HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۲۹)

حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا

نسب

حضرت سودہ بنت زمعہ کے دادا کا نام قیس بن عبد شمس تھا۔ عبدو د بن نصر ان کے چوتھے اور عامر بن لؤی آٹھویں جد تھے ۔ قریش کا گوت بنو عامر، عامر بن لؤی کے نام سے منسوب ہے اور حضرت سودہ اسی نسبت سے عامر یہ کہلاتی ہیں۔ لؤی پر حضرت سودہ کا سلسلۂ نسب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرے سے جاملتا ہے۔ عامر کے بھائی کعب بن لؤی آپ کے آٹھویں جد تھے ۔ حضرت سودہ کی والدہ شموس بنت قیس انصار کے قبیلے بنو نجار سے تھیں اور مکہ بیاہی ہوئی تھیں۔ 

حضرت سودہ کا بیاہ حضرت سکران بن عمرو سے ہوا تھا جو قریش کے مشہور سردار سہیل بن عمرو کے بھائی تھے ۔ عبد شمس بن عبدود حضرت سکران کے دادا اور حضرت سودہ کے پر دادا تھے ۔ ام الاسود حضرت سودہ کی کنیت تھی۔ بھارتی نژاد امریکی ماہر قانون و اسلامی شریعہ Raj Bhala کا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے وقت حضرت سودہ کی عمر پچاس برس کے لگ بھگ تھی۔ اس حساب سے ان کا سن پیدایش قریباً ۵۷۵ء بنتا ہے (Islamic Law Understanding)۔ ان کی بہن حضرت ام کلثوم بنت زمعہ حضرت حویطب بن عبدالعزیٰ سے بیاہی ہوئی تھیں۔

بیعت ایمان

حضرت سودہ اپنے خاندان میں ایمان لانے والی پہلی خاتون تھیں ۔ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اسلام قبول کرنا اور اس کا اظہار کرنا جان جوکھوں میں ڈالنا تھا۔ ایمان لانے والے کے گھر والے ، خاندان اور سرداران مکہ مل کر اسے ظلم و تشدد کا نشانہ بناتے اور اسلام چھوڑنے پر مجبور کرتے ۔ ان مشکل حالات میں بھی حضرت سودہ بنت زمعہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی رہیں، بلکہ اپنے خاندان میں اسلام کی تبلیغ شروع کر دی۔ ان کی پر اثر تبلیغ سے ان کے شوہر حضرت سکران بن عمرو اور ان کے بھائی حضرت مالک بن زمعہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت ایمان کی۔ انھی کی دعوت پر بنو عامر کے حضرت عبداللہ بن سہیل، حضرت حاطب بن عمرو، حضرت سلیط بن عمرو، ان کی اہلیہ حضرت فاطمہ بنت علقمہ اور حضرت ابو سبرہ بن ابور ہم مسلمان ہوئے۔ حبشہ کی پہلی ہجرت کے وقت تک حضرت سودہ اور ان کے شوہر مکہ میں مقیم رہے۔

حبشہ کی ہجرت ثانیہ

ابن جوزی کی مرتبہ فہرست کے مطابق کل ایک سو آٹھ مہاجرین نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ بنو عامر بن لؤی کے گیارہ (ابن ہشام : آٹھ ) افراد کو شرف ہجرت حاصل ہوا۔ حضرت سودہ بنت زمعہ اور ان کے شوہر حضرت سکران نے ہجرت ثانیہ میں حبشہ کا رخ کیا۔ حضرت سودہ کے بھائی حضرت مالک بن زمعہ، ان کی اہلیہ حضرت عمرہ بنت سعدی اور بنو عامر کے حضرت ابو سبرہ بن ابور ہم، حضرت ام کلثوم بنت سہیل، حضرت عبداللہ بن مخرمہ، حضرت عبداللہ بن سہیل ، حضرت سلیط بن عمرو، حضرت سعد بن خولہ اور حضرت حاطب بن عمرو ان کے ہم سفر تھے۔

مکہ کو مراجعت

حضرت سودہ بنت زمعہ اور ان کے شوہر حضرت سکران بن عمرو ان تینتیس اصحاب میں شامل تھے جو مشرکین مکہ کے اسلام کی افواہ سن کر حبشہ سے جلد لوٹ آئے اور مکہ میں داخل ہو گئے ۔ حضرت عثمان بن عفان، ان کی اہلیہ حضرت رقیہ بنت رسول اللہ ، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کے علاوہ بنو عامر بن لؤی سے تعلق رکھنے والے حضرت عبداللہ بن مخرمہ، حضرت عبداللہ بن سہیل، حضرت ابو سبرہ بن ابور ہم، ان کی اہلیہ حضرت ام کلثوم بنت سہیل اور بنو عامر کے حلیف حضرت سعد بن خولہ بھی مکہ لوٹ آئے۔ ان اصحاب نے مکہ ہی سے مدینہ ہجرت کی اور غزوہ بدر میں شریک ہوئے ، ماسواے حضرت سکران کے، جنھوں نے ہجرت مدینہ سے قبل مکہ میں وفات پائی اور حضرت عبداللہ بن سہیل کے جنھیں ان کے والد سہیل بن عمرو نے بیڑیوں سے جکڑ کر قید کر لیا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد

حبشہ سے مکہ لوٹنے کے کچھ ہی دیر کے بعد حضرت سکر ان کی وفات ہو گئی۔ طبری اور ابن اثیر نے بیان کیا ہے کہ حضرت سکران نے حبشہ میں مرتدیا نصرانی ہو کر وفات پائی۔ واقدی، ابن اسحٰق اور ابن سعد نے اس روایت کو قبول نہیں کیا۔ بلاذری بھی کہتے ہیں: یہ روایت درست نہیں۔

 ۱۰ / نبوی : سیدہ خدیجہ کی وفات کو تین سال گزرے تھے کہ حضرت عثمان بن مظعون کی اہلیہ حضرت خولہ بنت حکیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: یارسول اللہ ، میں دیکھ رہی ہوں کہ خدیجہ کے چلے جانے کے بعد آپ تنہا ہو گئے ہیں۔ فرمایا: ہاں، وہ بچوں کی ماں اور گھر کی مالکن تھیں ۔ حضرت خولہ نے عرض کیا: کیا میں آپ کو رشتہ نہ بتادوں ؟ جواب فرمایا: کیوں نہیں ، تم خواتین ہی اس کام کے لیے موزوں ہو۔ حضرت خولہ نے کہا: آپ چاہیں تو کنواری باکرہ سے اور چاہیں تو بیوہ سے رشتہ ہو سکتا ہے۔ پوچھا: کنواری کون ہے ؟ بتایا: خلق خدا میں آپ کے سب سے پیارے صاحب ابوبکر کی بیٹی عائشہ ۔ فرمایا : بیوه کون ؟ بتایا: سودہ بنت زمعہ، جو آپ پر ایمان لا چکی ہیں۔ آپ نے ان دونوں سے بات کرنے کی اجازت دے دی تو حضرت خولہ پہلے حضرت ابو بکر کے گھر گئیں اور میاں بیوی سے گفتگو کے بعد حضرت عائشہ سے نکاح ہو گیا، البتہ رخصتی ہجرت کے بعد مدینہ میں ہوئی۔

حضرت خولہ نے اب حضرت سودہ بنت زمعہ کے گھر کارخ کیا اور ان سے کہا: اللہ نے تم پر کیا خیر و برکت نازل فرمائی ہے ۔ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھارا ہاتھ مانگنے کے لیے بھیجا ہے ۔ حضرت سودہ نے کہا: میں تو راضی ہوں، لیکن میرے والد سے بات کریں۔ حضرت خولہ نے ان سے بات کی تو وہ بولے: معزز ، خاندانی اور ہم کفورشتہ ہے، تمھاری سہیلی کیا کہتی ہے ؟ جواب دیا: اسے یہ نسبت پسند ہے۔ والد نے پھر بھی حضرت سودہ کو بلا کر پوچھنا ضروری سمجھا۔ ان کی ہاں کے بعد رمضان ۱۰ / نبوی میں انھوں نے خود حضرت سودہ کا آپ سے نکاح کر دیا (احمد، رقم ۲۵۷۶۹۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۳۷۴۸۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۴۱۱۸)۔

دوسری روایت ذرا مختلف ہے : سیدہ سودہ کی عدت ختم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پیام نکاح بھیجا۔ انھوں نے جواب دیا: میرا معاملہ آپ کی صواب دید پر منحصر ہے۔ آپ نے فرمایا: اپنی شادی کے لیے اپنی قوم کے کسی شخص کو کہو، چنانچہ انھوں نے یہ ذمہ داری اپنے دیور حضرت حاطب بن عمرو کو سونپی ( ابن سعد ) ۔ ابن ہشام نے والیِ نکاح کے طور پر حضرت سلیط بن عمرو اور حضرت حاطب بن عمرو کے نام لیے، پھر خود ہی بتایا کہ ابن اسحٰق کہتے ہیں: حضرت سلیط اور حضرت حاطب، دونوں بھائی اس وقت سرزمین حبشہ میں تھے۔ بلاذری سیدہ سودہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے والیِ نکاح حضرت حاطب بن عمر و تھے، پھر شاذ روایت کے طور پر وہ زمعہ بن قیس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت سودہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح حضرت عائشہ سے پہلے ہوا۔ نکاح سے پہلے حضرت سودہ نے خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی گردن کے قریب آتے دیکھا، دوسری بار انھیں لگا کہ چاند ان پر آگرا ہے۔ ان کے شوہر حضرت سکران نے تعبیر کی کہ میں جلد مر جاؤں گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں بیاہ لیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ حضرت سکران نے علیل ہو کر جلد وفات پائی۔ ابن کثیر کہتے ہیں: درست بات یہی ہے کہ حضرت عائشہ کا آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح پہلے ہوا، البتہ حضرت سودہ کی رخصتی ان سے پہلے مکہ میں ہوگئی۔ حضرت سکران بن عمرو سے حضرت سودہ کے ایک ہی بیٹے عبداللہ ہوئے۔

Encyclopedia of Islam (Brill online 2012) کے مطابق ان کا ایک اور بیٹا عبد الرحمٰن ہوا جو جنگ جلولا میں شہید ہوا۔

ابن ہشام کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ کو مہر میں چار سو درہم ادا کیے، تاہم ایک شاذروایت یہ بھی ہے کہ آپ نے ایک بیوی سے ملنے والا گھر انھیں مہر میں دیا (مصنف ابن ابی شیبہ ، رقم ۱۶۶۳۸) ۔ ظاہر ہے کہ حضرت سودہ سے نکاح سے پہلے حضرت خدیجہ ہی آپ کی زوجیت میں رہی تھیں۔ حضرت عائشہ کی رخصتی سے پہلے تنہا حضرت سودہ نے چار برس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزارے۔

ترتیب ازدواج

ابن اسحٰق کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اس ترتیب سے آپ کے عقد میں آئیں : حضرت خدیجہ بنت خویلد، حضرت سودہ بنت زمعہ، حضرت عائشہ بنت ابوبکر ، حضرت حفصہ بنت عمر، حضرت زینب بنت خزیمہ ، حضرت ام حبیبہ بنت ابوسفیان، حضرت ام سلمہ بنت ابوامیہ ، حضرت زینب بنت جحش، حضرت جویریہ بنت حارث، حضرت صفیہ بنت حیی، حضرت میمونہ بنت حارث۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ ترتیب زہری کی بیان کردہ ترتیب سے بہتر اور اقرب الی الصواب ہے۔ زہری کی ترتیب اس طرح ہے: حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت سوده، حضرت ام حبیبہ، حضرت ام سلمہ ، حضرت زینب بنت خزیمہ، حضرت جویریہ بنت حارث، حضرت صفیہ بنت حیی اور حضرت ماریہ قبطیہ ۔ اس ترتیب میں حضرت سودہ کا نکاح مدینہ میں چوتھے نمبر میں بتایا جانا درست نہیں۔

حضرت عائشہ ، حضرت حفصہ، حضرت سودہ، حضرت ام حبیبہ اور حضرت ام سلمہ قریش سے تعلق رکھتی تھیں۔

سوده قرشیہ

حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی ایک بیوہ سودہ کو نکاح کا پیغام بھیجا، جن کے پانچ یا چھ بچے تھے۔ ان کے منع کرنے پر استفسار فرمایا: مجھ سے شادی میں کیار کاوٹ ہے ؟ انھوں نے کہا: آپ مخلوق خدا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں، لیکن آپ کے اکرام کے منافی سمجھتی ہوں کہ یہ بچے دن رات آپ کے سر پر سوار رہیں ۔ آپ نے دوبارہ پوچھا: اس کے علاوہ تو کوئی مانع نہیں ؟ جب انھوں نے کہا: نہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ آپ پر رحم کرے ، اونٹوں کی پشت پر سوار ہونے والی، قریش کی نیک عورتیں بہترین ہیں جو اپنے بچوں کے بچپن میں شفقت سے پر ہوتی ہیں اور اپنے خاوندوں کے مال و دولت کی خوب حفاظت کرتی ہیں (احمد، رقم ۲۹۲۳ ۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۲۸۳۹۔ مسند ابو یعلیٰ، رقم ۲۶۸۷)۔ اس روایت میں جن سودہ کا ذکر ہے، وہ حضرت سودہ بنت زمعہ نہیں ، ابن حجر نے انھیں سودہ قرشیہ کا نام دیا ہے، جب کہ ان کے پیش رووں ابن عبدالبر اور ابن اثیر نے ان کا نام صحابیات کی فہرست میں شامل نہیں کیا۔ حضرت ابو ہریرہ کی روایت میں یہی مضمون بیان ہوا، لیکن پیغام نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی چچا زاد حضرت ام ہانی کو دینے کا ذکر ہے اور ان کا یہی جواب نقل ہوا ہے (مسلم، رقم ۶۵۴۹)۔ حضرت ابوہریرہ کی دوسری روایت پیغام نکاح کے ذکر سے خالی ہے اور محض خواتین قریش کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پرمشتمل ہے (بخاری ، رقم ۵۳۶۵) ۔ ابن حجران روایات کی تطبیق کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہو سکتا ہے کہ سودہ سے مراد ام ہانی ہی ہوں اور فاختہ نام کے ساتھ سودہ ان کا لقب رہا ہویا ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی اور خاتون ہوں اور یہ ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ نہیں ہیں ( فتح الباری: شرح حدیث ۵۳۶۵)۔

مدینہ کو ہجرت

ذی الحجہ ۱۲؍ نبوی میں یثرب کے قبائل اوس و خزرج کے حج پر آئے ہوئے بارہ اہل ایمان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مسعود پر بیعت ایمان کی ۔ واپسی پر انھوں نے درخواست کی کہ قرآن پاک سکھانے کے لیے ہمارے ساتھ ایک قاری بھیجا جائے ۔ آپ نے حضرت مصعب بن عمیر کوان کے ساتھ روانہ فرمایا۔ یہ یثرب کی طرف جانے والے پہلے مہاجر تھے۔ پھر آپ نے خواب دیکھا کہ آپ مکہ سے ایک کھجوروں والی سرزمین کی طرف ہجرت فرما رہے ہیں۔ آپ نے سوچا : یہ یمامہ یا ہجر ہوں گے ، لیکن یہ یثرب نکلا (بخاری، رقم ۳۶۲۲۔ مسلم ، رقم ۵۹۹۷۔ ابن ماجہ ، رقم ۳۹۲۱۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۲۷۵۔ مسند بزار، رقم ۲۰۸۵) ۔ ۱۳؍ نبوی کے حج پر حضرت عمیر یثرب کے بہتر مسلمانوں کو اپنے ساتھ لائے۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر نصرت دین کی بیعت کی۔ اس بیعت عقبۂ ثانیہ کے بعد آپ نے قریش کے ستائے ہوئے مسلمانوں کو یثرب ( اب مدینہ ) ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ کفار کی رکاوٹوں کے باوجود ایک ایک کر کے یا ٹولیوں میں اکثر مسلمان مدینہ ہجرت کر گئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کی ازواج، بیٹیاں، حضرت ابوبکر، ان کا کنبہ ، حضرت علی اور چند ضعیف اہل ایمان مکہ میں رہ گئے ۔ ۲۶؍ صفر ( ۹؍ ستمبر ۶۲۲ء ) کی رات اللہ کے اذن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر کو ساتھ لے کر سفر ہجرت پر روانہ ہوئے۔


مدینہ تشریف لانے کے بعد آپ نے اپنے آزاد کردہ غلاموں حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابو رافع کو دو اونٹ اور پانسو درہم دے کر مکہ روانہ فرمایا۔

حضرت ابو بکر نے بھی اپنا کنبہ لانے کے لیے دو یاتین اونٹ بھیجے ۔ حضرت زید بن حارثہ نے مکہ کے قریب قدید پہنچ کر مزید تین اونٹ خریدے۔ دختران رسول حضرت فاطمہ، حضرت ام کلثوم ، ام المومنین سودہ، حضرت زید کی اہلیہ حضرت ام ایمن اور حضرت اسامہ بن زید نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابو رافع کی معیت میں سفر ہجرت کا آغاز کیا۔ حضرت ابوبکر کی اہلیہ حضرت ام رومان، ان کی بیٹیاں حضرت عائشہ اور حضرت اسماء حضرت عبداللہ بن ابوبکر کے ساتھ سوار ہوئیں۔ مدینہ پہنچے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی اور ازواج مطہرات کے حجرے بنوانے میں مصروف تھے ۔ حضرت ابوبکر کا خانوادہ ان کے پاس پہنچ گیا، ام المومنین حضرت سودہ اور دختران نبی آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئیں (مستدرک حاکم ، رقم ۶۱۷۶)۔

جنگ بدر

غزوۂ بدر میں ستر مشرک جہنم واصل ہوئے اور ستر ہی اہل ایمان کی قید میں آئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے خوب تیر اندازی کی۔ ان کا ایک تیر قریش کے سردار سہیل بن عمرو کے کولہے کے پٹھے نسا (sciatic nerve) پر لگا اور وہ گر گیا۔ حضرت مالک بن دخشم خزر جی نے اسے قابو کر لیا، لیکن وہ موقع پاکر بھاگ نکلا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اسے تلاش کرنے نکلے، کیکر کے درختوں میں چھپا پا کر آپ نے اس کے ہاتھ گردن سے بندھوا دیے۔ آپ کی اونٹنی پر لاد کر اسے مدینہ لایا گیا اور آپ کے حجرے میں بند کر دیا گیا۔ حضرت سودہ شہداے بدر حضرت عوف بن عفرا اور حضرت معوذ بن عفرا کے گھر تعزیت کے لیے گئی ہوئی تھیں۔ وہاں سے لوٹیں تو اپنے دیور سہیل بن عمرو کو گردن میں ہاتھ بندھے ہوئے حجرے کے کونے میں پڑا پایا۔ بے ساختہ ان کے منہ سے نکالا: ابو یزید (سہیل کی کنیت)، تم نے عورتوں کی طرح اپنے ہاتھ بندھوا لیے ، عزت کی موت کیوں نہ مر گئے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً سر زنش فرمائی: سوده ، کیا تم اللہ ورسول کے خلاف اکسار ہی ہو؟ انھوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا: یارسول اللہ ، ابو یزید کی حالت دیکھ کر بے قصد میرے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے ۔ آپ میرے لیے استغفار کر دیں، تب آپ نے ان کے حق میں دعا فرمائی (ابوداؤد، رقم ۲۶۸۰۔ مستدرک حاکم ، رقم ۴۳۰۵۔ السنن الکبریٰ، بیہقی ، رقم ۱۸۱۴۶) ۔ حضرت سودہ کے قبیلے بنو عامر بن لؤی کا مکرزبن حفص سہیل کو چھڑانے آیا تو اس کی یہ پیش کش قبول کر لی گئی کہ سہیل کو چھوڑ دیا جائے اور چار ہزار درہم کا فدیہ آنے تک سہیل کے بجاے اس کے پاؤں میں بیڑی ڈال دی جائے (احمد، رقم ۴۶۸۳۲)۔ حضرت سودہ کا بھائی عبد بن زمعہ بھی قیدیوں میں شامل تھا۔


طلاق، ارادۂ طلاق یا اندیشۂ طلاق


۵

ھ: آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ کو طلاق دے دی تھی یا صرف ارادہ فرمایا تھایا یہ محض حضرت سودہ کا اندیشہ تھا۔ ہم نے مختلف روایتوں کو جمع کر دیا ہے، اگر چہ سعودی عرب کے مفتی عبد العزیز بن باز اور مشہور محدث ناصر الدین البانی کے شاگرد محمد صالح المنجد ( پیدایش : ۱۹۶۱ء) نے قرار دیا ہے کہ یہ حضرت سودہ کا اندیشہ تھا یا وہ اپنی سوتن حضرت عائشہ کے لیے ایثار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا چاہتی تھیں۔ طلاق یا ارادۂ طلاق کی روایتیں درست نہیں۔ آپ نے بھی طلاق و افتراق کے بجاے صلح کو ترجیح دی ، اس لیے کہ ’وَالصُّلْحُ خَيْرٌ‘، ’’صلح بہتر ہے‘‘ (النساء ۴: ۱۲۸)۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں: سودہ بوڑھی ہو گئی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اتنی رغبت نہ رکھتے تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ آپ کا میلان میری طرف زیادہ ہے، اس لیے انھوں نے اس اندیشے سے کہ آپ ان کو چھوڑ نہ دیں، عرض کیا: یارسول اللہ ، میری باری کا دن عائشہ کو دے دیں۔ آپ اس پر راضی ہو گئے (الطبقات الکبریٰ، رقم ۴۱۱۹۔ السنن الکبریٰ، رقم ۱۴۷۳۶)، گویا یہ ان کا حفظ ما تقدم تھا۔

حضرت سودہ کو اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں طلاق دے دیں گے تو درخواست کی : مجھے طلاق نہ دیں، اپنے پاس رہنے دیں اور میری باری کا دن عائشہ کو دے دیں (ترمذی، رقم ۳۰۴۰۔ ابن ماجہ ، رقم ۱۹۷۲۔ السنن الکبریٰ، رقم ۱۴۷۳۶۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۵۱۳۲)۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم ازواج کی باری مقرر کرنے میں کسی کو ترجیح نہ دیتے تھے ۔ شاذ ہی ایسا دن ہو تا کہ آپ تمام ازواج کے پاس نہ جاتے، مگر قربت اس کی اختیار کرتے جس کی باری ہوتی اور وہیں ٹھیر جاتے ۔ سن رسیدہ ہونے کے بعد، آپ کی مفارقت سے بچنے کے لیے سودہ نے کہا: یارسول اللہ، میری باری عائشہ کو دے دیجیے ۔ آپ اس پر راضی ہو گئے (ابوداؤد، رقم ۲۱۳۵ ۔ السنن الکبریٰ، رقم ۱۳۴۳۴۔ مستدرک حاکم، رقم ۲۷۶۰۔المعجم الاوسط ، طبرانی ، رقم ۵۲۵۴)۔ البانی نے ابوداؤد کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے سودہ کے علاوہ کوئی عورت نہیں دیکھی کہ میرا اس کے طور طریقے اختیار کرنے کو دل چاہے (اصل الفاظ : میں اس کا قالب اختیار کر لوں)، مگر ان میں بھی تندی تھی۔ جب وہ بوڑھی ہوگئیں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی باری کا دن حضرت عائشہ کو دے دیا۔ چنانچہ آپ حضرت عائشہ کے ہاں دو دن قیام فرماتے، ایک دن ان کا اور ایک حضرت سودہ کا (مسلم، رقم ۳۶۱۹۔ احمد، رقم ۲۴۳۹۵۔ السنن الکبریٰ، بیہقی ، رقم ۱۳۴۳۳ ۔ صحیح ابن حبان، رقم ۴۲۱۱)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج کے مابین قرعہ اندازی فرماتے ۔ جن کے نام قرعہ نکلتا انھیں ہی اپنے ساتھ لے جاتے۔ آپ نے ہر زوجہ کے لیے ایک دن ایک رات کی باری مقرر کر رکھی تھی، سوائے حضرت سودہ کے، جنھوں نے (کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ) دن رات کی اپنی باری حضرت عائشہ کو ہبہ کر دی تھی۔ اس سے ان کا مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا حاصل کرنا تھا (بخاری، رقم ۲۵۹۳۔ ابوداؤد، رقم ۲۱۳۵۔ احمد ، رقم ۲۴۸۵۹۔ السنن الکبریٰ، رقم ۱۵۱۳۰) ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ کو چھوڑنے کا ارادہ کیا تو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو گواہ بنانے کے لیے بلایا۔ تب حضرت سودہ نے کہا: مجھے دنیا میں اس کے سوا کوئی رغبت نہیں کہ روز قیامت میرا حشر آپ کی ازواج کے ساتھ ہو اور مجھے بھی وہی اجر ملے جو ان کو ملے گا (المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۹۵۸۲)۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ کو ایک طلاق دے دی تو انھوں نے اپنے کپڑے سمیٹے اور آپ کے نماز کے لیے جانے والے راستے پر بیٹھ گئیں اور کہا: مجھے مردوں کی خواہش نہیں رہی، لیکن میں چاہتی ہوں کہ روز قیامت مجھے آپ کی ازواج کے ساتھ اٹھائے ۔ آپ نے ان کی درخواست مان کر رجوع کر لیا اور ان کی باری کا دن حضرت عائشہ کو دے دیا (السنن الکبریٰ، بیہقی ، رقم۱۳۴۳۵)۔ اس حدیث کے ایک راوی احمد بن عبد الجبار عطار دی کو ضعیف قرار دیا گیا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ کو کنایۃً طلاق دی، آپ نے فرمایا: اپنی عدت شمار کرو۔ چنانچہ وہ ایک رات آپ کی راہ میں بیٹھ گئیں اور گزارش کی: یار سول اللہ، مجھے مردوں کی چاہت نہیں رہی۔ میں تو چاہتی ہوں کہ آپ کی ازواج کے ساتھ اٹھائی جاؤں اس لیے آپ رجوع فرمالیں ۔ آپ نے رجوع کر لیا (الطبقات الکبریٰ، رقم ۴۱۱۹) ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ کو طلاق کا پیغام بھیجا تو وہ حجرۂ عائشہ کی طرف جانے والے راستے پر بیٹھ گئیں۔ آپ کو دیکھا تو التجا کی میں آپ کو اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتی ہوں جس نے آپ پر اپنی کتاب نازل کی اور آپ کو مخلوق میں سے منتخب کر کے نبی بنایا، آپ نے مجھے کیوں طلاق دی ؟ کیا مجھ میں کوئی عیب ہے یاکسی رنجش کا آپ کو غصہ ہے ؟ آپ نے فرمایا: نہیں ۔ تب حضرت سودہ نے عرض کیا: میں بوڑھی ہوگئی ہوں اور مردوں کی خواہش نہیں رہی۔ میں چاہتی ہوں کہ روز قیامت آپ کی ازواج کے ساتھ میرا حشر ہو۔ آپ نے رجوع فرمالیا تو انھوں نے کہا: میں اپنی دن رات کی باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں عائشہ کو دیتی ہوں (الطبقات الکبریٰ، رقم ۴۱۱۹)۔


محمد صالح المنجد نے حضرت علی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث سناؤں تو ان معنوں کاگمان رکھو جو آپ کے منصب کے شایان شان ہوں، آپ کی بتائی ہوئی راہ ہدایت کے موافق ہوں اور آپ کے کامل تقویٰ سے مناسبت رکھتے ہوں (ابن ماجہ، رقم ۲۰)۔

فتح خیبر

۷ھ : حضرت سودہ نے جنگ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی۔ فتح کے بعد آپ نے خیبر سے حاصل ہونے والے غلے اور پھل کا نصف ہر سال اسلامی حکومت کو دینے کا معاہدہ فرمایا۔ چنانچہ آپ اس میں سے حضرت سودہ اور تمام ازواج کو اسّی (۸۰) وسق کھجوریں (ایک وسق = ۶۰ صاع ، ایک صاع = ۴.۲ کلو۔ ایک وسق = ۲۵۲ کلو) اور بیس وسق جو (یا گندم) عطا کرتے۔ حضرت عمر نے اپنے عہد حکومت میں (یہودیوں کو جلا وطن کرنے کے بعد) خیبر کی سرزمین بانٹی تو ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ اراضی اور کنویں لے لیں یا پہلے کی طرح غلہ حاصل کرتی رہیں۔ حضرت سودہ اور کچھ ازواج نے وسق انتخاب کیے، جب کہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ نے اراضی اور پانی لینا پسند کیا ( بخاری، رقم ۲۳۲۸۔ احمد ، رقم ۲۳۷۴)۔

ازواج مطہرات کا باہمی تعلق

حضرت عائشہ مزید بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شب باشی اپنی ازواج میں تقسیم کرتے تھے اور اس میں عدل سے کام لیتے تھے۔ آپ فرماتے تھے: اے اللہ ، میری یہ تقسیم اس امر میں ہے جو میرے دائرۂ اختیار میں ہے ۔ محبت و میلان میں مجھے ملامت نہ کرنا جو تیرے اختیار میں ہے اور میرے بس سے باہر ہے (ترمذی، رقم ۱۱۴۰۔ نسائی، رقم ۳۳۹۵۔ ابن ماجہ ، رقم ۱۹۷۱۔ احمد ، رقم ۱۱۱۵۲۔ مستدرک حاکم ، رقم ۱۶۷۲)۔


ایک بار ازواج مطہرات نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ سے آملے گی ؟ فرمایا: تم میں سے سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی ۔ ازواج نے ایک چھڑی پکڑی اور اپنے اپنے ہاتھوں کی پیمایش کرنے لگیں۔ حضرت سودہ سب سے لمبے ہاتھوں والی نکلیں۔ حضرت زینب بنت جحش کا انتقال ہوا تو انھیں یہ فرمان نبوی سمجھ میں آیا کہ ہاتھ لمبے ہونے کا مطلب زیادہ صدقہ و خیرات کرنا ہے۔ حضرت زینب کو صدقہ و انفاق کرنا بہت پسند تھا (بخاری، رقم ۱۴۲۰۔ مسلم، رقم ۶۳۹۸۔ نسائی، رقم ۲۵۴۲۔ احمد، رقم ۲۴۸۹۹۔ مستدرک حاکم، رقم ۶۷۷۶) ۔ دوسری روایت کے مطابق سب سے پہلے حضرت سودہ نے انتقال کیا (صحیح ابن حبان، رقم ۳۳۱۵) اسے درست نہیں مانا گیا۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ازواج مطہرات دو گروپوں میں منقسم تھیں۔ ایک گروپ میں حضرت عائشہ ، حضرت حفصہ، حضرت صفیہ اور حضرت سودہ تھیں، دوسرے گروپ میں حضرت ام سلمہ ، حضرت میمونہ اور بقیہ ازواج شامل تھیں (بخاری ، رقم ۲۵۸۱)۔

حضرت حفصہ کی باندی حضرت خلیسہ (رزینہ ، طبرانی) بیان کرتی ہیں : ایک بار حضرت حفصہ حضرت عائشہ سے ملنے آئیں ، وہ باتوں میں مشغول تھیں کہ حضرت سودہ آتی دکھائی دیں۔ انھوں نے یمنی قمیص پہن رکھی تھی اور ان کی چادر پر گوشہ ہاے چشم کی جگہ ایلوا اور زعفران کے دو دائرے لگے ہوئے تھے ۔ حضرت حفصہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچانک آئیں گے تو اور یہ ہمارے بیچ چمکتی دمکتی ہوں گی، آج میں ان کی زیب و زینت خراب کر کے رہوں گی۔ حضرت عائشہ نے کہا: حفصہ، اللہ سے ڈرو، اللہ کا خوف کرو۔ اونچا سننے کی وجہ سے حضرت سودہ کو حضرت حفصہ کی سمجھ نہ آئی تو انھوں نے دوبارہ کہا: سودہ، کیا تمھیں پتا ہے کہ کانا دجال ظاہر ہو گیا ہے ۔ حضرت سودہ یہ سن کر گھبراگئیں اور پوچھا: میں کہاں چھپوں؟ حضرت حفصہ نے کہا: اس خیمے میں چلی جاؤ۔ کھجور کے پتوں اور ٹہنیوں سے بنے ہوئے اس خیمے میں لوگ ہانڈیاں پکاتے تھے اور اس میں جالے لگے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو دونوں اس قدر زور سے ہنس رہی تھیں کہ ان سے بات نہیں ہو پارہی تھی۔ آپ نے پوچھا: یہ ہنسی کس بات کی ہے ؟ انھوں نے خیمے کی طرف اشارہ کیا۔ آپ اندر داخل ہوئے تو حضرت سودہ کو کانپتے ہوئے پایا۔ پوچھا: تمھیں کیا ہوا ؟ انھوں نے سوال کیا: یا رسول اللہ ، کیا دجال نکل آیا ہے ؟ آپ نے جواب فرمایا: نہیں۔ تب آپ نے انھیں ہاتھ پکڑ کر نکالا اور ان کے کپڑوں سے مٹی اور جالا جھاڑا (المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۲۰۱۶۸۔ مسند ابو یعلی، رقم ۷۱۵۵)۔

حضرت حفصہ سے شکر رنجی

نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھا کر اپنی ازواج کے پاس جاتے تو کسی ایک سے قربت بھی اختیار کرتے ۔ ایک بار آپ حضرت حفصہ کے پاس گئے تو معمول سے زیادہ وقت ٹھیرے۔ اس پر حضرت عائشہ کو رشک آیا۔ انھوں نے کھوج لگایا تو پتا چلا کہ حضرت حفصہ کو ان کے قبیلے کی ایک خاتون نے شہد کا کپا تحفے میں دیا ہے اور انھوں نے اس میں سے ایک گھونٹ آپ کو بھی پلایا ہے۔ اس پر حضرت عائشہ نے ایک چال چلی، انھوں نے حضرت سودہ سے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمھارے قریب آئیں تو کہنا: کیا آپ نے مغافیر تناول کیا ہے ؟ آپ کہیں گے: نہیں، تو کہنا کہ مجھے آپ کے پاس سے یہ بوکیسی آرہی ہے ؟ آپ فرمائیں گے : مجھے حفصہ نے شہد پلایا ہے تو کہنا کہ شہد کی مکھی نے عرفط درخت چوسا ہو گا۔ مغافیر (گندہ بروزہ یا فیروزہ) وہ گوند ہے جو حجاز کے (ببول سے ملتے جلتے ) ایک کانٹے دار درخت عرفط سے نکلتا ہے اور اس میں کچھ بساند ہوتی ہے۔ شہد کی مکھیاں اس درخت پر بھی بیٹھتی ہیں۔

حضرت عائشہ نے حضرت صفیہ سے کہا: تم بھی یہی کچھ کہنا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت سودہ کے حجرے میں تشریف لائے تو انھوں نے یہ طے شدہ گفتگو کی، پھر حضرت عائشہ کے ہاں آئے تو انھوں نے بھی وہی مکالمے دہرائے۔ جب آپ حضرت صفیہ کے گھر گئے تو یہی باتیں آپ کو سننے کو ملیں۔ یہ سن کر آپ کو اچھانہ لگا، کیونکہ آپ ہمیشہ خیال رکھتے تھے کہ دہن مبارک یا کپڑوں سے بدبونہ آئے۔ فرمایا: میں نے مغافیر نہیں ، زینب کے ہاں شہد کھایا ہے ۔ قسم کھاتا ہوں کہ آئندہ کبھی نہیں کھاؤں گا، لیکن تم یہ بات کسی کو مت بتانا۔ اگلے روز آپ حضرت حفصہ کے ہاں گئے تو انھوں نے پوچھا: میں آپ کو شہد نہ دوں ؟ فرمایا: مجھے اس کی چنداں ضرورت نہیں ۔ حضرت سودہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روکنے میں کامیاب ہو گئے تو حضرت عائشہ نے انھیں چپ رہنے کو کہا۔ اس موقع پر وحی الٰہی نازل ہوئی: ’يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا٘ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ. قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَيْمَانِكُمْ وَاللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ ‘، ’’اے نبی ، آپ اپنی بیویوں کی خوشی چاہنے کے لیے اس شے کو حرام کیوں ٹھیراتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے، اللہ معاف کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے ۔ اللہ نے آپ کے لیے قسموں کی پابندی سے نکلنے کا کفارہ فرض کر دیا ہے، اللہ ہی آپ کا مولا ہے اور وہی جاننے والا، حکمت والا ہے‘‘ (التحریم ۶۶: ۱-  ۲ ۔ بخاری، رقم ۴۹۱۲، ۵۲۶۸۔ مسلم، رقم ۳۶۷۰۔ ابوداؤد، رقم ۳۷۱۴۔ نسائی، رقم ۳۴۵۰۔ احمد، رقم ۲۴۳۱۶۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۵۰۸۱۔ مسند ابو یعلیٰ، رقم ۴۸۹۳)۔

مخنث کو گھر میں نہ آنے دو

حضرت سعد بن ابی وقاص نے مکہ میں ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا اور کہا: کاش، کوئی ہو جس نے اسے دیکھا ہو اور مجھے اس کے بارے میں بتائے ۔ ہیت نامی ایک مخنث نے کہا: میں اس کے بارے میں بتاتا ہوں : جب وہ آگے کو چلتی جاتی ہے تو اس کے پیٹ پر چھ بل پڑتے ہیں اور واپس مڑتی ہے تو یہ بل چار ہو جاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پاس سن رہے تھے ، فرمایا: مجھے یہ برا لگا ہے، میرا خیال ہے یہ عورتوں کے معاملات جانتا ہے ۔ ہیت مکہ میں حضرت سودہ کے پاس آیا کرتا تھا، لیکن آپ نے منع فرما دیا۔ جب مدینہ آیا تو آپ نے اسے شہر بدر کر دیا۔ وہ مکہ کے قریبی بیابان بیدا میں رہنے لگا۔ عہد فاروقی تک وہ مدینہ نہ آسکا، فاقوں کی نوبت آگئی تو حضرت عمر نے جمعہ کے روز مدینہ آنے کی اجازت دے دی اور اسے خیرات مل جاتی (ابو داؤد، رقم۴۱۰۷، ۴۱۱۰ ۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۷۵۸)۔

حضرت سودہ اور حجاب کا حکم

۶ھ: امہات المومنین قضاے حاجت کے لیے رات کے وقت مدینہ سے باہر واقع مقام مناصع جایا کرتی تھیں۔ حضرت عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے رہے: اپنی ازواج کو پردہ کرائیں، لیکن آپ نے کوئی حکم ارشاد نہ کیا۔ ایک دن حضرت سودہ جو دراز قد تھیں، عشاء کے وقت نکلیں تو حضرت عمر پکارے : سودہ، ہم نے آپ کو پہچان لیا ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ پردے کا حکم نازل ہو، چنانچہ اللہ کی طرف سے آیت حجاب نازل ہوئی: ’يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا‘، ’’اے نبی اپنی بیویوں، بیٹیوں اور اہل ایمان کی بیبیوں کو ہدایت کر دیجیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی بڑی چادروں کے گھونگٹ لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ موزوں طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ان کو تنگ نہ کیا جائے۔ اللہ بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے‘‘ (الاحزاب۳۳: ۵۹۔ بخاری، رقم ۱۴۶۔ مسلم، رقم ۵۷۲۲۔ احمد، رقم ۲۵۸۶۶۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۳۵۰۵)۔

حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد حضرت سودہ رفع حاجت کے لیے نکلیں ۔ وہ بھاری بھر کم تھیں۔ جو انھیں جانتا تھا، اس سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں ۔ حضرت عمر نے انھیں دیکھ لیا اور کہا: سودہ، واللہ آپ اپنے آپ کو ہم سے چھپا نہیں سکیں، دیکھیے تو آپ کس طرح باہر نکلی ہیں۔ چنانچہ وہ الٹے پاؤں واپس آگئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہ کے حجرے میں رات کا کھانا تناول فرمارہے تھے اور آپ کے ہاتھوں میں ہڈی تھی ۔ حضرت سودہ نے بتایا: میں رفع حاجت کے لیے نکلی تھی کہ عمر نے مجھ سے یہ باتیں کیں۔ اسی وقت آپ پر وحی کا نزول شروع ہو گیا، جب کہ ہڈی آپ کے ہاتھ میں رہی ۔ وحی ختم ہو نے کے بعد آپ نے فرمایا: تمھیں قضاے حاجت کے لیے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے (بخاری، رقم ۴۷۹۵۔ مسلم، رقم ۵۷۱۹۔ احمد، رقم ۲۴۲۹۰۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۷ ۱۳۵۰ ۔صحیح ابن حبان، رقم ۱۴۰۹۔ مسند ابو یعلیٰ، رقم ۴۴۳۳) ۔

سوتیلے بھائی سے حجاب

حضرت سعد بن ابی وقاص کے بھائی عتبہ نے ان کو وصیت کر رکھی تھی کہ زمعہ کی باندی کا بیٹا تم لے لینا، کیونکہ وہ میری اولاد ہے ۔ مکہ فتح ہوا تو حضرت سعد نے بچہ پکڑا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے، لیکن حضرت عبد بن زمعہ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے : یہ میرا بھائی اور میرے باپ کی باندی کی اولاد ہے ، اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ پھر دونوں یہ قضیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ آپ نے بچے کو بغور دیکھا، وہ عتبہ سے گہری مشابہت رکھتا تھا، پھر بھی فرمایا: عبد بن زمعہ یہ تیرے پاس رہے گا، کیونکہ اس نے تیرے باپ کے بستر پر جنم لیا ہے۔ آپ نے یہ اصول بھی ارشاد کیا: بچہ اس کا ہو گا جس کے بستر پر پیدا ہو اور زانی کو پتھر پڑیں گے ۔ آپ نے ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ کو اس کے سامنے جانے سے روک دیا، کیونکہ وہ بچے کی عتبہ سے مشابہت دیکھ کر جان سکتی تھیں کہ وہ ان کا بھائی نہیں ۔ چنانچہ آپ کے فرمان کے مطابق حضرت سودہ نے اسے کبھی نہ دیکھا (بخاری، رقم ۲۰۵۳، ۲۵۳۳۔ مسلم ، رقم ۳۶۰۳۔ ابوداؤد، رقم ۲۲۷۳۔ نسائی، رقم ۳۵۱۵۔ ابن ماجہ، رقم ۲۰۰۴۔ موطا مالک، رقم ۱۵۴۸۔ احمد، رقم ۲۴۹۷۵۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۵۳۷۲)۔ دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ بچہ زمعہ کی میراث کا حق دار ہو گا (السنن الکبریٰ بیہقی ، رقم ۱۱۴۶۶۔ مستدرک حاکم، رقم ۷۰۳۸۔ مسند ابو یعلیٰ، رقم ۷ ۶۸۰)

حجۃ الوداع

۱۰ھ : حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ہم مزدلفہ رکے تو سودہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں کی بھیڑ ہونے سے پہلے رمی جمرات کے لیے جانے کی درخواست کی۔ ان کے جسیم اور سست رو ہونے کی وجہ سے آپ نے اجازت مرحمت فرمادی۔ چنانچہ وہ ازدحام ہونے سے پہلے منیٰ چلی گئیں ۔ ہم نے صبح تک قیام کیا، پھر آپ کے ساتھ نکلے۔ میں بھی سودہ کی طرح آپ سے اجازت لے لیتی تو مجھے ہر خوشی سے زیادہ خوشی ہوتی (بخاری، رقم ۱۶۸۱۔ مسلم، رقم ۳۰۹۸۔ نسائی، رقم ۳۰۵۲۔ ابن ماجہ، رقم ۳۰۲۷۔ احمد، رقم ۲۵۳۱۴۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۹۵۱۴۔ صحیح ابن حبان، رقم ۳۸۶۴) ۔ دوسری روایت کے مطابق آپ نے ام المومنین حضرت ام سلمہ کو بھی ایسی اجازت دی تھی (ابوداؤد، رقم ۱۹۴۲ ) ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کے ساتھ حجۃ الوداع ادا کرنے کے بعد ارشاد فرمایا: یہ حج ہے ، پھر گھروں میں (اصل الفاظ : چٹائیوں کی پشت پر) بیٹھنا ہے ۔ حضرت سودہ بنت زمعہ اور حضرت زینب بنت جحش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے الفاظ کو مد نظر رکھا، چنانچہ بقیہ زندگی دونوں گھر میں محصور رہیں۔ فرماتی تھیں: والله ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بعد ہمیں کوئی سواری حرکت میں نہ لائے گی (احمد ، رقم ۲۶۷۵۱۔ مسند ابو یعلیٰ، رقم ۷۱۵۳)۔ یہ تاویل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کی تھی، جب کہ باقی ازواج مطہرات کہتی تھیں : حج اب ان پر فرض نہیں رہا، نفلی حج، البتہ وہ کر سکتی ہیں۔ حضرت عائشہ اس فرمان نبوی کا حوالہ دیتی تھیں: بہترین جہاد حج مبرور ہے (بخاری، رقم ۱۵۲۰۔ السنن الکبریٰ، بیہقی ، رقم ۱۷۸۰۵۔ مسند ابو یعلیٰ، رقم ۷ ۴۷۱) ۔ حضرت عمر نے اپنے عہد خلافت کی ابتدا میں امہات المومنین کو حج کرنے سے روکا، لیکن آخری دور میں اجازت دے دی۔ خلیفۂ سوم حضرت عثمان تو ان کو خود حج پر لے کر گئے۔


وفات

حضرت سودہ نے ۲۳ھ میں ، عہد فاروقی کے آخر میں اسّی (۸۰) سال کی عمر میں وفات پائی۔ حضرت عمر فاروق نے نماز جنازہ پڑھائی۔ دوسری روایت، میں جسے درست نہیں مانا گیا، ان کا سن وفات عہد معاویہ میں شوال ۵۴ھ بتایا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے حضرت سودہ کی وفات کے بعد ان کا حجرہ خرید لیا ، حضرت عائشہ نے بھی اپنا حجرہ اپنے بھانجے حضرت ابن زبیر کے نام وصیت کر دیا (السنن الکبریٰ، بیہقی ، رقم ۱۱۱۸۱)۔

خصائل وصفات

’سودہ‘ کے لفظی معنی ’سیاہی مائل سطح مرتفع‘ کے ہیں اور ’زمعہ‘ چھوٹے ٹیلے یا چھوٹی وادی کو کہا جاتا ہے۔

حضرت سودہ اونچا سنتی تھیں۔ ان کے مزاج میں تیزی تھی، غصہ جلد آتا اور فوراً فرو ہو جاتا۔

حضرت سودہ کثرت سے نوافل ادا کرتیں اور روزے رکھتی تھیں ۔

حضرت سودہ کو دنیاوی جاہ و حشم سے رغبت نہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت نے مزید استغنا پیدا کر دیا۔ چنانچہ وہ سخاوت و فیاضی کے بلند مرتبے پر فائز ہوگئیں۔ ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت عمر نے درہموں سے بھری تھیلی بھیجی۔ پوچھا: اس میں کیا ہے ؟ بتایا گیا کہ اس میں دراہم ہیں۔ فرمایا: یہ تو کھجوروں کا توڑا لگتا ہے، یہ کہہ کر تھیلی الٹی اور تمام دراہم غربا میں کھجوروں کی طرح بانٹ دیے (الطبقات الکبریٰ، رقم ۴۱۱۹ )۔

حضرت سودہ دست کاری میں مہارت رکھتی تھیں، طائف کی کھالیں خود بناتیں اور اس کی آمدنی راہ خدا میں خرچ کر دیتی تھیں۔

حضرت سودہ کے مزاج میں جلال کے ساتھ حس مزاح و ظرافت بھی پائی جاتی تھی۔ کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسانے کے لیے عام روش سے مختلف طرح چل کر دکھاتیں ۔ ایک رات آپ کے ساتھ قیام اللیل میں کھڑی ہو گئیں اور کہا: آپ نے اتنا لمبار کوع فرمایا کہ مجھے یوں لگا کہ میری نکسیر پھوٹ پڑے گی اور اپنے ناک کو سہلانے لگیں، اس پر آپ بہت مسکرائے (الطبقات الکبریٰ، رقم ۴۱۱۹)۔

روایت حدیث

حضرت سودہ بنت زمعہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ احادیث روایت کیں، ان میں سے ایک بخاری میں موجود ہے۔ ان سے اقوال رسول حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت یحییٰ ابن عبد الله انصاری نے روایت کیے۔ ابو داؤد، نسائی اور مسند احمد میں بھی ان کی مرویات شامل کی گئیں۔

چند مشہور روایات

ہماری بکری مرگئی تو ہم نے اس کی کھال دباغت کی اور اس میں نبیذ بناتے رہے، حتیٰ کہ وہ سوکھی مشک بن گئی (بخاری، رقم ۶۶۸۶ ۔ نسائی، رقم ۴۲۴۵۔ احمد ، رقم ۳۰۲۶۔ السنن الکبریٰ، بیہقی ، رقم ۵۴۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۹۵۹۱) ۔

ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میرا باپ بوڑھا ہے، حج ادا نہیں کر سکتا تو آپ نے سوال فرمایا: اگر تیرے باپ پر قرض ہوتا اور تو ادا کرتا تو تیری طرف سے قبول ہو جاتا؟ اس کے ہاں کہنے پر فرمایا: اللہ بہتر رحم کرنے والا ہے۔ اپنے باپ کی طرف سے حج کر لے (احمد، رقم ہاں ۲۷۴۱۷۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۸۶۳۴۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۹۵۹۶۔ صحیح ابن حبان، رقم ۱۲۸۱۔ مسند ابو یعلیٰ، رقم ۶۸۱۲) ۔

مطالعۂ مزید : السیرۃ النبویۃ ( ابن ہشام) ، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، جمل من انساب الاشراف (بلاذری)، تاریخ الامم و الملوک (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ( ابن عبد البر )، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ( ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر )، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، Wikipedia۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B