HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

صحرا میں پھول

صحرا میں ہمیشہ پھول کھلتا ہے، صحرا میں چمن نہیں اگایا جاسکتا  ــــ اِسی حقیقت کی دریافت میں اصلاحِ امت کا راز چھپا ہواہے۔ہماری تاریخ کے بیش تر مفکرین ، دُعاۃ اور مصلحین اکثر اِس مفروضے کی بنیاد پر انتہائی اخلاص کے ساتھ کام کرتے رہے کہ وہ صحرا میں بھی اُسی طرح ایک سرسبز وشاداب چمن اگاسکتے ہیں، جس کا امکان اِس دنیا میں صرف ایک زرخیز زمین ہی پرممکن نظرآتا ہے۔

 اِس قسم کا طرز فکر سرتاسر قانونِ فطرت کے خلاف تھا،چنانچہ تاریخ کا تجربہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود عملاً جو کچھ ممکن ہو سکا، وہ صرف انفرادی اصلاح کا عملی کام تھا ،نہ کہ آئیڈیل افراد سازی اور اجتماعی انقلاب۔ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی انقلاب کا راستہ انفرادی اصلاح کے سوا اور کچھ نہیں۔لہٰذا اصلاح و تربیت کے میدان میں کام کرنے والے افراد کو چاہیے کہ وہ اِس ابدی قانون فطرت کو لازماً ملحوظ رکھیں کہ اِس دنیا میں نہ آئیڈیل نظام بن سکتا ہے، اور نہ آئیڈیل افراد۔اِس کا سب سے بڑا ثبوت خود کام کرنے والے یہ قیمتی افراد ہیں جو اپنے تمام تر علم و اخلاص کے باوجود’ آئیڈیل‘ نہیں ہواکرتے ۔

ڈاکٹر اقبال (وفات: ۱۹۳۸ء ) جیسے عبقری انسان نے اِسی احساس کے تحت ابتدا ءً فرمایا تھا:

 نہیں ہے نا امید اقبال، اپنی کشت ِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے، ساقی!

تاہم، جلد ہی اقبال کے وسیع مطالعے نے اُنھیں بتایا کہ امتحان کی اِس دنیا میں ایسا ہرگز ممکن نہیں کہ دور زوال کے تحت وجود میں آنے والے ایک قومی صحرا میں دوبارہ ایک سرسبز وشاداب چمن لہلہا اٹھے۔ چنانچہ اقبال نے دور زوال کے مسلم گروہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

تیرے محیط میں کہیں ، گوہر زندگی نہیں

ڈھونڈ چکا میں موج موج، دیکھ چکا صدف صدف!

تاہم،اِس واقعے پر ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے باوجود آج تک ’’ ذرا نم ہو تویہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘جیسا خوشی فہمی پر مبنی تصور ہمارے درمیان ایک حسین خواب بنا ہواہے ۔حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ دو صدیوں کے دوران میں ہمارے انتہائی محترم مفکرین، مصلحین، اداروں اور تحریکوں کے بانیین، مخلص علما اور جدید و قدیم میدان کے ماہر دانش وروں کے ذریعے سے اس کشت ویراں کی یہ ’’مٹی‘‘نہ صرف ’’نم‘‘کی گئی،بلکہ مختلف مذہبی، ادارہ جاتی اور ملی و تحریکی سرگرمیوں کے ذریعے سے اُسے پوری طرح جل تھل کردیا گیا ، مگرنہ اُس کے اندر مطلوب قسم کی ’’زرخیزی‘‘ کا عمل جاری ہوا، اور نہ ہی کوئی اجتماعی انقلاب برپا ہوسکا۔

زوال کا قانون

حقیقت یہ ہے کہ فرد اور امت، دونوں پر زوال آتاہے۔علامہ ابن خلدون (وفات: ۱۴۰۶ء )نے حکومت کے حوالے سے اِسی تاریخی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ سلطنت جیسے ادارے کی بھی اُسی طرح ایک عمر ہوتی ہے، جس طرح افراد کی عمر ہواکرتی ہے (’إنّ الدولة لھا أعمارٌ طبیعیةٌ، کما للأشخاص‘ مقدمہ ابن خلدون ۱۷۰) اور ظاہر ہے کہ کوئی فرد ، امت یا کوئی گروہ اِس عام فطری قانون (law of nature) سے ہرگز  مستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔

 غیرحقیقت پسندانہ طرز فکر کا نقصان

دورر زوال میں افراد ضرور ملیں گے، مگر ’’آئیڈیل افرادسازی‘‘ اور’’ اجتماعی انقلاب‘‘ کو نشانہ بنانا صرف اپنے آپ کو دھوکا دینے کے ہم معنی ہے۔اِس غیر حقیقت پسندانہ طرز فکر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے خواب کبھی اپنی مطلوب صورت میں شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکیں گے۔ چنانچہ اِس قسم کے لوگ خود بھی سخت ذہنی اور نفسیاتی اختلال کا شکار رہیں گے اور اِسی کے ساتھ دوسروں کوبھی وہ اِسی بحر ظلمات میں دھکیلتے رہیں گے۔ اِس طرح عملاً یہ ہوگا کہ ایسے لوگ اُس عظیم ترین نعمت سے محروم ہو کررہ جائیں گے جسے ذہنی سکون (peace of mind) اور فکری سداد (sound mindedness)کہاجاتاہے۔ 

اِسی کے ساتھ ایمانی اعتبار سے،اِس غیر حقیقت پسندانہ طرز فکر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جان ومال کی بڑی سے بڑی قربانی کے باوجود اپنی مسلسل ناکامی اور اپنے خواب اور اُس کی تکمیل کے درمیان پائی جانے والی اِس وسیع اور ناقابل عبور خلیج کو دیکھ کر اُن کے اندرسے حقیقی شکر کا جذبہ ختم ہوجائے گا۔وہ ہمیشہ شکر کے اُس مہلک کٹاؤ (erosion)کا شکاررہیں گے جس کے بعد ایک شخص کی زندگی میں عملاً صرف ’مذہبی ‘ مراسم باقی رہیں، مگر حقیقتاً اُس کے اندر سے مومنانہ زندگی کا خاتمہ ہوکر رہ جائے۔چنانچہ ایساآدمی کاغذی اور رسمی اخلاقیات کا علم بردار ہوگا، مگر حقیقی اخلاقیات اُس کے اندر کہیں نظر نہیں آئیں گے۔وہ اسلام کا جھنڈا بلند کررہا ہوگا، مگر اُس کے اسلام میں عام انسانی اقدار(values) جیسا کوئی عمومی اظہاربھی عملاً دکھائی نہیں دے گا۔ ایسے لوگ ہمیشہ اِسی منفی شخصیت کے ساتھ جیتے اور آخر کاراِس حال میں دنیا سے رخصت ہوجا تے ہیں کہ اُن کا پورا وجود عملاً اِس حقیقت کا مصداق بن چکا ہوتاہے:

وہ محرومِ تمنا کیوں نہ سوے آسماں دیکھے؟

کہ جو منزل بہ منزل اپنی محنت رائیگاں دیکھے!

تاہم، ایک مومن کبھی اِس ذہنی، ایمانی اور اخلاقی ہلاکت کا تحمل نہیں کرسکتا۔

اِسی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے استاذ وحیدالدین خاں نے بجاطورپر لکھا تھا:

 ’’جب امت پر یہ وقت آجائے تو کرنے کا صرف ایک کام باقی رہتا ہے۔ وہ ہے مبنی بر افراد اصلاح۔ امت جب زندہ ہو تو مبنی بر اجتماع انداز کا ر آمد ہوسکتا ہے، لیکن جب امت اپنے دورِ زوال میں پہنچ جائے تو اُس وقت افراد کو تلاش کیجیے اور افراد کی اصلاح پر اپنے کام کو مرتکز کردیجیے۔اِس کے سوا کوئی اور طریقہ ہرگز نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ امت کے دورِ زوال میں مبنی بر امت سیاسی یا سماجی انقلاب کے پروگرام بنائیں، وہ بلاشبہ فطرت کے قانون سے آخری حد تک ناواقف ہیں۔ ایسے مصلحین خود قابل اصلاح ہیں، وہ امت کے مصلح نہیں بن سکتے۔‘‘ ( ماہ نامہ الرسالہ ، اکتوبر۲۰۲۰ء ، ص۱۳)

اجتماعی تعلیم وتذکیرکی اہمیت

 مبنی بر فرد کام کو اپنا نشانہ بنانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عام لوگ بالکل نظرانداز کردیے جائیں اور اُن کی تعلیم وتذکیرکا کوئی معقول انتظام نہ کیا جائے۔اِس قسم کا تصور اِس معاملے میں ایک دوسری انتہا پر جانے کے ہم معنی ہوگا، اور کسی معاملے میں انتہاپسندی کا طریقہ اختیار کرنا سادہ معنوں میں ، نہ صرف عقل و اسلام کے سرتاسر خلاف ہے، بلکہ وہ اپنے مطلوب مقصد کی تکمیل میں ایک ایسے سد راہ کی حیثیت رکھتا ہے جس کے تباہ کن نتائج سے کوئی فرد اور گروہ اپنے آپ کو ہرگز محفوظ نہیں رکھ سکتا۔

 چنانچہ قرآن کے مطابق، مبنی بر فرد کام کے ساتھ عام افراد کے درمیان عمومی اِنذار (التوبہ ۹: ۱۲۲) اور تذکیر (الذاریات ۵۱: ۵۵) کا اجتماعی کام پورے اہتمام کے ساتھ جاری رہے گا۔تاہم اجتماعی کام سے کسی حقیقی ’’اجتماعی انقلاب‘‘کی توقع ہرگز درست نہیں۔اجتماعی کام اجتماعی نوعیت کے عمومی نتائج پیداکرے گا، افراد سازی جیسا مطلوب مقصد کبھی اِس کے ذریعے سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

البتہ،اِس تعلیم وتذکیرکے ذریعے سے امت کو دو اہم فائدے ضرور حاصل ہوں گے: ایک یہ کہ اِس سے لوگوں کے درمیان عمومی بیداری پیدا ہوگی۔ دوسرے یہ کہ زوال یافتہ گروہ کی اِس عام بھیڑاوراِس ’بحر الکاہل‘ سے کچھ زندہ افرادنکل کر سنجیدہ انفرادی کام کے میدان میں سرگرم طورپر شریک ہوتے رہیں گے، جس سے نہ صرف افراد سازی کا مطلوب کام مسلسل طورپر جاری رہے گا، بلکہ انفرادی تربیت کے اِس کام میں یہ سنجیدہ افراد اُس کے مضبوط دست وبازو کا رول ادا کریں گے ۔ وہ مردانِ کار کی حیثیت سے افرادسازی کے اِس مطلوب مشن کے لیے ایک عظیم فکری اور افرادی قوت ثابت ہوں گے۔ (۲۵/ اکتوبر ۲۰۲۳ء)

ـــــــــــــــــــــــــ

B