بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ ١بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ عِزَّةٍ وَّشِقَاقٍ ٢ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَّلَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ ٣
ـــــــــــــــــــ ۲ ـــــــــــــــــــ
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔
یہ سورۂ ’صٓ‘ [108]ہے۔ قرآن گواہی دیتا ہے ، سراسر یاددہانی [109] کہ اِن کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے،[110] بلکہ یہ منکرین [111] سخت تکبر اور ضدم ضدا میں مبتلا ہیں۔ (اِن کا خیال ہے کہ اِن کے لیے عذاب کہاں)! اِن سے پہلے ہم نے کتنی ہی قومیں ہلاک کر دیں تو اُنھوں نے ہاے پکار کی (کہ اپنے آپ کو بچالیں)، مگر وہ بچنے کا وقت نہیں تھا۔۱- ۳
وَعَجِبُوْ٘ا اَنْ جَآءَهُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْهُمْ وَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ هٰذَا سٰحِرٌ كَذَّابٌ ٤ اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا اِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ٥ وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْهُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰ٘ي اٰلِهَتِكُمْ اِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ يُّرَادُ ٦ مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْاٰخِرَةِ اِنْ هٰذَا٘ اِلَّا اخْتِلَاقٌ ٧ ءَاُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْۣ بَيْنِنَا بَلْ هُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ ذِكْرِيْ بَلْ لَّمَّا يَذُوْقُوْا عَذَابِ ٨
اِنھیں تعجب ہے کہ اِن کے پاس ایک خبردار کرنے والا اِنھی میں سے آگیا ہے۔[112]اور اِن منکروں نے کہہ دیا کہ یہ ساحر ہے،[113] سخت جھوٹا ہے۔ کیا اِس نے اتنے خداؤں کو ایک خدا بنا دیا؟[114] یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ اِن کے سردار اٹھ کھڑے ہوئے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر جمے رہو۔ بے شک، یہی چیز مطلوب ہے[115]۔ ہم نے یہ بات اِس آخری ملت میں تو کبھی سنی نہیں[116]۔ کچھ نہیں، یہ (اِس کی) گھڑی ہوئی ہے۔ کیا یہ یاددہانی ہم میں سے اِسی پر نازل کی گئی ہے[117]نہیں، یہ باتیں کچھ نہیں، بلکہ یہ میری یاددہانی کی طرف سے شک میں ہیں۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اِنھوں نے اب تک میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا ہے[118] ۔ ۴- ۸
اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآئِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيْزِ الْوَهَّابِ ٩اَمْ لَهُمْ مُّلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَلْيَرْتَقُوْا فِي الْاَسْبَابِ ١٠ جُنْدٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُوْمٌ مِّنَ الْاَحْزَابِ ١١
(اپنے سوا یہ کسی کو ہماری عنایتوں کا حق دار نہیں سمجھتے)۔ کیا تیرے پروردگار، عزیز و وہاب[119] کی رحمت کے خزانے اِنھی کی تحویل میں ہیں؟ یا زمین اور آسمانوں اور اُن کے درمیان کی سب چیزوں کی بادشاہی اِنھی کے اختیار میں ہے؟(یہی بات ہے) تو آسمانوں میں چڑھ جائیں[120] (اور اُس کی رحمت کو روک دیں)۔ لشکروں میں سے کوئی بڑے سے بڑا لشکر [121] بھی، (خدا کے مقابل میں اٹھے گا تو) وہیں شکست کھا کر رہے گا۔ ۹- ۱۱
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ ١٢ وَثَمُوْدُ وَقَوْمُ لُوْطٍ وَّاَصْحٰبُ لْـَٔيْكَةِ اُولٰٓئِكَ الْاَحْزَابُ ١٣ اِنْ كُلٌّ اِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ ١٤ وَمَا يَنْظُرُ هٰ٘ؤُلَآءِ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً مَّا لَهَا مِنْ فَوَاقٍ ١٥ وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ ١٦
اِن سے پہلے نوح کی قوم اور عاد اور میخوں والا[122] فرعون اور ثمود اور قوم لوط اور ایکہ والے[123] بھی جھٹلا چکے ہیں۔ یہ گروہ تھے جنھوں نے اِسی طرح شکست کھائی۔[124] اِن میں سے ہر ایک نے میرے رسولوں کوجھٹلایا تو میرا عذاب اُن پر نازل ہو کے رہا۔ یہ بھی ایک ڈانٹ ہی کے منتظر ہیں جس کے بعد کوئی ڈھیل نہیں ہے۔[125] یہ تو کہہ چکے کہ ہمارے پروردگار، ہمارا حساب تو روز حساب سے پہلے ہی ہم کو چکا دے۔[126]۱۲- ۱۶
[108]۔ اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔
[109]۔ قرآن فی الواقع سر تا سر یاددہانی ہے۔ یہ انسان کو وہ حقائق یاد دلاتا ہے جو اُس کی فطرت میں ودیعت ہیں اور جن کا علم وہ اپنے ساتھ لے کر دنیا میں آیا ہے؛ اُن حقائق پر متنبہ کرتا ہے جن کی منادی انبیا علیہم السلام کرتے رہے ہیں اور انسان اُنھیں بھلا بیٹھتا ہے؛ دنیا میں خدا کی دینونت کے ظہور کے واقعات یاددلاتا ہے اور سب سے بڑھ کر اُس روز حساب کی یاددہانی کرتا ہے جس سے مرنے کے بعد سابقہ پیش آنے والا ہے۔
[110]۔ قرآن کی گواہی یہاں قسم کے اسلوب میں پیش کی گئی ہے ۔ چنانچہ یہ مقسم علیہ ہے جو الفاظ میں مذکور نہیں ہے، اِس لیے کہ ذکر کے بغیر ہی واضح ہے۔
[111]۔ یعنی قریش مکہ جو سورہ کے مخاطبین ہیں۔
[112]۔ یعنی اِنھی جیسا ایک انسان ہے اور اِنھیں خدا کی طرف سے خبردار کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اِس کے لیے تو خدا اگر بھیجتا تو کسی مافوق بشر ہستی کو بھیجتا۔ہمارے جیسا ایک انسان اِس کام کے لیے کس طرح بھیجا جاسکتا ہے؟
[113]۔ یعنی ہرگز کوئی پیغمبر نہیں ہے، بلکہ کلام کا جادوگر ہے اور اپنی جادوبیانی سے لوگوں کو مسحور کردیتا ہے۔
[114]۔ یہ بات وہ آپ کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کے لیے کہتے تھے کہ دیکھو یہ شخص اُن ہستیوں کی الوہیت کا انکار کر رہا ہے جن سے تم عقیدت رکھتے اور اُنھیں اپنا معبود سمجھتے ہو۔
[115]۔ یعنی اِس کی تمام کوششوں کے علی الرغم اپنے معبودوں پر جمے رہنا ہی مطلوب ہے۔ یہ اُس رویے کی تصویر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید سے لوگوں کو برگشتہ کرنے کے لیے قریش کے لیڈر بالعموم اختیار کرتے تھے۔ چنانچہ اگر کبھی دیکھتے کہ لوگ آپ سے متاثر ہو رہے ہیں تو اِسی طرح کی کوئی بات کہہ کر مجلس سے اٹھ کھڑے ہوتے۔
[116]۔ یعنی یہ بات کہ خدا ایک ہی ہے اور جسے یہ شخص ہمارے بزرگوں ـــــ ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام ـــــ کی طرف منسوب کرکے کہہ رہا ہے، ہم نے یہ اپنے قریب کے لوگوں میں تو کبھی نہیں سنی۔ اُنھوں نے یہ بات اگر فی الواقع کہی ہوتی تو اِس کی کچھ بازگشت اِس دور آخر کے لوگوں میں بھی باقی ہونی چاہیے تھی۔ یہ ، اگر غور کیجیے تو وہی استدلال ہے جو ہر زمانے کے لوگ اِسی طرح پیش کرتے رہے ہیں۔
[117]۔ یہ بات وہ اپنی ریاست و امارت کے غرور میں کہتے تھے کہ ہمارے بڑے بڑے سرداروں کو چھوڑ کر کیا یہی رہ گئے تھے کہ اِس منصب کے لیے منتخب کیے گئے ہیں؟ یہ اُسی پندار کا اظہار ہے جس کا ذکر سورہ کی ابتدا میں ’فِيْ عِزَّةٍ‘کے الفاظ سے ہوا ہے۔
[118]۔ مطلب یہ ہے کہ یہ تمام ضد اور غرور اور ہیکڑی صرف اِس لیے ہے کہ ابھی اِنھیں یقین نہیں ہوا کہ جس عذاب سے اِنھیں خبردار کیا جا رہا ہے، وہ فی الواقع آنے والا ہے۔ بلکہ اِس لیے بھی کہ اِنھیں مجرد استدلال سے کسی بات کا قائل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جب تک آنکھوں سے نہ دیکھ لیں، اُس وقت تک کسی چیز کو ماننے والے نہیں ہیں۔
[119]۔ یعنی وہ پروردگار جو اپنے تمام خزانوں کا تنہا مالک ہے، اُن میں جس طرح چاہے، تصرف کا اختیار رکھتا ہے اور نہایت فیاض بھی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...وہ اپنے اُن بندوں کو بھی بڑی فیاضی سے بخشتا ہے جو اِن کی نظروں میں اگرچہ کسی چیز کے اہل نہیں ہیں، لیکن خدا کی نظروں میں اُن کا بڑا مرتبہ ہے۔ چنانچہ اُس نے اگر اِن کو اِس زمین کے کچھ خزف ریزے دیے ہیں جن پر یہ اترا رہے ہیں تو اُس نے جس کو چاہا ہے، نبوت و رسالت اور علم و حکمت کی بادشاہی بخش دی ہے جس سے بڑے منصب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۵۱۵)
[120]۔ اصل الفاظ ہیں: ’فَلْيَرْتَقُوْا فِي الْاَسْبَابِ‘۔اِن میں ’اَسْبَاب‘ سے مراد ’اَسْبَابُ السَّمٰوٰتِ‘ ہے اور یہاں یہ لفظ اطراف و متعلقات کے معنی میں ہے۔
[121]۔ اصل میں ’جُنْدٌ مَّا‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’جُنْد‘ کی تنکیر تفخیم شان کے لیے ہے اور ’مَا‘ اِسی تفخیم کی تاکید کے لیے آیا ہے۔
[122]۔ یعنی کثیر لشکروں والے۔ استاذامام لکھتے ہیں:
’’...عربی میں میخوں سے خیموں کو تعبیر کرتے ہیں اور پھر خیموں سے بطریق کنایہ فوجیں مراد لیتے ہیں۔ یہ اُسی طرح کا کنایہ ہے، جس طرح ’قُدُوْرٌ رَّاسِيَاتٌ‘ سے کسی شخص کی فیاضی کو تعبیر کرتے ہیں۔ چنانچہ قرآن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی فیاضی کی تعبیر کے لیے یہ کنایہ آیا ہے۔ یہاں ’ذُو الْاَوْتَادِ‘ سے فرعون کی کثیر فوجوں کی طرف اشارہ ہے جو خیموں میں رہتی تھیں۔ فرعون کی فوجوں کی کثرت کا ذکر قرآن میں جگہ جگہ آیا ہے اور یہ تمام فوجیں اُس کے ساتھ عذاب الہٰی میں گرفتار ہو کر سمندر میں غرق ہوئیں۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۵۱۶)
[123]۔ مدین والوں کی طرف اشارہ ہے۔’اَيْكَة‘ عربی زبان میں جنگل کو کہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مدین کے پاس کوئی بہت بڑا جنگل تھا جس کی بنا پر یہ نام اُنھیں دیا گیا۔
[124]۔ اصل میں ’اُولٰٓئِكَ الْاَحْزَابُ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں خبر حذف کر دی ہے، اِس لیے کہ موقع کلام سے یہ خود واضح ہے اور بعد کا جملہ اِسے مزید واضح کر دیتا ہے۔
[125]۔ یعنی مزید مہلت کی گنجایش نہیں ہے۔
[126]۔ مطلب یہ ہے کہ جس روز حساب سے یہ ہمیں ڈراتا ہے، وہ پہلے ہی آجائے تاکہ فیصلہ ہو جائے کہ یہ شخص سچا ہے یا محض دھونس دے رہا ہے۔ اپنے اوپر وہ کسی عذاب کا اندیشہ نہیں رکھتے تھے، اِس لیے رعونت اور استکبار کی وجہ سے یہ بھی کہہ گزرتے تھے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ