی طلب میں بعض جائز چیزوں کو اپنے لیے حرام قرار دے کر مجسم اطاعت بن جاتا او راس طرح گویا زبان حال سے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حکم سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔وہ اگر قانون فطرت کی رو سے جائز کسی شے کو بھی اس کے لیے ممنوع ٹھیرا دیتا ہے تو بندے کی حیثیت سے زیبا یہی ہے کہ وہ بے چون وچرا اِس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے(میزان۳۵۶)۔
سوال: روزے کی تاریخ اور مقصد کیا ہے؟
جواب: جس چیز کو ہم ’روزہ‘ کہتے ہیں، قرآن مجید کے نزول سے پہلے بھی یہ لفظ اس کے لیے استعمال ہوتا تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ جس طرح روزہ ہم پر فرض کیا گیا ہے، اسی طرح پہلی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۸۳)
’’ ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ ۔‘‘
بنی اسمٰعیل عرب میں سیدنا ابراہم علیہ السلام کی اولاد تھے، وہ بھی روزے کی عبادت سے پوری طرح واقف تھے۔ یہود و نصاریٰ بھی جانتے تھے کہ روزہ کیا ہے۔ انبیا علیہم السلام کے تمام ادیان میں روزے کو یہ حیثیت حاصل رہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرتا ہے اور اس کو ایک عبادت سمجھ کر انجام دیتا ہے۔ چنانچہ روزے کے بارے میں یہ باتیں بالکل تسلیم شدہ باتیں ہیں جس میں ہم مسلمان کوئی زائد بات نہیں کہتے۔ ہندو، عیسائی اور یہود بھی ’روزے‘ کا لفظ اسی مفہوم میں استعمال کرتے ہیں۔ ’روزہ‘ اگرچہ ہماری زبان کا لفظ ہے اور دوسری زبانوں میں ا س کے لیے دوسرے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن جو اس کا مدعا یا مصداق ذہنوں میں آتا ہے، وہ وہی ہے جس کو ہم ’روزہ‘ کہتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تربیت نفس کی ایک اہم عبادت کے طور پر اس کا تصور تمام مذاہب میں رہا ہے۔
روزہ قرآن کے مخاطبین کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ وہ اس کی مذہبی حیثیت اور اس کے حدودو شرائط سے پوری طرح واقف تھے۔ چنانچہ قرآن نے جب اس کا حکم دیا تو ان حدود و شرائط میں سے کوئی چیزبھی بیان نہیں کی، بلکہ ہدایت فرمائی کہ خدا کے ایک قدیم حکم اور انبیا علیہم السلام کی ایک قدیم سنت کے طور پر وہ جس طرح اسے جانتے ہیں، اسی طرح ایک لازمی عبادت کے طور پر اس کا اہتمام کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اسی کے مطابق روزہ رکھا اور مسلمان نسل در نسل اب اسی طریقے کی پیروی کر رہے ہیں۔ اس لحاظ سے روزے کا ماخذ بھی اصلاً مسلمانوں کا اجماع اوران کا عملی تواتر ہی ہے۔ قرآن نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ اسے فرض قرار دیا، مریضوں اور مسافروں کے لیے اس سے رخصت کاقانون بیان فرمایا اوربعد میں جب بعض سوالات اس سے متعلق پیدا ہوئے تو ان کی وضاحت کردی ہے۔
سوال: روزے کا قانون اور احکام کیا ہیں ؟
جواب: انبیا علیہم السلام کے دین میں روزے کا جو قانون ہمیشہ سے رہا ہے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اسی کے مطابق روزہ رکھنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ. اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ. شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ٘ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًي لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰي وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا هَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ. وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ. اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰي نِسَآئِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْـٰٔنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰي يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَي الَّيْلِ وَلَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ فِي الْمَسٰجِدِ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ. (البقرہ۲: ۱۸۳- ۱۸۷)
’’ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ۔ یہ گنتی کے چند دن ہیں۔ اِس پر بھی جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کر لے۔ اور جو اِس کی طاقت رکھتے ہوں کہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں تو اُن پر ہر روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے۔ پھر جو شوق سے کوئی نیکی کرے تو یہ اُس کے لیے بہتر ہے، اور روزہ رکھ لو تو یہ تمھارے لیے اور بھی اچھا ہے، اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔رمضان کا مہینا ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، لوگوں کے لیے سراسر ہدایت بنا کراور نہایت واضح دلیلوں کی صورت میں جو (اپنی نوعیت کے لحاظ سے) رہنمائی بھی ہیں اور حق و باطل کا فیصلہ بھی۔ سو تم میں سے جو شخص اِس مہینے میں موجود ہو، اُسے چاہیے کہ اِس کے روزے رکھے۔ اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کر لے۔ (یہ رخصت اِس لیے دی گئی ہے کہ) اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ تمھارے ساتھ سختی کرے۔ اور (فدیے کی اجازت) اِس لیے (ختم کر دی گئی ہے) کہ تم روزوں کی تعداد پوری کرو، (اور جو خیرو برکت اُس میں چھپی ہوئی ہے، اُس سے محروم نہ رہو)۔ اور (اِس مقصدکے لیے رمضان کا مہینا) اِس لیے (خاص کیا گیا ہے) کہ (قرآن کی صورت میں) اللہ نے جو ہدایت تمھیں بخشی ہے، اُس پر اُس کی بڑائی کرو اور اِس لیے کہ تم اُس کے شکر گزار بنو۔ اور میرے (کسی حکم کے) بارے میں، (اے پیغمبر)، جب میرے بندے تم سے کوئی سوال کریں تو (اُن سے کہہ دو کہ اِس وقت) میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اُس کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا اُن کو چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں تاکہ وہ صحیح راہ پر رہیں۔ (تم پوچھنا چاہتے ہو تو لو ہم بتائے دیتے ہیں کہ) روزوں کی رات میں اپنی بیویوں کے پاس جانا تمھارے لیے جائز کیا گیا ہے۔ وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے لباس ہو۔ اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے تو اُس نے تم پر عنایت فرمائی اور تم سے درگذر کیا۔چنانچہ اب (بغیر کسی تردد کے) اپنی بیویوں کے پاس جاؤ اور (اِس کا ) جو ( نتیجہ) اللہ نے تمھارے لیے لکھ رکھا ہے، اُسے چاہو، اور کھاؤ پیو، یہاں تک کہ رات کی سیاہ دھاری سے فجر کی سفید دھاری تمھارے لیے بالکل نمایاں ہو جائے۔ پھر رات تک اپنا روزہ پورا کرو۔ اور ہاں، تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو رات کو بھی بیویوں کے پاس نہ جانا۔ یہ اللہ کی مقررکی ہوئی حدیں ہیں، سو اِن کے قریب نہ جاؤ۔ اللہ اِسی طرح اپنی آیتیں لوگوں کے لیے واضح کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔ ‘‘
قرآن کی اِس وضاحت کے بعد روزے اوراعتکاف کا جو قانون متعین ہو کر سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے:
روزے کی نیت سے اور محض اللہ کی خوشنودی کے لیے کھانے پینے اور بیویوں کے پاس جانے سے اجتناب ہی شریعت کی اصطلاح میں روزہ ہے۔ یہ پابندی فجر سے لے کر رات کے شروع ہونے تک ہے، لہٰذا روزے کی راتوں میں کھانا پینا اور بیویوں کے پاس جانا بالکل جائزہے۔ روزوں کے لیے رمضان کا مہینا خاص کیا گیا ہے، اس لیے جو شخص اس مہینے میں موجود ہو، اس پر فرض ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ بیماری یا سفر کی وجہ سے یا کسی اور مجبوری کے باعث آدمی اگر رمضان کے روزے پورے نہ کرسکے تو لازم ہے کہ دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر اس کی تلافی کرے اور یہ تعداد پوری کردے۔ حیض ونفاس کی حالت میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ تاہم اس طرح چھوڑے ہوئے روزے بھی بعد میں لازماً پورے کیے جائیں گے۔
روزے کا منتہاے کمال اعتکاف ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر کسی شخص کو اس کی توفیق دے تو اسے چاہیے کہ روزوں کے مہینے میں جتنے دنوں کے لیے ممکن ہو، دنیا سے الگ ہوکر اللہ کی عبادت کے لیے مسجد میں گوشہ نشین ہوجائے اور بغیر کسی ناگزیر انسانی ضرورت کے مسجد سے باہر نہ نکلے۔ آدمی اعتکاف کے لیے بیٹھا ہو تو روزے کی راتوں میں کھانے پینے پر تو کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن بیویوں کے پاس جانا اس کے لیے جائز نہیں رہتا۔ اعتکاف کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔ روزے کا یہ قانون مسلمانوں کے اجماع اورتواتر عملی سے ثابت ہے اورقرآن مجید نے بھی بڑی حد تک اِس کی تفصیل کردی ہے(میزان ۳۷۰)۔
سوال: ہم ماہ رمضان کے مبارک ایام کیسے گزاریں؟
جواب: رمضان کی حقیقت خود بھی سمجھیے اور اپنی اولاد کو بھی اس کےبارے میں بتائیے۔ کوئی چیز بھی انسان کے نفس پر اس وقت تک اثر انداز نہیں ہوتی جب تک اس کے شعور میں نہیں آ جاتی۔ رمضان کی حقیقت قرآن مجید نے اس طرح واضح کر دی ہے:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۸۳)
’’ ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ ۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس امتحان میں ڈالا ہے، اس میں خدا کے حوالے سے ایک پہلو یہ ہے کہ انسان خدا کی اطاعت کرے۔ خدا کہتا ہے کہ جھوٹ نہ بولو، بددیانتی نہ کرو، حق تلفی نہ کرو، کسی کی جان ، مال اور آبرو کے خلاف زیادتی نہ کرو، تو ہمیں اس سے اجتناب کرنا ہے۔ خواہشات کہتی ہیں کہ اگر کچھ سمیٹ سکتے ہو تو سمیٹ لو، کسی کا مال کھا سکتے ہو تو کھا لو اور کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہو تو پہنچا دو۔ کبھی انتقام کا جذبہ، کبھی خواہش کا جذبہ، کبھی اقتدار کی خواہش، یہ سب چیزیں جرائم اور گناہوں پر آمادہ کرتی ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے روکتے ہیں۔
اسلام اعلیٰ ترین اخلاق پر زندگی بسر کرنے کا نام ہے۔ اعلیٰ ترین اخلاق پر زندگی بسر کرنے کا کوئی ایک شعبہ نہیں ہے۔ آپ کو کاروبار میں، سیاست میں، معاشرت میں ، گھر میں، گھر سے باہر، ہر جگہ اعلیٰ ترین اخلاقی اصولوں پر زندگی بسر کرنی ہے۔ جب آپ ان اصولوں پر زندگی بسر کرتے ہیں تو اپنی خواہشات، رغبات اور چاہتوں کو حدود کا پابند کر دیتے ہیں۔ اسی کو ’تقویٰ ‘ کہتے ہیں، یعنی اپنے آپ کو بے لگام نہ چھوڑ دیا جائے، بلکہ اپنے اوپرنظم و ضبط (discipline) نافذ کیا جائے کہ تم جھوٹ نہیں بولو گے، دھوکا نہیں دو گے، اپنا نقصان برداشت کر لو گے ، مگر کسی کا مال نہیں کھاؤ گے اور کسی کی حق تلفی نہیں کرو گے۔
چنانچہ ہمارا مذہب چاہتا ہے کہ ہم یہی زندگی بسر کریں۔ اس کا ظہور ہماری زندگی کے ہر شعبے میں ہونا چاہیے۔ مذہب کا یہ پیغام ہے کہ آدمی گھر میں بیوی اور اولادکے ساتھ اور بیوی شوہر کے ساتھ معاملہ کر رہی ہو، وہ رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ معاملہ کر رہا ہو، آپ منڈی میں بیٹھے ہوں، کوئی دوا بنا رہے ہوں ، کوئی سودا بیچ رہے ہوں ، کہیں مال بھیج رہے ہوں ، کسی جگہ ملازمت کر رہے ہوں یا آپ سیاست و معیشت میں ہوں ، ہر جگہ اعلیٰ ترین اخلاقی اصولوں پر قائم رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ:
إِنَّمَا بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الأَخْلاَقِ.(السنن الکبریٰ، رقم ۲۱۳۰۱)
’’ میں صرف اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ میں اعلیٰ اخلاق کو ان کے کمال تک پہنچا دوں۔ ‘‘
اعلیٰ اخلاق کی زندگی کوئی آسان زندگی نہیں ہے۔ یہ زندگی ہمیں ہر جگہ بسر کرنی ہے۔ جب یہ زندگی بسر کرنی پڑے گی تو آپ کو حدود میں رہنا پڑے گا۔ اس کو عربی زبان میں ’تقویٰ‘ کہا جاتا ہے۔ اپنے آپ کو ان حدود میں رکھیے جو اخلاقی لحاظ سے آپ کو ایک اعلیٰ، توانا اور صحت مند انسان بنائے۔ روزہ اسی کی تربیت دیتا ہے۔ اس تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک انتہائی موثر طریقہ اختیار کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ دو تین جبلی تقاضوں پر پابندی لگا دی ہے۔ جبلی تقاضوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دو چار گھنٹوں میں اندر سے زور کرنا شروع کر دیتے ہیں؛ پیاس اور بھوک لگنا شروع ہو جائےگی۔ روزہ آپ کو یہ احساس دلاتا ہے کہ تم خدا کے بندے ہو اور تمھیں خدا کے حکم پر اپنے جبلی تقاضوں پر زور لگا کر پابندی عائد کر دینی ہے اور تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ آپ دیکھیے کہ جب چار پانچ گھنٹے رہ جاتے ہیں تو اس کے بعد وہ سب کچھ ہونا شروع ہو جاتا ہے جس میں انسان بے بسی کی کیفیت میں آ جاتا ہے؛ پیاس اور بھوک ستا رہی ہوتی ہے اور ایک ہی چیز اسے روک رہی ہوتی ہے کہ یہ میرے پروردگار کا حکم ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اطاعت کا یہ جذبہ ہے کہ میں خدا کی بات مانوں گا، اور خدا کی بات اعلیٰ اخلاق پر قائم رہنا ہے۔ اس بات ماننے کو عربی زبان میں ’اطاعت‘ کہتے ہیں۔ انسان مجسم اطاعت بن جاتا ہے۔
چنانچہ روزہ اس کی تربیت دیتا ہے۔ ہر سال یہ کم و بیش ۷۲۰ گھنٹے کے لیے ہمیں یہ سکھانے کے لیے آتا ہے کہ تم خدا کے بندے ہو اور کاروبار، معیشت ، معاشرت اور سیاست میں خدا جو کچھ کہہ رہا ہے، تمھیں ان اخلاقی اصولوں پر قائم رہنا ہے۔ یہ پیغام اپنے بچوں اور اپنے نفس کو دیجیے۔ اس کے بعد خود بہ خود روزے کی تیاری ہو گی، لیکن اگر رمضان کا مہینا منانے کا طریقہ اختیار کر لیا گیا ہے کہ گویا یہ بھی کوئی کھانے پینے اور افطار کی مجلسیں منعقد کرنے کا مہینا ہے تو پھر ظاہر ہے کہ بچے بھی یہی درس لیں گے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ