اسلام کا ایک بنیادی رکن روزہ ہے ۔ روزہ اللہ تعالیٰ نے ہر آسمانی مذہب میں فرض کیا۔ سورۂ بقرہ میں ہے:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ. اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.(۱۸۳ - ۱۸۴)
’’ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ۔ یہ گنتی کے چند دن ہیں۔ اِس پر بھی جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کر لے۔ اور جو اِس کی طاقت رکھتے ہوں کہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں تو اُن پر ہر روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے۔ پھر جو شوق سے کوئی نیکی کرے تو یہ اُس کے لیے بہتر ہے، اور روزہ رکھ لو تو یہ تمھارے لیے اور بھی اچھا ہے، اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔‘‘
روزے کا مقصد انسان کے نفس کا تزکیہ کرنا ہے۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کے مقرر وقت میں اپنی جائز خواہشات سے رکا رہتا ہےاور اپنے نفس کے منہ زور گھوڑے کو فجر سے مغرب تک لگام دیے رہتا ہے تو یہ اُس کی تربیت کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔یہ تربیت کا بہترین مہینا ہے۔ جس طرح اس دنیا کے کاروبار کو وقت کے تقاضوں کے مطابق چلانے کے لیے ملازمین کو refresher courses کرائے جاتے ہیں، اسی طرح مسلمانوں کے ایمان کو مضبوط کرنے اور انھیں اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب کرنے کے لیے ہم روزے رکھتے ہیں۔عام دنوں میں نمازیں تو ہم اللہ تعالیٰ کے مقررہ وقت کے مطابق پڑھتے ہیں، لیکن رمضان میں ہم کھاتے پیتے اور بھوکے پیاسے بھی اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے وقت کے مطابق ہیں۔ ہر مومن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پانچ فرض نمازوں کے علاوہ تہجد کی نماز بھی پڑھے۔تہجد کی نماز کے وقت اللہ تعالیٰ قریبی آسمان پر آجاتے ہیں اور اپنے بندوں سے کہتے ہیں کہ مانگو اپنے رب سے اور فرشتوں سے اپنے نیک بندوں کا ذکر کرتے ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ سے انتہائی قربت کی ساعتیں ہیں۔
ہمارے ہاں ایک نیا معمول شروع ہوگیا ہے کہ عموماً لوگ پوری رات جاگتے ہیں اور پھر سحری کے بعد سوتے ہیں اور پھر آدھا دن گزرنے کے بعد جاگتے ہیں، یہ روزے کی مبارک ساعتوں کو ضائع کرنے کے مترادف ہے ۔
روزہ ایک فرض عبادت ہے، لیکن اگر کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ روزہ چھوڑ تو سکتا ہے، لیکن جتنے روزے کسی بھی وجہ سے چھوٹ جائیں گے، ان کی تعداد کو بعد میں پورا کرنا ہوگا۔ خواتین کے حمل، زچگی اور حیض کے دن اسی زمرے میں شامل ہیں۔اسی وجہ سے خواتین کو ایام مخصوصہ میں روزہ اور نماز چھوڑنے کی رعایت تو ہے، لیکن نماز کی قضا فرض نہیں کی گئی، جب کہ چھوٹے ہوئے روزوں کی تعداد کو پاکیزگی کے دنوں میں پورا کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بہت ہی عظیم اور پاکیزہ ہے۔وہ پوری کائنات کے بادشاہ ہیں اور خواتین ان دنوں اذیت اور بے چینی کا شکار ہوتی ہیں، اس لیے ان ایام میں ان کو ان دو عبادتوں کے نہ کرنے کی رعایت دی گئی ہے اور اس کیفیت سے نکلنے کے بعدروزوں کی تعداد کو پورا کرنا لازمی ہے ۔ ان ایام میں چھٹی ہوئی نماز کی گنتی پورا کرنا فرض نہیں کیا گیا، کیونکہ ایام مخصوصہ میں ہر مہینے کئی نمازیں چھوٹ جاتی ہیں اور ان کی گنتی کو پورا کرنا تکلیف ما لا یطاق ہے اور رمضان کے روزے سال میں ایک دفعہ آتے ہیں اور ان میں چھوٹے ہوئے روزوں کی تعداد محدود ہوتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہے کہ وہ انسان کی ہمت سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالتا۔
خواتین کا عموماً سوال یہ ہوتا ہے کہ وہ ان مخصوص ایام میں کتنے دن تک نمازنہ پڑھیں اور روزہ نہ رکھیں، کیونکہ بعض خواتین کو بعض مسائل کی وجہ سے یا ہارمونز کے غیر متوازن ہونے یا meeno pause کی وجہ سے یہ ایام کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو خواتین کتنے دن تک نماز اور روزہ چھوڑ سکتی ہیں؟
کتاب المستحاضہ میں ہے۔ (استحاضہ کے معنی ہیں عورت کی وہ کیفیت جس میں اس کا خون آنا بند ہی نہ ہو)۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ خون ایک رگ کا ہے حیض کا نہیں (استخاضہ میں عورت کا خون بند نہیں ہوتا) تو اس کیفیت میں حیض کے دن جو خواتین کو شروع سے حیض کے لیے مقرر تھے ان دنوں میں نمازنہ پڑھے ( اور قابل فہم بات ہے کہ روزہ بھی چھوڑے) اور باقی دنوں میں پاک صاف ہو کر خون آنے کے باوجود نماز پڑھے اور روزے رکھے۔
یعنی شروع سے جن تاریخوں میں اور جتنے دن خون آتا تھا، بس اتنے دن آنے پرنماز چھوڑ دے اور روزہ نہ رکھے اور باقی دنوں میں خون آنے کے باوجود نہا کرنماز بھی پڑھے اور روزہ بھی رکھیں:
وَيَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ قُلْ هُوَ اَذًي فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِي الْمَحِيْضِ وَلَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰي يَطْهُرْنَ فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ.(البقرہ ۲: ۲۲۲)
’’وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ (عورتوں کے) حیض کا کیا حکم ہے؟ کہہ دو، یہ ایک طرح کی نجاست ہے۔ چنانچہ حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ خون سے پاک نہ ہو جائیں، اُن کے قریب نہ جاؤ۔ پھر جب وہ نہا کر پاکیزگی حاصل کر لیں تو اُن سے ملاقات کرو، جہاں سے اللہ نے تمھیں (اُس کا) حکم دیا ہے۔ یقیناً اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو توبہ کرنے والے ہوں اور اُن کو جو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہوں۔‘‘
اکثر خواتین یہ سوال بھی پوچھتی ہیں کہ اگر روزہ رکھ لیں اور روزے کے دوران میں حیض ہوجائے تو ان کا روزہ ہوگا یا ختم ہوجائے گا؟
اگر روزہ کھلنے سے چند منٹ پہلے بھی حیض آجائے تو روزہ شمار نہیں ہوگا ۔جس عظیم الشان بادشاہ کے لیے آپ عبادت کرتے ہیں، وہ پاکیزگی اور طہارت کو پسند کرتا ہے۔
خواتین چونکہ گھر کی ذمہ داری اٹھاتی ہیں اور سحر و افطار کے وقت بہت زیادہ مصروف ہوتی ہیں، اس لیے بعض اوقات عین وقت پر روزہ رکھ سکتی ہیں، نہ افطار کرسکتی ہیں۔چند ساعتیں سحری اور افطار میں دیر ہوسکتی ہے، اس لیے وہ کیا کریں؟
رمضان میں سحری اور افطار کے اوقات کی پابندی بہت ضروری ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری قوم اس وقت تک فلاح پائے گی جب تک وہ افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرے گی۔خواتین کو اگر کسی وجہ سے کھولنے اور بند کرنے میں دیر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے۔وہ ہمارے لیے آسانیاں چاہتے ہیں، مشکلات نہیں۔ وہ ہر انسان کو ان کے لحاظ سے رعایت دیتے ہیں۔شریعت کے معاملے میں کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈ الا جاتا۔
صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت انس سے روایت ہے کہ یہود کی کوئی خاتون حیض والی ہو جاتی تو نہ اس کے ساتھ کھانا کھاتے اور نہ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے۔ہندوؤں کے اندر بھی خواتین پر پابندیاں تھیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں اعتکاف میں بیٹھے ہوتے اور میرے حجرے میں اندر سر کرتے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر دھو لیتی، حالاں کہ میں حالت حیض میں ہوتی (متفق علیہ)۔
انھی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں تکیہ لگاتے اور قرآن پڑھتے، جب کہ میں حائضہ ہوتی(متفق علیہ)۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ حیض کی حالت میں خواتین نہ تو قرآن پڑھ سکتی ہیں، نہ سن سکتی ہیں، نہ جاے نماز پکڑ سکتی ہیں اور نہ تسبیح پکڑ سکتی ہیں۔ یہ تمام سنی سنائی باتیں ہیں ،ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
ہم ان تمام بے حیثیت تصورات کو قرآن وحدیث کی روشنی میں دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
باب الحیض میں ایک متفق علیہ حدیث ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کہا کہ عائشہ مجھے چھوٹا بوریا، یعنی جاے نماز پکڑاؤ۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسول، میں حیض سے ہوں۔ آپ نے فرمایا: تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں(تیرا ہاتھ پاک ہے)۔
حضرت میمونہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چادر میں نماز پڑھتے، جب کہ اس چادر کا کچھ حصہ مجھ پرہوتا اور کچھ آپ پر۔
آپ خواتین کو عیدین اور جمعہ کے دن اور باقی دنوں میں مسجد جانے کا حکم دیتے ۔ہم خواتین کہتیں کہ یارسول اللہ، ہم بعض اوقات حیض سے ہوتی ہیں۔آپ نے فرمایا: نماز نہ پڑھو، خطبہ سن لیا کرو۔
یہاں ضمناً اس سوال کاجواب بھی عرض کر دوں کہ اگر درد دور کرنے کے لیے ٹیکہ لگوانا پڑے یا شوگر کے مریض انسولین کا ٹیکہ لگا لیں تو روزہ نہیں ٹوٹتا، البتہ طاقت کا ٹیکہ لگوانا درست نہیں اور نہ کوئی دوا منہ سے لی جاسکتی ہے۔ اگر ایسا کرنا پڑ جائے تو روزہ ختم ہو جائے گا اور بعد میں رکھنا ہوگا۔
ہمارے اس مضمون کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس حوالے سے ہم خواتین کے بارے میں جو منفی خیالات ہیں، ان میں کوئی سچائی نہیں،سواے نماز ، روزہ اور طواف کے، خواتین ہر طرح کے اعمال کرسکتی ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ