[نظم قرآن کے تصور کے مختلف پہلوؤں کی توضیح میں جو تحریریں مختلف اوقات میں لکھی گئیں، انھیں ایک مناسب ترتیب سے یہاں پیش کیا جا رہا ہے]
جاننا چاہیے کہ ’’نظم کلام“ یا ’’نظم قرآن“ کی تعبیر کئی مختلف معنوں میں استعمال کی جاتی ہے اور ہر مفہوم کی اپنی الگ حیثیت اور احکام ہیں۔
نظم کلام کا ایک مطلب جملے کی ساخت اور متکلم کے اختیار کردہ لسانی اسالیب کی دلالت ہوتا ہے۔ اس مفہوم میں کہا جاتا ہے کہ فلاں جملے یا آیت کا یہ مفہوم یا تفسیر نظم کلام کے مطابق ہے، یعنی نحوی قواعد یا الفاظ کی لسانی دلالت یا بلاغی اسلوب وغیرہ کے لحاظ سے یہ مفہوم متکلم کی مراد ہونا زیادہ قرین قیاس ہے۔
نظم قرآن کی تعبیر، آیت کے سیاق وسباق کی دلالت کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ مفسرین کے ہاں اس کو ’’نسق الکلام“ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں طے کیا جاتا ہے کہ کوئی خاص آیت جس سلسلۂ کلام میں واقع ہے، اس میں اس کا مفہوم کیا بنتا ہے اور اگر ایک سے زیادہ احتمالات ہو سکتے ہیں تو کون سا احتمال نظم کلام کی رو سے زیادہ واضح ہے۔
نظم قرآن کی تعبیر، زیادہ وسیع مفہوم میں، بسااوقات قرآن مجید کے مختلف نظائر اور لسانی عرف کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ مثلاً ایک لفظ قرآن میں عموماً کیسے استعمال ہوا ہے یا ایک مضمون مختلف مقامات پر کیسے بیان ہوا ہے، اس سے مدد لے کر کسی خاص آیت یا ٹکڑے کی مراد طے کرنا۔ جدید اصطلاح میں اس کو intratextuality بھی کہہ سکتے ہیں، یعنی ایک ہی متن کو یا ایک ہی متکلم کے کلام کو مجموعی طور پر پیش نظر رکھتے ہوئے متن کے کسی خاص حصے کا مفہوم اور مراد طے کرنا۔
نظم کلام یا نظم قرآن کی تعبیر اس مفہوم کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے جس کو عموماً ’ربط آیات‘ کہا جاتا ہے۔ تاہم ’ربط‘ کا لفظ جزوی سطح پر کلام کے ایک حصے اور دوسرے حصے کے درمیان معنوی تعلق کے لیے زیادہ موزوں ہے، جب کہ نسق یا نظم پوری سورت کے اجزا کے باہمی تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
یہ اس تعبیر کے الگ الگ مفاہیم ہیں اور جب نظم کلام کی اہمیت یا تفسیری حیثیت پر بات ہوتی ہے تو ہر جگہ یہ سارے مفاہیم مراد نہیں ہوتے، بلکہ مختلف احکام کا تعلق نظم کے مختلف مفاہیم سے ہوتا ہے۔ اس نکتے کو ملحوظ رکھنا اس بحث میں ضروری ہے۔
ــــــــــــــــــــ
امام شاطبی کی کتاب ’’الموافقات‘‘ کی ’’ کتاب الادلۃ الشرعیۃ“ میں سورتوں میں نظم کے سوال پر کلام کیا گیا ہے۔ شاطبی کہتے ہیں کہ قرآن کی ہر سورت ایک متصل اور مربوط کلام ہوتی ہے اور اس کے اجزا ایک دوسرے کے ساتھ متعلق ہوتے ہیں اور شارع کو مکلف سے جو فہم مطلوب ہے، وہ اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب سورت کو مجموعی طور پر مدنظر رکھا جائے۔ سورت کے اجزا کے فہم پر اگر اقتصار کیا جائے تو عربی زبان کے لحاظ سے الفاظ جو کچھ بتا سکتے ہیں، اس تک تو قاری کی رسائی ہو جائے گی، لیکن متکلم کی مراد اور مقصود کو سمجھنے کے لیے یہ کافی نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کلام، یعنی سورت پر مجموعی طور پر نظر رکھی جائے۔
دوسری بات وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ سورت کا معناً متحد ومنظم ہونا کبھی تو اس لحاظ سے ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک ہی خاص موضوع پر مرتکز ہوتی ہے، جیسا کہ مفصل، (یعنی سورۂ ق سے قرآن کے آخر تک) کی بیش تر سورتوں کا معاملہ ہے، اور کبھی اس لحاظ سے معنوی وحدت کی حامل ہوتی ہے کہ اس میں زیر بحث موضوعات وقضایا تو بہت سے ہوتے ہیں، لیکن وہ اعتباراً، یعنی کسی خاص پہلو سے باہم مربوط ہوتے ہیں۔ اس کی مثال سورۂ بقرہ اور آل عمران اور النساء وغیرہ ہیں۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ساری سورت دفعۃً نازل ہوئی ہو۔ اجزا میں نازل ہونے کے باوجود جب اس کو ایک سورت بنایا گیا ہے تو معنوی وحدت اور مناسبت کے تحت ہی بنایا گیا ہے۔
پھر بتاتے ہیں کہ اس طرح کی سورتوں میں دونوں سطح پر غور وفکر کرنا لازم ہے۔ سورت کے اجزا پر انفراداً غور کر کے بھی بہت سے فوائد واحکام سمجھے جا سکتے ہیں، لیکن پوری سورہ پر مجموعی حیثیت سے غور کرنا بھی ضروری ہے، جس کا بدل اجزا پر الگ الگ غور کرنا نہیں ہو سکتا، ایسے ہی جیسے کسی ایک آیت کے بعض الفاظ سے حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ پوری آیت کو ملحوظ نہ رکھا جائے۔ شاطبی نے اس بحث میں سورۂ مومنون کے مضامین کا تو تفصیل سے تجزیہ کر کے سورہ کی معنوی وحدت کو واضح کیا ہے، تاہم بقرہ کے متعلق یہ اصولی بات کہی ہے کہ یہ نظم کے اعتبار سے کلام واحد ہے جس کے کچھ حصے تمہید اور مقدمے کی حیثیت رکھتے ہیں، کچھ تاکید واتمام کی نوعیت کے ہیں، کچھ خاتمۂ کلام کی حیثیت سے سابقہ مضامین کی تائید وتاکید کے لیے ہیں اور درمیان میں سورہ کا اصل مقصود بیان ہوا ہے جو مختلف ابواب میں احکام شرعیہ کی وضاحت ہے۔
ــــــــــــــــــــ
نظم قرآن کی رعایت سے مراد یہ ہے کہ قرآن کے اجزاے کلام جس سیاق وسباق میں آئے ہیں، ان کا مفہوم متعین کرتے ہوئے اس سیاق وسباق اور مختلف اجزا کے باہمی معنوی ربط وتعلق کو ملحوظ رکھا جائے۔ یہ اصول قرآن کے ساتھ خاص نہیں، ہر انسانی کلام کی درست تفہیم کے لیے اس کی رعایت ضر وری ہے۔ دلالت کے دیگر قرائن کی طرح نظم اور سیاق وسباق کی دلالت بھی متفاوت ہو سکتی ہے۔ بعض صورتوں میں وہ اس قدر واضح ہوتی ہے کہ کلام کو کسی دوسرے محمل پر محمول کرنا تحریف کے دائرے میں آ جاتا ہے، جب کہ بعض صورتوں میں اس سے کم درجے کی او ربعض صورتوں میں بہت ہی لطیف۔ چنانچہ ان دائروں میں نظم قرآن کی دلالت کی تعیین میں اہل فہم کا اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔
قرآن میں اجزاے کلام کا سیاق وسباق دو طرح کا ہے: ایک بالکل کلام کے ارد گرد اور پیش وعقب میں ہوتا ہے اور دوسرا پوری سورہ کی سطح پر۔ چھوٹی اور متوسط صورتوں میں عموماً پوری سورہ کا نظم وضاحت سے متعین ہو جاتا ہے، جب کہ طویل سورتوں میں مضامین کی رنگارنگی اور تنوع کی وجہ سے اہل فہم کے مابین اجتہادی اختلاف کی گنجایش بڑھ جاتی ہے۔
یہ بات کہ قرآن کی سورتوں میں نظم، یعنی اجزا کے مابین ایک گہرا معنوی ربط پایا جانا چاہیے اور عملاً پایا جاتا ہے، اس کو اصولی دلائل کے ساتھ ساتھ تصور نظم کو عملاً برت کر مکتب فراہی نے اس درجے میں مبرہن کر دیا ہے کہ اس کے اعتراف سے گریز کو علمی تعصب کے سوا کوئی عنوان نہیں دیا جا سکتا۔ معترضین اس پر زیادہ سے زیادہ جو نکتہ اٹھاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اگر تفسیر قرآن میں اس اصول کی اتنی ہی اہمیت ہے تو پھر قائلین نظم کے مابین اس کی تعیین میں اختلاف کیوں پایا جاتا ہے؟ یہ اتنا عامیانہ اعتراض ہے کہ علمی سطح پر اسے موضوع بنانا بھی کار عبث لگتا ہے۔ اس اصول پر تو قرآن کی تفسیر کا کوئی بھی اصول اہمیت کا حامل نہیں رہتا۔ تمام مفسرین تفسیر قرآن کا سب سے بنیادی اصول یہ بتاتے ہیں کہ قرآن کی تفسیر خود قرآن سے اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے کی جائے۔ تفسیری لٹریچر کا ہر طالب علم اس سے واقف ہے کہ اس اصول کے انطباق میں بھی مفسرین، فقہاء اور متکلمین کے مابین سیکڑوں ہزاروں اختلاف پائے جاتے ہیں۔ تو کیا یہ کہنا مبنی بر انصاف ہوگا کہ اگر یہ اصول اتنے ہی بنیادی اور اہم ہوتے تو مسلمان علماء کے مابین ان کے انطباق میں اختلاف کیوں واقع ہوتا؟
کسی اصول کا بطور اصول اہم ہونا ایک بات ہے اور اس کے انطباق میں اختلاف کی گنجایش ایک بالکل دوسری بات۔ علم وفکر کے ہر دائرے میں یہ دونوں باتیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ چلے بغیر کوئی شعبۂ علم سرے سے وجود میں ہی نہیں آ سکتا۔
ــــــــــــــــــــ
ناقدین نظم کے ہاں خلط مبحث کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک مثال یہ ہے کہ اہل علم کے لیے ’’فہم قرآن“ اور ایک عام مسلمان کے لیے ’’ہدایت ربانی“ تک رسائی کو ایک ہی سطح کی چیز قرار دے کر دونوں کے شرائط اور لوازمات میں مساوات ثابت کی جائے، یعنی یہ مقدمہ قائم کیا جائے کہ نظم قرآن کو سمجھنے کے لیے چونکہ وسیع علم، عمیق تدبر اور مسلسل ریاضت کی ضرورت ہے جو ایک عام آدمی نہیں کر سکتا، اس لیے اس کو کلید قرار دینے سے عام مسلمان ہدایت ربانی سے محروم رہ جائے گا۔
لیکن اس استدلال میں اس پر توجہ دینے کی زحمت نہیں کی جاتی کہ عام مسلمان تو پورا قرآن پڑھنے یا اس کا سادہ ترجمہ سمجھنے کا بھی مکلف نہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت ماحول سے ضروریات دین کا علم حاصل کرتی ہے اور حسب توفیق وسہولت کچھ سورتیں یاد کر لیتی ہے یا ناظرہ قرآن کی تلاوت سے اپنے دینی جذبہ وشوق کی تسکین کرتی ہے۔ جدید دور کے وسائل تعلیم وابلاغ میسر ہونے کے بعد مذہبی تحریکوں نے عام مسلمان پر جتنا دینی بوجھ ڈالنے کی ریت شروع کی ہے، ماضی میں اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ عام مسلمان کو جتنی ہدایت کی ضرورت ہے، وہ اس کو ماحول سے اور علما کی تعلیم وتلقین سے مل جاتی ہے، لیکن اہل علم کا معاملہ یہ نہیں ہے اور نہ ان کی ذمہ داری اس حد تک محدود ہے۔ نظم قرآن کی اہمیت قرآن کے عالمانہ فہم کے باب میں ہے اور اس میں یقینی طور پر اس وسیع علم، عمیق تدبر اور مسلسل ریاضت کی ضرورت ہے جس سے عام مسلمان کا بہانہ بنا کر اہل علم اپنی جان نہیں چھڑا سکتے۔
ــــــــــــــــــــ
قرآن مجید کے ٹکڑوں میں نازل ہونے سے متعلق ایک عمومی غلط فہمی عام ناظرین میں یہ پائی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حسب موقع آیات کے مختلف مجموعے نازل ہوتے رہے اور پھر بعد میں کسی وقت ان کو جوڑ کر سورتوں کی شکل میں جمع کر دیا گیا۔ یہ نزول قرآن کی درست تصویر نہیں ہے۔ درست بات یہ ہے کہ قرآن مجید کا نزول بنیادی طور پر سورتوں ہی کی شکل میں ہوتا تھا اور عموماً ایک سورت مکمل ہونے پر دوسری سورت کا نزول شروع ہوتا تھا۔ چنانچہ متعدد روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو ایک سورت کے مکمل ہو جانے کا علم اس سے ہوتا تھا کہ جبریل جب نئی وحی لے کر آتے تو اس کی ابتدا ’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘ سے کرتے تھے۔ یہ اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ پچھلی سورت مکمل ہو گئی ہے اور اب نئی سورت کا نزول شروع ہو رہا ہے (سیوطی نے ’’الاتقان‘‘ میں یہ سب روایات یکجا ذکر کر دی ہیں)۔
البتہ اس کے ساتھ حسب ضرورت سابق نازل شدہ سورتوں میں بعض جگہ مضمون کی مناسبت سے آیات کا اضافہ بھی کر دیا جاتا تھا۔ بعض روایات میں ذکر ہوا ہے کہ بسا اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک سے زائد سورتیں بیک وقت، لیکن اجزا میں نازل کی جاتی تھیں۔ ایسی صورت میں ہر ٹکڑے کے متعلق یہ رہنمائی کی جاتی تھی کہ اس کو فلاں سورت میں فلاں آیات کے بعد رکھ دیا جائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاتبین وحی کو یہ ہدایات منتقل کر دیتے تھے۔ اس سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ قرآن کا نزول بنیادی طور پر سورتوں ہی کی شکل میں ہوتا تھا، نہ کہ مختلف ٹکڑے نازل ہونے کے بعد اس کے منتظر رہتے تھے کہ انھیں دوسرے ٹکڑوں کے ساتھ ملا کر کسی سورت میں جمع کر دیا جائے۔
اس وضاحت سے سورتوں کے نظم کے متعلق اس بنیادی استدلال کی کم زوری واضح ہو جاتی ہے جسے علامہ شوکانی اور کچھ دوسرے اہل علم نے بیان کیا ہے کہ کئی سالوں میں الگ الگ مناسبتوں سے نازل شدہ کلام کے مابین معنوی ربط کیسے پایا جا سکتا ہے؟ اس استدلال میں جو تصویر واقعہ فرض کی گئی ہے، دراصل وہی درست نہیں۔ ۲۳ سال میں پورے قرآن کا نزول تو یقیناً پھیلا ہوا ہے، لیکن ایسا نہیں کہ اس سارے عرصے میں قرآن کے بس مختلف اور متفرق اجزا نازل ہوتے رہے اور پھر کسی موقع پر ان کو سورتوں میں جمع کر دیا گیا۔ نہیں، بلکہ دراصل قرآن کا نزول ہی سورتوں کی شکل میں ہو رہا تھا اور ہر سورت جس مرحلے پر نازل ہوتی تھی، اس کے مضامین بھی اسی خاص مرحلے کی ضروریات کے مطابق ہوتے تھے۔ اس لیے یہ استبعاد سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا کہ اتنے طویل عرصے میں پھیلے ہوئے کلام کے اجزا میں ربط کیسے ہو سکتا ہے۔
ــــــــــــــــــــ
مختلف اور متنوع حالات میں اور ربع صدی کے دورانیے میں متفرق طور پر نازل ہونے والے کلام میں ربط نہیں ہو سکتا، یہ استدلال پیش کرنے والے حضرات جس بنیادی مغالطے کا شکار ہیں، اس کی وضاحت کی گئی کہ وہ دراصل نزول قرآن کی تصویر ہی غلط فرض کر لیتے ہیں۔ قرآن ابتدا سے ہی سورتوں کی شکل میں نازل ہونا شروع ہوا اور یہ بات حدیث وسیرت کے ذخیرے سے بالکل واضح ہے۔ عہد نبوت کے آغاز سے ہی قرآن کے نزول کا ذکر سورتوں ہی کے حوالے سے ملتا ہے، مثلاً یہ کہ فلاں اور فلاں سورت نازل ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں فلاں سورت کی تلاوت کی، نو مسلم صحابہ کو فلاں اور فلاں سورتیں یاد تھیں، فلاں سورت کے بعد فلاں سورت نازل ہوئی، وغیرہ۔ کوئی ایک بھی اشارہ ایسا نہیں ملتا کہ قرآن کا نزول متفرق اور بلا عنوان آیات کی صورت میں شروع ہوا اور پھر کسی خاص مرحلے پر ان متفرق ٹکڑوں کو جوڑ کر انھیں سورتوں کی شکل دے دی گئی۔
تاہم یہ استدلال پیش کرنے والے حضرات کو جو بنیادی الجھن درپیش ہے، اس کو بھی سمجھنا چاہیے۔ ان کی الجھن دراصل قرآن کی موجودہ ترتیب کی ابتدا میں واقع پانچ چھ بڑی سورتیں، یعنی بقرہ سے اعراف تک کی سورتیں ہیں جن میں مضامین کی وسعت اور تنوع قرآن کی باقی سورتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور ان کے باہمی ربط کو متعین کرنا خصوصی غور وفکر اور ذہنی ریاضت کا تقاضا کرتا ہے۔ ان سورتوں کے علاوہ باقی قرآن میں، جو تقریباً ۸۰ فی صد بنتا ہے، اس نوعیت کی مشکل مفسرین کو پیش نہیں آتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ۸۰ فی صد سورتوں میں سے بیش تر کے مضامین ومطالب قرآن کی کسی بنیادی تعلیم، یعنی توحید، نبوت اور معاد کے گرد گھومتے ہیں اور انھی کی وضاحت کے لیے انبیاے سابقین کے قصص کثرت سے بیان کیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ مضامین حالات کے تغیر وتبدل اور تنوع سے بالاتر ہیں اور یہ الجھن پیدا نہیں ہوتی کہ اتنے مختلف نوعیت کے اجزا میں معنوی ربط کیسے سمجھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بیش تر مفسرین اس ۸۰ فی صد حصے میں آسانی کے ساتھ اجزاے کلام کا باہمی ربط سمجھ کر اسے بیان کر رہے ہوتے ہیں۔
اس حصے کی بعض سورتیں ایسی ہیں جو کسی خاص واقعاتی پس منظر میں نازل ہوئیں اور ان کے مضامین میں اس خاص زمانے کے حالات اور سوالات اتنے نمایاں ہیں کہ یہاں بھی اجزا کے باہمی تعلق کے حوالے سے کوئی خاص الجھن پیدا نہیں ہوتی۔ مثلاً سورۂ انفال غزوۂ بدر کے پس منظر میں، سورۂ توبہ فتح مکہ کے بعد غلبۂ دین کے آخری مرحلے کے تناظر میں، سورۂ احزاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی کی خصوصیات اور اس ضمن میں منافقین کے اعتراضات کے پس منظر میں اور سورۂ فتح صلح حدیبیہ کے تناظر میں نازل ہوئی۔ ان کو پڑھتے ہوئے کسی کو یہ سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آتی کہ ایک حصے اور دوسرے حصے کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ بعض سورتیں انبیاے سابقین میں سے کسی خاص نبی کے واقعے پر مبنی ہیں اور ان کا یہ موضوع سورت کی ابتدا میں ہی بیان کر دیا گیا ہے، جیسے سورۂ یوسف سیدنا یوسف کے واقعے پر اور سورۂ قصص بنیادی طور پر سیدنا موسیٰ کے واقعے پر مرتکز ہے۔ ان کا داخلی ربط بھی بالکل واضح ہے۔
نظم قرآن پر سوال اٹھانے والے حضرات اس ۸۰ فی صد حصے کو نظرانداز کر کے پانچ چھ بڑی سورتوں میں نظم کی تعیین کی مشکلات کو دیکھتے ہیں تو بجاے اس کے کہ اس مشکل کی نشان دہی کریں اور اپنے غور وفکر کی کوتاہی کا اعتراف کریں، الٹا اس تصور پر سوال اٹھانے لگتے ہیں کہ سورتوں کے مضامین میں کوئی داخلی ربط پایا بھی جاتا ہے یا نہیں۔ تاہم ایسا کر کے وہ خود ایک تضاد کا شکار ہو جاتے ہیں، جیسا کہ علامہ شوکانی کی تفسیر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ باقی سارے قرآن میں وہ بیش تر مواقع پر ربط ومناسبت کو بیان کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن سورۂ بقرہ کا مجموعی نظم ان پر واضح نہیں ہوتا تو وہ نظم قرآن کے تصور کو ہی بے معنی اور حماقت قرار دے کر مشکل سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ــــــــــــــــــــ
ایک معاصر عرب عالم احمد بن محمد الشرقاوی نے اپنی مختصر، مگر جامع تالیف ’’موقف الشوكاني في تفسيره من المناسبات‘‘ میں قرآن مجید میں آیات اور سورتوں کے مابین معنوی مناسبت کے تصور پر علامہ شوکانی کے موقف کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ علامہ شوکانی نے سورۂ بقرہ کی آیت ۴۰ ’’يٰبَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِيَ ‘‘ کے تحت علامہ بقاعی کا حوالہ دے کر دو تین صفحات میں آیات کی باہمی مناسبت تلاش کرنے کے تصور پر شدید تنقید کی ہے اور اسے ایک طرح کی حماقت قرار دیا ہے۔ بنیادی استدلال یہی ہے کہ قرآن کے اجزا جب مختلف اوقات میں مختلف حالات کے لحاظ سے مختلف سوالات کے جواب میں نازل ہوئے ہیں اور بعد میں ان کو ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے تو ایسے کلام میں اجزا کا معنوی ربط تلاش کرنا ایک بے معنی بات ہے۔
مصنف نے اس موقف پر کئی پہلوؤں سے بہت عمدہ اور جامع تنقید کی ہے۔ ایک طرف مصنف نے اصولی سطح پر واضح کیا ہے کہ قرآن کے اجزا کو مختلف سورتوں میں الل ٹپ طریقے سے جمع نہیں کر دیا گیا، بلکہ ایک سورت میں جمع کیے جانے والی آیات کے مابین ایک خاص ربط اور مناسبت پائی جاتی ہے اور اگر یہ بات نہ مانی جائے تو قرآن کو مختلف سورتوں میں تقسیم کیے جانے کا عمل ہی بے فائدہ اور غیر حکیمانہ قرار پاتا ہے۔
دوسری طرف مصنف نے خود شوکانی کی تفسیر میں درجنوں مثالوں سے یہ دکھایا ہے کہ وہ بے شمار مقامات پر آیات اور آیات کے مابین، آیات اور سورت کے مجموعی مضمون کے مابین اور اسی طرح ایک سورت اور دوسری سورت کے مابین معنوی مناسبات واضح کرتے ہیں اور یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیسے یہ اجزا مختلف طریقوں سے باہم جڑے ہوئے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ شوکانی نے اپنی کتاب ’’البدر الطالع‘‘ میں علامہ بقاعی کا ذکر کرتے ہوئے علم مناسبات میں ان کی مہارت کا اور ان کی کتاب سے استفادہ کا بھی اعتراف کیا ہے۔
مصنف نے اس خاص مثال کا بھی تفصیلی مطالعہ کیا ہے جس کے پیش نظر شوکانی نے علامہ بقاعی پر تنقید کی ہے۔ شوکانی کا کہنا ہے کہ بقرہ میں ابتدا سے کفار اور مشرکین کا ذکر ہو رہا ہے اور زیربحث آیت سے اچانک بنی اسرائیل کا ذکر شروع ہو گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی معنوی مناسبت نہیں پائی جاتی۔ شوکانی کی یہ تنقید حقیقتاً بہت ہی تعجب انگیز اور انتہائی کم زور ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ ایک کم زور بنیاد پر انھوں نے اتنی بڑی تنقید کیسے استوار کر لی ہے۔ چنانچہ مصنف نے مختلف قدیم وجدید مفسرین کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ سورۂ بقرہ کے مرکزی مضمون اور مدعا کے لحاظ سے اس میں بنی اسرائیل کے تفصیلی ذکر کی کیا اہمیت ہے۔
ــــــــــــــــــــ
ایک عام مسلمان اگر ترجمۂ قرآن پڑھنا چاہے تو یقیناً روایتی طرز پر کیے جانے والے لفظی تراجم سے بھی قرآن کے مضامین سے واقفیت حاصل کر سکتا ہے، تاہم فہم قرآن کے حوالے سے عام مسلمان کے لیے بھی قرآن کے اجمالی نظم کا سامنے ہونا اہم ہے۔ اردو میں نظم قرآن کے حوالے سے مستقل نوعیت کا کام مولانا اصلاحی نے ’’ تدبر قرآن“ میں اور مولانا مودودی نے ’’تفہیم القرآن“ میں کیا ہے اور دونوں ہی انداز مختلف پہلوؤں سے نظم قرآن کو سمجھنے میں مددگار ہیں۔ البتہ یہ باعث حیرت ہے کہ میری یادداشت کے مطابق ان دونوں اہل علم کے ترجمے جب تفسیر سے الگ کر کے شائع کیے گئے تو دونوں میں سورہ کے مجموعی نظم سے متعلق تمہیدی پیراگراف شامل نہیں کیے گئے جو ان دونوں ترجموں کا امتیاز ہیں۔[*]
بہرحال، عام قاری اس سلسلے میں چند دست یاب تراجم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایک تو جاوید احمد صاحب غامدی کی ’’البیان ‘‘ہے، جس میں نظم قرآن کے اسی اسلوب کو مزید تنقیح کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جو ’’ تدبر قرآن“ میں ملتا ہے۔ تفسیری حواشی ساتھ شامل ہونے سے اس کی ضخامت پانچ جلدوں تک بڑھ گئی ہے، لیکن جو حضرات ترجمہ اور مختصر حواشی تک محدود رہ کر قرآن کو سمجھنا چاہیں، ان کے لیے یہ ترجمہ اولین انتخاب ہے۔
اس کے علاوہ دو تین اور ترجمے بھی اس پہلو سے مفید اور مددگار ہیں۔ ایک مولانا تقی عثمانی کا ’’آسان اردو ترجمۂ قرآن‘‘ ہے، جس میں وہ لمبی اور متنوع مضامین والی سورتوں کی ابتدا میں سورہ کے مطالب کا ایک اجمالی خاکہ بھی بیان کرتے ہیں اور جہاں جہاں مضامین میں انتقال واقع ہوتا ہے، وہاں بھی حاشیے میں ربط مضمون کو واضح کر دیتے ہیں۔ نظم کی اتنی اجمالی وضاحت بھی عام قاری کے لیے کافی اور مفید ہوتی ہے۔ مولانا کے ہاں اس ضمن میں تدبر اور تفہیم، دونوں سے استفادہ کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور یہ دیوبندی مزاج کی ایک عمومی خصوصیت بھی ہے کہ وہ مختلف علمی کاوشوں یا فکری عناصر کو اپنے فریم ورک میں لا کر ان سے استفادہ کی صورتیں نکال لیتا ہے۔
یہی نوعیت ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے دروس قرآن ’’بیان القرآن“ کی ہے اور انھوں نے بھی سورتوں کے مرکزی مضمون، یعنی عمود کو اور اجزا کے، عمود کے ساتھ ربط کو واضح کرنے کا التزام کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے کام میں بھی ’’ تدبر قرآن“ اور ’’تفہیم القرآن‘‘، دونوں سے استفادہ کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور مفید کام دعوہ اکیڈمی اسلام آباد نے مولانا فتح محمد جالندھری کے ترجمے کی اشاعت کی صورت میں کیا ہے۔ یہ ترجمہ پروفیسر عبد الجبار شاکر مرحوم کے دور میں شائع ہوا تھا اور اس میں بھی سورتوں کے آغاز میں سورہ کے نظم اور اس کے مضامین ومطالب کا ایک جامع خاکہ درج کیا گیا ہے، جو زیادہ تر ’’ تدبر قرآن“ کی تلخیص معلوم ہوتا ہے۔ اس محنت کا سہرا کس کے سر ہے، یہ معلوم نہیں، لیکن بہرحال اس سے اس ترجمے کی افادیت بہت بڑھ گئی ہے۔
ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر محمد فاروق خان شہید نے جو ترجمۂ قرآن تیار کیا، اس میں بھی نظم کی وضاحت موجود ہے۔ یہ ترجمہ بھی زیادہ تر ’’ تدبر قرآن“ یا ’’البیان‘‘ کی تلخیص پر مبنی ہے، تاہم جابجا ڈاکٹر صاحب نے دیگر اردو مفسرین کی آرا سے بھی استفادہ کیا ہے۔
یہ تمام کاوشیں اردو دان قارئین کے لیے مفید ہیں اور وہ اپنے اپنے ذوق اور فرصت کے مطابق ان میں سے کسی کا بھی انتخاب کر سکتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[*] نظم کے باب میں ایک اور مستقل منہج ہمارے استاذ الاستاذ حضرت مولانا حسین علی نے اختیار کیا ہے، جو ان کے تفسیری افادات کے مجموعہ ’’بلغة الحیران‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے، تاہم یہ عام قارئین کے لیے زیادہ معروف اور عام دست یاب نہیں۔