[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس بات کو واضح فرمایا ہے کہ تمام انبیا کا دین ایک ہی رہا ہے:
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰي بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْ٘ اَوْحَيْنَا٘ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖ٘ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰي وَعِيْسٰ٘ي اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ.(الشوریٰ ۴۲: ۱۳)
’’اُس نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اُس نے نوح کو فرمائی اور جس کی وحی، (اے پیغمبر)، ہم نے تمھاری طرف کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ (اپنی زندگی میں) اِس دین کو قائم رکھو اور اِس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس دین کا نام ’اسلام‘ بتایا ہے اور اِس کے بارے میں کہا ہے کہ بنی آدم سے وہ اِس کے سوا ہرگز کوئی دوسرا دین قبول نہیں کرے گا:
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ. . . وَمَنْ يَّبْتَغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُﵐ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ. (آل عمران ۳: ۱۹، ۸۵)
’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے... اورجو اسلام کے سوا کوئی اوردین اختیارکرنا چاہے گا تو اُس سے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور قیامت میں وہ نامرادوں میں سے ہوگا۔‘‘
اسلام کے معنی ہیں: خدا کے سامنے سر اطاعت جھکا دینا اور اسی کی مرضی کے مطابق چلنا۔ ظاہر ہے کہ تمام انبیا اور ان کے متبعین کا رویہ یہی رہا ہے ، یعنی وہ حقیقت میں خدا کی مرضی کے مطابق چلنے والے ’مسلم‘ تھے۔ ارشاد ہوا ہے:
اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللّٰهِ يَبْغُوْنَ وَلَهٗ٘ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا وَّاِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَ.(آل عمران ۳: ۸۳)
’’(یہ پیغمبر اِسی طرح آئے ہیں) تو کیا یہ لوگ اب اللہ کے دین کے سوا کسی اور دین کی تلاش میں ہیں، دراں حالیکہ زمین اور آسمانوں میں طوعاًوکرہاً، سب اُسی کے فرماں بردارہیں اور اُسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔‘‘
ان معنوں میں اسلام کے وجود سے شاید کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ قرآن سے قبل دینی روایت کا سب سے بڑا اور مستند ماخذ بائیبل ہے۔ اس میں خدا کی فرماں برداری اختیار کرنے کا تصور ظاہر و باہر ہے۔ مثلا ً انجیل میں سیدنا مسیح علیہ السلام کا یہ قول:
’’میں آسمان سے آیا ہوں اور اپنی مرضی پو ری کر نے کے لئے نہیں آیا، بلکہ خدا کی مرضی کے مطا بق کرنے کے لئے آیاہوں۔‘‘ (یوحنا۳۸:۶)
یا سیدنا داؤد علیہ السلام کی یہ دعا:
’’اے میرے خداوند، میں وہی کرنا چاہتا ہوں جو تو چاہتا ہے۔ میں نے دل میں تیری شریعت کو بسالیا۔‘‘(زبور ۴۰:۸)
لہٰذا معنوی لحاظ سےتو اسلام اور مسلم کا وجود ملتا ہے، لیکن کیا بطور ایک اسم کے لفظ ’اسلام‘ یا ’مسلم‘ کا بھی وجود ہمیں ملتا ہے یا نہیں؟
قرآن میں ہی اللہ تعالیٰ نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ ’هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ هٰذَا‘ [1] ( اسی نے تمھارا نام مسلم رکھا تھا، اِس سے پہلے اور اِس قرآن میں بھی (تمھارا نام مسلم ہے)) ۔ بعض لوگوں نے ’هُوَ ‘ کا مرجع اللہ تعالیٰ کو مانا ہے اور بعض لوگوں نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو۔ دونوں صورتوں میں لفظ ’مسلم‘ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے زمانے میں مستعمل ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہے، لیکن کیا قرآن مجید سے باہر اور اس سے قبل اس لفظ کے وجود کے شواہد ملتے ہیں؟
بائیبل کے عہد نامۂ عتیق کی کتاب یسعیاہ میں ہمیں یہ عبارت ملتی ہے:
’’מי עור כי אם־עבדי וחרש כמלאכי אשלח מי עור כמשלם ועור כעבד יהוה׃‘‘
اس کا انگریزی ترجمہ ذیل میں ہے:
“Who is blind, but my servant? or deaf, as my messenger that I sent? who is blind as he that is perfect, and blind as the LORD'S servant?”[2]
کتابِ مقدس سے اس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے:
پہلا ترجمہ
’’میرے خادم کے سوااندھا کون ہے؟ اور کون ایسا بہرا ہے جیسا میرارسول جسے میں بھیجتا ہوں؟ میرے دوست کی اور خداوند کے خادم کی مانند نابینا کون ہے؟‘‘
دوسرا ترجمہ
’’اندھا کون ہے مگر میرا بندہ؟ اور کون ایسا بہرہ ہے جیسا میرا رسول جسے میں بھیجوں گا؟ اندھا کون ہے جیسا کہ وہ جو کامل ہے اور خداوند کے خادم کی مانند اندھا کون ہے؟‘‘
اس عبارت میں خطاب کا رخ بنی اسرائیل کی طرف ہے۔ ان کے بارے میں ایک تبصرہ کیا گیا ہے، لیکن یہ تبصرہ واحد کے صیغے میں ہوا ہے۔ بنی اسرائیل کی عکاسی ایک نافرمان، اندھے اور بہرے خادم کی صورت میں کی گئی ہے، جو اپنے منصب (قوموں کی طرف الہٰی پیغام کی ترسیل) کے بالکل برخلاف سرگرم عمل ہے؛ ایک ایسا خادم جو اپنے ساتھ ہو رہے حادثات سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کر رہا ہے۔ بنی اسرائیل کے لیے یہاں تین الفاظ استعمال کیے گئے ہیں :
עבדי ‘ABDY میرا خادم یا میرا بندہ
מלאכי ML'aKY میرا فرستادہ یا میرا رسول
משלם MShLM مشلم
پہلا لفظ ’عبدي‘ ہے ، دوسرا ’مَلَكِي‘ اور تیسرا لفظ جس میں ہماری دل چسپی ہے، وہ ہے ’مشلم‘۔ اس کا تلفظ ’meshullam‘ کیا جاتا ہے۔
اگر ہم اس لفظ کا ترجمہ نہ کر کے مذکورہ عبارت کا ترجمہ کریں تو عبارت یوں ہوگی:
’’اندھا کون ہے مگر میرا بندہ؟ اور کون ایسا بہرہ ہے جیسا میرا رسول جسے میں بھیجوں گا؟ اندھا کون ہے جیسا کہ مشلم اور خداوند کے خادم کی مانند اندھا کون ہے؟‘‘
قارئین محسوس کر سکتے ہیں کہ لفظ ’مشلم‘عربی لفظ ’مسلم‘سے مشابہت رکھتا ہے۔ صرف ’س‘اور ’ش ‘ کا فرق ہے، لیکن تحریر میں تو وہ بھی نہیں۔
משלם م س ل م
یہ فرق عربی اور عبرانی زبانوں میں عام ہے۔مثلاً عربی میں لفظ ’سلام ‘کو عبری لوگ ’شَلوم‘ پڑھتے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ یسعیاہ باب ۴۲ کے اس لفظ کے بارے میں بائیبل کے شارحین کیا فرماتے ہیں۔ ’ این اولڈ ٹیسٹامنٹ کمنٹری فار انگلش ریڈرز‘، جس کی ادارت چالز ایلیکاٹ صاحب نے کی ہے،میں لفظ ’مشلم‘ کے تحت لکھا ہے:
As he that is perfect. — Strictly speaking, the devoted, or surrendered one. The Hebrew meshullam is interesting, as connected with the modern Moslem and Islam, the man resigned to the will of God.[3]
’’ جیسا کہ وہ جو کامل ہے — متعین طور پر، باوفا یا سرافگندہ۔ عبرانی لفظ ’مشلم‘ دل چسپ ہے، کیونکہ اس کا تعلق جدید لفظ ’مسلم‘ اور اسلام کے ساتھ ہے، جو خدا کی مرضی میں استسلام کرنے والا ہے۔‘‘
’’دی پلپٹ بائبل کمنٹری ‘‘ میں لفظ ’مشلم‘ کے بارے میں لکھا ہے:
The word used is connected etymologically with the Arabic muslim (our "Moslem"); but it does not appear to have had the sense of "surrender" or "submission" in Hebrew.[4]
’’یہ لفظ لغوی اعتبار سے عربی لفظ ’مسلم‘ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عبرانی زبان میں یہ ’’استسلام‘‘ یا ’’اطاعت ‘‘ کے معنی نہیں رکھتا ۔‘‘
کتاب یسعیاہ پر ’ریورنڈ چینی کی تفسیر‘ میں اس لفظ کے بارے میں ہے:
[the surrendered one] One might almost say, ‘as the Moslem,’ for the prophet’s words (m’shullam) is closely akin to the Arabic muslim (Moslem), i.e., ‘he that devoteth or submitteth himself (to God).’ … ‘A more surrendered soul, more informed and led by God.’ Apparently this word became a favourite among the pious Jews in later times. It appears as a proper name in Ezra viii. 16, x. 15,29, and the fem. Meshullemeth (before the Exile), 2 Kings xxi. 19.[5]
’’[سرافگندہ شخص] ہم تقریباً یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’مسلمان کے جیسا‘، کیوں کہ نبی کے الفاظ (m’shullam) عربی لفظ ’مسلم‘ (مسلمان) سے قریب تر ہیں، یعنی ’وہ جو اپنے آپ کو (خدا کے لیے) وقف کرتا ہے یا تابع کرتا ہے۔ ’’ ایک سرافگندہ شخص، زیادہ باخبر اور خدا کی رہنمائی میں۔‘‘ بظاہر یہ لفظ بعد کے زمانے میں متقی یہودیوں میں پسندیدہ بن گیا۔ یہ عزرا ۱۶:۸؛ ۲۹،۱۵:۱۰ میں اسم عَلم کےطور پر ظاہر ہوتا ہے اور ۲ سلاطین ۱۹:۲۱ میں اس کی تانیث Meshullemeth (جلاوطنی سے پہلے) بھی ملتی ہے۔‘‘
ریورنڈ چینی نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ یہ لفظ یہودی مردوں اور عورتوں کے لیے ایک پسندیدہ نام کے طور پررائج رہا ہے۔ یہ ٹھیک اسی طرح کا معاملہ ہے، جیسے ہمارے یہاں’مسلم‘ اور ’مسلمة‘ کے نام رکھے جاتے ہیں۔
اردو میں بائیبل کا پہلا مکمل ترجمہ اور یسعیاہ ۱۹:۴۲
اردو (ہندستانی) زبان میں بائیبل کا پہلا مکمل ترجمہ ۱۸۴۳ ء میں کلکتہ سے شائع ہوا۔ اس کی دوسری جلد میں ایوب سے ملاکی تک کی کتابیں شامل تھیں۔
اس میں یسعیاہ ۱۹:۴۲ کا ترجمہ یوں کیا گیا تھا:
’’اندھا کون ہے مگر میرا بندہ۔ اور کون ایسا بہرا ہے جیسا میرا رسول جسے میں نے بھیجا، کون مسلم کا سااندھا اور عبداللہ کا سا اندھا ہے۔‘‘
کتاب یسعیاہ کے اس مقام پر یہود کو ’مسلم‘ نام سے مخاطب کیا گیا ہے، جو بائیبل کے کئی شارحین نے تسلیم کیا ہے۔اس نام سے مخاطب کر کےبنی اسرائیل کو شاید ان کی اصل ذمہ داری کا احساس دلانا مقصود ہے۔بہ الفاظ دیگر، وہ ایک مسلمان امت ہیں اور پھر بھی انھوں نےاس نام کے تقاضوں کے برعکس رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس قت دنیا میں ایک مسلمان سے زیادہ اندھا اور بہرا کوئی نہیں ہے۔
مذکورہ بالا شواہد کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لفظ ’مسلم‘ کا وجود محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی رہا ہے اور یہ شہادت اس بات کو قوت فراہم کرتی ہے کہ اللہ کا دین ہمیشہ اسلام ہی رہا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[1] ۔الحج ۷۸:۲۲۔
[2]- The Bible (KJV), Isaiah 42:19.
[3]- Charles J. Ellicott, ed., An Old Testament Commentary for English Readers, Exposition (on ‘Isaiah’) by Rev. E. H. Plumptre (New York: Cassell and Company Ltd., 1884), 4:529.
[4]- The Pulpit Commentary, ed. (i) the Rev. Spence and (ii) the Rev. Joseph Exell, Exposition (on ‘Isaiah’) by G. Rawlinson (Massachusetts: Hendrickson Publishers, 1985), 10:120.
[5]- T. K. Cheyne, The Prophecies of Isaiah, A New Translation with Commentary and Appendices, 5th ed. (London, Kegan Paul, Trench, & Co., 1889), 2:271.