روزہ کیا ہے؟ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اکل وشرب اور رفث سے رک جانا۔ صرف لذات ہی سے دوری اختیار نہیں کی، ضرورت پوری کرنا بھی ممنوع ٹھیرا لیا۔ یہ رکنا ایک عمل ہی نہیں، ایک کیفیت بھی ہے، جو کئی گھڑیاں طاری رہنی ہے۔ بھوک اور پیاس ستائے گی، لیکن ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھیں گے۔ خواہشیں سر اٹھائیں بھی تو انھیں دبا دیا جائے گا۔ رغبتوں کا رخ تبدیل ہو جائے گا۔ ذکر وفکر ، دعا و مناجات، رکوع وسجوداور خشوع و انابت کے لیے طبیعت میں شوق بڑھ جائے گا۔
صرف خدا کی خاطر یہ پابندیاں قبول کرنے کا نام روزہ ہے۔ اس کی اسی شان کو ایک روایت ’الصوم لي وأنا أجزي به‘، ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا‘‘ (بخاری، رقم ۷۴۹۲) کے الفاظ سے واضح کرتی ہے۔قرآن مجید نے کہا: ’لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ‘ (تاکہ تم تقویٰ کرو)، یعنی تم خدا کی خاطر رکنا سیکھ لو۔ رمضان کا حوالہ آیا تو ارشاد ہوا: ’لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا هَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ‘[*](تاکہ تم اس کے ہدایت دینے پر اللہ کی کبریائی کرو اور اس لیے کہ اس کا شکر کرو)، یعنی اس کی کبریائی کے ادراک و اعتراف اور اس کی اس عنایت پر اس کے سپاس شناس بنو۔ قرآن مجید نے بعض گناہوں کے کفارے میں روزوں کی معین مقدار عائد کی ہے۔ کہیں کفارے میں روزہ قربانی یا خیرات کے متبادل کے طور پر بیان ہوا ہے، اور کہیں مسلسل روزے رکھنے کو کفارہ بنایا گیا ہے۔ اس سے روزے کے حوالے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ یہ گناہوں کی پاداش سے بچانے کا ذریعہ بھی ہے اور جس طرح صدقات گناہ کی نجاست کو دھو دیتے ہیں، اسی طرح روزہ بھی باطن کی صفائی کا ذریعہ بنتا ہے۔
تمام مذاہب میں روزہ جیسی عبادت موجود ہے۔اس عبادت کامحرک کیا ہے؟
روزہ رکھنے والا ترک لذات ، ترک دنیا، اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنا اور عزلت گزینی کے عمل سے گزرتا ہے۔ مذاہب کا مطالعہ کریں تو اس کی سخت ترین، معتدل اور آسان تمام صورتیں مل جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نفس انسانی اپنے الٰہ کی خاطر نفس کشی کا رجحان رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الہامی مذاہب میں بھی یہ عبادت موجود ہے اور انسان ساختہ مذاہب میں بھی، لیکن انسانی مذاہب اس معاملے میں افراط و تفریط کا شکار نظر آتے ہیں ، جب کہ اس کی معتدل اور باوقار صورت روزہ ہے۔ روزے کی عبادت کا حسن یہ ہے کہ اس میں نفس کشی کے آزار کے بجاےکچھ چیزوں سے کنارہ کشی کو تربیت نفس کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ اگرچہ اکل وشرب سے کنارہ کشی میں مشقت بھی ہے، لیکن اس کے ساتھ افطار و سحر کے شامل ہوجانے سے اس پر تربیت نفس کا رنگ غالب ہو گیا ہے۔
جب کوئی بندۂ مومن اللہ کی رضا کے لیے کچھ گھنٹوں کے لیے کھانےپینے سے رک جاتا ہے تو اس کے حال میں ایک تبدیلی آتی ہے، وہ تبدیلی یہ ہے کہ وہ کسی کے حکم کے تحت ہے اور یہ تحت ہونا ایک تجربے کی صورت میں ہے۔ اسی سے نفس میں اطاعت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ وہ بھی اس اخلاص کے ساتھ کہ یہ پابندی اللہ کی رضا کے لیے ہےاور میں صرف اسی کے حکم کا پابند ہوں۔
دین داری کی اصل حقیقت یہی ہے۔ ’’ہم اس کے ہیں اور ہم نے اسی کی طرف پلٹنا ہے‘‘، یہ دونوں ادراک رمضان کے مہینے میں میرا باطن اور ظاہر بن جائیں، یا کم از کم میرا اس رخ پر سفر شروع ہو جائے تو یہی رمضان کا حاصل ہے۔
اللہ کی رضا اور اس کے حکم پر بھوکا پیاسا رہنا مجھے بندگی اور اطاعت کے ایک خاص مقام پر فائز کرتا ہے، گویا میں پورے کا پورا امتثال امر کا نمونہ بنا ہوا ہوں۔ یہیں سے میرے اندر یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ میں اپنے رب کی مرضیات کی آ گاہی حاصل کروں اور ان کے مطابق جینے والا بن جاؤں۔ رمضان اور ہدایت ربانی کی یہ مناسبت ہے۔ اسی مناسبت کے سبب نزول قرآن کے مہینے کو روزوں کا مہینا بنا دیا گیا۔ چنانچہ رمضان میں قرآن کی طرف رغبت اسی اصول پر ہونی چاہیے۔ آدمی اللہ کی ہدایت کا فہم حاصل کرنے کے لیے قرآن کو پڑھے اور اس کی کوشش کرے۔ یہ فہم اس کے شعور میں اترے اور اس کو بندگی کے جادہ پر گامزن کر دے۔
رمضان میرے لیے تقویٰ کی تربیت گاہ بن جائے،
اللہ کی کبریائی میرا شعور اور ادراک بن جائے،
اور اللہ کی عنایات پر شکر گزاری میرے دل کو لب ریز کردے اور میرے عمل سے بھی نمایاں ہو۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[*] البقرہ ۲: ۱۸۳۔