HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے پہلے ہی دین ابراہیم پر تھے

ترجمہ و تحقیق: محمد رفیع مفتی/محسن ممتاز

 

ــــــ ۱ ــــــ

عَنْ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ قَالَ:۱ كَانَ صَنَمٌ مِنْ نُحَاسٍ يُقَالُ لَهُ: إِسَافٌ، أَوْ نَائِلَةُ، يَتَمَسَّحُ بِهِ الْمُشْرِكُونَ إِذَا طَافُوا فَطَافَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطُفْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا مَرَرْتُ مَسَحْتُ بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَمَسَّهُ» فَقَالَ زَيْدٌ: فَطُفْتُ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: لَأَمَسَّنَّهُ حَتَّى أَنْظُرَ مَا يَكُونُ، فَمَسَحْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَمْ تُنْهَ؟»، قَالَ زَيْدٌ: فَوَالَّذِي هُوَ أَكْرَمَهُ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ مَا اسْتَلَمَ صَنَمًا حَتَّى أَكْرَمَهُ اللّٰهُ بِالَّذِي أَكْرَمَهُ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ....

_________

زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں : (بیت اللہ کے پاس) تانبے کا ایک بت تھا، جسے اساف یا نائلہ کہتے تھے۔ مشرکین بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ( حصول برکت کے لیے ) اُس کو چُھوتے تھے ۔۱

ایک مرتبہ یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف کیا تو میں نے بھی آپ کے ساتھ طواف کیا۔ پھر میں جب اُس بُت کے پاس سے گزرا تو میں نے اُسے چُھوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو فرمایا: اِسے مت چُھوؤ۔ زید کہتے ہیں کہ میں نے طواف کرتے ہوئے ارادہ کیا کہ میں اِسے ضرور چُھوؤں گا تا کہ میں دیکھوں کہ اس سے کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ میں نے پھر چُھوا تور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمھیں روکا نہیں تھا ؟

زید کہتے ہیں : اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبوت کی عزت بخشی اور آپ پر اپنی کتاب اتاری کہ آپ نے کبھی کسی بت کو برکت کے لیے بھی نہیں چُھوا، یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو نبوت کی عزت بخش دی اور آپ پر اپنی کتاب اتار دی۔

 _________

۱۔ یہی طریقہ قبروں کی زیارت کے موقع پر بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ روایت سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے بھی اِسے پسند نہیں فرمایا، اِس لیے کہ یہ من جملہ مراسم عبودیت ہے اور دین ابراہیمی کے ماننے والے اِس سے ہمیشہ اجتناب کرتے رہے ہیں۔

متن کے حواشی

ا۔ اس روایت کا متن دلائل النبوۃ، بیہقی ۳۴/۲ سے لیا گیا ہے ، اس کے راوی زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ اس کے متابعات درج ذیل کتب میں منقول ہیں :

غریب الحدیث، حربی ۸۲۷/۲ - الآحاد والمثانی، ابن ابی عاصم ، رقم ۲۵۷۔ مسند بزار ، رقم ۱۳۳۱۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۸۱۳۲۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۷۲۱۲۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۴۶۶۵۔ التوحید، ابن منده، رقم ۱۴۸۔ مستدرک حاکم ۲۱۲/۳۔

ــــــ ۲ ــــــ

عَنْ عُرْوَةَ ، قَالَ:۱ حَدَّثَنِي جَارٌ، لِخَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ لِخَدِيجَةَ: «أَيْ خَدِيجَةُ، وَاللّٰهِ لَا أَعْبُدُ اللَّاتَ، وَاللّٰهِ لَا أَعْبُدُ الْعُزَّى أَبَدًا» قَالَ: فَتَقُولُ خَدِيجَةُ: خَلِّ اللَّاتَ، خَلِّ الْعُزَّى، قَالَ: كَانَتْ صَنَمَهُمُ الَّتِي كَانُوا يَعْبُدُونَ ثُمَّ يَضْطَجِعُونَ.

  _________

عروہ بن زبیر سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدہ خدیجہ بنت خویلد کے پڑوسی نے بیان کیا کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ خدیجہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا : اے خدیجہ ! خدا کی قسم ، میں نہ کبھی لات کی عبادت کروں گا اور نہ عزیٰ کی۔ سیدہ خدیجہ فرماتی تھیں : آپ لات کو بھی چھوڑیں اور عزیٰ کو بھی ۱۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ دونوں اُن کے وہ بت تھے، جن کی وہ سونے سے پہلے عبادت کیا کرتے تھے۔

 _________

۱۔ مطلب یہ ہے کہ آپ نے صحیح فرمایا۔ آپ کو اُن سے کیا لینا ہے؟ آپ کے لیے آپ کا پروردگار ہی کافی ہے۔

متن کے حواشی

ا۔ اس روایت کا متن مسند احمد ، رقم ۷۹۴۷ اسے لیا گیا ہے۔ اس کے راوی عروہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے کسی پڑوسی سے سن کر یہ روایت کر رہے ہیں۔ اس کا کوئی دو سر امتابع اور شاہد موجود نہیں ہے۔ 


ــــــ ۳ ــــــ

عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ:۱ أَضْلَلْتُ بَعِيرًا لِي، فَذَهَبْتُ أَطْلُبُهُ يَوْمَ عَرَفَةَ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا مَعَ النَّاسِ بِعَرَفَةَ، فَقُلْتُ: وَاللّٰهِ، إِنَّ هَذَا لَمِنَ الْحُمْسِ، فَمَا شَأْنُهُ هَاهُنَا؟ وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تُعَدُّ مِنَ الْحُمْسِ.

  _________

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انھوں نے بیان کیا: عرفہ کے دن میرا اونٹ کھو گیا تو میں اُس کو ڈھونڈنے کے لیے نکلا۱۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ میدانِ عرفات میں کھڑے ہیں تو میں نے سوچا: بخدا، یہ تو حمس میں سے ہیں ۲، ان کا یہاں کیا کام ؟ یہ اِس لیے کہ قریش حمس میں شمار کیے جاتے تھے۳۔

  _________

۱۔ ابن اسحٰق کی روایت میں صراحت ہے کہ یہ واقعہ زمانۂ جاہلیت کا ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی نبوت کے منصب پر فائز نہیں ہوئے تھے۔ ملاحظہ ہو: فتح الباری، ابن حجر ۳/ ۵۱۶۔


۲۔ یعنی اُن لوگوں میں سے ہیں، جو دینی شعائر سے متعلق اپنی تعبیرات میں بہت سختی برتتے ہیں۔ بیت اللہ کے متولی ہونے کی وجہ سے قریش کارویہ اپنے معاملات میں یہی تھا۔ چنانچہ اِسی بنا پر حمس میں شمار کیے جاتے تھے۔

۳۔ اِس استعجاب کی وجہ یہ ہے کہ قریش نے اپنے لیے یہ امتیاز قائم کر لیا تھا کہ حج کے موقع پر بھی مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے تھے۔ اُن کا کہنا یہ تھا کہ وہ بیت اللہ کے مجاور ہیں، لہٰذا اُن کے لیے حدود حرم سے باہر نکلنا مناسب نہیں ہے۔ قرآن نے اِسی بنا پر فرمایا ہے:

ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰهَﵧ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ. (البقرہ ۲: ۱۹۹)
’’پھر (یہ بھی ضروری ہے کہ) جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں، تم بھی، (قریش کے لوگو)، وہیں سے پلٹو اور اللہ سے مغفرت چاہو۔ یقیناً اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘

متن کے حواشی

ا۔ اس روایت کا متن صحیح مسلم، رقم ۱۲۲۰ سے لیا گیا ہے ، اس کے راوی جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ ہیں۔ الفاظ کے بہت معمولی فرق کے ساتھ اس کے متابعات ان مصادر میں دیکھے جا سکتے ہیں :

مسند احمد ، رقم ۱۶۲۹۵ ، ۱۶۷۵۷ ۔ سنن دارمی، رقم ۱۹۲۰ ۔ صحیح بخاری، رقم ۱۶۶۴ ۔ اخبار مکہ ، فاکہی، رقم ۲۸۰۱۔ مسند بزار، رقم ۳۴۲۴۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۳۹۹۵۔ سنن نسائی، رقم ۳۰۱۳۔صحیح ابن خزیمہ، ۲۸۲۳، ۳۰۶۰۔ مستخرج ابی عوانہ ، رقم ۳۴۷۶۔ شرح مشکل الآثار ، طحاوی، رقم ۱۲۰۲۔ صحیح ابن حبان، رقم ۳۸۴۹۔ المعجم الکبر، طبرانی، رقم ۱۵۷۷۔ مستدرک حاکم ۴۸۲/۱۔ مستخرج ابی نعیم ، رقم ۲۸۳۱۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۹۴۵۲۔ معرفۃ السنن، بیہقی ،رقم ۳۰۲۹۔

اس روایت کا ایک شاہد ابو نعیم کی معرفۃ الصحابۃ میں بھی موجود ہے۔ ملاحظہ ہو : رقم ۴۶۳۲۔


المصادر والمراجع

ابن أبي حاتم عبد الرحمٰن الرازي. (1427هـ/2006م). العلل. ط1. تحقيق: فريق من الباحثين بإشراف وعناية د/سعد بن عبد الله الحميد و د/ خالد بن عبد الرحمٰن الجريسي. الرياض: مطابع الحميضي.

ابن أبي حاتم عبد الرحمٰن الحنظلي. (1271هـ/1952م). الجرح والتعديل. ط1. حيدر آباد الدكن، الهند: طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية. بيروت: دار إحياء التراث العربي.

ابن أبي عاصم أحمد بن عمرو. (۱٤۱۱هـ/۱۹۹۱م). الآحاد والمثاني. ط۱. تحقيق: د. باسم فيصل أحمد الجوابرة. الرياض: دار الراية.

ابن حبان محمد بن حبان. (1420هـ/2000م). المجروحين من المحدثين. ط1. تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفى. دار السميعي.

إبن حبان، محمد بن حبان البُستي. (۱٤۱٤هـ/۱۹۹۳م). صحيح ابن حبان. ط۲. تحقيق: شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1406هـ/1986م). لسان الميزان. ط 3. تحقيق: دائرة المعرف النظامية، الهند. بيروت: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1417هـ/1997م). تحرير تقريب التهذيب. ط1. تاليف: الدكتور بشار عواد معروف، الشيخ شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزيع.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1403هـ/1983م). طبقات المدلسين. ط1. تحقيق: د. عاصم بن عبد الله القريوتي. عمان: مكتبة المنار.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1404هـ/1984م). النكت على كتاب ابن الصلاح. ط1. تحقيق: ربيع بن هادي المدخلي. المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية.

ابن خزيمة محمد بن إسحٰق. (۱٤۲٤هـ/۲۰۰۳م). صحيحُ ابن خُزَيمة. ط۳. تحقيق: الدكتور محمد مصطفى الأعظمي. بيروت: المكتب الإسلامي.

ابن رجب عبد الرحمٰن السَلامي. (1407هـ/1987م). شرح علل الترمذي. ط1. تحقيق: الدكتور همام عبد الرحيم سعيد. الأردن: مكتبة المنار (الزرقاء).

ابن السمَّاك عثمان بن أحمد. (2004م). الثاني من الفوائد المنتقاة لابن السماك. ط1. الكتاب مخطوط، نُشر في برنامج جوامع الكلم.

ابن شاذان الحسن بن أحمد البغداد. (2004م). الأول من حديث أبي علي بن شاذان. ط1. الكتاب مخطوط، نُشر في برنامج جوامع الكلم.

ابن عدي عبدالله بن عدي الجرجاني. (1418هـ/1997م). الكامل في ضعفاء الرجال. ط1. تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود، علي محمد معوض. بيروت: الكتب العلمية.

ابن الکيال ابو البركات محمد بن احمد. (1420هـ/1999م). الکواکب النيرات. ط2. تحقيق: عبد القيوم عبد رب النبي. مكة مكرمة: المكتبة الامدادية.

ابن المِبرَد يوسف بن حسن الحنبلي. (1413هـ/1992م). بحر الدم فيمن تكلم فيه الإمام أحمد بمدح أو ذم. ط1. تحقيق وتعليق: الدكتورة روحية عبد الرحمٰن السويفي. بيروت: دار الكتب العلمية.

ابن المديني علي بن عبد الله السعدي. (1980م). العلل. ط2. تحقيق: محمد مصطفى الأعظمي. بيروت: المكتب الإسلامي.

ابن معين يحيى بن معين البغدادي. (1399هـ/1979م). تاريخ ابن معين. ط1. تحقيق: د. أحمد محمد نور سيف. مكة المكرمة: مركز البحث العلمي وإحياء التراث الإسلامي.

ابن منده محمد بن إسحٰق.(۱٤۲۳هـ/۲۰۰۲م).التوحيد ومعرفة أسماء الله عز وجل وصفاته على الاتفاق والتفرد. ط۱. تحقيق: الدكتور علي بن محمد. المدينة المنورة: مكتبة العلوم والحكم. سوريا: دار العلوم والحكم.

أبو اسحٰق الحويني. (1433هـ/2012م). نثل النبال بمعجم الرجال. ط1. جمعه ورتبه: أبو عمرو أحمد بن عطية الوكيل. مصر: دار ابن عباس.

أبو إسحٰق إبراهيم بن إسحٰق الحربي. (1405هـ/1985م). غريب الحديث. ط1. تحقيق: سليمان إبراهيم محمد العايد. جامعة ام القری ــــــــــــــــ مكة مكرمة (موافق للمطبوع).

أبو داود سليمان بن الأشعث السَّجِسْتاني. (1403هـ/1983م). سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل. ط1. تحقيق: محمد علي قاسم العمري. المدينة المنورة: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية.

أبو عوانة يعقوب بن إسحٰق. (۱٤۱۹هـ/۱۹۹۸م). المستخرج. ط۱. تحقيق: أيمن بن عارف الدمشقي. بيروت: دار المعرفة.

أبو نعیم احمد بن عبد الله اصبهاني. (د.ت).



معرفة الصحابة. ط۱. تحقیق: مسعد السعدني. بیروت: دارالکتاب العلمیة.

أبو نعيم أحمد بن عبد الله. (۱٤۱۷هـ/۱۹۹۷م). المسند المستخرج علی صحيح مسلم. ط۱. تحقيق: محمد حسن محمد حسن. بيروت: دار الکتب العلمية.

أبو يعلى أحمد بن علي. (1404هـ/1984م). مسند أبي يعلى. ط1. تحقيق: حسين سليم أسد. دمشق: دار المأمون للتراث.

أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (1422هـ/2001م). العلل و معرفة الرجال. ط2. تحقيق و تخريج: د وصي الله بن محمد عباس. الرياض: دار الخاني فرقد فريد الخاني.

أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (1416هـ/1995م). مسند الإمام أحمد بن حنبل. ط1. تحقيق: أحمد محمد شاكر. القاهرة: دار الحديث.

أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (1408هـ/1988م). العلل و معرفة الرجال. ط1. تحقيق و تخريج: د وصي الله بن محمد عباس. بيروت: المكتب الإسلامي. الرياض: دار الخاني.

الأزرقي محمد بن عبد الله. (1424هـ/2003م). أخبار مكة وما جاء فيها من الآثار



. تحقيق: رشدي الصالح ملحس. بیروت: دار الأندلس للنشر.

البخاري محمد بن إسمٰعيل الجعفي. (2009م). التاريخ الكبير. تحقيق: السيد هاشم الندوي. بيروت: دار الفكر.

البخاري محمد بن إسمٰعيل الجعفي. (1397هـ/1977م). التاريخ الأوسط. ط1. حلب، القاهرة: دار الوعي مكتبة دار التراث.

البخاري محمد بن إسمٰعيل. (۱٤۲۲هـ). الجامع الصحيح. ط۱. تحقيق: زهير الناصر. بيروت: دار طوق النجاة.

البزار أحمد بن عمرو. (۲۰۰۹م). مسند البزار. ط۱. تحقيق: محفوظ الرحمٰن زين الله، وعادل بن سعد، وصبري عبد الخالق الشافعي. المدينة المنورة: مکتبة العلوم والحکم.

البيهقي أحمد بن الحسين. (۱٤۰5هـ). دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة. ط۱. بيروت: دار الكتب العلمية.

البيهقي أحمد بن الحسين. (۱٤۱۲هـ/۱۹۹۱م). معرفة السنن والآثار. ط۱. تحقيق: عبد المعطي أمين قلعجي.كراتشي(باكستان): جامعة الدراسات الإسلامية، دمشق: دار قتيبة، حلب: دار الوعي، القاهرة:دار الوفاء.

البیهقي أحمد بن الحسین. (1414هـ/1994م).



السنن الکبری. ط۱. تحقیق: محمد عبد القادر عطاء. مکة المکرمة: مکتبة دار الباز.

الحاكم محمد بن عبد الله المعروف بابن البيع. (۱٤۱۱ه/۱۹۹۰م). المستدرك على الصحيحين. ط۱. تحقيق:مصطفى عبد القادر عطاء. بيروت: دار الكتب العلمية.

خالد الرباط سيد عزت عيد. (1430هـ/2009م). الجامع لعلوم الإمام أحمد (الأدب والزهد). ط1. مصر: دار الفلاح للبحث العلمي وتحقيق التراث.

الدارقطني علي بن عمر. (1405هـ/1985م). العلل الواردة في الأحاديث النبوية. ط1. تحقيق وتخريج: محفوظ الرحمٰن زين الله السلفي. الرياض: دار طيبة.

الدارمي عبد الله بن عبد الرحمٰن. (۱٤۱۲هـ/۲۰۰۰م). مسند الدارمي المعروف بـــ (سنن الدارمي). ط۱.تحقيق: حسين سليم أسد الداراني. المملكة العربية السعودية: دار المغني للنشر والتوزيع.

الذهبي محمد بن أحمد. (1413هـ/1992م). الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة. ط1. تعليق: امام برهان الدين أبي الوفاء إبراهيم بن محمد. جدة: دار القبلة للثقافة الاسلامية، مؤسسة علوم القرآن.

الذهبی محمد بن أحمد. (1387هـ/1967م). ديوان الضعفاء والمتروكين. ط 2. تحقيق: حماد بن محمد الانصاري. مكة: مكتبة النهضة الحديثة.

سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1988م). الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط. ط1. تحقيق: علاء الدين علي رضا. القاهرة: دار الحديث.

سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1986م). التبيين لأسماء المدلسين. ط1. تحقيق: يحيى شفيق حسن. بيروت: دار الكتب العلمية.

سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1407هـ/1987م). الكشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث. ط1. المحقق: صبحي السامرائي. بيروت: عالم الكتب، مكتبة النهضة العربية.

الطبراني سليمان بن أحمد. (1415هـ/1994م). المعجم الكبير .ط1. تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفي. القاهرة: مكتبة ابن تيمية.

الطحاوي أحمد بن محمد. (1415هـ/1994م). شرح مشكل الآثار. ط1. تحقيق: شعيب الأرنؤوط. بیروت: مؤسسة الرسالة.

العجلي أحمد بن عبد الله. (1405هـ/1985م). معرفة الثقات. ط1. تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي. المدينة المنورة: مكتبة الدار.

الفاكهي محمد بن إسحٰق المكي. (۱٤۱٤م). أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه. ط۲. تحقيق: د. عبد الملك عبد الله دهيش. بيروت: دار خضر.

مسلم بن الحجاج النيسابوري. (د.ت). الجامع الصحيح. د.ط. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار إحياء التراث العربي.

مغلطاي علاء الدين بن قليج. (1422هـ/2001 م). إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال. ط1. تحقيق: أبو عبد الرحمٰن عادل بن محمد، أبو محمد أسامة بن إبراهيم. القاهرة: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر.

النسائي أحمد بن شعيب الخراساني. (1421هـ/2001م). السنن الكبرى. ط1. تحقيق: حسن عبد المنعم شلبي أشرف عليه: شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة.

النسائي أحمد بن شعیب. (1411هـ/1991م).



السنن الکبری. ط۱. تحقیق: عبد الغفار سلیمان البنداري، سید کسروي حسن. بیروت: دار الکتب العلمیة.

النسائي أحمد بن شعيب. (۱٤۰۷ه/۱۹۸۷م). السنن الصغری. ط۲. تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة. حلب: مکتب المطبوعات الإسلامية.

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B